ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے امریکا سے مذاکرات کے دباﺅ قبول کرنے سے انکار کردیا
اشاعت کی تاریخ: 9th, March 2025 GMT
تہران/لندن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔09 مارچ ۔2025 )ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا کہ وہ امریکہ سے مذاکرات کے دباﺅکو قبول نہیں کریں گے کیونکہ اس کا مقصد ایران کے میزائل پروگرام اور خطے میں اس کے اثر و رسوخ کو محدود کرنا ہے برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق حکومتی عہدیداروں کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے آیت اللہ علی خامنہ نے مذاکرات پر اصرار کرنے والی ہٹ دھرم حکومتوں پر تنقید کرتے ہوئے یورپی ممالک کو بے شرم اور اندھا قرار دیا ہے.
(جاری ہے)
انہوں نے کہاکہ حقیقت یہ ہے کہ مذاکرات پر اصرار کرنے والی ہٹ دھرم حکومتیں مسائل حل نہیں کرنا چاہتیں بلکہ ہم پر برتری حاصل کرنا چاہتی ہیں انہوں نے کہاکہ مذاکرات اس لیے ہونے چاہییں تاکہ وہ مذاکرات کرنے والے دوسرے فریق پر اپنی مرضی مسلط کر سکیں آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ جو مذاکرات امریکہ چاہتا ہے وہ ایران کے جوہری پروگرام تک محدود نہیں ہوں گے وہ اپنی توقعات ایران کی دفاعی اور بین الاقوامی صلاحیتوں کے حوالے سے بڑھا رہے ہیں جو کہ ایران پوری نہیں کرسکتا وہ کہیں گے کہ فلاں شخص سے نہ ملو آپ کے میزائل کی رینج زیادہ نہیں ہونی چاہیے. آیت اللہ خامنہ ای نے سرکاری عہدیداران کے ساتھ اپنی گفتگو میں امریکی صدر کا کوئی ذکر نہیں کیا لیکن انہوں نے یورپی طاقتوں کو ضرور تنقید ک نشانہ بنایا ہے ان کا کہنا تھا کہ یورپی طاقتیں کہتی ہیں کہ ایران نے ماضی میں جوہری معاہدے میں شامل اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں کیا انہوں نے اپنی ذمہ داریاں پوری کی ہیں؟ جب امریکی معاہدے سے نکل گیا تو یورپی ممالک نے وعدہ کیا کہ آپ اپنی ذمہ داریاں پوری کریں گے لیکن آپ نے اپنا وعدہ توڑ دیااپنے خطاب میں آیت اللہ خامنہ ای نے امریکہ کا نام لیے بغیر کہا کہ ایک بدمعاش حکومت ان پر مذاکرات کے لیے زور دے رہی ہے لیکن ان کے مذاکرات کا مقصد مسائل کا حل نہیں بلکہ اپنی مرضی دوسرے فریق پر مسلط کرنا ہے. خامنہ ای کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب ایک دن قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو ایک خط بھیجا ہے جس میں تہران کے تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے جوہری پروگرام کو محدود کرنے اور اس معاہدے کی جگہ نیا معاہدہ کرنے کی پیشکش کی گئی تھی خامنہ ای نے کہا کہ امریکی مطالبات نہ صرف عسکری نوعیت کے ہوں گے بلکہ اس کا ایران کے خطے میں اثر و رسوخ پر فرق پڑے گا. انہوں نے کہا کہ یہ دفاعی صلاحیتوں، بین الاقوامی معاملات میں ایرانی اہلیت کے بارے میں ہوں گے انہوں نے کہاکہ وہ ایران پر زور دیں گے کہ کچھ نہ کرے، کچھ مخصوص لوگوں سے نہ ملے، کسی خاص مقام پر نہ جائے، کچھ مخصوص اشیا تیار نہ کرے، میزائل رینج ایک مخصوص حد سے زیادہ نہ ہو کیا کوئی خود مختیار ملک یہ سب تسلیم کر سکتا ہے؟ آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ اس قسم کے مذاکرات ایران اور مغرب کے درمیان مسائل کو حل نہیں کر سکتے اگرچہ خامنہ ای نے کسی ملک یا فرد کا نام نہیں لیا لیکن انہوں نے کہا کہ مذاکرات پر دباﺅ ایرانی عوامی رائے پر اثر انداز ہونے کے لیے ڈالا جا رہا ہے. امریکی صدرٹرمپ نے اوول آفس میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران خط کا براہ راست ذکر نہیں کیا تاہم انہوں نے ایک ممکنہ فوجی کارروائی کا عندیہ دیا اور کہاکہ ہمیں ایران سے متعلق ایک صورت حال کا سامنا ہے اور کچھ بہت جلد ہونے والا ہے ان کا یہ عندیہ ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب اسرائیل اور امریکہ دونوں خبردار کر چکے ہیں کہ وہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے نہیں دیں گے جس سے خطے میں عسکری تصادم کے خدشات بڑھ گئے ہیں کیونکہ تہران یورینیم کو تقریباً جوہری ہتھیاروں کے معیار تک افزودہ کر رہا ہے. ایران کی جانب سے تقریباً جوہری ہتھیاروں کے معیار کی سطح تک یورینیم کی افزودگی میں تیزی سے اضافہ ٹرمپ پر مزید دباﺅ ڈال رہا ہے جبکہ ٹرمپ بارہا کہہ چکے ہیں کہ وہ ایران کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہیں جبکہ واشنگٹن دوسری جانب تہران کی تیل کی فروخت کو نشانہ بناتے ہوئے سخت پابندیوں کا نفاذ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے آیت اللہ خامنہ ای نے آیت اللہ علی خامنہ خامنہ ای نے کہا کہ انہوں نے کہا مذاکرات کے وہ ایران ایران کے نہیں کر
پڑھیں:
‘انہوں نے اپنا دماغ کھو دیا ہے’ ٹرمپ نے ایلون مسک سے مفاہمت کے امکان کو مسترد کردیا
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایلون مسک کے ساتھ اپنی سخت زبانی تکرار کے کچھ ہی گھنٹوں بعد آئندہ کسی مفاہمت کے امکان کو مسترد کردیا۔
انہوں نے اے بی سی نیوز سے ٹیلی فونک گفتگو میں بتایا، ‘آپ کا مطلب وہ آدمی ہے جس نے اپنا دماغ کھو دیا ہے؟’ انہوں نے سوال کیا اور کہا کہ وہ خاص طور پر اس وقت ایلون مسک سے بات کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔
یہ بھی پڑھیے: ایلون مسک اور ٹرمپ میں لفظی جنگ، ٹیسلا کو 152 ارب ڈالر کا تاریخی نقصان
ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ مسک ان سے بات کرنا چاہتے ہیں، لیکن وہ فی الحال مسک سے بات کرنے کے لیے تیار نہیں۔
یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب کئی گھنٹوں کی تلخ کلامی کے بعد ایلون مسک نے ڈونلڈ ٹرمپ سے تعلقات بحال کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ ایسے میں یہ خبر بھی سامنے آئی تھی کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور ایلون مسک کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ہونا طے ہوچکا ہے۔
تاہم ٹرمپ کے بیان نے ایسی کسی مفاہمت کی کی امید کو مسترد کردیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: ایلون مسک امریکی صدر کے خلاف ہوگئے، ڈونلڈ ٹرمپ کے بجٹ بل کو ’قابل نفرت‘ قرار دے دیا
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ٹیسلا کے سربراہ ایلون مسک کے درمیان لفظی جنگ شدت اختیار کر گئی ہے، جس کے باعث ٹیسلا کے شیئرز میں 14 فیصد کمی دیکھی گئی، اور کمپنی کو 152 ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا جو اس کی تاریخ کا سب سے بڑا جھٹکا ہے۔
ٹرمپ نے جمعرات کو اوول آفس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایلون مسک کی کمپنیوں سے سرکاری معاہدے واپس لینے پر غور کر رہے ہیں۔ انہوں نے مسک پر الزام عائد کیا کہ وہ بجٹ بل میں الیکٹرک گاڑیوں (EV) کے لیے دی جانے والی سبسڈی کے خاتمے پر ناراض ہیں۔
ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا ویب سائٹ ٹروتھ سوشل پر لکھا کہ ایلون مجھے برداشت نہیں کر پا رہا تھا، میں نے اسے عہدے سے ہٹا دیا، میں نے اس کا EV مینڈیٹ بھی ختم کر دیا جس سے لوگوں کو وہ گاڑیاں خریدنی پڑ رہی تھیں جو وہ لینا ہی نہیں چاہتے تھے۔
یہ بھی پڑھیے: ٹرمپ نے ناسا کے لیے ایلون مسک کے اتحادی جیرڈ آئزک مین کی نامزدگی واپس لے لی
ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ ایلون اور میری دوستی اچھی تھی، لیکن اب شاید ایسا نہ رہے۔
ایلون مسک نے اس پر فوری ردعمل دیتے ہوئے X (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا کہ اگر میں نہ ہوتا تو ٹرمپ الیکشن ہار جاتے، ڈیموکریٹس ایوان نمائندگان میں قابض ہوتے، اور سینیٹ میں ریپبلکنز کا تناسب 51-49 ہوتا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایلون مسک تکرار ڈونلڈ ٹرمپ مفاہمت