Express News:
2025-07-24@04:41:14 GMT

زیلنسکی اور پاکستانی سیاست دان

اشاعت کی تاریخ: 9th, March 2025 GMT

یہ دنیا ہمیشہ سے طاقت کے توازن سیاست کے پیچ وخم اور اقتدار کے کھیل کی اسیر رہی ہے۔ کہیں بڑی طاقتیں اپنے مفادات کے لیے کمزور ریاستوں کو شطرنج کے مہروں کی طرح استعمال کرتی ہیں توکہیں کمزور ملک اپنی بقا کے لیے طاقتوروں کی چوکھٹ پر سر جھکانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کی حالیہ تلخ کلامی نے ایک بار پھر ان رویوں کو نمایاں کردیا ہے جو عالمی سیاست کا حصہ بن چکے ہیں۔ ایک سپر پاور کا رہنما جو سمجھتا ہے کہ دنیا اس کے اشاروں پر ناچنے کے لیے بنی ہے اور ایک چھوٹے ملک کا صدر جو اپنے ملک کے دفاع کی خاطر اپنی عزت نفس کو بھی داؤ پر لگانے کے لیے تیار نظر آتا ہے۔

یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ امریکی صدر نے کسی دوسرے ملک کے رہنما کے ساتھ اس طرح کا برتاؤکیا ہو۔ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جہاں امریکا نے اپنے مفادات کی خاطر دوست اور دشمن کے ساتھ یکساں رویہ اختیار کیا۔ یوکرین جو ایک طویل عرصے سے روس اور مغرب کے درمیان سینڈوچ بنا ہوا ہے ،اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔

زیلنسکی جو ایک مزاحیہ اداکار سے سیاستدان بنے، اب ایک ایسے میدان میں کھڑے ہیں جہاں لفظوں کی جنگ کے ساتھ ساتھ ہتھیاروں کی جنگ بھی لڑی جا رہی ہے۔ ٹرمپ کی طرف سے ان کی قیادت پر کیے جانے والے طنزیہ وار اور زیلنسکی کی بے بسی کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ کمزور ممالک کے رہنماؤں کے پاس اکثر دو ہی راستے ہوتے ہیں یا تو وہ طاقتوروں کی خوشنودی حاصل کریں یا پھر مزاحمت کی راہ اپنائیں جس کے نتائج کی قیمت ان کے عوام کو چکانی پڑتی ہے۔

اگر ہم اس ساری صورتِ حال کو پاکستانی سیاست کے تناظر میں دیکھیں تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے سیاستدانوں نے ماضی کے ان تجربات سے کچھ سیکھا ہے یا نہیں۔ کیا ہم نے اپنی خارجہ پالیسی کو خود مختاری کی راہ پرگامزن کیا ہے یا ہم بھی اب تک طاقتور ممالک کے رحم وکرم پر ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی سیاست آج بھی انھی الجھنوں میں الجھی ہوئی ہے جہاں شخصیات اداروں سے زیادہ طاقتور نظر آتی ہیں اور قومی مفاد ذاتی مفاد کے نیچے دب کر رہ جاتا ہے۔

پاکستانی سیاست میں بھی کئی ایسے کردار موجود ہیں جو زیلنسکی کی طرح اقتدار میں تو آ گئے مگر انھیں اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ اقتدار کی کرسی کانٹوں سے بھری ہوتی ہے۔ انھیں بھی اندرونی اور بیرونی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے انھیں بھی طاقتور قوتوں کے اشاروں پر چلنا پڑتا ہے اور اگر وہ ان اشاروں کو نظر اندازکرنے کی کوشش کریں تو ان کے خلاف ایسی فضا ہموار کر دی جاتی ہے کہ انھیں اقتدار سے الگ ہونے میں دیر نہیں لگتی۔

تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان میں کئی رہنما عوامی حمایت کے ساتھ آئے مگر جب انھوں نے اپنے فیصلے خود کرنے کی کوشش کی تو یا تو انھیں عبرت کا نشان بنا دیا گیا یا پھر انھیں اپنی بقا کے لیے سودے بازی پر مجبور ہونا پڑا۔

ٹرمپ اور زیلنسکی کی گفتگو میں جو غرور اور بے بسی نظر آئی وہ پاکستان کی سیاست میں بھی عام ہے۔ طاقتور اورکمزورکا یہ کھیل ہمارے ہاں بھی جاری ہے۔ یہاں بھی کچھ سیاستدان خود کو ناقابلِ تسخیر سمجھتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے بغیر ملک کا نظام نہیں چل سکتا کہ عوام کی محبت ان کے ساتھ ہے اور انھیں کوئی چیلنج نہیں کرسکتا۔

دوسری طرف کچھ ایسے بھی ہیں جو ہرحال میں اقتدار میں رہنے کے لیے ہر قسم کی مصلحت اختیار کر لیتے ہیں۔ وہ یہ تسلیم کرچکے ہیں کہ انھیں کب بولنا ہے اور کب خاموش رہنا ہے کب سر اٹھانا ہے اور کب جھک جانا ہے۔ ان کے نزدیک سیاست نظریات کا نام نہیں بلکہ اقتدار حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔

پاکستان میں ایک عرصے سے سیاستدانوں کی وفاداریاں بدلنے اصولوں کی قربانی دینے اور وقتی فائدے کے لیے دیرپا نقصانات کو نظر انداز کرنے کی روایت قائم ہے۔ خارجہ پالیسی ہو یا داخلی معاملات یہاں فیصلے اکثر ان بنیادوں پر کیے جاتے ہیں جو عارضی طور پر فائدہ تو دے سکتی ہیں لیکن طویل المدتی نقصان کی بنیاد بھی رکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بین الاقوامی محاذ پر اب تک کوئی مضبوط مقام حاصل نہیں کر سکے۔

پاکستان میں بھی کئی مواقع ایسے آئے جب قیادت کو ایک واضح موقف اختیار کرنا تھا مگر یا تو دباؤ میں آ کر فیصلے تبدیل کردیے گئے یا پھر وقتی فائدے کے لیے کمزور سودے بازی کر لی گئی۔ امریکا، چین، روس، سعودی عرب،ایران ان تمام ممالک کے ساتھ تعلقات میں ہمیں کئی بار ایسے لمحات کا سامنا کرنا پڑا جہاں خود مختاری اور مفادات میں توازن برقرار رکھنا ضروری تھا مگر اکثر ہم یہ توازن برقرار نہیں رکھ سکے۔

ہم کبھی ایک جانب جھک جاتے ہیں اورکبھی دوسری جانب اور اس دوران قومی مفاد پیچھے رہ جاتا ہے۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستانی سیاستدان ٹرمپ اور زیلنسکی کے حالیہ مکالمے سے کچھ سیکھیں گے؟ کیا وہ اس حقیقت کو تسلیم کریں گے کہ دنیا میں عزت صرف انھیں ملتی ہے جو اپنے اصولوں پر قائم رہتے ہیں جو کمزور نہیں بلکہ مضبوط نظر آتے ہیں؟ کیا ہماری قیادت یہ سمجھ پائے گی کہ عالمی سیاست میں عزت مانگنے سے نہیں بلکہ اپنی پالیسیوں سے حاصل کی جاتی ہے؟

پاکستانی سیاستدانوں کے لیے سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ انھیں اپنے فیصلے خود کرنے کی عادت ڈالنی ہوگی، انھیں خارجہ پالیسی کو کسی اور کے اشاروں پر نہیں بلکہ قومی مفاد کے مطابق ترتیب دینا ہوگا۔ انھیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ وقتی فائدے کے لیے کی جانے والی سودے بازی آنے والے وقت میں نقصان کا سبب بنے گی۔

یہی وقت ہے کہ پاکستانی قیادت اپنی داخلی اور خارجی پالیسیوں پر از سرِ نو غور کرے وہ رویے بدلے جو ہمیں کمزور ظاہرکرتے ہیں وہ حکمتِ عملی اپنائے جو ہماری خود مختاری کو مضبوط کرے۔ اگر ہم نے تاریخ سے سبق نہ سیکھا اگر ہم نے ماضی کی غلطیاں دہرانا جاری رکھا تو ہمیں بھی ایسے ہی حالات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جن کا سامنا آج زیلنسکی کررہے ہیں۔ ہم کب تک دوسروں کے فیصلوں پر اپنی سیاست کرتے رہیں گے؟ کب تک ہم طاقتوروں کے سامنے سر جھکانے کو سفارت کاری کا نام دیتے رہیں گے؟

یہ وقت فیصلہ کرنے کا ہے۔ ہمیں اپنی سیاست میں وہ شعور اور خود داری پیدا کرنی ہوگی جو ہمیں کمزور کے بجائے طاقتورکی صف میں کھڑا کر سکے۔ اگر ہم نے یہ نہ کیا تو ہماری سیاست بھی ہمیشہ ایسے ہی رہنماؤں کے گرد گھومتی رہے گی جو زیلنسکی کی طرح بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں اور ٹرمپ جیسے طاقتور ان پر اپنی مرضی تھوپتے رہیں گے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستانی سیاست زیلنسکی کی سیاست میں نہیں بلکہ کا سامنا کرنے کی کے ساتھ میں بھی ہے اور کے لیے اگر ہم ہیں جو

پڑھیں:

’اداکار نہیں بن سکتے‘ کہنے والوں کو قہقہوں سے جواب دینے والے ورسٹائل ایکٹر محمود

بھارتی فلم انڈسٹری کے لیجنڈ اداکار اور مزاح کے بادشاہ محمود نے وہ مقام حاصل کیا جو صرف مسلسل جدوجہد، بے پناہ صبر اور خالص جذبے سے ممکن ہوتا ہے۔ جنہیں کبھی کہا گیا کہ یہ اداکار بننے کے قابل نہیں، وہی محمود ایک دن سینما اسکرین پر قہقہوں کا راج لے کر آئے اور تقریباً 300 فلموں میں اپنی موجودگی سے لوگوں کو ہنسانے والا ’کنگ آف کامیڈی‘ بن گیا۔

29 ستمبر 1932 کو ممبئی میں پیدا ہونے والے محمود علی کے والد ممتاز علی بمبئی ٹاکیز سے وابستہ تھے مگر گھر کے حالات نہایت خراب تھے۔ کم عمری میں ہی محمود کو لوکل ٹرینوں میں ٹافیاں بیچنی پڑیں۔ مگر دل میں اداکار بننے کا خواب پوری شدت سے زندہ تھا۔

ابتدائی موقع فلم ’قسمت‘ (1943) میں اشوک کمار کے بچپن کا کردار ادا کرنے کی صورت میں ملا۔ مگر یہ صرف آغاز تھا، اصل جدوجہد ابھی باقی تھی۔

ڈرائیور سے اداکار تک

محمود نے مختلف فلمی شخصیات کے لیے بطور ڈرائیور کام کیا، صرف اس لیے کہ اسٹوڈیوز تک رسائی ہو جائے۔ ایک دن فلم ’نادان‘ کے سیٹ پر قسمت نے دروازہ کھٹکھٹایا جب ایک جونیئر آرٹسٹ ڈائیلاگ بولنے میں ناکام رہا تو ہدایت کار نے وہ مکالمہ محمود کو دیا۔

انہوں نے پہلی کوشش میں ایسا ادا کیا کہ سب دنگ رہ گئے۔ انعام میں 300 روپے ملے جو اس وقت ان کی مہینے بھر کی تنخواہ سے بھی 4 گنا زیادہ تھے۔ وہیں سے فلمی سفر نے نیا رخ لیا۔

ناکامی کا سامنا اور پھر کامیابیوں کے انبار

محمود نے چھوٹے موٹے کرداروں سے شروعات کی ’دو بیگھہ زمین‘، ’سی آئی ڈی‘، ’پیاسا‘ جیسی فلموں میں نظر آئے، مگر کوئی خاص پہچان نہ بنا سکے۔ اس دوران انہیں فلم ’مس میری‘ کے لیے اسکرین ٹیسٹ سے مسترد کر دیا گیا۔ یہاں تک کہ کمال امروہی جیسے فلمساز نے کہا کہ ’تم میں اداکاری کی صلاحیت نہیں ہے، اداکار کا بیٹا ہونا کافی نہیں‘۔

محمود کے صاحبزادے مقصود محمود علی عرف لکی علی (بائیں) بھی شوبز انڈسٹری سے وابستہ ہیں۔

مگر محمود نے ہار نہیں مانی۔ ایک فلم میں اپنی سالی مینا کماری کی سفارش پر کام مل رہا تھا مگر انہوں نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ ’میں اپنی پہچان سفارش سے نہیں، محنت سے بناؤں گا‘۔

سنہ1958 میں فلم ’پرورش‘ میں انہیں راج کپور کے بھائی کا کردار ملا، جس کے بعد ’چھوٹی بہن‘ نے ان کے لیے فلمی دروازے کھول دیے۔ ٹائمز آف انڈیا نے ان کی اداکاری کو سراہا۔ ان کو معاوضہ 6000 روپے ملا تھا جو ان وقتوں میں کسی خواب سے کم نہ تھا۔

محمود کے ورسٹائل انداز

سال1961  کی فلم ’سسرال‘ میں شوبھا کھوٹے کے ساتھ ان کی جوڑی مقبول ہوئی اور اسی سال انہوں نے بطور ہدایت کار اپنی پہلی فلم ’چھوٹے نواب‘ بنائی، جس سے آر ڈی برمن (پنچم دا) نے بطور موسیقار ڈیبیو کیا۔

اداکاری میں جدت، کرداروں میں رنگینی

محمود نے خود کو ایک جیسے کرداروں میں محدود نہیں رکھا۔ فلم ’پڑوسن‘ (1968) میں جنوبی ہند کے موسیقار کا کردار ان کی ورسٹائل اداکاری کا شاہکار تھا۔

سنہ 1970  کی فلم ’ہمجولی‘ میں انہوں نے ٹرپل رول ادا کر کے اپنی وسعت فن کا لوہا منوایا۔

محمود، صرف اداکار نہیں بلکہ ایک ادارہ

انہوں نے اداکاری کے ساتھ ساتھ کئی فلموں کی ہدایت کاری، پروڈکشن اور گلوکاری بھی کی۔ فلمی کیریئر میں تقریباً 300 فلمیں کیں اور 3 فلم فیئر ایوارڈز جیتے۔ محمود نہ صرف ہنسانے والا اداکار تھا بلکہ ایک پورا عہد تھا۔

23  جولائی 2004 کو محمود دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن ان کی مسکراہٹ، منفرد انداز اور ناقابلِ فراموش مزاح آج بھی ہر نسل کے دلوں میں زندہ ہے۔

وہ ہر اس شخص کے لیے مثال بن گئے جو بار بار یہ سنتا ہے کہ ’تم یہ نہیں کر سکتے‘ اور پھر اپنے وہ اپنی صلاحیتیوں کا کمال دکھا کر دنیا کو غلط ثابت کر دیتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اداکار محمود بھارتی اداکار محمود لکی علی

متعلقہ مضامین

  • یوکرین کا زیلنسکی-پیوٹن براہِ راست مذاکرات کا مطالبہ، روس کی مختصر جنگ بندی کی تجویز
  • ’اداکار نہیں بن سکتے‘ کہنے والوں کو قہقہوں سے جواب دینے والے ورسٹائل ایکٹر محمود
  • یہ کون لوگ ہیں جو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ہمارے لیے سیلاب میں اترتے ہیں؟
  • عمران خان کے بیٹے گرفتار ہوں تو ہی صحیح وارث بنیں گے : رانا ثناء اللہ 
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • کیا سیاست میں رواداری کی کوئی گنجائش نہیں؟
  • دو عورتیں دو دنیائیں
  • بیساکھیوں کی سیاست۔ مفاہمت یا مجبوری؟
  • اداکارہ مرینہ خان نے اپنی آخری خواہش بتا دی؛ مداح حیران رہ گئے
  • مجلس عزاء میں رہبر کی تصویر لانا سیاست نہیں، علامہ حسن ظفر نقوی