دنیا بھر میں سوشل میڈیا رولز اینڈ اریگولیشن کے ساتھ ہے، صرف پاکستان میں شتربےمہار ہے،عظمیٰ بخاری
اشاعت کی تاریخ: 8th, March 2025 GMT
وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں سوشل میڈیا رولز اینڈ اریگولیشن کے ساتھ ہے۔صرف پاکستان میں شتربےمہار ہے۔
الحمرا ارٹس کونسل میں پنجاب حکومت کے زیراہتمام خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اطلاعات عظمی بخاری نے کہا کہ میرے لیے ہر دن عورت کا دن ہے، معاشرے میں خواتین کو لے کر رویہ بہت غیر حساس ہے جسں کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے، پنجاب کی تاریخ میں پہلی بار الحمرا میں حکومتی سطح پر وویمن ڈے منایا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب تک ہم خواتین کے مسائل پر بات نہیں کریں گے اس وقت تک حل نہیں نکلے گا، ہم بدقسمتی سے ایسے معاشرے میں رہتے ہیں وہاں زیادتی کی شکار خاتون منہ چھپاتی پھرتی ہے اور ریپسٹ دندناتا پھرتا ہے، پنجاب حکومت نے خواتین کے تحفظ کے لیے بہت اقدامات کیے ہیں، پینک بٹن۔ورچوئل پولیس اسٹیشن۔دھی رانی جیسے ہروگرام اس کی مثال ہیں۔
عظمی بخاری نے کہا کہ چیف منسٹر کا کہنا ہے خواتین ان کی ریڈ لائن ہیں، خواتین کے خلاف کیے گئے جرائم میں عدالتوں سے انصاف نہیں ملتا، اس طرح کی ایف ائی ارز دی جاتی ہیں کہ مجرم ارام سے نکل جاتا ہے۔
وزیر اطلاعات پنجاب نے کہا کہ ورکنگ وویمن کے مسائل کو دیکھتے ہوئے چیف منسٹر وویمن ہاسٹلز بنوائے، اب وہ زمانہ نہین کہ ایک شخص کمائے اور چھ چھ لوگ کھائیں، اس لیے اب خاتون کو بھی کام کرنا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری سوسائٹی میں کھانا گرم نہ کرنے بیٹی یا بیوی یا بہن کو قتل کردیا جاتا ہے، پنجاب حکومت نے لائیو اسٹاک کارڈ دیہات کی خواتین کے لیے متعارف کرایا ہے، دھی رانی پروگرام کا دوسرا فیز بھی جلد شروع کیا جائے گا، پنجاب حکومت نے لڑکیوں کو الیکڑک بائیکس دی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہماری بچیاں بہت ٹیلنٹڈ ہیں۔انہیں تھوڑی سی سپورٹ گھر سے چاہیے اور تھوڑی سی سپورٹ سوسائٹی سے چاہیے، ہماری سوسائٹی میں اپنی بہین بیٹی ماں کی عزت کی جاتی ہے لیکن عورت کی عزت اس لیے نہیں کرتے کہ وہ عورت یے، جس دن ہم عورت کی عزت اس لیے کریں گے کہ وہ عزت ہیں تو ہمارا معاشرہ سدھر جائے گا، الیکڑک بسوں میں خواتین کا الگ ایریا مخصوص کیا گیا ہے۔
عظمی بخاری نے کہ ہمارے لیے خوش نصیبی کی بات ہے کہ ہماری چیف منسٹر ایک خاتون ہیں۔صوبے کی چیف جسٹس بھی خاتون ہیں عورت کارڈ کی شکل میں دہشتگردی کرنے والوں کو سپئیر نہیں کیا جائے گا، ہم پر بھی ظلم ہوئے تھے لیکن ہم نے ریاست پر حملہ نہیں کیا تھا، چیف منسٹر صاحبہ کو والد کے سامنے صرف اس لیے گرفتار کیا گیا تو کہنا کے والد کو توڑا جا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ عورت مارچ کی اپنی فلاسفی ہے، جہاں تک خواتین کے حقوق کی بات کرتے ہیں اس سے میں متفق ہوں، عورت مارچ ہونا چاہیے۔عورتوں کے لیے مارچ ہونا ہے، دنیا بھر میں سوشل میڈیا رولز اینڈ اریگولیشن کے ساتھ ہے۔صرف پاکستان میں شتربےمہار ہے۔
Post Views: 2.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: پنجاب حکومت بخاری نے کہ خواتین کے چیف منسٹر نے کہا کہ کا کہنا اس لیے
پڑھیں:
کون ہارا کون جیتا
انسانی تاریخ میں محکمہ پولیس پہلی بار حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں شروع کیا تھا۔ اس وقت پولیس کی ذمے داری اپنے علاقے میں امن و امان برقرار رکھنا، راتوں کو گشت کرنا، جرائم روکنا اور شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کرنا تھا۔ کتابی طور پر آج بھی پوری دنیا میں پولیس اس ذمے داری کو نبھاتی ہے۔ ہماری پولیس کا سلوگن "پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی" بھی اس ذمے داری کی عکاسی کرتی ہے۔
پولیس اہلکاروں کو اپنے فرائض منصبی بجا لانے کے لیے بے پناہ اختیارات حاصل ہیں تاکہ معاشرے کو جرائم سے پاک، دنگا فساد اور لڑائی جھگڑوں سے محفوظ رکھ کر شہریوں کے لیے پر امن ماحول کو یقینی بنائیں۔ پولیس جرائم کی روک تھام کے لیے تمام ممکنہ مختلف اقدامات کرتی ہے، شہریوں کو قانون کی پاسداری کرنے اور اس پر عمل کرنے کی ترغیب دینا، ان کی جان و مال کا تحفظ اور ہر قسم کی ہنگامی صورتحال میں ان کی مدد کرنا، سرزد جرائم کے واقعات کی تحقیقات اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا، سرکاری اور نجی املاک کی حفاظت اور اسے نقصان پہنچانے والوں کے خلاف کارروائی کرنا ان کے فرائض منصبی میں شامل ہیں۔
پولیس افسران اور جوان اگر اپنی ڈیوٹی ایمانداری سے ادا کریں تو معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کی ضامن ہوتی ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں پولیس عام شہری کی نظر میں خوف کی علامت بن چکی ہے، سیاسی مداخلت اور رشوت کے ناسور نے قومی سلامتی کے ادارے کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے اور جو کسر رہ گئی تھی اسے اقربا پروری اور ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھانے کے علاوہ نہ تو آج تک مناسب وسائل کی فراہمی ممکن ہو سکی اور نہ ہی میرٹ کی بالا دستی، قوانین کی تبدیلی، تربیت کی مناسب سہولتیں اور نہ ہی ٹرانسفر، پوسٹنگ میں اشرافیہ سمیت حکومتی و سیاسی طبقے کے شکنجے سے نجات مل سکی۔ جس کی وجہ سے پولیس عوام کی مدد گار نہیں اشرافیہ، جرائم پیشہ عناصر کی مدد گار بن کر رہ گئی ہے۔
بغیر پولیس ٹاؤٹ کے کوئی شریف آدمی رپورٹ درج کرانے تھانے نہیں جاسکتا۔ اس محکمے سے جڑی کرپشن، رشوت ستانی، تشدد کی بریکنگ نیوز روز ہم اخبارات اور ٹی وی اسکرین پر دیکھتے ہیں۔ پولیس کی اس بگڑی چال نے پورے معاشرے کے سسٹم کو ہلا کے رکھ دیا ہے، سزا کے خوف سے آزاد ظالم دندناتے پھرتے ہیں اور مظلوم انصاف کے حصول کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں۔ پولیس درحقیقت معاشرے کی عکاس ہوتی ہے آپ پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا پولیس کا موازنہ کریں تو میری یہ بات سمجھ میں آجائے گی۔
بحیثیت مجموعی خیبرپختونخوا پولیس دوسرے صوبوں کی پولیس سے بہتر ہے اگر چہ تبدیلی سرکار کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے خیبرپختونخوا پولیس وہ پولیس نہیں رہی جن پر پختون معاشرے اور اقدار کی چھاپ نمایاں نظر آتی تھی مگر دہشتگردی کے خلاف فرنٹ فٹ پر لڑنے اور لازوال قربانیوں کی وجہ سے ملکی سطح پر خیبرپختونخوا پولیس کا امیج کافی بہتر ہوا۔ اگرچہ سیاسی مداخلت نے محکمہ پولیس کا بیڑا دوبارہ غرق کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مگر اس کے باوجود کچھ دبنگ اور ایماندار پولیس آفیسر ایسے ہوتے ہیں جو اپنے علاقے میں سیاسی مداخلت، مجرموں اور منشیات فروشوں کی سرپرستی برداشت نہیں کرتے، اس قبیل کے ایک نامور پولیس آفیسر عبدالعلی خان ہیں جو کچھ عرصہ قبل ہمارے علاقے کے تھانہ کالوخان میں ایس ایچ او تعینات تھے تو بلامبالغہ منشیات فروشوں، چوروں اور بدمعاشوں نے علاقہ چھوڑا تھا، میری پہلی ملاقات ان سے رات کے وقت گشت کے دوران ہوئی۔
میں حیران تھا لوگ ان کے ساتھ سلفیاں بنا رہے تھے، ان کے چاہنے والے ان کو پیار سے "گبر" کے نام سے پکارتے ہیں۔کیونکہ وہ اپنے علاقے میں مظلوموں اور علاقے کے حقیقی سفید پوشوں (شریف) کے محافظ و مدد گار رہتے ہیں جب کہ منشیات فروشوں، اجرتی قاتلوں اور چوروں ڈکیتوں کے ساتھ ان کے سرپرستوں کی بھی شامت آجاتی ہے، چاہے سرپرست سیاسی ہو یا غیرسیاسی گبر ان کو خاطر میں نہیں لاتا اور یہی وجہ ہے کہ عوام گبر کے سحر میں ایسے گرفتار ہوتے ہیں کہ جب ضرورت پڑے ان کے حق میں سڑکوں پر آجاتے ہیں۔
آج کل عبدالعلی خان "گبر" تھانہ بڈھ بیر کے ایس ایچ او تعینات ہیں۔ جہاں سابقہ علاقوں کی طرح ان کے چرچے زبان زد عام ہیں۔
پی ٹی آئی کی رکن قومی اسمبلی شاندانہ گلزار صاحبہ کو اپنے علاقے کے مذکورہ ایس ایچ او کے حوالے سے شدید تحفظات ہیں، جس بنا پر انھوں نے صرف احتجاج ہی نہیں کیا بلکہ پریس کانفرنس بھی کی ہے۔اس پریس کانفرنس میں انھوں نے مذکورہ پولیس افسر پر سنگین نوعیت کے الزامات لگائے ہیں اورایس ایچ او کو عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ بھی کیا ہے تاہم ان کا یہ مطالبہ تا حال پورا نہیں ہوا ہے۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ جب بھی کوئی باضابطہ شکایت آئی تو اس پر کارروائی کے لیے طریقہ کار موجود ہے، مگر کسی افسر کو زبانی شکایت پر معطل یا تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ادھر پولیس افسر بھی خاصا با اثر لگتا ہے کیونکہ اس کے حق میں مقامی افراد نے کوہاٹ روڈ پر مظاہرہ کیاہے‘مظاہرین پولیس افسر کو ایک فرض شناس شخص قرار دے رہے ہیں‘یوں یہ معاملہ برابر کی چوٹ پر نظرآ رہا ہے۔یہ تنازعہ جتنا میدان پر گرم ہے اس سے زیادہ سوشل میڈیا پر گرم ہے۔ پولیس افسر صاحب ہمیشہ سوشل میڈیا پر اپنے دبنگ اسٹائل، بزرگوں کے ساتھ زمین پر بیٹھنے کی وجہ سے مکمل طور پر چھائے رہتے ہیں۔
آج کل سوشل میڈیا (فیس بک، ایکس اور واٹس ایپس گروپس)میں یہ ڈیجیٹل جنگ جاری ہے۔ سوشل میڈیا رپورٹس کے مطابق تاحال پولیس افسر پولیس ڈیپارٹمنٹ اور سوشل میڈیا یوزرکی نظروں میں کسی ہیرو سے کم نہیں، سوشل میڈیا پر پولیس افسر اور ایک سیاستدان کے مابین ووٹنگ کی گئی تو بہت بڑی اکثریت پولیس افسر کے حق میں ہے۔سوشل میڈیاپر کمنٹس دیکھ کر ہر پولیس آفیسر کو ایس ایچ او موصوف کی مقبولیت پر رشک آتا ہوگا۔ الزامات درست ثابت ہونے پر کارروائی کے کمنٹس بھی دیکھنے میں آئے۔سوشل میڈیا کے علاوہ گراؤنڈ پر یہ صورتحال ہے کہ کوہاٹ روڈ پر دو مظاہرے کیے گئے ایک مظاہرہ رکن پارلیمنٹ کی جانب سے جب کہ دوسرا ایس ایچ او کے حق میں کیا گیا ۔
ایم این اے شاندانہ گلزار کی پریس کانفرنس کے بعد پختونخوا پولیس چیف نے سی سی پی او کو انکوائری کی ہدایت کی، جس میں قانون کے مطابق الزامات کا جائزہ لینے کے لیے پشاور کے ایس ایس پی ٹریفک ہارون الرشید کی سربراہی میں انکوائری کمیٹی بنائی گئی جو کہ دو دنوں میں انکوائری مکمل کرکے بھیجے گی۔ گو کہ انکوائری کا وقت پورا ہوگیا۔تاہم عقلمند اور ہوشیار لوگ سمجھ چکے ہیں کہ اس لڑائی میں کون جیتا کون ہارا۔