اگر ٹیکس میں کمی سچ ہے تو یہ مودی حکومت کا ٹرمپ کے سامنے سرنڈر ہے، کانگریس
اشاعت کی تاریخ: 8th, March 2025 GMT
ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعہ کو کہا کہ ہندوستان امریکی مصنوعات پر بہت زیادہ ٹیکس عائد کرتا ہے، جس کیوجہ سے ان مصنوعات کو ہندوستانی مارکیٹ میں فروخت کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ انڈین نیشنل کانگریس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان پر سخت ردعمل ظاہر کیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ بھارت نے اپنے محصولات (ٹیکس) میں کافی حد تک کمی کرنے پر اتفاق کر لیا ہے۔ کانگریس کے ترجمان پون کھیڑا نے اس پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ اگر یہ سچ ہے تو یہ مودی حکومت کا مکمل سرنڈر ہے اور اس کا ہندوستانی معیشت پر سنگین اثر پڑے گا۔ انہوں نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے مطالبہ کیا کہ وہ اس معاملے پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعہ کو کہا کہ ہندوستان امریکی مصنوعات پر بہت زیادہ ٹیکس عائد کرتا ہے، جس کی وجہ سے ان مصنوعات کو ہندوستانی مارکیٹ میں فروخت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ان کے اس تازہ انکشاف پر ابھی تک ہندوستانی حکومت کی جانب سے کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ اس وقت بھارتی وزیر تجارت پیوش گوئل امریکہ کے سرکاری دورے پر ہیں، جس پر کانگریس نے سوال اٹھایا ہے۔
پون کھیڑا نے کہا کہ 140 کروڑ ہندوستانی شہری اپنی حکومت کی تجارتی پالیسی امریکی صدر ٹرمپ کے ذریعے جان رہے ہیں۔ کیا مودی حکومت نے اپنے قریبی دوست ٹرمپ کے دباؤ میں آ کر ٹیکس میں کٹوتی کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر واقعی کوئی تجارتی معاہدہ ہوا ہے تو اسے عوام اور پارلیمنٹ سے کیوں چھپایا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میکسیکو اور کینیڈا جیسے ممالک اگر امریکہ کے ساتھ متوازن ٹیکس مذاکرات کر سکتے ہیں تو ہندوستان ایسا کیوں نہیں کر سکتا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ منموہن سنگھ کی حکومت نے قومی مفادات کے پیش نظر امریکہ کے ساتھ تاریخی نیوکلیائی معاہدہ کیا تھا، جبکہ مودی حکومت ٹرمپ کے دباؤ میں آ کر فیصلے کر رہی ہے۔ پون کھیڑا نے دعویٰ کیا کہ حالیہ بجٹ میں ہارلے ڈیوڈسن جیسی امریکی موٹر سائیکلوں پر عائد درآمدی ڈیوٹی کم کر دی گئی ہے اور امریکی بربن وسکی پر ٹیکس 150 فیصد سے گھٹا کر 100 فیصد کر دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی واشنگٹن سے درآمد کئے جانے والے سیبوں پر بھی محصول 50 فیصد سے کم کر کے 15 فیصد کر دیا گیا ہے، جو ہندوستانی کاشتکاروں کے لئے نقصاندہ ثابت ہو سکتا ہے۔
انہوں نے سوال کیا "کیا مودی حکومت نے اپنے مخصوص دوستوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے ہندوستانی چھوٹے کاروباروں اور کسانوں کے مفادات کو قربان کر دیا ہے، کیا یہ سب امریکی دباؤ میں ہو رہا ہے"۔ انہوں نے مودی حکومت کی تجارتی پالیسی کو تباہ کن قرار دیا اور کہا کہ اگر محصولات میں کمی کا یہ فیصلہ حقیقت پر مبنی ہے تو اس سے ہندوستانی معیشت مزید کمزور ہوجائے گی۔ دوسری جانب کانگریس کے جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے بھی ٹرمپ کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے سوشل میڈیا پر لکھا "جب پارلیمنٹ کا اجلاس 10 مارچ کو دوبارہ شروع ہوگا تو وزیراعظم کو اس معاملے پر وضاحت دینی چاہیئے کہ حکومت نے امریکہ سے کیا معاہدہ کیا ہے اور آیا اس سے ہندوستانی کسانوں اور مینوفیکچرنگ سیکٹر کے مفادات پر سمجھوتہ کیا جا رہا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: مودی حکومت انہوں نے حکومت نے ٹرمپ کے کہا کہ
پڑھیں:
بھارتی پارلیمنٹ میں بہار متنازع قانون پر شدید احتجاج، کانگریس کا انتخابی بائیکاٹ کا عندیہ
بھارتی ریاست بہار میں متنازع قانون ’’اسپیشل انٹینسیو ریویژن (ایس آئی آر)‘‘ کے تحت ووٹر لسٹ کی نظرثانی کے معاملے نے ملک کی سیاست میں زبردست ہلچل پیدا کردی ہے۔
بھارتی پارلیمنٹ میں اس قانون کے خلاف شدید احتجاج جاری ہے، جب کہ کانگریس اور انڈیا اتحاد نے انتخابات کے بائیکاٹ کا عندیہ دے دیا ہے۔
مودی حکومت پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ اس نے الیکشن کمیشن جیسے اہم ادارے کو غیر جانبدار ادارے کے بجائے سیاسی ہتھیار میں تبدیل کر دیا ہے۔ اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ بہار انتخابات سے قبل اقلیتی ووٹرز کو فہرست سے نکال کر منظم دھاندلی کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے، جو بھارتی آئین کے آرٹیکل 326 کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اس آرٹیکل کے مطابق ہر بالغ شہری کو ووٹ دینے کا مساوی حق حاصل ہے، جسے موجودہ حکومت پامال کر رہی ہے۔
دی وائر کے مطابق قائد حزب اختلاف راہول گاندھی نے الیکشن کمیشن پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’الیکشن کمیشن اب ہندوستان کا ادارہ نہیں لگتا، یہ اپنا کام نہیں کر رہا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ 60 سال کی عمر کے ہزاروں ’’نئے ووٹرز‘‘ کا اندراج دراصل ووٹوں کی منظم چوری کا حصہ ہے۔
کانگریس کے بہار انچارج کرشنا الاوارو نے اس پورے عمل کو ’’آمرانہ‘‘ قرار دیا اور کہا کہ الیکشن کمیشن کا جاری کردہ ڈیٹا مکمل طور پر غلط ہے۔ ان کے مطابق یہ سارا عمل ووٹ اور الیکشن چوری کرنے کے لیے ترتیب دیا گیا ہے، اور یہ صرف بہار کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے ملک کا خطرناک رجحان بنتا جا رہا ہے۔
الیکشن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق 60.1 لاکھ ووٹرز کو وفات یافتہ، منتقل شدہ یا دہری رجسٹریشن والے قرار دیا گیا ہے، جس پر شدید تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ دی وائر کے مطابق بعض مقامات پر بی جے پی افسران اور بوتھ لیول افسران خود سے فارم بھر کر ووٹر لسٹ میں تبدیلیاں کر رہے ہیں۔
آر جے ڈی رہنما تیجسوی یادو نے اسمبلی انتخابات کے بائیکاٹ کو ’’کھلا آپشن‘‘ قرار دیا ہے، جبکہ ڈپٹی لیڈر لوک سبھا گورو گوگوئی کا کہنا ہے کہ حکومت کی خاموشی عوام کے ووٹ چھیننے کا ثبوت ہے۔
اقلیتی ووٹروں کو جان بوجھ کر فہرست سے خارج کرنے کو جمہوری اصولوں کی صریح خلاف ورزی قرار دیا جا رہا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ این آر سی اور سی اے اے کے بعد ایس آئی آر پالیسی دراصل اقلیتوں کی شہریت کو نشانہ بنانے کی ایک اور کوشش ہے۔
سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ مودی حکومت بھارت کو ہندوتوا نظریے کے تحت ایک انتہا پسند ریاست میں بدلنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے، جس کے اثرات نہ صرف بہار بلکہ پورے ملک کی جمہوریت پر پڑ رہے ہیں۔