سویلینز کا ٹرائل؛ آرمی ایکٹ کی شقوں کو اب کالعدم قرار نہیں دیا جا سکتا، سپریم کورٹ بار کا مؤقف
اشاعت کی تاریخ: 6th, March 2025 GMT
اسلام آباد:
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے سویلینز کے ملٹری ٹرائل کے حوالے سے مؤقف عدالت میں جمع کرا دیا گیا۔
فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے حوالے سے سپریم کورٹ بار نے اپنا تحریری جواب مکمل مؤقف کے ساتھ جمع کرا دیا، جس میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ بار کا 5 مارچ کو اجلاس ہوا، جس میں جائزہ لیا گیا کہ بار کا فوجی عدالتوں پر مؤقف کیا ہونا چاہیے۔
سپریم کورٹ بار کے مؤقف کے مطابق اصولی طور پر عام شہریوں کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہونا چاہیے۔ آرمی ایکٹ کی شقیں عدالتی تشریحات میں آئینی قرار پا چکیں۔ آرمی ایکٹ کی شقوں کو اب کالعدم نہیں قرار دیاجا سکتا۔
جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ بار نے ہمیشہ آئینی اقدار کے لیے جدوجہد کی ہے۔ بار کا ماننا ہے کہ سکیورٹی، امن اور لااینڈآرڈر بھی بنیادی آئینی اقدار ہیں۔ دہشتگردی میں شدت آئی ہے، پاکستان کے شہری امن اور ہم آہنگی کے مستحق ہیں۔ تمام آئینی و قانونی اقدامات دہشتگردی کے خاتمے کے لیے ہونے چاہییں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سپریم کورٹ بار بار کا
پڑھیں:
خواتین کے بانجھ پن اور نان نفقہ سے متعلق سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ جاری
اسلام آباد:سپریم کورٹ نے خواتین کے بانجھ پن اور نان نفقہ سے متعلق کیس میں اہم فیصلہ جاری کردیا۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی نے تحریری فیصلہ جاری کردیا، جس میں عدالت نے خواتین کے بانجھ پن پر مہر یا نان نفقہ سے انکار کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ عدالت نے نان نفقہ کیخلاف درخواست مسترد کر دی۔
عدالت میں مقدمے میں شوہر کے رویے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے درخواست گزار صالح محمد پر 5 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کر دیا۔ واضح رہے کہ مقدمے میں شوہر نے بیوی پر بانجھ پن اور عورت نہ ہونے کا الزام لگایا تھا ۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ بانجھ پن حق مہر یا نان نفقہ روکنے کی وجہ نہیں۔ خواتین پر ذاتی حملے عدالت میں برداشت نہیں ہوں گے۔ شوہر نے بیوی کو والدین کے گھر چھوڑ کر دوسری شادی کر لی۔ پہلی بیوی کے حق مہر اور نان نفقہ سے انکار کیا گیا۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ عورت کی عزت نفس ہر حال میں محفوظ ہونی چاہیے۔ خواتین کی تضحیک معاشرتی تعصب کو فروغ دیتی ہے۔ مقدمے میں بیوی کی میڈیکل رپورٹس نے شوہر کے تمام الزامات رد کیے ہیں۔ خواتین کے حقوق کا تحفظ عدلیہ کی ذمہ داری ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں مزید کہا گیا کہ اس کیس میں 10 سال تک خاتون کو اذیت اور تضحیک کا نشانہ بنایا گیا۔ جھوٹے الزامات اور وقت ضائع کرنے پر جرمانہ عائد کیا گیا۔ عدالت نے مقدمے میں ماتحت عدالتوں کے فیصلے برقرار رکھے۔