شام میں تشدد کی لہر جاری، پانچ سو سے زائد افراد ہلاک
اشاعت کی تاریخ: 8th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 08 مارچ 2025ء) شام سے موصولہ اطلاعات کے مطابق ملک کے ساحلی علاقے الاذقیہ میں عبوری حکوت اور معزول صدر بشار الاسد کے حامیوں کے درمیان جاری جھڑپوں میں آج آٹھ مارچ بروز ہفتہ ہلاکتوں کی تعداد پانچ سو سے زائد ہو چکی ہے۔
شامی امور پر نظر رکھنے والی برطانیہ میں قائم غیر سرکاری تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس (ایس او ایچ آر) کے مطابق ان لڑائیوں میں اب تک کم از کم 120 باغی اور 93 سرکاری فوجی مارے گئے ہیں۔
ایس او ایچ آر کا کہنا ہے کہ عبوری حکومت کی جوابی کارروائیوں میں کم از کم 340 شہری مارے گئے ہیں۔اس تنظیم نے شہریوں کی ہلاکتوں کو''قتل عام‘‘ قرار دیا۔ ایس او ایچ آر کے ایک ترجمان نے دعویٰ کیا کہ علوی شہریوں بشمول خواتین اور بچوں کو''قتل‘‘ کیا گیا اور'' ان کے ''گھروں اور املاک کو لوٹ لیا گیا۔
(جاری ہے)
‘‘ اس ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ علوی ''نوجوانوں کو اس طرح سے ختم کیا گیا جو سابقہ (اسد حکومت) کی سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں سے مختلف نہیں تھا۔
‘‘ شام میں تشدد کے پھیلنے کی وجہ کیا ہے؟شام میں جمعرات کو ملک کی علوی اقلیت کے اکثریتی ساحلی قصبے جبلہ کے ارد گرد پھوٹ پڑنے والا تشدد بحیرہ روم کے ساحل تک پھیل گیا۔ یہ علاقہ سابق صدر بشار الاسد کے ملک کی علوی قبیلے کا گڑھ مانا جاتا ہے۔ شام کی جنرل انٹیلی جنس سروس کے مطابق،''ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ ان جرائم کی منصوبہ بندی میں معزول حکومت کے فوجی اور سکیورٹی رہنما ملوث ہیں۔
‘‘وزارت دفاع کے ترجمان نے کہا کہ سرکاری فورسز نے تیزی سے زمینی کارروائی کی ہے اور ان علاقوں کا کنٹرول دوبارہ حاصل کر لیا ہے، جہاں سکیورٹی فورسز پر حملےکیے گئے تھے۔ شامی حکام نے ہلاکتوں کی تعداد شائع نہیں کی، لیکن سرکاری خبر رساں ایجنسی سانا نے ایک نامعلوم سکیورٹی اہلکار کے حوالے سے بتایا کہ متعدد افراد سرکاری سکیورٹی فورسز پر حالیہ حملوں کا بدلہ لینے کے لیے ساحل پر گئے تھے۔
اہلکار نے کہا کہ حکومت ''کچھ انفرادی خلاف ورزیوں‘‘کی اطلاعات سے آگاہ ہے اور کہا کہ وہ ''ان کو روکنے کے لیے کام کر رہی ہے۔‘‘ عبوری صدر کی اسد کے حامی جنگجوؤں سے ہتھیار ڈالنے کی اپیلدریں اثناء شام کے عبوری صدر احمد الشراع نے سابق صدر بشار الاسد کے حامی جنگجوؤں پر زور دیا کہ وہ ''بہت دیر ہونے سے پہلے‘‘ ہتھیار ڈال دیں۔
میسجنگ ایپ ٹیلی گرام پر نشر ہونے والی ایک تقریر میں شامی عبوری صدر نے اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ ہتھیار صرف ریاستی اداروں تک محدود کر دینے کے لیے کام جاری رکھا جائے گا اور ملک میں مزید غیر قانونی ہتھیار نہیں رکھنے دیے جائیں۔خیال رہے کہ سابق حکومت سے روابط رکھنے والے مسلح گروہ پہاڑی ساحلی علاقے کے متعدد قصبوں اور دیہاتوں میں سرگرم عمل ہیں۔
جرمنی کا 'تشدد کی لہر‘ کے خاتمے کا مطالبہدریں اثناء جرمنی کی وزارت خارجہ نے شام میں جاری لڑائی کے تمام فریقوں سے مطالبہ کیا کہ وہ ''تشدد کے چکر‘‘ کو ختم کر دیں۔ جرمن وزارت خارجہ کی جانب سے جمعے کے روز جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا، ''ہم شام کے مغربی علاقوں میں تشدد سے بے شمار افراد کے متاثر ہونے سے صدمے میں ہیں۔
ہم تمام فریقوں سے پرامن حل، قومی اتحاد، جامع سیاسی مذاکرات اور انصاف کی تلاش اور تشدد پر قابو پانے کے لیے کہتے ہیں۔‘‘
جنوری میں شام کے دارالحکومت دمشق کے دورے کے دوران جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیئربوک نے اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنانے سمیت کچھ دیگر شرائط پوری کرنے پر شام کی عبوری حکومت کو حمایت کی پیشکش کی تھی۔
ش ر⁄ ع ب (میٹ فورڈ، دمیترو ہوبینکو، ڈی پی اے، اے ایف پی، اے پی)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کے لیے
پڑھیں:
امریکی فوجی اڈے پر ڈیوٹی پر تعینات اہلکار کی فائرنگ سے پانچ فوجی زخمی
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔07 اگست ۔2025 )امریکی ریاست جارجیا کے ایک فوجی اڈے پر ڈیوٹی پر تعینات فوجی اہلکار کی فائرنگ سے پانچ امریکی فوجی زخمی ہو گئے ہیں امریکی محکمہ دفاع کے مطابق حملہ آور کی شناخت28سالہ سارجنٹ کورنیلیس ریڈفورڈ کے نام سے ہوئی ہے جس نے اپنی ذاتی ہینڈگن سے فائرنگ کی اور اپنے ساتھی فوجیوں کو نشانہ بنایا. ریاست جارجیا کے دارالحکومت اٹلانٹا سے تقریباً 240 میل کے فاصلے پر واقع فورٹ سٹیورٹ امریکی فوج کا شمار ملک کے اندر بڑے فوجی اڈوں میں ہوتا ہے جو امریکی فوج کے تھرڈانفنٹری ڈویژن کا مرکزہے اورتقریبا2لاکھ 80ہزار ایکٹرپر پھیلا ہوا ہے جہاں فوج کے اہلکارو ں اور خاندانوں سمیت25ہزار سے زیادہ لوگ مقیم ہیں.(جاری ہے)
امریکی فوج کے تھرڈ انفنٹری ڈویژن کے کمانڈنگ افسر بریگیڈیئر جنرل جان لوباس نے صحافیوں سے گفتگو میں بتایا کہ فائرنگ سے زخمی ہونے والے پانچوں فوجیوں کا علاج کیا جا رہا ہے اور ان کی حالت مستحکم ہے جنرل لوباس نے تصدیق کی کہ مبینہ حملہ آور ایک فعال ڈیوٹی سپاہی تھا اور اس نے پہلے کسی جنگی زون میں تعینات نہیں کیا تھا.
انہوں نے بہادر سپاہیوں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے مداخلت کی اور شوٹر کو قابو کر لیا، انہوں نے کہا کہ حملہ آور کو پکڑنے والوں نے مزید نقصان کو روکا ہے رپورٹ کے مطابق بہت بڑے رقبے کی وجہ سے فوجی اڈاے کی کلیئرنس میں وقت لگا فوج اور دیگر اداروں کو خدشہ تھا کہ حملہ آور کے مزید ساتھی ہونے کی صورت میں مرکزکے دیگر علاقوں میں حملے کا خدشہ تھا تاہم مکمل تلا ش کے بعد حکام نے علاقے کو کلیئرقراردیدیا. امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق فورٹ اسٹیورٹ نے اپنے فیس بک پیج پر بتایا کہ زخمی فوجیوں کو موقع پر طبی امداد دی گئی اور مزید علاج کے لیے وِن آرمی کمیونٹی ہسپتال منتقل کر دیا گیا حکام نے زخمی فوجیوں کی حالت کے بارے میں فوری طور پر مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں فیس بک پوسٹ میں کہا گیا کہ کمیونٹی کے لیے کوئی فعال خطرہ نہیں ہے. ریاست جارجیا کے گورنر برائن کیمپ نے ”ایکس “پر پیغام میں کہا کہ وہ اور ان کا خاندان اس حادثے سے غمزدہ ہیں وائٹ ہاﺅس کی پریس سیکرٹری کارولائن لیویٹ نے” ایکس“ پر کہا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو شوٹنگ کے بارے میں آگاہ کیا گیا ہے اور وہ صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں. حکام کا کہنا ہے کہ حملہ آور نے سروس پستول استعمال نہیں کیا بلکہ اپنے ذاتی پستول سے فائرنگ کی حکام اس بات کی تحقیقات کر رہے ہیں کہ وہ اسے بیس پر کیسے لانے میں کامیاب ہوا فائرنگ کے شبے میں گرفتار 28 سالہ سارجنٹ کورنیلیئس ریڈفورڈ فورٹ سٹیورٹ میں واقع سیکنڈ بریگیڈ کامبیٹ ٹیم کا حصہ ہے حکام نے یہ نہیں بتایا کہ ریڈفورڈ کتنے عرصے سے امریکی فوج کا رکن ہے لیکن اس بات کی تصدیق کی کہ وہ کبھی بھی لڑائی کے لیے تعینات نہیں ہوئے تھے. مشتبہ شخص کو دوسرے فوجیوں نے دبوچ لیا تھا اور اب امریکی فوج کے مجرمانہ تفتیش کاروں کی طرف سے اس کا انٹرویو کیا جا رہا ہے جنرل لوباس کا کہنا ہے کہ ریڈفورڈ مقدمے سے پہلے قید میں ہے اور فوج کے مجرمانہ تفتیش کاروں کے ذریعے ا س سے تفتیش کی جارہی ہے.