بلوچستان میں ایک ایسا واقعہ رونما ہوا ہے جس نے انسانیت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے مگر اس کی سنگینی اور بے رحمی نے ہر حساس دل کو مضطرب کردیا ہے۔
ایک عورت جس نے اپنی پسند سے شادی کر لی، اس کو اور اس کے شوہر کو بے رحمی سے قتل کر دیا گیا اور یہ فیصلہ اجتماعی طور پر جرگہ میں کیا گیا اور اس سفاکانہ عمل میں پچاس لوگ ملوث تھے۔ یہ محض کوئی وقتی اشتعال کا نتیجہ نہ تھا بلکہ صدیوں پر محیط جبر، جاہلیت اور قبائلی غیرت کے نام پر قائم ایک گھناؤنے کلچر کی بھیانک تصویر ہے۔
وہ عورت جس کا قصور صرف یہ تھا کہ اس نے شاید جینے کی خواہش کی ،کسی مرد کی اجازت کے بغیر کوئی فیصلہ کیا ،کسی کی مرضی کے خلاف کوئی قدم اٹھایا، اُسے ایک سبق بنانے کے لیے ظلم کی اس انتہا سے گزارا گیا جو الفاظ میں بیان نہیں کی جا سکتی۔
یہ واقعہ اونر کلنگ کے نام پر ہوا، ایک ایسا لفظ جو مہذب دنیا میں کبھی قابلِ فخر نہ ہو سکتا تھا، مگر یہاں اسے غیرت کی چادر میں لپیٹ کر جائز قرار دیا جاتا ہے۔ اس لفظ میں نہ عزت ہے نہ غیرت اور نہ ہی انصاف۔ یہ ایک ایسا سفاک عمل ہے جو صرف عورتوں کے لیے ہے تاکہ ان پر اختیار باقی رکھا جا سکے تاکہ وہ ہر فیصلہ کسی مرد کے حکم سے جوڑ کر دیکھیں اور اپنی مرضی کو گناہ سمجھ کر اس کا گلا گھونٹ دیں۔
وہ پچاس مرد جو اس عورت کے گرد جمع تھے، وہ افراد نہ تھے، وہ اس سماج کی نمایندگی کر رہے تھے جو عورت کو انسان نہیں سمجھتا۔ ان کی آنکھوں میں خون تھا مگر افسوس کہ کسی نے بھی یہ نہ سوچا کہ اس عورت کا خون بھی سرخ ہے، اس کی چیخیں بھی انسان کی چیخیں ہیں اور اس کے وجود کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا ان کے وجود کا۔
اس واقعہ کی سب سے بھیانک بات یہ ہے کہ یہ صرف ایک فرد کی ہلاکت نہیں بلکہ ایک پوری سوچ ،ایک پوری نسل کے گلے میں خوف کا طوق ڈالنے کی کوشش ہے۔ یہ اعلان ہے کہ عورت اگر زبان کھولے گی تو اسے دفن کر دیا جائے گا۔ وہ زبان جو زندگی سے محبت کرے، جس میں سوال پیدا ہوں، جس میں آزادی کا خواب جنم لے، اسے نوچ کر باہر نکال دیا جائے گا اور یہ سب کچھ اس سماج کی خاموشی کی چھاؤں میں ہوتا ہے جہاں لوگ حقیقت دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ سچ سن کر کانوں پر ہاتھ رکھ لیتے ہیں اور مظلوم کے ساتھ کھڑے ہونے کے بجائے ظالم کی طاقت سے مرعوب ہو جاتے ہیں۔
یہ معاملہ قانون سے کہیں زیادہ اخلاق کا ہے، یہ جنگ عدالتی نظام سے پہلے ضمیر کی ہے، اگر ایک سماج میں پچاس مرد مل کر ایک عورت کو مار سکتے ہیں اور کوئی شخص آواز نہیں اٹھاتا تو یہ صرف قاتلوں کی سزا کا سوال نہیں بلکہ پورے سماج کے ضمیرکی موت ہے۔ اس عورت کا جسم جس پر ظلم ہوا اب تو مٹی تلے ہے، مگر سوال زندہ ہے۔ کیا عورت مرد کی ذاتی ملکیت ہے؟ کیا اس کی زندگی کا فیصلہ صرف وہی کرسکتے ہیں جن کے ہاتھ میں طاقت ہے؟ کیا اس کے خواب، اس کی خواہشیں، اس کی شناخت بے معنی ہے؟ ہم کب تک ان سوالوں سے منہ موڑتے رہیں گے؟
یہ واقعہ بلوچستان کا ہے مگر اس کی گونج پورے ملک میں سنی جانی چاہیے۔ یہ ایک علاقائی مسئلہ نہیں، یہ ایک قومی المیہ ہے۔ اگر ہم اسے صرف ایک قبائلی رسم کے طور پر دیکھ کر نظر انداز کریں گے تو ہم ظلم کے شریک ہوں گے۔ جب بھی کسی عورت پر ظلم ہوتا ہے پوری انسانیت زخمی ہوتی ہے اور جب انسانیت کو چپ کرا دیا جائے تو صرف قبریں آباد ہوتی ہیں، زندگی نہیں۔
ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں۔ ہم نے تعلیم کو ترقی کا زینہ تو بنایا مگر وہ تعلیم کہاں ہے جو انسان کو انسان بناتی ہے؟ وہ شعور کہاں ہے جو ظلم کو ظلم کہنے کی جرات دیتا ہے؟ ہمارے اسکول، کالج، یونیورسٹیاں کس لیے ہیں، اگر وہاں سے ایسے لوگ نکلتے ہیں جو غیرت کے نام پر قتل کو جائز سمجھتے ہیں؟ ہمیں اپنے بچوں کو صرف مضامین نہیں پڑھانے بلکہ انصاف، برابری اور احترامِ انسانیت کا شعور بھی دینا ہوگا۔ جب تک ہم ان بنیادوں کو نہیں چھیڑتے تب تک صرف قانون بنانے یا مذمت کرنے سے کچھ نہیں بدلے گا۔
ہمیں اس عورت کے لیے آواز بلند کرنی ہوگی، کیونکہ اگر ہم آج نہ بولے تو کل یہ خاموشی ہمارے گھروں تک پہنچے گی۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ عورت کا وقار اس کی آزادی، اس کی حفاظت صرف عورتوں کا مسئلہ نہیں، یہ پوری انسانیت کا معاملہ ہے۔ اگر ایک عورت کی عزت محفوظ نہیں تو کسی کی عزت محفوظ نہیں۔ اگر ایک عورت کی آزادی پامال ہوتی ہے تو پورا سماج قید ہے۔ ہمیں عدالتوں میں صرف انصاف نہیں سماج میں تبدیلی بھی لانی ہے۔
ہمیں اس سوچ کو دفن کرنا ہوگا، جو غیرت کو قتل سے جوڑتی ہے جو مردانگی کو جبر سمجھتی ہے، جو عورت کو جسم، عزت یا صرف خاندان کی ناموس مانتی ہے۔ عورت انسان ہے، مکمل انسان اور اس کی زندگی، اس کے فیصلے، اس کے خواب، اسی قدر اہم ہیں جتنے کسی مرد کے۔ جب تک ہم یہ تسلیم نہیں کریں گے تب تک ایسے واقعات ہوتے رہیں گے اور ہم صرف تحریریں لکھتے رہیں گے، بینرز اٹھاتے رہیں گے مگر کچھ بدلے گا نہیں۔
آخر میں صرف ایک سوال رہ جاتا ہے وہ پچاس مرد اب کہاں ہیں؟ کیا وہ اب بھی آزاد ہیں؟ کیا وہ فخر سے اپنی جیت کا جشن منا رہے ہیں؟ اور ہم کہاں ہیں؟ کیا ہم اب بھی اپنی مصروف زندگیوں میں گم ہیں یا اس عورت کی تکلیف کو اپنا دکھ سمجھنے کے لیے تیار ہیں؟ یہ واقعہ صرف ایک فرد کی موت نہیں، ایک سماج کی روح پر لگنے والا زخم ہے، اگر ہم نے اس زخم پر مرہم نہ رکھا تو کل یہ زخم ناسور بن جائے گا جو ہمارے پورے سماج کو چاٹ جائے گا۔
ایک طرف ہم اس جوڑے اور اپنے سماج کی جہالت کو رو رہے ہیں اور دوسری طرف امریکا کی ریاست لوزیانا کی الیسہ کارسن ہے جس کا نام نہ صرف سائنسی دنیا میں ابھر کر سامنے آیا ہے بلکہ وہ لاکھوں نوجوانوں خصوصاً لڑکیوں کے لیے ایک امید، ایک خواب اور ایک مثال بن چکی ہے، اس کی عمر ابھی بیس کے پیٹے میں ہے مگر وہ دنیا کے ان چند لوگوں میں شامل ہے جو ناسا کی مستقبل کی خلائی مہمات کے لیے خصوصی تربیت حاصل کر رہی ہے اور یہ امکان ظاہرکیا جا رہا ہے کہ وہ مریخ پر قدم رکھنے والی پہلی انسان بنے گی۔
الیسہ کی کہانی صرف خلا میں جانے کی خواہش سے شروع نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک ایسے بچپن سے شروع ہوتی ہے جہاں اس نے محض تین سال کی عمر میں خلا نورد بنے کا خواب دیکھنا شروع کردیا تھا۔ وہ لمحہ اس کی زندگی کا رخ متعین کرنے والا بن گیا۔ اُس نے کم عمری سے ہی فلکیات، فزکس اور خلا سے متعلق علوم میں دلچسپی لینا شروع کردی اور سات سال کی عمر میں ناسا کے اسپیس کیمپ میں شرکت کی۔ بعد ازاں وہ واحد انسان بنی جس نے دنیا کے تمام بڑے اسپیس کیمپس میں شرکت کی ہے۔
الیسہ نے اپنی تعلیم کا رخ بھی انھی خوابوں کے مطابق رکھا۔ اس نے فلکیات، بیالوجی، فزکس اور دیگر سائنسی مضامین میں مہارت حاصل کی اور مختلف زبانیں سیکھیں تاکہ کسی بھی بین الاقوامی مشن میں آسانی سے شامل ہو سکے۔ الیسہ ناسا کی جانب سے مریخ پر بھیجے جانے والے مشن کا حصہ ہونا چاہتی ہے۔
یہ حقیقت قابل غور ہے کہ مریخ پر جانے کا مشن کوئی سیر و تفریح کا سفر نہیں ہوگا۔ یہ ایک نہایت کٹھن، خطرناک اور غیر یقینی سفر ہوگا جس میں واپسی کا کوئی وعدہ نہیں۔ یہ مشن کئی مہینوں پر محیط ہوگا جس میں انسان کو ایک ایسی دنیا میں جانا ہوگا جہاں سختیاں ہوں گی اور زمین سے مختلف ماحول ہوگا۔ وہاں جانے کے لیے جسمانی طاقت سے بڑھ کر ذہنی طاقت درکار ہوگی اور الیسہ ان تمام چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔
الیسہ نہ صرف سائنسی میدان میں خود کو منوا رہی ہے بلکہ وہ نوجوان نسل خاص طور پر لڑکیوں کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ خواب بڑے دیکھو اور ان کے پیچھے لگے رہو۔ وہ اکثر تعلیمی اداروں سیمینارز اور کانفرنسز میں شرکت کرتی ہے جہاں وہ اپنی کہانی سنا کر دوسروں کو متاثر کرتی ہے۔ اس کی شخصیت میں ایک خاص کشش ہے جو نوجوانوں کو حوصلہ دیتی ہے کہ کچھ بھی ممکن ہے بشرطیکہ ارادہ پختہ ہو اور محنت مسلسل ہو۔
الیسہ کی زندگی کا ہر لمحہ اس مقصد کے گرد گھومتا ہے کہ وہ انسانیت کی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز کرے۔ مریخ پر قدم صرف ایک ذاتی کامیابی نہیں ہوگی بلکہ یہ پوری انسانیت کی فتح ہوگی۔ اگر وہ اس سفر میں کامیاب ہوتی ہے تو وہ نہ صرف سائنس میں ایک نیا سنگِ میل عبور کرے گی بلکہ زمین سے باہر زندگی کی تلاش میں بھی ایک نئی راہ کھولے گی۔الیسہ کارسن کا سفر اس بات کی علامت ہے کہ اگر خواب سچے ہوں اور ارادے مضبوط تو آسمان بھی چھوٹا پڑ سکتا ہے۔ اس کی کہانی اس دنیا کے ہر اس بچے لڑکی یا نوجوان کے لیے مشعل راہ ہے جو کسی بڑی منزل کی خواہش رکھتے ہیں۔ مریخ پر انسان کے قدم رکھنے سے پہلے ہی الیسہ نے ہمارے دلوں پر اپنی سوچ عزم اور جدوجہد سے جگہ بنا لی ہے۔ یہ صرف ایک آغاز ہے اور دنیا اس کی کامیابی کا شدت سے انتظار کر رہی ہے۔
کیسا تضاد ہے ہم اپنی بیٹیوں کو اپنی مرضی سے زندگی کا ساتھی نہیں چنے دیتے اور ایسا کرنے پر جان سے مار دیتے ہیں اور مہذب معاشرے اپنی بیٹیوں کو خلا میں بھیجنے کی تیاری کر رہے ہیں اور اس پر فخر کر رہے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ایک عورت زندگی کا کی زندگی رہیں گے میں ایک جائے گا ہوتی ہے رہے ہیں صرف ایک ہیں اور سماج کی رہی ہے اور اس یہ ایک کے لیے
پڑھیں:
Self Sabotage
ایلوڈ کیپ چوج (Eliud Kipchoge) کینیا میں پیدا ہوا‘ اللہ نے اسے ہرن جیسی ٹانگیں اور گھوڑے جیسے پھیپھڑے دیے تھے‘ وہ پورے گاؤں میں سب سے تیز بھاگتا تھا‘ وہ مسلسل سارا دن بھی بھاگ سکتا تھا‘ یہ غیرمعمولی صلاحیت تھی اور اس نے اس صلاحیت سے میرا تھن چیمپیئن بننے کا فیصلہ کیا‘ اس نے جب لوگوں کو اپنے ارادے کے بارے میں مطلع کیا تو سب نے پہلے قہقہہ لگایا اور پھر اسے بتایا میرا تھن گوروں کی اسپورٹس ہے۔
سیاہ فام لوگ یہ نہیں کھیل سکتے‘ ہم ان سے جیت بھی نہیں سکتے‘ ایلوڈ نے وجہ پوچھی تو اسے بتایا گیا‘ گوروں کے پاس پیسہ ہوتا ہے‘ ان کے پاس ٹرینر بھی ہوتے ہیں اور ان کی خوراک بھی ہم سے بہتر ہوتی ہے لہٰذا یہ جی جان سے پریکٹس کرسکتے ہیں‘ اسے یہ بھی بتایا گیا میرا تھن کے سارے ریفری‘ کمنٹیٹرز اور شائقین بھی گورے ہوتے ہیں‘ گورے گوروں کو سپورٹ کرتے ہیں‘ یہ سیاہ فام کو کام یاب نہیں ہونے دیتے‘ تم بھی یہ خواب دیکھنا بند کر دو‘اس کے دوستوں اور بزرگوں نے یہ باتیں اتنی بار دہرائیں کہ یہ اس کے ذہن میں بیٹھ گئیں لیکن اس کے باوجود ایتھلیٹکس اس کا جنون تھا‘ وہ سارا دن بھاگتا رہتا تھا‘ اس کے پاس جوتے نہیں تھے‘ وہ ننگے پاؤں بھی بھاگتا تھا‘ اس کے پاس گراؤنڈ نہیں تھا‘ وہ جنگل میں بھی بھاگتا تھا‘ اس نے میرا تھن میں شریک نہیں ہونا تھا لیکن وہ اس کے باوجود بھی بھاگتا تھا‘ بھاگنا اس کی زندگی تھا۔
وہ فارغ وقت میں جس گراؤنڈ میں بھاگتا تھا وہاں پیٹرک نام کا ایک کوچ نوجوانوں کو پریکٹس کراتا تھا‘ کوچ نے دیکھا ایک سیاہ فام لڑکا کوچنگ کے بغیر اس کے تمام اسٹوڈنٹس سے زیادہ تیز دوڑتا ہے‘ اس نے ایک دن اسے روک کر انٹرویو کیا تو پتا چلا یہ لڑکا غریب خاندان سے تعلق رکھتا ہے‘ دن کے وقت والدین کے ساتھ محنت مزدوری کرتا ہے اور شام کے وقت دوڑنا شروع کر دیتا ہے‘ پیٹرک کو اس پر رحم آ گیا۔
اس نے اسے اپنی کلاس میں شامل کر لیا اور وہ اسے ایتھلیٹس کی بنیادی تکنیکس سکھانے لگا‘ لڑکا پیدائشی اسپورٹس مین تھا‘ یہ بہت جلد تمام تکنیکس سیکھ گیاجس کے بعد پیٹرک نے اس کا نام کینیا کی اگلی میراتھن میں لکھوا دیا‘ وہ میراتھن میں شریک ہوا لیکن ہار گیا‘ اس کی ہار نے کوچ کو ڈسٹرب کر دیا‘کیوں؟ کیوں کہ وہ جانتا تھا اس میں کینیا کے تمام ایتھلیٹس سے زیادہ پوٹینشل ہے‘ اس کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا‘ کوچ نے میراتھن کی ریکارڈنگ منگوائی اور دیکھنا شروع کر دی‘ وہ بار بار ٹیپ دیکھتا تھا اور کیپ چوج کو دیکھتا تھا‘ اس نے نوٹ کیا دوڑتے وقت جوں ہی کوئی گورا کھلاڑی اس کے قریب آتا تھا تو اس کی اسپیڈ کم ہو جاتی تھی جب کہ یہ تمام سیاہ فام کھلاڑیوں کو آسانی سے پیچھے چھوڑ دیتا ہے یوں محسوس ہوتا تھا گورے کو دیکھ کر اس کا گیئر ڈاؤن ہو گیا ہو۔
کوچ بار بار ٹیپ دیکھتا رہا اور یہ سوچتا رہا آخر ایشو کیا ہے؟ یہ گورے کھلاڑی کو دیکھ کر آہستہ کیوں ہو جاتا ہے؟ اس کا سانس کیوں پھول جاتا ہے‘ بار بار ٹیپ دیکھنے کے بعد پتا چلا یہ ذہنی طور پر سفید فام کھلاڑیوں سے خائف ہے‘ یہ ان سے گھبراتا ہے اور اس وجہ سے اس کی اسپیڈ کم ہو جاتی ہے‘ یہ ایک دل چسپ صورت حال تھی‘ کوچ نے اس کا انٹرویو شروع کیا تو پتا چلا اس نے جب بھاگنا شروع کیا تھا تو تمام لوگوں نے اسے بتایا تھا ایتھلیٹکس گوروں کی اسپورٹس ہے‘ اس میں صرف گورے جیتتے ہیں لہٰذا بھاگتے ہوئے جوں ہی کوئی گورا اس کے قریب پہنچتا ہے تو آٹومیٹک اس کی اسپیڈ کم ہو جاتی ہے۔
کوچ نے اسے سمجھانا شروع کیا لیکن صورت حال جوں کی توں رہی‘ کوچ نے مجبوراً اسپورٹس سائیکالوجسٹ سے رابطہ کیا‘ اس نے کیپ چوج کو اسٹڈی کیا تو پتا چلا گوروں کا غلبہ اس کے سب کانشیس میں چلا گیا ہے‘ یہ اب جتنا چاہے کوشش کر لے اس کا سب کانشیس اسے ہلنے نہیں دے رہا‘ سائیکالوجسٹ نے کوچ کو بتایا‘ ہمارے سب کانشیس میں جب کوئی بات بیٹھ جاتی ہے تو پھر ہمارے اندر سیلف سبوتاژ کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے جس کے بعد ہمیں باہر سے کوئی نہیں ہراتا‘ ہم اندر سے ہار جاتے ہیں‘ ہم اندر سے شکست تسلیم کر بیٹھتے ہیں۔
کوچ کو مسئلہ سمجھ آ گیا لہٰذا اس نے کیپ چوج کو سمجھایا تم نے دوڑتے وقت دائیں بائیں نہیں دیکھنا صرف اور صرف اپنے ہدف پر توجہ دینی ہے‘ دوسرا تم نے یہ گنتے رہنا ہے تم نے کتنے سیاہ فام باشندوں کو پیچھے چھوڑا‘ کیپ چوج کوچ کی بات کو سیریس لیتا تھا لہٰذا اس نے یہ مشورہ پلے باندھ لیا اور نتائج نے سب کو حیران کر دیا‘ آپ بھی یہ جان کر حیران رہ جائیں گے یہ ایلوڈ کیپ چوج 2019میں دنیا کا پہلا شخص تھا جس نے 42 اعشاریہ 195 کلومیٹر کی میراتھن دو گھنٹے سے کم وقت میں مکمل کرلی اور یہ ورلڈ ریکارڈ تھا اور اس کے بعد اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا‘ آپ اگر آج اس کے ریکارڈز اور ایوارڈز دیکھیں تو آپ کی آنکھیں اور دماغ تھک جائے گا لیکن اس کے ریکارڈز اور ایوارڈز کی فہرست ختم نہیں ہوگی۔
میں آگے بڑھنے سے قبل آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں میراتھن 42 اعشاریہ 195 کلومیٹر کیوں ہوتی ہے؟ 1908میں کوئین الیگزینڈرا برطانیہ کی ملکہ تھی‘ 1908 میں لندن میں اولمپکس ہوئیں‘ ملکہ نے حکم جاری کیا‘ میرا تھن ونڈسر کاسل کے لان سے اسٹارٹ ہو گی اور وائیٹ سٹی اسٹیڈیم میں رائل باکس کے سامنے ختم ہو گی‘ اس حکم کی دو وجوہات تھیں‘ ملکہ چاہتی تھی جب ریس شروع ہو تو اس کا خاندان ونڈسر کاسل کی کھڑکی سے ریس دیکھ سکے اور جب یہ ختم ہو تو ملکہ اور اس کا خاندان رائل باکس میں جیتنے والے کھلاڑی کو دیکھ سکیں اور دوسری وجہ ملکہ کام یاب کھلاڑی کو سب سے پہلے دیکھنا چاہتی تھی‘ ماہرین نے کھڑکی اور باکس کے درمیان کا فاصلہ ماپا تو یہ 26 میل اور 385 میٹر یعنی 42 اعشاریہ 195کلومیٹر تھا یوں میرا تھن 42 اعشاریہ 195 کلو میٹر ہو گئی‘ میں کیپ چوج کی طرف واپس آتا ہوں۔
ایلوڈ کیپ چوج سب کانشیس کے سیلف سبوتاژ کا شکار تھا‘ اب سوال یہ ہے یہ کیا بلا ہوتی ہے؟ ہمارے دماغ کے دو حصے ہوتے ہیں‘ کانشیس (Concious) اور سب کانشیس (Subconcious) کانشیس صرف معلومات اکٹھی کرتا ہے جب کہ سب کانشیس اسے پراسیس کر کے ہمارے یقین کا حصہ بناتا ہے‘ ہماری زندگی کا نوے فیصد حصہ سب کانشیس کے کنٹرول میں ہوتا ہے‘ ہم مسلمان اور پاکستانی ہیں‘ ہم کیا کر سکتے ہیں اور کیا نہیں یہ سارا ڈیٹا ہمارے بلیو (Believe) سسٹم یا سب کانشیس کاحصہ ہوتا ہے‘ بچوں کا کانشیس اور سب کانشیس پیدائش کے بعد کورا کاغذ ہوتے ہیں‘ ہم سب مل کر اسے بھرتے ہیں یا پر کرتے ہیں‘ بچے ہمیں دیکھ اور سن کر زبان سے لے کر عادتوں تک ہر چیز سیکھتے ہیں اور یہ آگے چل کر ان کا بلیو یعنی یقین بنتا ہے اور یہیں سے ان کی کام یابی اور ناکامی کا سفر شروع ہو تا ہے‘ کیپ چوج کو اس کے ماحول نے اتنی بار گوروں سے ڈرایا تھا‘ اسے اتنی مرتبہ یہ بتایا گیا تھا کہ ایتھلیٹکس گوروں کی اسپورٹس ہے۔
تم سیاہ فام ہو اورتم خواہ کتنا ہی تیز دوڑ لو تم کام یاب نہیں ہو سکتے اور یہ بات بار بار دہرانے کی وجہ سے اس کے سب کانشیس میں چلی گئی جس کے بعد یہ جوں ہی کسی گورے کو دوڑتا ہوا دیکھتا تھا تو اس کا سب کانشیس اسے پیغام دے دیتا تھا تم اس گورے سے نہیں جیت سکتے‘تمہیں زیادہ توانائی ضایع کرنے کی ضرورت نہیں اور اس کے بعد اس کے پھیپھڑے خود بخود ڈھیلے پڑ جاتے تھے اور ٹانگوں کی توانائی کم ہو جاتی تھی یوں اس کے ساتھ بھاگنے والا گورا اس سے آگے نکل جاتا تھا‘ نفسیات کی زبان میں اس عمل کو سیلف سبوتاژ (Self Sabotage) کہتے ہیں یعنی آپ اپنی جیت کو خود ہی ہار میں تبدیل کر دیں‘ آپ اپنی کام یابی کو ناکامی میں بدل دیں یا آپ چھکا مارتے ہوئے جان بوجھ کر آؤٹ ہو جائیں‘ کیپ چوج بھی سیلف سبوتاژ کا شکار ہو گیا تھا‘ اس کے خاندان اور ماحول نے مل کر اس کے دل میں گوروں کا خوف بٹھا دیا تھا جس کے بعد اس کا سب کانشیس اسے گوروں کے مقابلے میں جیتنے نہیں دیتا تھا۔
آپ اگر کیپ چوج کی کہانی توجہ سے پڑھیں تو آپ خود کو بھی سیلف سبوتاژ کا شکار پائیں گے بلکہ رکیے آپ کو پوری قوم سیلف سبوتاژ کا شکار ملے گی‘ آپ کبھی نوٹ کیجیے آپ کو ہر طرف سے ہم ترقی نہیں کر سکتے‘ ہم ٹھیک نہیں ہو سکتے‘ ہم بے ایمان لوگ ہیں‘ ہم میں خداترسی نام کی چیز نہیں‘ ہم بہت گندے ہیں‘ ہم سسٹم نہیں بنا سکتے‘ ہماری حکومت بہت نکمی ہے‘ سارا نظام کرپٹ ہے ‘ ہمیں عدالتوں سے انصاف نہیں ملے گا‘ پاکستان میں کوئی چیز خالص نہیں‘ پولیس بڑی ظالم ہے۔
سیاست دان نالائق اور کرپٹ ہیں‘ مولوی جاہل اور سخت ہیں‘ ہماری فوج بہت کم زور ہے اور ہم سیلاب کنٹرول نہیں کر سکیں گے جیسے فقرے سننے کو ملیں گے‘ آپ کسی جگہ بیٹھ جائیں آپ یہ سوال ضرور سنیں گے پاکستان کا کیا بنے گا‘ کیا ہم ٹھیک ہو جائیں گے اور ہمارا مستقبل کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ‘ آپ حد ملاحظہ کریں‘ ہم نے 10مئی کو جب بھارت کو شکست دی تھی تو پورے ملک نے کہنا شروع کر دیا تھا اگر چین ہماری مدد نہ کرتا تو ہمیں بڑی مار پڑتی‘ یہ کیا ہے؟ یہ سیلف سبوتاژ کی آخری اسٹیج ہے اور اس اسٹیج میں انسان ہو یا ملک یہ اپنا اعتماد مکمل طور پر کھو بیٹھتا ہے اور ہم بدقسمتی سے اس عمل سے گزر رہے ہیں بالخصوص ہماری کرکٹ ٹیم کے سب کانشیس میں یہ بات بیٹھ چکی ہے ہم بھارت سے نہیں جیت سکتے چناں چہ ہم جیتا ہوا میچ بھی ہار جاتے ہیں۔
ہم اگر واقعی زندہ رہنا چاہتے ہیں یا ترقی کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں سیلف سبوتاژ سے باہر آنا ہو گا‘ ہمیں اپنے اوپر اعتماد کرنا ہو گا‘ اپنے قدموں پر کھڑا ہونا ہو گا اگر ایلوڈ کیپ چوج تھوڑی سی حکمت عملی بدل کر کام یاب ہو سکتا ہے تو پھر ہم من حیث القوم یہ کیوں نہیں کر سکتے؟ ہم بھی کر سکتے ہیں بس ہمیں حکمت عملی اور جیت کو اپنا یقین بنانا ہو گا اور پھر چند برسوں میں وہ ہو جائے گا جو ہم نے سوچا بھی نہیں ہو گا۔