خیبرپختونخوا؛ صوبائی حکومت بریج ڈیزائن کوڈ متعارف کروا دیا
اشاعت کی تاریخ: 7th, March 2025 GMT
پشاور:
حکومت خیبرپختونخوا نے کہا ہے کہ صوبے میں پلوں کی تعمیر، مرمت، ڈیزائن اور دیگر امور کے لیے ملکی تاریخ مین پہلی مرتبہ بریج کوڈ متعارف کروا دیا گیا ہے۔
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواکے پریس سیکرٹری کے دفتر سے جاری بیان میں دعویٰ کیا گیا کہ ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ حکومت خیبر پختونخوا نے بریج ڈیزائن کوڈ متعارف کرا دیا
بیان میں کہا گیا کہ خیبر پختونخوا بریج ڈیزائن کوڈ متعارف کروانے والا ملک کا پہلا صوبہ بن گیا، محکمہ مواصلات اور تعمیرات کے تیار کردہ بریج ڈیزائن کوڈ وزیر اعلیٰ کو پیش کردیا گیا۔
صوبائی حکومت نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے صوبے بھر میں پلوں کی تعمیر کے لیے مجوزہ بریج کوڈ متعارف کرانے کی منظوری دے دی ہے، مذکورہ کوڈ کے تحت پلوں کی تعمیر، مرمت، ڈیزائن اور دیگر امور سے متعلق کم سے کم معیارات متعین کیے گئے ہیں۔
وزیرعلیٰ کو بریفنگ میں بتایا گیا کہ یہ کوڈ پلوں کی تعمیر کے مسلمہ بین الاقوامی معیارات اور اصولوں کے عین مطابق تیار کیا گیا ہے، یہ کوڈ صوبے کے مخصوص موسمیاتی اور ارضیاتی حالات کو مد نظر رکھ کر تیار کیا گیا ہے۔
بریفنگ میں آگاہ کیا گیا کہ یہ کوڈ متعلقہ سرکاری حکام اور متعلقہ شعبے کے ماہرین پر مشتمل کور ورکنگ گروپ نے تیار کیا ہے، کوڈ امریکن ایسوسی ایشن آف اسٹیٹ ہائی ویز اینڈ ٹرانسپورٹیشن آفیشل سے لائسنس یافتہ ہے۔
اجلاس میں بتایا گیا کہ صوبے میں آئندہ تعمیر ہونے والے ہر طرح کے پلوں کے لیے ان معیارات پر عمل درآمد لازمی ہوگا، اس کوڈ کو قانونی حیثیت دینے کے لیے باقاعدہ قانون سازی بھی کی جائے گی۔
مزید کہا گیا کہ پاکستان میں بریج ڈیزائن کوڈ نہ ہونے کی وجہ سے پل ٹوٹنے اور گرنے کے واقعات عام ہیں، 2022 کے سیلاب کے دوران صرف خیبر پختونخوا میں 107 پل ٹوٹ گئے تھے۔
وزیراعلیٰ کو آگاہ کیا گیا کہ 2010 کے سیلاب کے دوران صوبے میں 150 پلوں کو نقصان پہنچا تھا۔
وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے کہا کہ ملک میں بریج ڈیزائن کوڈ متعارف کرنے کی ضرورت بہت پہلے سے محسوس کی جا رہی تھی، بریج ڈیزائن کوڈ کا نفاذ وقت کی اہم ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ کوڈ متعارف کروانے کا مقصد پل گرنے کے حادثات میں انسانی جانوں اور عوامی وسائل کے ضیاع کو روکنا ہے، اس کوڈ پر عمل درآمد کے ذریعے قدرتی آفات اور حادثات کے اثرات سے پلوں کو محفوظ بنایا جائے گا۔
علی امین گنڈاپور نے کہا کہ ملک میں پل ٹوٹنے اور گرنے کے واقعات میں کئی قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ہوا ہے، پلوں کے ٹوٹنے سے سرکاری خزانے کو بھی بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
وزیراعلیٰ کے پی کا کہنا تھا کہ بریج ڈیزائن کوڈ متعارف کروانے کے بعد خیبر پختونخوا میں ہائی ویز کوڈ بھی متعارف کروائے جائیں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: خیبر پختونخوا کیا گیا کے لیے گیا کہ نے کہا
پڑھیں:
پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت اور قابض میئر اہل کراچی کیلئے عذاب بنے ہوئے ہیں، حافظ نعیم الرحمن
افتتاحی تقریب سے خطاب میں امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ میں چالان پر کوئی اعتراض نہیں، قانون کی خلاف ورزی پر چالان ہوں لیکن پہلے ٹریفک کا معقول نظام ہونا چاہیئے، شہر کا انفرا اسٹرکچر صحیح ہونا چاہیئے، سستی اور معیاری ٹرانسپورٹ فراہم کی جائے، شہر کواس وقت پندرہ ہزار بسوں کی ضرورت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت اور قابض میئر اہل کراچی کے لیے عذاب بنے ہوئے ہیں، پیپلز پارٹی 17 سال سے حکومت کر رہی ہے، بلدیاتی اداروں، اختیارات و وسائل پر قابض ہے لیکن عوام کو ان کا حق دینے اور مسائل حل کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، جماعت اسلامی بااختیار شہری حکومت کا نظام چاہتی ہے، لاڑکانہ ہو، شکارپور یا حیدرآباد اور کراچی، بلدیاتی اداروں کو با اختیار بنایا جائے، 17 سال میں کراچی کے لیے صرف 400 بسوں سے ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل نہیں ہوگا، ای چالان کا مسئلہ اگر بات چیت سے حل نہ ہوا تو مجبوراً احتجاج کا راستہ اختیار کرنا پڑے گا، صحت ہماری بنیادی ضرورت ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گلبرگ ٹاؤن کے تحت فیڈرل بی ایریا بلاک 18 ثمن آباد ہیلتھ کیئر یونٹ کے افتتاح کے موقع پر منعقدہ تقریب اور بلاک 8 عزیز آباد میں شاہراہ نعمت اللہ خان کا سنگِ بنیاد رکھنے کے بعد علاقہ مکینوں سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
 
 حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ ہمیں چالان پر کوئی اعتراض نہیں، قانون کی خلاف ورزی پر چالان ہوں لیکن پہلے ٹریفک کا معقول نظام ہونا چاہیئے، شہر کا انفرا اسٹرکچر صحیح ہونا چاہیئے، سستی اور معیاری ٹرانسپورٹ فراہم کی جائے، شہر کواس وقت پندرہ ہزار بسوں کی ضرورت ہے، سندھ حکومت 17 سال میں صرف 400 بسیں لاسکی ان میں سے بھی معلوم نہیں کتنی چل رہی ہیں، سڑکیں ٹوٹی ہیں،گٹر بہہ رہے ہیں، پنجاب میں جو چالان 200 روپے کا ہے وہی کراچی میں 5000 روپے کا ہے، بہت افسوس کی بات ہے کہ ٹریفک پولیس میں کراچی کے 10 فیصد شہری بھی نہیں ہیں، کراچی میں معیاری ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے باعث پچاس لاکھ لوگ موٹر سائیکل چلانے پر مجبور ہیں۔