تاریخ اسلام کا انسائیکلوپیڈیا مرتب کرنے والے امام ذہبی رحمتہ اللہ علیہ
اشاعت کی تاریخ: 6th, March 2025 GMT
دمشق کی مٹی تاریخ ساز علما و فقہا ء سے لبریز رہی ہے جہاں امام ابوحنیفہ جیسے نابغہ روزگارامام پلے بڑھے تو امام تیمیہ رحمہ اللہ جیسے فقیہ اور محدث نے جنم لیا جو مفکر اور فلسفی کی حیثیت سے مشہور و معروف ہوئے۔
اسی دمشق ہی کی زرخیز مٹی میں673 ہجری میں شمس الدین ابو عبداللہ محمد بن احمد بن عثمان الذہبی نے ایک خانوادہ علم کے قبیلہ ’’ذہب‘‘ میں جنم لیا۔ چنانچہ اسی نسبت سے الذہبی کے نام سے شہرت پائی اور وقت کے امام بنے۔ امام ذہبی نے تعلیم کی ابتدا دمشق ہی سے کی۔ قرآن کریم کے حفظ کے بعد علوم دینیہ کا ذوق وشوق دل و دماغ میں چرایا اور پھر حدیث، فقہ و تاریخ اسلام کے حصول تک ہی محدود نہیں رہے جرح و تعدیل کے علوم میں بھی مہارت کو پہنچے اور اپنے عہد کے نامور اساتذہ امام ابن دقیق العید، حضرت برہان الدین ابراہیم بنجماعہ اور امام المزی جیسے عزیز المرتبت علماء سے کسب فیض حاصل کیا۔
امام ذہبیؒ کا شمار جید علمائے حدیث میں ہوتا ہے۔ آپ نے حضرات محدثین کے حالات واقعات پر تفصیلی تذکرے تحریر فرمائے۔ اسناد حدیث میں راویوں کی ثقاہت اور ضعف کو پرکھنے سے متعلق کام میں شہرت حاصل کی اور اس فن میں غیر معمولی خدمات کا پیش خیمہ بنے۔ امام ذہبی کا شمار تاریخ اسلام کے عظیم مورخین میں ہوتا ہے اور ’’تاریخ الاسلام والفیات المشاہیر والاعام‘‘ ان کی ایسی تصنیف ہے۔ جس میں انہوں نے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے اپنے عہد تک کے اہم حالات و واقعات بیان کے ہیں۔ ان کی یہ تصنیف رجال اور اسما الرجال کے موضوع کے حوالے سے بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے۔
واضح رہے کہ اس کتاب کے حسن تریب میں مصنف نے سال درسال واقعات کا لحاظ رکھا ہے اور ہر دور کے خلفاء، سلاطین، مفسرین، فقہاء اور محدثین کی تہذیب و تزئین کا دھیان رکھا ہے۔ یہ فقط مذہبی حوالہ جات پر ہی مشتمل نہیں بلکہ اس میں تاریخ اسلام کے سماجی پہلوئوں پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ جہاں علما ء و فقہا کے حالات ہیں وہیں صوفیا کے کردار کو بھی موضوع بنایا گیا ہے اور انہوں نے اپنے دور کی دیگر اہم شخصیات کا ذکر بھی ضروری سمجھا ہے۔ اور اس میں محدثین کے سوانحی خاکوں کے ساتھ عالم اسلام کے مختلف خطوں میں برپا ہونے والے واقعات کے ساتھ ان علاقوں کی علمی ترقی کا حال بھی بیان کیا ہے۔ غرض پچاس جلدوں پر مشتمل اس تاریخ میں انہوں نے کیا کچھ نہیں سمویا۔
نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ، عہد نبویﷺ کے اہم واقعات، خلفائے راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ادوار کی تفصیل رقم کی ہے، بنو امیہ کے دور پر بھر پور رائے زنی کرنے کے ساتھ ساتھ بنو عباس کے تمام ادوارپر بے لاگ لکھا، جہاں تنقید کی ضرورت پڑی گریز نہیں کیا، جہاں تائید و توصیف کرنا ہوا وہاں بخل سے کام نہیں لیا۔ اسلامی فتوحات اوراس دور کے تلخ و شیریں حقائق پر سے پردہ ہٹایا ہے۔ خلافت کے ایوانوں میں پلنے والی سازشوں، آپس کی شکر رنجیوں اور اندرونی و بیرونی مناقشات کا تفصیلی ذکرکیا ہے۔ امام ذہبی کا سب سے بڑا وصف یہ کہ انہوں نے تاریخ کے کسی بھی واقعے کو تعصب کی عینک سے نہیں دیکھا اور اپنے ذاتی تعصبات کا بھی کہیں شابہ نہیں دکھایا۔ جو بات کی، جو واقعات بنے ان میں مستند حوالہ جات سے بات کی، کسی کے لیے دل آزاری کا سامان پیدا نہیں کیا، بنو عباس کے کمزور اور توانا امور پر بلا رورعایت بات کی۔ اسی طرح محدثین کی توثیق و تضعیف میں واضح موقف اپنایا۔
تاریخ اسلام پر کیا ہوا امام ذہبی کاکام اس دور کی معاشرت سے لے کر ثقافتی اقدارو روایات تک کاذکراپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اور یہی بات ان کی تاریخی حیثیت کو چار چاند لگاتی ہے۔ اسی لیے علمائے تاریخ نے ان کی اس تصنیف کو تاریخ کا ایک جامع انسائیکلوپیڈیا قرار دیا ہے۔ ان کے طرز تحریر میں بھی شاستگی اور شگفتگی کا میلان زیادہ ہے۔ اپنی تحقیق میں کہیں بھی جھول نہیں دکھایا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے بعد کے مورخین نے تاریخ پر قلم اٹھاتے وقت ان کی بیان کردہ تاریخ سے خوب استفادہ کیا۔
امام ذہبی کی تاریخ کی کتب پڑھے بغیر ان کے بعد آنے والے تاریخ کے اساتذہ اور طلباء ایک قدم بھی آگے نہ بڑھاسکے۔ آپ کی ایک اور نادر کتاب’’ تذکر الحفاظ‘‘ ہے۔ جو چار جلدوں پر محیط ہے۔ جس میں امام نے حدیث کے عظیم حفاظا اوران محدثین کا ذکرکیا ہے جنہوں نے ابتدا ئے اسلام سے اپنے زمانے کے محدیث کی احادیث کی تدوین کا سامان و اہتمام کیا۔ اس کتاب کو بھی انہوں نے زمانی و مکانی اعتبار سے مرتب کیا۔ اسی طرح ’’محتویات‘‘ میں بھی انہوں نے گیارہ سو سے زیادہ حفاظ حدیث کے حالات زندگی، اور حدیث میں ان کے علمی مقام کا احاطہ کیا ہے۔ امام نے بعض حفاظ پر نقد و تنقید کا بھی اظہار کیا ہے۔
امام ذہبی کا تعلق فقہ شافعی سے تھا تاہم وہ تقلید سے زیادہ اجتہاد پر زیادہ توجہ رکھتے تھے.
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: امام ذہبی کا تاریخ اسلام انہوں نے اسلام کے کے ساتھ ہے اور کیا ہے
پڑھیں:
تجدید وتجدّْ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-03-9
4
مفتی منیب الرحمن
اس کائنات میں ایک اللہ تعالیٰ کا تشریعی نظام ہے‘ جس کے ہم جوابدہ ہیں اور اْس پر اْخروی جزا وسزا کا مدار ہے اور دوسرا تکوینی نظام ہے‘ جس میں بندے کا کوئی عمل دخل نہیں ہے‘ یہ سراسر اللہ تعالیٰ کی مشِیئت کے تابع ہے اور اس پر جزا وسزا کا مدار نہیں ہے۔ تکوینی نظام سبب اور مسبَّب اور علّت ومعلول کے سلسلے میں مربوط ہے۔ ’’سبب‘‘ سے مراد وہ شے ہے جو کسی چیز کے وجود میں آنے کا باعث بنے اور اْس کے نتیجے میں جو چیز وجود میں آئے‘ اْسے ’’مْسَبَّب‘‘ کہتے ہیں‘ اسی کو علّت ومعلول بھی کہتے ہیں لیکن منطق وفلسفہ میں دونوں میں معنوی اعتبار سے تھوڑا سا فرق ہے۔ اسی بنا پر اس کائنات کے نظم کو عالَم ِ اسباب اور قانونِ فطرت سے تعبیر کرتے ہیں۔
معجزے سے مراد مدعی ِ نبوت کے ہاتھ پر یا اْس کی ذات سے ایسے مافوقَ الاسباب امور کا صادر ہونا جس کا مقابلہ کرنے سے انسان عاجز آ جائیں۔ نبی اپنی نبوت کی دلیل کے طور پر بھی معجزہ پیش کرتا ہے۔ مادّی اسباب کی عینک سے کائنات کو دیکھنے والے کہتے ہیں: قانونِ فطرت اٹل ہے‘ ناقابل ِ تغیّْر ہے‘ لہٰذا قانونِ فطرت کے خلاف کوئی بات کی جائے گی تو اْسے تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ چنانچہ منکرین ِ معجزات نے مِن جملہ دیگر معجزات کے نبیؐ کے معراجِ جسمانی کا بھی انکار کیا اور کہا: ’’رسول اللہؐ کا جسمانی طور پر رات کو بیت المقدس جانا اور وہاں سے ایک سیڑھی کے ذریعے آسمانوں پر جانا قانونِ فطرت کے خلاف اور عقلاً مْحال ہے۔ اگر معراج النبی کی بابت احادیث کے راویوں کو ثِقہ بھی مان لیا جائے تو یہی کہا جائے گا کہ اْنہیں سمجھنے میں غلطی ہوئی۔ یہ کہہ دینا کہ اللہ اس پر قادر ہے‘ یہ جاہلوں اور ’’مرفوع القلم‘‘ لوگوں کا کام ہے‘ یعنی ایسے لوگ مجنون کے حکم میں ہیں‘ کوئی عقل مند شخص ایسی بات نہیں کر سکتا۔ قانونِ فطرت کے مقابل کوئی دلیل قابل ِ قبول نہیں ہے۔ ایسی تمام دلیلوں کو اْنہوں نے راوی کے سَہو وخطا‘ دور اَز کار تاویلات‘ فرضی اور رکیک دلائل سے تعبیر کیا‘‘۔ (تفسیر القرآن) یہ سرسیّد احمد خاں کی طویل عبارت کا خلاصہ ہے۔ الغرض وہ معجزات پر ایمان رکھنے والوں کو جاہل اور دیوانے قرار دیتے ہیں‘ ہمیں وحی ِ ربانی کے مقابل عقلی اْپَج کی فرزانگی کے بجائے دیوانگی کا طَعن قبول ہے‘ کیونکہ قدرتِ باری تعالیٰ کی جلالت پر ایمان لانے ہی میں مومن کی سعادت ہے اور یہی محبت ِ رسولؐ کا تقاضا ہے۔ ان کی فکر کا لازمی نتیجہ یہ ہے: اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق اور مختارِ کْل نہیں ہے‘ بلکہ العیاذ باللہ! وہ اپنے بنائے ہوئے قوانین ِ فطرت کا پابند ہے۔
ہم کہتے ہیں: بلاشبہ اسباب موثر ہیں‘ لیکن اْن کی تاثیر مشیئتِ باری تعالیٰ کے تابع ہے‘ لیکن یہ اسباب یا قانونِ فطرت خالق پر حاکم ہیں اور نہ وہ اپنی قدرت کے ظہور کے لیے ان اسباب کا محتاج ہے۔ وہ جب چاہے ان کے تانے بانے توڑ دے‘ معطَّل کر دے اور اپنی قدرت سے ماورائے اَسباب چیزوں کا ظہور فرمائے‘ مثلاً: عالَم ِ اسباب یا باری تعالیٰ کی سنّت ِ عامّہ کے تحت انسانوں میں مرد و زَن اور جانوروں میں مادہ ونَر کے تعلق سے بچہ پیدا ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت ان اسباب کی محتاج نہیں ہے‘ چنانچہ اْس نے سیدنا عیسیٰؑ کو بِن باپ کے‘ سیدہ حوا کو کسی عورت کے واسطے کے بغیر اور سیدنا آدمؑ کو ماں باپ دونوں واسطوں کے بغیر پیدا کر کے یہ بتا دیا کہ اْس کی قدرت ان اسباب کی محتاج نہیں ہے۔ لیکن غلام احمد پرویز اور مرزا غلام قادیانی وغیرہ سیدنا عیسیٰؑ کے بن باپ کے پیدا ہونے کو تسلیم نہیں کرتے‘ جبکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’بیشک (بن باپ کے پیدا ہونے میں) عیسیٰؑ کی مثال آدم کی سی ہے‘ اللہ نے انہیں مٹی سے پیدا فرمایا‘ پھر اْس سے فرمایا: ہو جا‘ سو وہ ہوگیا‘‘۔ (آل عمران: 59) الغرض یہود کی طرح انہیں عفت مآب سیدہ مریمؑ پر تہمت لگانا تو منظور ہے‘ لیکن معجزات پر ایمان لانا قبول نہیں ہے۔
قرآنِ کریم کی واضح تعلیم ہے کہ کسی کو دین ِ اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’دین (قبول کرنے) میں کوئی زبردستی نہیں ہے‘‘۔ (البقرہ: 256) مگر جو دائرۂ اسلام میں داخل ہوگیا ہو اْسے مسلمان رہنے کا پابند کیا جائے گا‘ اسی لیے اسلام میں اِرتداد موجب ِ سزا ہے‘ جبکہ موجودہ متجددین کے نزدیک ارتداد اور ترکِ اسلام کوئی جرم نہیں ہے۔ جمہورِ امت کے نزدیک کتابیہ عورت سے مسلمان مرد کا نکاح جائز ہے‘ لیکن مسلمان عورت کا کتابی مرد سے نکاح جائز نہیں ہے‘ مگر متجددین ائمۂ دین کے اجماعی موقف سے انحراف کرتے ہوئے اس نکاح کے جواز کے قائل ہیں۔
اگر آپ اس تجدّْدی فکر کی روح کو سمجھنا چاہیں تو وہ یہ ہے کہ جمہور امت وحی ِ ربانی کو حتمی‘ قطعی اور دائمی دلیل سمجھتے ہیں‘ جبکہ یہ حضرات اپنی عقلی اْپَج کو وحی کے مقابل لاکھڑا کرتے ہیں اور عقلی نتیجہ ٔ فکر کے مقابل انہیں وحی کو ردّ کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔ وحی بتاتی ہے کہ عاقل مومن کو وحی اور خالق کی مرضی کے تابع رہ کر چلنا ہے‘ جبکہ تجدّْد کے حامی کہتے ہیں: ’’میرا جسم میری مرضی‘‘۔ بعض متجدِّدین حدیث کو تاریخ کا درجہ دیتے ہیں‘ جو رَطب ویابس کا مجموعہ ہوتی ہے‘ اْن کے نزدیک حدیث سے کوئی عقیدہ ثابت نہیں ہوتا‘ ماضی میں ایسے نظریات کے حامل اپنے آپ کو اہل ِ قرآن کہلاتے تھے۔ اگر حدیث سے مطلب کی کوئی بات ثابت ہوتی ہو تو اپنی تائید میں لے لیتے ہیں اور اگر اْن کی عقلی اْپج کے خلاف ہو تو انہیں حدیث کو ردّ کرنے میں کوئی باک نہیں ہوتا۔ جبکہ احادیث ِ مبارکہ کی چھان بین اور صحت کو طے کرنے کے لیے باقاعدہ علوم اصولِ حدیث و اسمائْ الرِّجال وضع کیے گئے ہیں‘ جبکہ تاریخ کی چھان پھٹک اس طرح نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور ہم نے آپ کی طرف ذِکر (قرآنِ کریم) اس لیے نازل کیا ہے کہ آپ لوگوں کو وہ احکام وضاحت کے ساتھ بتائیں جو اْن کی طرف اُتارے گئے ہیں اور تاکہ وہ غور وفکر کریں‘‘۔ (النحل: 44) الغرض قرآنِ کریم کی تبیِین کی ضرورت تھی اور اْس کے مْبَیِّن (وضاحت سے بیان کرنے والے) رسول اللہؐ ہیں۔ اگر شریعت کو جاننے کے لیے قرآن کافی ہوتا تو مزید وضاحت کی ضرورت نہ رہتی‘ اسی لیے قرآنِ کریم نے ایک سے زائد مقامات پر فرائضِ نبوت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’اور وہ انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ہیں‘‘۔ اکثر مفسرین کے نزدیک حکمت سے مراد سنّت ہے۔
ایک صحابیہ اْمِّ یعقوب تک حدیث پہنچی‘ جس میں سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت کے مطابق رسول اللہؐ نے بعض کاموں پر لعنت فرمائی ہے۔ وہ عبداللہ بن مسعودؓ کے پاس آئیں اور کہنے لگیں: ’’میں نے دو جلدوں کے درمیان پورا قرآن پڑھا ہے‘ مجھے تو اس میں یہ باتیں نہیں ملیں‘‘۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: ’’اگر تْو نے توجہ سے قرآن پڑھا ہوتا تو تمہیں یہ باتیں مل جاتیں‘ کیا تم نے قرآن میں یہ آیت نہیں پڑھی: ’’اور جو کچھ تمہیں رسول دیں‘ اْسے لے لو اور جس سے وہ روکیں‘ اْس سے رک جائو‘‘۔ (الحشر: 7) اْمِّ یعقوب نے کہا: ’’کیوں نہیں! میں نے یہ آیت پڑھی ہے‘‘ تو ابن مسعودؐ نے فرمایا: رسول اللہؐ نے ان باتوں سے منع فرمایا ہے۔ اْس نے کہا: ’’میں نے دیکھا ہے کہ آپ کی اہلیہ یہ کام کرتی ہیں‘‘۔ عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: ’’جائو دیکھو‘‘۔ وہ گئی اور دیکھا کہ وہ ایسا کوئی کام نہیں کرتیں‘ عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا: ’’اگر میری اہلیہ ایسے کام کرتیں تو میں اْن سے تعلق نہ رکھتا۔ (بخاری)۔
(جاری)