زیلنسکی اور پاکستانی سیاست دان
اشاعت کی تاریخ: 9th, March 2025 GMT
یہ دنیا ہمیشہ سے طاقت کے توازن سیاست کے پیچ وخم اور اقتدار کے کھیل کی اسیر رہی ہے۔ کہیں بڑی طاقتیں اپنے مفادات کے لیے کمزور ریاستوں کو شطرنج کے مہروں کی طرح استعمال کرتی ہیں توکہیں کمزور ملک اپنی بقا کے لیے طاقتوروں کی چوکھٹ پر سر جھکانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کی حالیہ تلخ کلامی نے ایک بار پھر ان رویوں کو نمایاں کردیا ہے جو عالمی سیاست کا حصہ بن چکے ہیں۔ ایک سپر پاور کا رہنما جو سمجھتا ہے کہ دنیا اس کے اشاروں پر ناچنے کے لیے بنی ہے اور ایک چھوٹے ملک کا صدر جو اپنے ملک کے دفاع کی خاطر اپنی عزت نفس کو بھی داؤ پر لگانے کے لیے تیار نظر آتا ہے۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ امریکی صدر نے کسی دوسرے ملک کے رہنما کے ساتھ اس طرح کا برتاؤکیا ہو۔ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جہاں امریکا نے اپنے مفادات کی خاطر دوست اور دشمن کے ساتھ یکساں رویہ اختیار کیا۔ یوکرین جو ایک طویل عرصے سے روس اور مغرب کے درمیان سینڈوچ بنا ہوا ہے ،اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔
زیلنسکی جو ایک مزاحیہ اداکار سے سیاستدان بنے، اب ایک ایسے میدان میں کھڑے ہیں جہاں لفظوں کی جنگ کے ساتھ ساتھ ہتھیاروں کی جنگ بھی لڑی جا رہی ہے۔ ٹرمپ کی طرف سے ان کی قیادت پر کیے جانے والے طنزیہ وار اور زیلنسکی کی بے بسی کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ کمزور ممالک کے رہنماؤں کے پاس اکثر دو ہی راستے ہوتے ہیں یا تو وہ طاقتوروں کی خوشنودی حاصل کریں یا پھر مزاحمت کی راہ اپنائیں جس کے نتائج کی قیمت ان کے عوام کو چکانی پڑتی ہے۔
اگر ہم اس ساری صورتِ حال کو پاکستانی سیاست کے تناظر میں دیکھیں تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے سیاستدانوں نے ماضی کے ان تجربات سے کچھ سیکھا ہے یا نہیں۔ کیا ہم نے اپنی خارجہ پالیسی کو خود مختاری کی راہ پرگامزن کیا ہے یا ہم بھی اب تک طاقتور ممالک کے رحم وکرم پر ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی سیاست آج بھی انھی الجھنوں میں الجھی ہوئی ہے جہاں شخصیات اداروں سے زیادہ طاقتور نظر آتی ہیں اور قومی مفاد ذاتی مفاد کے نیچے دب کر رہ جاتا ہے۔
پاکستانی سیاست میں بھی کئی ایسے کردار موجود ہیں جو زیلنسکی کی طرح اقتدار میں تو آ گئے مگر انھیں اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ اقتدار کی کرسی کانٹوں سے بھری ہوتی ہے۔ انھیں بھی اندرونی اور بیرونی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے انھیں بھی طاقتور قوتوں کے اشاروں پر چلنا پڑتا ہے اور اگر وہ ان اشاروں کو نظر اندازکرنے کی کوشش کریں تو ان کے خلاف ایسی فضا ہموار کر دی جاتی ہے کہ انھیں اقتدار سے الگ ہونے میں دیر نہیں لگتی۔
تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان میں کئی رہنما عوامی حمایت کے ساتھ آئے مگر جب انھوں نے اپنے فیصلے خود کرنے کی کوشش کی تو یا تو انھیں عبرت کا نشان بنا دیا گیا یا پھر انھیں اپنی بقا کے لیے سودے بازی پر مجبور ہونا پڑا۔
ٹرمپ اور زیلنسکی کی گفتگو میں جو غرور اور بے بسی نظر آئی وہ پاکستان کی سیاست میں بھی عام ہے۔ طاقتور اورکمزورکا یہ کھیل ہمارے ہاں بھی جاری ہے۔ یہاں بھی کچھ سیاستدان خود کو ناقابلِ تسخیر سمجھتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے بغیر ملک کا نظام نہیں چل سکتا کہ عوام کی محبت ان کے ساتھ ہے اور انھیں کوئی چیلنج نہیں کرسکتا۔
دوسری طرف کچھ ایسے بھی ہیں جو ہرحال میں اقتدار میں رہنے کے لیے ہر قسم کی مصلحت اختیار کر لیتے ہیں۔ وہ یہ تسلیم کرچکے ہیں کہ انھیں کب بولنا ہے اور کب خاموش رہنا ہے کب سر اٹھانا ہے اور کب جھک جانا ہے۔ ان کے نزدیک سیاست نظریات کا نام نہیں بلکہ اقتدار حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔
پاکستان میں ایک عرصے سے سیاستدانوں کی وفاداریاں بدلنے اصولوں کی قربانی دینے اور وقتی فائدے کے لیے دیرپا نقصانات کو نظر انداز کرنے کی روایت قائم ہے۔ خارجہ پالیسی ہو یا داخلی معاملات یہاں فیصلے اکثر ان بنیادوں پر کیے جاتے ہیں جو عارضی طور پر فائدہ تو دے سکتی ہیں لیکن طویل المدتی نقصان کی بنیاد بھی رکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بین الاقوامی محاذ پر اب تک کوئی مضبوط مقام حاصل نہیں کر سکے۔
پاکستان میں بھی کئی مواقع ایسے آئے جب قیادت کو ایک واضح موقف اختیار کرنا تھا مگر یا تو دباؤ میں آ کر فیصلے تبدیل کردیے گئے یا پھر وقتی فائدے کے لیے کمزور سودے بازی کر لی گئی۔ امریکا، چین، روس، سعودی عرب،ایران ان تمام ممالک کے ساتھ تعلقات میں ہمیں کئی بار ایسے لمحات کا سامنا کرنا پڑا جہاں خود مختاری اور مفادات میں توازن برقرار رکھنا ضروری تھا مگر اکثر ہم یہ توازن برقرار نہیں رکھ سکے۔
ہم کبھی ایک جانب جھک جاتے ہیں اورکبھی دوسری جانب اور اس دوران قومی مفاد پیچھے رہ جاتا ہے۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستانی سیاستدان ٹرمپ اور زیلنسکی کے حالیہ مکالمے سے کچھ سیکھیں گے؟ کیا وہ اس حقیقت کو تسلیم کریں گے کہ دنیا میں عزت صرف انھیں ملتی ہے جو اپنے اصولوں پر قائم رہتے ہیں جو کمزور نہیں بلکہ مضبوط نظر آتے ہیں؟ کیا ہماری قیادت یہ سمجھ پائے گی کہ عالمی سیاست میں عزت مانگنے سے نہیں بلکہ اپنی پالیسیوں سے حاصل کی جاتی ہے؟
پاکستانی سیاستدانوں کے لیے سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ انھیں اپنے فیصلے خود کرنے کی عادت ڈالنی ہوگی، انھیں خارجہ پالیسی کو کسی اور کے اشاروں پر نہیں بلکہ قومی مفاد کے مطابق ترتیب دینا ہوگا۔ انھیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ وقتی فائدے کے لیے کی جانے والی سودے بازی آنے والے وقت میں نقصان کا سبب بنے گی۔
یہی وقت ہے کہ پاکستانی قیادت اپنی داخلی اور خارجی پالیسیوں پر از سرِ نو غور کرے وہ رویے بدلے جو ہمیں کمزور ظاہرکرتے ہیں وہ حکمتِ عملی اپنائے جو ہماری خود مختاری کو مضبوط کرے۔ اگر ہم نے تاریخ سے سبق نہ سیکھا اگر ہم نے ماضی کی غلطیاں دہرانا جاری رکھا تو ہمیں بھی ایسے ہی حالات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جن کا سامنا آج زیلنسکی کررہے ہیں۔ ہم کب تک دوسروں کے فیصلوں پر اپنی سیاست کرتے رہیں گے؟ کب تک ہم طاقتوروں کے سامنے سر جھکانے کو سفارت کاری کا نام دیتے رہیں گے؟
یہ وقت فیصلہ کرنے کا ہے۔ ہمیں اپنی سیاست میں وہ شعور اور خود داری پیدا کرنی ہوگی جو ہمیں کمزور کے بجائے طاقتورکی صف میں کھڑا کر سکے۔ اگر ہم نے یہ نہ کیا تو ہماری سیاست بھی ہمیشہ ایسے ہی رہنماؤں کے گرد گھومتی رہے گی جو زیلنسکی کی طرح بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں اور ٹرمپ جیسے طاقتور ان پر اپنی مرضی تھوپتے رہیں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستانی سیاست زیلنسکی کی سیاست میں نہیں بلکہ کا سامنا کرنے کی کے ساتھ میں بھی ہے اور کے لیے اگر ہم ہیں جو
پڑھیں:
متنازع نوبیل امن انعام سیاست کی نذر
پروفیسر شاداب احمد صدیقی
ٹرمپ کی ناکامی نے نوبیل انعام پر نئی بحث کا دروازہ کھول دیا ہے ۔ٹرمپ کا نوبیل امن انعام کا خواب چکنا چور ہو گیا ہے ۔
دل کے ارمان آنسوؤں میں بہہ گئے
نوبیل امن انعام جسے دنیا بھر میں انسانی خدمت، عالمی یکجہتی اور پرامن جدوجہد کی علامت سمجھا جاتا ہے ، اس سال ایک بار پھر سیاست، قیاس آرائی اور مالیاتی مفادات کے بھنور میں الجھتا دکھائی دے رہا ہے ۔ دنیا کے سب سے باوقار انعام کے فیصلے پر اس بار جو سوال اٹھے ہیں، وہ نہ صرف کمیٹی کی ساکھ بلکہ عالمی شفافیت کے اصولوں پر بھی گہرا اثر ڈال سکتے ہیں۔ وینزویلا کی اپوزیشن لیڈر ماریا کورینا ماچاڈو کو 2025 کا نوبیل امن انعام دیے جانے کے اعلان نے غیر متوقع طور پر عالمی ذرائع ابلاغ، بیٹنگ مارکیٹس اور کرپٹو پلیٹ فارمز میں ہلچل مچا دی۔
نوبیل انسٹی ٹیوٹ اس وقت ممکنہ معلوماتی لیک کی تحقیقات کر رہا ہے کیونکہ انعام کے اعلان سے چند گھنٹے قبل ہی بین الاقوامی بیٹنگ پلیٹ فارم پولی مارکیٹ (Polymarket)پر ماچاڈو کے جیتنے کے امکانات میں حیران کن اضافہ دیکھا گیا۔ نارویجن میڈیا کی رپورٹ کے مطابق جمعہ کی رات اوسلو کے وقت کے مطابق نصف شب تک ماچاڈو کی کامیابی کے امکانات محض 0۔6 فیصد تھے ، مگر کچھ ہی لمحوں میں یہ امکانات 31۔5 فیصد سے بڑھ کر 73۔5 فیصد تک جا پہنچے ۔ یہ اچانک اضافہ اس لیے غیر معمولی سمجھا گیا کیونکہ نہ عالمی ماہرین اور نہ ہی کسی بڑے میڈیا ادارے نے انہیں ممکنہ فاتح کے طور پر پیش کیا تھا۔
رپورٹس کے مطابق ایک نئے صارف، جس کی شناخت صرف 6741 کے نام سے ہوئی، نے رات 12 بجے کے فوراً بعد ماچاڈو کے حق میں 1,500امریکی ڈالر کی بیٹ لگائی، اور ساتھ ہی سوڈان کے ایمرجنسی رسپانس رومز کے خلاف 1,085امریکی ڈالر کی بیٹ لگی۔ ماچاڈو کے لیے اچانک اتنی بڑی سرمایہ کاری، اور اتنے کم وقت میں بیٹنگ شرحوں میں اضافہ، مالیاتی منڈیوں میں شکوک و شبہات کو جنم دینے کے لیے کافی تھا۔یہ پلیٹ فارم "پولی مارکیٹ” دراصل ایک کرپٹوکرنسی پر مبنی پیش گوئی بازار ہے ، جہاں دنیا بھر کے صارفین سیاسی، معاشی، سماجی اور عالمی واقعات پر پیش گوئیاں کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ سوال کہ "کون سا رہنما نوبیل امن انعام جیتے گا؟”، "کیا کسی ملک میں انتخاب وقت پر ہوگا؟” یا "کیا عالمی تیل کی قیمت بڑھ جائے گی؟”ان جیسے سوالات پر لوگ بیٹنگ کرتے ہیں اور اپنی رقم لگاتے ہیں۔ اس پلیٹ فارم پر کی جانے والی ٹرانزیکشنز blockchain technology کے ذریعے ہوتی ہیں، جو ڈیٹا کو خفیہ کوڈ میں بدل کر محفوظ رکھتی ہے ۔ یہی عمل اینکرپشن (Encryption)کہلاتا ہے ، جبکہ پلیٹ فارم پر ہونے والی ہر سرگرمی کی مسلسل نگرانی کی جاتی ہے ، جسے مانیٹرنگ (Monitoring)کہا جاتا ہے ۔ اس طرح یہ سارا نظام بظاہر شفاف اور محفوظ دکھائی دیتا ہے ، لیکن جب کوئی اندرونی معلومات رکھنے والا فرد غیر معمولی وقت پر بڑی رقم لگا دے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ شفاف نظام درحقیقت اندرونی معلومات کے غلط استعمال سے متاثر تو نہیں؟
ڈیجیٹل والٹس (Digital Wallets) اس نظام کا بنیادی حصہ ہیں، جہاں صارفین اپنی کرپٹو رقم مثلاً USDC یا Ethereum جیسی ڈیجیٹل کرنسی محفوظ رکھتے ہیں۔ یہ والٹس روایتی بینک اکاؤنٹ کی طرح ہوتے ہیں لیکن یہ صرف ڈیجیٹل دنیا میں موجود رہتے ہیں۔ ان والٹس میں ہر لین دین بلاک چین پر ریکارڈ ہوتا ہے اور ہر ڈیٹا بلاک اپنے پچھلے بلاک سے جڑا ہوتا ہے ، جس سے کسی قسم کی تبدیلی یا جعل سازی تقریباً ناممکن ہو جاتی ہے ۔ تاہم، مالیاتی اور سیاسی فیصلوں کے ساتھ ان پلیٹ فارمز کا بڑھتا ہوا تعلق اب شفافیت پر سوالات کھڑا کر رہا ہے ۔ فنانشل ٹائمز نے اس معاملے پر تفصیلی رپورٹ جاری کی، جس کے مطابق نوبیل انعام کے اعلان سے چند گھنٹے قبل بیٹنگ کے یہ اعداد و شمار غیر معمولی سرگرمی کے زمرے میں آتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ممکنہ طور پر کسی نے کمیٹی کے اندرونی فیصلے یا ابتدائی نتائج تک قبل از وقت رسائی حاصل کی۔ نوبیل انسٹی ٹیوٹ نے بھی نارویجن میڈیا رپورٹس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ان معلومات کی مکمل چھان بین کر رہا ہے تاکہ کسی قسم کے مفاداتی تصادم یا لیک کی گنجائش باقی نہ رہے ۔
پانچ رکنی نوبیل کمیٹی میں ایک انسانی حقوق کے وکیل، ایک خارجہ پالیسی ماہر، اور ناروے کے تین سابق وزراء شامل تھے ۔ ان کے مطابق حتمی فیصلہ پیر کے روز کیا گیا، جبکہ جمعہ کے روز اعلان سے صرف چند منٹ قبل ماچاڈو کو باضابطہ اطلاع دی گئی۔ یہ وقت کا وہی لمحہ تھا جب پولی مارکیٹ پر شرحوں میں غیر فطری اضافہ ہوا، جو محض اتفاق قرار نہیں دیا جا سکتا۔امریکی سیاست میں اس اعلان کے فوری اثرات محسوس کیے گئے ۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ، جنہیں خود نوبیل امن انعام کا ممکنہ امیدوار سمجھا جا رہا تھا، جمعرات کی شام تک بیٹنگ چارٹس پر صرف 4۔4 فیصد امکانات کے ساتھ موجود تھے ۔ روسی اپوزیشن لیڈر الیکسی ناوالنی کی بیوہ یولیا ناوالنایا 9 فیصد کے ساتھ سب سے آگے تھیں، جب کہ ماچاڈو محض 0۔6 فیصد پر تھیں۔ اس کے باوجود ان کے امکانات کا اچانک 73۔5 فیصد تک پہنچ جانا ظاہر کرتا ہے کہ کہیں نہ کہیں معلومات کا کوئی بہاؤ ضرور ہوا ہے ۔
روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے اس اعلان کے بعد نوبیل انعام کی ساکھ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ اعزاز ماضی میں کئی ایسے افراد کو دیا گیا جنہوں نے امن کے لیے کچھ نہیں کیا۔ انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ دنیا کے بحرانوں کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کر رہے ہیں۔ دوسری جانب ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر پیوٹن کے بیان پر اظہارِ تشکر کیا اور کہا کہ امن کے لیے میری کوششوں کو عالمی سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے ۔یہ تمام واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ نوبیل انعام اب محض اخلاقی یا انسانی خدمت کی علامت نہیں رہا بلکہ اس کے گرد سیاست، سفارت اور مالیاتی اثرات کا جال بُنا جا چکا ہے ۔ آج جہاں بلاک چین جیسے جدید نظاموں کو شفافیت اور ایمانداری کی علامت سمجھا جاتا ہے ، وہیں انہی پلیٹ فارمز کا استعمال طاقتور حلقوں کے ہاتھ میں ایک نیا سیاسی ہتھیار بن چکا ہے۔ یہ بھی قابلِ غور ہے کہ نوبیل انسٹی ٹیوٹ جیسے اداروں کی معلومات اب ڈیجیٹل دور میں مکمل طور پر محفوظ نہیں رہیں۔ اگرچہ کمیٹی کے فیصلے اینکرپٹڈ اور مانیٹرڈ نظام کے تحت کیے جاتے ہیں، مگر جدید ہیکنگ ٹیکنالوجی، لیکس اور کرپٹو مارکیٹس کے باہمی تعلق نے اس تصور کو کمزور کر دیا ہے کہ عالمی اعزازات ہمیشہ غیر جانبدار رہتے ہیں۔نوبیل کمیٹی کے لیے یہ لمحہِ فکریہ ہے کہ وہ اپنے فیصلوں کے طریقہ کار کو جدید ڈیجیٹل خطرات سے ہم آہنگ کرے ۔ اگر واقعی یہ انعام امن، خدمت اور سچائی کی بنیاد پر دیا جاتا ہے ، تو اسے ایسے پلیٹ فارمز سے منسلک مشکوک مالی سرگرمیوں سے مکمل طور پر الگ کرنا ہوگا۔ کمیٹی کو چاہیے کہ وہ مستقبل میں اپنے فیصلے اینکرپٹڈ، مانیٹرڈ اور مکمل شفاف طریقے سے عوامی سطح پر دستاویزی بنائے تاکہ کسی قسم کے مفاد یا سیاسی اثر کا امکان باقی نہ رہے ۔دنیا بھر کے تحقیقی، صحافتی اور اکیڈمک اداروں کو بھی اس سمت میں کردار ادا کرنا ہوگا۔ نوبیل انعام ایک ایسا اعزاز ہے جس کا تعلق انسانیت کی مشترکہ امنگوں سے ہے ۔ اگر اس میں سیاست، بیٹنگ اور مالی مفادات کا عنصر آئے تو یہ انعام اپنی روح کھو دے گا۔ شفافیت، اخلاقی جرات اور ادارہ جاتی احتساب ہی وہ ستون ہیں جن پر نوبیل کا وقار قائم رہ سکتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔