Express News:
2025-07-23@04:33:46 GMT

دو عورتیں دو دنیائیں

اشاعت کی تاریخ: 23rd, July 2025 GMT

بلوچستان میں ایک ایسا واقعہ رونما ہوا ہے جس نے انسانیت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے مگر اس کی سنگینی اور بے رحمی نے ہر حساس دل کو مضطرب کردیا ہے۔

ایک عورت جس نے اپنی پسند سے شادی کر لی، اس کو اور اس کے شوہر کو بے رحمی سے قتل کر دیا گیا اور یہ فیصلہ اجتماعی طور پر جرگہ میں کیا گیا اور اس سفاکانہ عمل میں پچاس لوگ ملوث تھے۔ یہ محض کوئی وقتی اشتعال کا نتیجہ نہ تھا بلکہ صدیوں پر محیط جبر، جاہلیت اور قبائلی غیرت کے نام پر قائم ایک گھناؤنے کلچر کی بھیانک تصویر ہے۔

وہ عورت جس کا قصور صرف یہ تھا کہ اس نے شاید جینے کی خواہش کی ،کسی مرد کی اجازت کے بغیر کوئی فیصلہ کیا ،کسی کی مرضی کے خلاف کوئی قدم اٹھایا، اُسے ایک سبق بنانے کے لیے ظلم کی اس انتہا سے گزارا گیا جو الفاظ میں بیان نہیں کی جا سکتی۔

یہ واقعہ اونر کلنگ کے نام پر ہوا، ایک ایسا لفظ جو مہذب دنیا میں کبھی قابلِ فخر نہ ہو سکتا تھا، مگر یہاں اسے غیرت کی چادر میں لپیٹ کر جائز قرار دیا جاتا ہے۔ اس لفظ میں نہ عزت ہے نہ غیرت اور نہ ہی انصاف۔ یہ ایک ایسا سفاک عمل ہے جو صرف عورتوں کے لیے ہے تاکہ ان پر اختیار باقی رکھا جا سکے تاکہ وہ ہر فیصلہ کسی مرد کے حکم سے جوڑ کر دیکھیں اور اپنی مرضی کو گناہ سمجھ کر اس کا گلا گھونٹ دیں۔

وہ پچاس مرد جو اس عورت کے گرد جمع تھے، وہ افراد نہ تھے، وہ اس سماج کی نمایندگی کر رہے تھے جو عورت کو انسان نہیں سمجھتا۔ ان کی آنکھوں میں خون تھا مگر افسوس کہ کسی نے بھی یہ نہ سوچا کہ اس عورت کا خون بھی سرخ ہے، اس کی چیخیں بھی انسان کی چیخیں ہیں اور اس کے وجود کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا ان کے وجود کا۔

 اس واقعہ کی سب سے بھیانک بات یہ ہے کہ یہ صرف ایک فرد کی ہلاکت نہیں بلکہ ایک پوری سوچ ،ایک پوری نسل کے گلے میں خوف کا طوق ڈالنے کی کوشش ہے۔ یہ اعلان ہے کہ عورت اگر زبان کھولے گی تو اسے دفن کر دیا جائے گا۔ وہ زبان جو زندگی سے محبت کرے، جس میں سوال پیدا ہوں، جس میں آزادی کا خواب جنم لے، اسے نوچ کر باہر نکال دیا جائے گا اور یہ سب کچھ اس سماج کی خاموشی کی چھاؤں میں ہوتا ہے جہاں لوگ حقیقت دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ سچ سن کر کانوں پر ہاتھ رکھ لیتے ہیں اور مظلوم کے ساتھ کھڑے ہونے کے بجائے ظالم کی طاقت سے مرعوب ہو جاتے ہیں۔

یہ معاملہ قانون سے کہیں زیادہ اخلاق کا ہے، یہ جنگ عدالتی نظام سے پہلے ضمیر کی ہے، اگر ایک سماج میں پچاس مرد مل کر ایک عورت کو مار سکتے ہیں اور کوئی شخص آواز نہیں اٹھاتا تو یہ صرف قاتلوں کی سزا کا سوال نہیں بلکہ پورے سماج کے ضمیرکی موت ہے۔ اس عورت کا جسم جس پر ظلم ہوا اب تو مٹی تلے ہے، مگر سوال زندہ ہے۔ کیا عورت مرد کی ذاتی ملکیت ہے؟ کیا اس کی زندگی کا فیصلہ صرف وہی کرسکتے ہیں جن کے ہاتھ میں طاقت ہے؟ کیا اس کے خواب، اس کی خواہشیں، اس کی شناخت بے معنی ہے؟ ہم کب تک ان سوالوں سے منہ موڑتے رہیں گے؟

یہ واقعہ بلوچستان کا ہے مگر اس کی گونج پورے ملک میں سنی جانی چاہیے۔ یہ ایک علاقائی مسئلہ نہیں، یہ ایک قومی المیہ ہے۔ اگر ہم اسے صرف ایک قبائلی رسم کے طور پر دیکھ کر نظر انداز کریں گے تو ہم ظلم کے شریک ہوں گے۔ جب بھی کسی عورت پر ظلم ہوتا ہے پوری انسانیت زخمی ہوتی ہے اور جب انسانیت کو چپ کرا دیا جائے تو صرف قبریں آباد ہوتی ہیں، زندگی نہیں۔

ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں۔ ہم نے تعلیم کو ترقی کا زینہ تو بنایا مگر وہ تعلیم کہاں ہے جو انسان کو انسان بناتی ہے؟ وہ شعور کہاں ہے جو ظلم کو ظلم کہنے کی جرات دیتا ہے؟ ہمارے اسکول، کالج، یونیورسٹیاں کس لیے ہیں، اگر وہاں سے ایسے لوگ نکلتے ہیں جو غیرت کے نام پر قتل کو جائز سمجھتے ہیں؟ ہمیں اپنے بچوں کو صرف مضامین نہیں پڑھانے بلکہ انصاف، برابری اور احترامِ انسانیت کا شعور بھی دینا ہوگا۔ جب تک ہم ان بنیادوں کو نہیں چھیڑتے تب تک صرف قانون بنانے یا مذمت کرنے سے کچھ نہیں بدلے گا۔

ہمیں اس عورت کے لیے آواز بلند کرنی ہوگی، کیونکہ اگر ہم آج نہ بولے تو کل یہ خاموشی ہمارے گھروں تک پہنچے گی۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ عورت کا وقار اس کی آزادی، اس کی حفاظت صرف عورتوں کا مسئلہ نہیں، یہ پوری انسانیت کا معاملہ ہے۔ اگر ایک عورت کی عزت محفوظ نہیں تو کسی کی عزت محفوظ نہیں۔ اگر ایک عورت کی آزادی پامال ہوتی ہے تو پورا سماج قید ہے۔ ہمیں عدالتوں میں صرف انصاف نہیں سماج میں تبدیلی بھی لانی ہے۔

ہمیں اس سوچ کو دفن کرنا ہوگا، جو غیرت کو قتل سے جوڑتی ہے جو مردانگی کو جبر سمجھتی ہے، جو عورت کو جسم، عزت یا صرف خاندان کی ناموس مانتی ہے۔ عورت انسان ہے، مکمل انسان اور اس کی زندگی، اس کے فیصلے، اس کے خواب، اسی قدر اہم ہیں جتنے کسی مرد کے۔ جب تک ہم یہ تسلیم نہیں کریں گے تب تک ایسے واقعات ہوتے رہیں گے اور ہم صرف تحریریں لکھتے رہیں گے، بینرز اٹھاتے رہیں گے مگر کچھ بدلے گا نہیں۔

آخر میں صرف ایک سوال رہ جاتا ہے وہ پچاس مرد اب کہاں ہیں؟ کیا وہ اب بھی آزاد ہیں؟ کیا وہ فخر سے اپنی جیت کا جشن منا رہے ہیں؟ اور ہم کہاں ہیں؟ کیا ہم اب بھی اپنی مصروف زندگیوں میں گم ہیں یا اس عورت کی تکلیف کو اپنا دکھ سمجھنے کے لیے تیار ہیں؟ یہ واقعہ صرف ایک فرد کی موت نہیں، ایک سماج کی روح پر لگنے والا زخم ہے، اگر ہم نے اس زخم پر مرہم نہ رکھا تو کل یہ زخم ناسور بن جائے گا جو ہمارے پورے سماج کو چاٹ جائے گا۔

ایک طرف ہم اس جوڑے اور اپنے سماج کی جہالت کو رو رہے ہیں اور دوسری طرف امریکا کی ریاست لوزیانا کی الیسہ کارسن ہے جس کا نام نہ صرف سائنسی دنیا میں ابھر کر سامنے آیا ہے بلکہ وہ لاکھوں نوجوانوں خصوصاً لڑکیوں کے لیے ایک امید، ایک خواب اور ایک مثال بن چکی ہے، اس کی عمر ابھی بیس کے پیٹے میں ہے مگر وہ دنیا کے ان چند لوگوں میں شامل ہے جو ناسا کی مستقبل کی خلائی مہمات کے لیے خصوصی تربیت حاصل کر رہی ہے اور یہ امکان ظاہرکیا جا رہا ہے کہ وہ مریخ پر قدم رکھنے والی پہلی انسان بنے گی۔

الیسہ کی کہانی صرف خلا میں جانے کی خواہش سے شروع نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک ایسے بچپن سے شروع ہوتی ہے جہاں اس نے محض تین سال کی عمر میں خلا نورد بنے کا خواب دیکھنا شروع کردیا تھا۔ وہ لمحہ اس کی زندگی کا رخ متعین کرنے والا بن گیا۔ اُس نے کم عمری سے ہی فلکیات، فزکس اور خلا سے متعلق علوم میں دلچسپی لینا شروع کردی اور سات سال کی عمر میں ناسا کے اسپیس کیمپ میں شرکت کی۔ بعد ازاں وہ واحد انسان بنی جس نے دنیا کے تمام بڑے اسپیس کیمپس میں شرکت کی ہے۔

 الیسہ نے اپنی تعلیم کا رخ بھی انھی خوابوں کے مطابق رکھا۔ اس نے فلکیات، بیالوجی، فزکس اور دیگر سائنسی مضامین میں مہارت حاصل کی اور مختلف زبانیں سیکھیں تاکہ کسی بھی بین الاقوامی مشن میں آسانی سے شامل ہو سکے۔ الیسہ ناسا کی جانب سے مریخ پر بھیجے جانے والے مشن کا حصہ ہونا چاہتی ہے۔

 یہ حقیقت قابل غور ہے کہ مریخ پر جانے کا مشن کوئی سیر و تفریح کا سفر نہیں ہوگا۔ یہ ایک نہایت کٹھن، خطرناک اور غیر یقینی سفر ہوگا جس میں واپسی کا کوئی وعدہ نہیں۔ یہ مشن کئی مہینوں پر محیط ہوگا جس میں انسان کو ایک ایسی دنیا میں جانا ہوگا جہاں سختیاں ہوں گی اور زمین سے مختلف ماحول ہوگا۔ وہاں جانے کے لیے جسمانی طاقت سے بڑھ کر ذہنی طاقت درکار ہوگی اور الیسہ ان تمام چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔

الیسہ نہ صرف سائنسی میدان میں خود کو منوا رہی ہے بلکہ وہ نوجوان نسل خاص طور پر لڑکیوں کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ خواب بڑے دیکھو اور ان کے پیچھے لگے رہو۔ وہ اکثر تعلیمی اداروں سیمینارز اور کانفرنسز میں شرکت کرتی ہے جہاں وہ اپنی کہانی سنا کر دوسروں کو متاثر کرتی ہے۔ اس کی شخصیت میں ایک خاص کشش ہے جو نوجوانوں کو حوصلہ دیتی ہے کہ کچھ بھی ممکن ہے بشرطیکہ ارادہ پختہ ہو اور محنت مسلسل ہو۔

الیسہ کی زندگی کا ہر لمحہ اس مقصد کے گرد گھومتا ہے کہ وہ انسانیت کی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز کرے۔ مریخ پر قدم صرف ایک ذاتی کامیابی نہیں ہوگی بلکہ یہ پوری انسانیت کی فتح ہوگی۔ اگر وہ اس سفر میں کامیاب ہوتی ہے تو وہ نہ صرف سائنس میں ایک نیا سنگِ میل عبور کرے گی بلکہ زمین سے باہر زندگی کی تلاش میں بھی ایک نئی راہ کھولے گی۔الیسہ کارسن کا سفر اس بات کی علامت ہے کہ اگر خواب سچے ہوں اور ارادے مضبوط تو آسمان بھی چھوٹا پڑ سکتا ہے۔ اس کی کہانی اس دنیا کے ہر اس بچے لڑکی یا نوجوان کے لیے مشعل راہ ہے جو کسی بڑی منزل کی خواہش رکھتے ہیں۔ مریخ پر انسان کے قدم رکھنے سے پہلے ہی الیسہ نے ہمارے دلوں پر اپنی سوچ عزم اور جدوجہد سے جگہ بنا لی ہے۔ یہ صرف ایک آغاز ہے اور دنیا اس کی کامیابی کا شدت سے انتظار کر رہی ہے۔

کیسا تضاد ہے ہم اپنی بیٹیوں کو اپنی مرضی سے زندگی کا ساتھی نہیں چنے دیتے اور ایسا کرنے پر جان سے مار دیتے ہیں اور مہذب معاشرے اپنی بیٹیوں کو خلا میں بھیجنے کی تیاری کر رہے ہیں اور اس پر فخر کر رہے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ایک عورت زندگی کا کی زندگی رہیں گے میں ایک جائے گا ہوتی ہے رہے ہیں صرف ایک ہیں اور سماج کی رہی ہے اور اس یہ ایک کے لیے

پڑھیں:

کیا سیاست میں رواداری کی کوئی گنجائش نہیں؟

ہم اتنا کیوں سخت دل ہو گئے ہیں کہ رحم دلانہ رویوں سے ہی ناطہ توڑ لیا ہے اور انسانی ہمدردی کے جذبے سے ہی عاری ہو گئے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ میں عمران خان کے طرزِ سیاست اور ان کی غیر جمہوری سوچ کا ناقد ہوں مگر میں پی ٹی آئی کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو بھی غلط کہتا ہوں۔

کئی بار کہہ چکا ہوں کہ ہندوستان کے خلاف جنگ میں اﷲ نے ہمیں جو فتح نصیب کی ہے، اسے پوری قوم کو اکٹھا کرنے، اتحاد اور یکجہتی پیدا کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے اور اس ضمن میں پہلے قدم کے طور پر پی ٹی آئی کی تمام خواتین کو رہا کر دینا چاہیے۔

 اخبار میں پڑھا کہ ڈاکٹر یاسمین راشد صاحبہ جیل میں زیادہ بیمار ہو گئی ہیں تو میں نے لکھا کہ ڈاکٹر صاحبہ خاتون بھی ہیں، عمر رسیدہ بھی ہیں اور علیل بھی ہیں لہٰذا انھیں انسانی بنیادوں پر رہا کر دیا جائے۔ میرا خیال تھا کہ سیاسی اختلاف کے باوجود حکمران پارٹی کے لوگ بھی اس تجویز سے اتفاق کریں گے، مگر یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا کہ پی ٹی آئی کے مخالفین نے میری تجویز پر نہ صرف تنقید کی بلکہ اس معمّر خاتون کے بارے میں توہین آمیز زبان استعمال کی، جو افسوسناک ہے۔

کچھ لوگوں نے ان کے 9 مئی کے جرم کا ذکر کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ 9 مئی کو جب پی ٹی آئی کے ورکر لاہور میں جناح ہاوس جلارہے تھے اور ہمارے شہداء کی شبیہوں اور یادگاروں کو تباہ کررہے تھے تو میرا خون کھول رہا تھا، اُس وقت میں نے فوری طور پر لکھا تھا کہ جناح ہاؤس کی سیکیوریٹی کے ذمّے داروں کو فوری طور پر برخاست کردینا چاہیے۔

اگر میں موقعہ پر سیکیوریٹی کا ذمّے دار ہوتا تو شرپسندوں کے خلاف ہر قسم کی فورس استعمال کرکے انھیں منتشر ہونے پر مجبور کرتا۔ بہرحال جو شرپسند موقعہ پر موجود تھے ان کا ٹرائیل مکمل کرکے انھیں عبرتناک سزا دلوائی جائے۔ مگر اس سلسلے میں انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں، مجرموں کے درمیان ان کے اثرورسوخ اور contacts کی بنیاد پر کوئی فرق روا نہ رکھا جائے۔

کون نہیں جانتا کہ موقعۂ واردات پر موجودگی بڑا جرم قرار پاتی ہے، پی ٹی آئی ہی کی دو اہم خواتین تو کور کمانڈر ہاؤس کے اندر موجود تھیں۔مگر وہ دونوں اِس وقت آزاد ہیں۔ اور ایک تو پھر سے سیاست میں پوری طرح متحرّک ہے، مگر ڈاکٹر یاسمین راشد معمّر بھی ہیں اور بیمار بھی۔ اس کے باوجود جیل میں ہیں۔ اس کا کیا جواز ہے؟ کیا فراخدلی اور رواداری کا یہ تقاضا نہیں تھا کہ ڈاکٹر صاحبہ کو ان کی عمر اور بیماری کے پیشِ نظر رہا کردیا جاتا۔ آخر ایسا کیوں نہیں کیا جارہا۔ کیا سیاست میں انسانی ہمدردی کا داخلہ ممنوع ہوتا ہے۔ کیا سیاست میں رواداری کی کوئی گنجائش نہیں ہے؟

اس ملک میں پہلے تو ایسا نہیں ہوتا تھا، ایوب خان نے جماعتِ اسلامی پر پابندی لگا دی اور اس کے امیر مولانا مودودیؒ کو جیل میں بند کردیا۔ مگر جب دشمن ملک کے خلاف جنگ میں اُسی ایوب خان نے سیاسی قیادت کا تعاون مانگا تو مولانا مودودی ؒنے ایک لمحے کے لیے بھی ذاتی رنجش کو آڑے نہ آنے دیا۔ اور فوری طور پر اپوزیشن راہنماؤں کے ساتھ ایوب خان کے ساتھ ملاقات کی اور مکمل تعاون فراہم کیا۔

اگر پچھلی نصف صدی میں کسی کو بابائے جمہوریت یا سیاست کا استاد مانا جاتا ہے تو وہ نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم ہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے نوابزادہ صاحب کو پانچ سال گھر میں نظر بند رکھّا مگر انھوں نے جب بھی ضیاء الحق کا نام لیا، جمع کا صیغہ استعمال کیا اور نام کے ساتھ ہمیشہ صاحب بھی لگایا۔ وہ سیاست کے نوواردوں کو بتایا کرتے تھے کہ سیاست میں آپ کا حریف دشمن نہیں ہوتا۔ سیاسی مخالفت کبھی مستقل نہیں ہوتی، اور اس میں کل کا مخالف آج کا اتحادی بھی بن سکتا ہے۔

نوابزادہ صاحب سیاسی مخالفین کے بارے میں کبھی اوئے توئے نہیں کرتے اور نہ کبھی توہین آمیز زبان استعمال کرتے تھے، وہ اپنے کٹڑ مخالفین کے بارے میں بھی انتہائی شائستہ اور شُستہ زبان استعمال کیا کرتے تھے۔ موجودہ سیاستدانوں میں سے اگر نوابزادہ صاحب سے سیاست کی اعلیٰ اقدار کسی نے سیکھی ہیں تو وہ مولانا فضل الرحمن صاحب ہیں۔ وہ ہمیشہ اپنا نقطۂ نظربڑے عمدہ دلائل اور جرأت کے ساتھ بیان کرتے ہیں مگر الفاظ کا بہترین چناؤ کرتے ہیں اور ہمیشہ شائستہ زبان استعمال کرتے ہیں۔

ابھی چند سال پہلے جب ایک انتخابی مہم کے دوران عمران خان گر کر زخمی ہوگئے تھے اور اسپتال میں داخل ہوگئے تو ان کے سب سے بڑے سیاسی حریف میاں نواز شریف صاحب نے اپنی انتخابی مہم معطل کردی اور وہ عمران خان صاحب کی تیمارداری کے لیے خود اسپتال پہنچ گئے تھے۔

2024کے انتخابات میں پی ٹی آئی زیرِ عتاب تھی۔ نہ جانے ’کس کی‘ ہدایات پر پولیس اُن کے امیدواروں کے گھروں پر ریڈ کررہی تھی اور امیدواروں کو گرفتار کیا جارہا تھا۔ میرے آبائی شہر وزیرآباد میں میرے بھائی ڈاکٹر نثار احمد چیمہ مسلم لیگ ن کے امیدوار تھے۔ ان کے مخالف امیدوار کو پولیس جب ہراساں کررہی تھی تو ڈاکٹر نثار چیمہ نے میڈیا کے ذریعے اور میں نے کالموں کے ذریعے مخالف امیدوار کے خلاف ہونے والی پولیس کارروائیوں کی سخت مذمّت کی۔ ڈاکٹر صاحب نے تو واضح طور پر کہا کہ اگر انھیں گرفتاری کا خطرہ ہوتو وہ اپنے انتخابی کاغذات (Nomination papers) مجھے بھجوادیں، میں خود ان کے کاغذات منظور کراؤں گا۔ اسی طرح انتخابی نتائج آنے کے بعد انھوں نے جعلی کامیابی حاصل کرنے سے انکار کردیا اور اپنے سیاسی حریف محترم حامد ناصر چٹھہ کو کامیابی کی مبارکباد دی۔

 سیاسی پارٹیوں کے کارکنوں کو مذکورہ بالا واقعات سے سبق سیکھنا چاہیے اور اپنے طرزِ عمل میں بہتری لانی چاہیے۔ سیاسی مخالفین کو اپنا دشمن ہرگز نہ سمجھیں، ان کی خوشی، غمی میں شریک ہوا کریں اور ان کے ساتھ اچھے سماجی مراسم قائم رکھیں۔ ڈاکٹر نثار چیمہ صاحب انتخابی مہم کے دوران پولیس افسروں کو جب پی ٹی آئی کے امیدواروں کو تنگ کرنے، اور ان کے خلاف کیس درج کرنے یا ان کے گھروں پر ریڈ کرنے سے منع کرتے تو وہ جواب دیتے کہ ’’ہمیں اوپر سے ہدایات ہیں‘‘ اوپر سے اگر غیر قانونی ہدایات ملیں تو سول سرونٹس کا فرض ہے کہ اوپر والوں کو عزّت اور احترام کے ساتھ بتائیں کہ یہ غیر قانونی ہدایات ہیں، ان پر ہم عمل نہیں کرسکیں گے۔ کسی کی بھی ہدایات ہوں مگر کسی سیاسی کارکن کے گھر میں گھس کر ان کا فرنیچر توڑ دینا اور خواتین کی بے حرمتی کرنا انتہائی شرمناک حرکت ہے۔جس پولیس افسر کا ضمیر بالکل مردہ نہیں ہوگیا، وہ ایسی حرکت کبھی نہیں کرتا اور سینئر افسروںسے ملکر اپنا تبادلہ کرالیتا ہے مگر شہریوں کے ساتھ کوئی ایسی زیادتی نہیں کرتا جس سے اس کی یونیفارم پر داغ لگے اور اس کا پورا محکمہ بدنام ہو۔

ایک بار لاہور پولیس نے ایسی ہی مہم کے دوران ریڈ لائن کراس کردی اور مفکّرِ پاکستان حضرت علّامہ اقبالؒ کے گھر گھس گئی۔ جس پر ہمارے عظیم محسن علّامہ اقبالؒ کی بہو ڈاکٹر جسٹس (ر) ناصرہ جاوید اقبال نے شدید احتجاج کیا۔ اس پر میں نے اس وقت کے آئی جی کو بڑا سخت میسج بھیجا کہ ’’تمہیں اور پوری پنجاب پولیس کو شرم آنی چاہیے۔ جانتے ہو تم نے اُس گھر کی چاردیواری کی حرمت پامال کی ہے کہ یہ ملک پاکستان جن کے خواب کی تعبیر ہے۔ اگر آزادی نہ ملتی تو زیادہ تر پولیس افسرآر ایس ایس کے گھروں میں نوکر ہوتے یا ہندو پولیس افسروں کے اردلی ہوتے‘‘ اُس وقت کے آئی جی کوفوراً غلطی کا احساس ہوگیا اور اس نے جسٹس صاحبہ سے معافی مانگ لی۔

 بہت سے لوگوں کی طرح مجھے بھی توقّع تھی کہ میاں نواز شریف صاحب اپنی پرانی وضعداری اور رواداری کے باعث اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے ڈاکٹر یاسمین راشد صاحبہ کو رہا کروائیں گے۔ اگر انھوں نے ایسا نہیں کیا تو یہ حیران کن ہے ۔ پی ٹی آئی کے مخالفین نے بھی ڈاکٹر صاحبہ کے بارے میں نامناسب زبان استعمال کی ہے، جب کہ پی ٹی آئی کے حامی اور ورکر بھی مریم نواز صاحبہ کے بارے میں نامناسب زبان استعمال کرتے ہیں، جس پر انھیں شرم آنی چاہیے۔

عدم برداشت، تنگدلی، بیہودگی ، غیراخلاقی اور غیرشائستہ زبان نے پاکستانی سیاست کا چہرہ مکروہ اور بدصورت بنادیا ہے۔ سیاست کا حُسن، وقار اور اعتبار بحال کرنے کے لیے سیاسی قائدین اور ورکروں کو اس کا چہرہ ، برداشت، تحمّل، رواداری، فراخدلی، باہمی احترام اور انسانی ہمدردی کے پھولوں سے کشید کیے گئے پانی سے دھونا ہوگا۔ سیاسی قائدین کا فرض ہے کہ وہ اپنے ورکروں کی صحیح تربیّت کریں۔

آج کے حکمران ٹھنڈے دل سے سوچیں اور یہ ذہن میں رکھّیں کہ ہم اس عظیم ترین راہبر و راہنماؐ کے پیروکار ہیں جس نے اپنے ساتھ ظلم اور زیادتی کرنے والوں سے بدلے نہیں لیے۔انھیں معاف کردیا تھا۔ اﷲ اور رسولؐ اﷲ نے معاف کردینے کو زیادہ پسند فرمایا ہے، کیا ہم بیمار اور معمّر خواتین کے معاملے میں بھی اﷲ اور رسولؐ کے احکامات ماننے اور انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کرنے کے لیے تیار نہیں؟

متعلقہ مضامین

  • راولپنڈی میں ونٹیج کا عشق، ویسپا سائیڈ کار اور سنہ 70 کا موپیڈ
  • زندگی صر ف ایک بار جینے کو ملی ہے!
  • کیا سیاست میں رواداری کی کوئی گنجائش نہیں؟
  • ’’ سیاسی بیانات‘‘
  • بیساکھیوں کی سیاست۔ مفاہمت یا مجبوری؟
  • سینیٹ انتخابات اور عوام کی امیدیں
  • پرانے وقتوں کے بچیوں کے وہ نام جو آج بھی مستعمل، برطانیہ میں کونسا مبارک نام سب سے زیادہ مقبول
  • اگر عورتیں بھی غیرت کے نام پر قتل شروع کردیں تو ایک بھی مرد نہ بچے؛ ہانیہ عامر
  •  بجٹ تشویش اور بے چینی کا باعث بن گیا ہے!