زکوٰۃ کی رقم ایسی تنظیموں یا اداروں کو نہ دی جائے جنہیں حکومت نے کالعدم قرار دیا ہو،ڈاکٹرراغب نعیمی
اشاعت کی تاریخ: 9th, March 2025 GMT
لاہور:
رمضان المبارک میں زکوٰۃ، صدقہ فطر اور فدیہ صوم کی ادائیگی کے حوالے سے لوگوں میں کافی سوالات پائے جاتے ہیں۔ زکوٰۃ کن افراد کو دینی چاہیے، صدقہ فطر کی مقدار کیا ہونی چاہیے، اور فدیہ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ ان تمام امور پر روشنی ڈالتے ہوئے اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین اور جامعہ نعیمیہ لاہور کے سربراہ ڈاکٹر راغب حسین نعیمی نے ایکسپریس نیوز سے خصوصی بات چیت کی۔
انہوں نے بتایا کہ زکوٰۃ اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک اہم فریضہ ہے اور قرآن و حدیث میں اس کی سخت تاکید کی گئی ہے۔ زکوٰۃ ان افراد پر فرض ہوتی ہے جن کے پاس مقررہ نصاب سے زائد مال ایک سال تک موجود رہے۔ چاندی کے حساب سے نصاب 55 تولے (تقریباً 613 گرام) ہے، جس کی موجودہ قیمت اسٹیٹ بینک کے مطابق تقریباً 80,000 روپے ہے۔ اگر کسی کے پاس ایک سال تک 80,000 یا اس سے زیادہ کی رقم موجود ہو، تو اسے ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی۔
مویشیوں پر زکوٰۃ کے حوالے سے انہوں نے وضاحت کی کہ جو جانور چراگاہ میں مفت چرتے ہوں، ان پر زکوٰۃ لاگو ہوتی ہے۔ ہر 100 بکریوں میں سے ایک بکری زکوٰۃ میں دی جائے گی، اور ہر 40 بکریوں کے اضافے پر مزید ایک بکری دینی ہوگی۔ تجارتی مقاصد کے لیے پالے گئے جانوروں پر ان کی مجموعی مالیت کے حساب سے ڈھائی فیصد زکوٰۃ فرض ہوگی۔
زکوٰۃ کی تقسیم کے حوالے سے انہوں نے واضح کیا کہ قرآن میں آٹھ مستحقین کا ذکر ہے، جن میں فقرا، مساکین، زکوٰۃ اکٹھا کرنے والے، غلاموں کی آزادی، قرضدار، اللہ کی راہ میں خرچ، مسافر اور نئے مسلمان شامل ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ زکوٰۃ دیتے وقت اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ وہ صرف ان افراد یا اداروں کو دی جائے جو شرعی اصولوں پر پورا اترتے ہوں۔ اگر کسی ادارے کا شرعی بورڈ موجود نہیں ہے، تو اسے زکوٰۃ دینا مناسب نہیں ہوگا۔
رمضان المبارک میں کئی غیر مسلم افراد بھی راشن یا امداد وصول کرتے ہیں۔ اس حوالے سے ڈاکٹر راغب نعیمی نے وضاحت کی کہ زکوٰۃ صرف مسلمانوں کے لیے مخصوص ہے اور غیر مسلموں کو نہیں دی جا سکتی، البتہ صدقہ و خیرات یا حکومت کے فلاحی پروگراموں کے ذریعے ان کی مدد کی جا سکتی ہے۔
صدقہ فطر کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کی مقدار کا تعین کھانے پینے کی عادات پر منحصر ہے۔ عام طور پر فی کس کم از کم 220 روپے مقرر کیے گئے ہیں، جبکہ جو لوگ زیادہ استطاعت رکھتے ہیں، وہ کھجور، منقہ یا دیگر اجناس کے حساب سے زیادہ رقم ادا کر سکتے ہیں۔ اگر کسی کے ہاں عید سے پہلے بچہ پیدا ہو جائے، تو اس کا صدقہ فطر بھی ادا کرنا ہوگا، جبکہ مہمانوں پر صدقہ فطر لازم نہیں ہے۔
فدیہ کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ جو افراد بیماری یا کمزوری کے باعث روزہ رکھنے کی استطاعت نہیں رکھتے اور آئندہ بھی رکھنے کے قابل نہیں ہوں گے، وہ فدیہ ادا کریں گے۔ فدیہ کی مقدار بھی صدقہ فطر کے برابر ہوگی، یعنی ایک روزے کا فدیہ 220 روپے اور پورے رمضان کا 6600 روپے ہوگا۔ تاہم، صحت مند افراد کو بلاعذر روزہ چھوڑنے سے اجتناب کرنا چاہیے، کیونکہ نبی کریمﷺ کی حدیث کے مطابق، بغیر کسی شرعی عذر کے چھوڑے گئے روزے کا کفارہ ساری زندگی روزے رکھنے سے بھی ادا نہیں ہوسکتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ زکوٰۃ اور صدقات دیتے وقت اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ رقم ایسی تنظیموں یا اداروں کو نہ دی جائے، جنہیں حکومت نے کالعدم قرار دیا ہو۔ محکمہ داخلہ پنجاب نے اس سال 84 ایسی تنظیموں کی فہرست جاری کی ہے، جن پر پابندی عائد کی جا چکی ہے۔ عوام کو چاہیے کہ وہ اپنی زکوٰۃ اور عطیات ایسی تنظیموں کو دیں جو واقعی مستحق افراد کی فلاح و بہبود میں کام کر رہی ہوں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ایسی تنظیموں کے حوالے سے کے حساب سے کہ زکو ۃ
پڑھیں:
خسارے میں چلنے والے قومی اداروں کی نجکاری ملکی معیشت کی بہتری اورترقی کے لئے ناگزیر ہے، وزیراعظم
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 23 جولائی2025ء)وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ خسارے میں چلنے والے قومی اداروں کی نجکاری ملکی معیشت کی بہتری اور ترقی کے لئے ناگزیر ہے،نجکاری کے عمل کو موثر ، جامع اور مستعدی سے مکمل کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہے،منتخب اداروں کی نجکاری میں تمام قانونی مراحل اور شفافیت کے تقاضے پورے کئے جائیں۔وہ بدھ کو یہاں سرکاری ملکیتی اداروں کی نجکاری کی پیشرفت سے متعلق جائزہ اجلاس کی صدارت کررہے تھے۔اجلاس میں وفاقی وزیر پاور ڈویڑن سردار اویس خان لغاری، وفاقی وزیر اقتصادی امور احد خان چیمہ، چیئرمین نجکاری کمیشن محمد علی، وزیر مملکت برائے خزانہ و ریلوے بلال اظہر کیانی اور دیگر متعلقہ سرکاری افسران اور اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔(جاری ہے)
وزیراعظم نے کہا کہ قومی اداروں کی بیش قیمت اراضی پر ناجائز قبضہ کسی صورت قابل قبول نہیں،نجکاری کے مراحل میں قومی اداروں کی ملکیت میں بیش قیمت اراضی کے تصفیہ میں ہر ممکن احتیاط ملحوظ خاطر رکھی جائے ،مذکورہ اداروں کی مرحلہ وار نجکاری کے اہداف مارکیٹ کے معاشی ماحول کے مطابق مقرر کئے جائیں تاکہ قومی خزانے کو ممکنہ نقصان سے ہر صورت بچایا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ نجکاری کے مراحل میں سرخ فیتیاور غیر ضروری عناصر کا خاتمہ کرنے کیلئے نجکاری کمیشن کو قانون کے مطابق مکمل خود مختاری دی جائے گی، تمام فیصلوں پر مکمل اور موثر انداز میں عملدرآمد یقینی بنایا جائے ،نجکاری کمیشن میں جاری کام کی پیشرفت کی باقاعدگی سے خود نگرانی کروں گا،نجکاری کے مراحل اور اداروں کی تشکیل نو میں پیشہ ور ماہرین کی مشاورت اور بین الاقوامی معیار کو برقرار رکھا جائے۔وزیراعظم کو 2024 میں نجکاری لسٹ میں شامل کئے گئے اداروں کی نجکاری پر پیشرفت پر بریفنگ دی گئی۔وزیراعظم کو بتایا گیا کہ نجکاری کمیشن منتخب اداروں کی مرحلہ وار نجکاری میں قانونی، مالیاتی اور شعبہ جاتی تقاضوں کو مد نظر رکھ رہا ہے ،منتخب اداروں کی مرحلہ وار نجکاری کو کابینہ سے منظور شدہ پروگرام کے تحت مقررہ وقت میں مکمل کیا جائے گا،پی آئی اے، بجلی کی ترسیل کار کمپنیز (ڈسکوز) سمیت نجکاری کی لسٹ میں شامل تمام اداروں کی نجکاری کو مقررہ معاشی، اداراجاتی اور انتظامی اہداف کے مطابق مکمل کیا جائے گا۔