Express News:
2025-09-18@13:56:52 GMT

قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں

اشاعت کی تاریخ: 9th, March 2025 GMT

یہ سچ ہے کہ موجودہ حکومت جس کے روح رواں اس وقت جناب شہباز شریف ہیں 2024 کے انتخابات کے نتائج کے بعداس پوزیشن میں نہ تھے کہ اکیلے ہی حکومت بناپائیں۔انھیں ملک کے حالات کی وجہ سے حکومت بنانے کے لیے مجبور کیا گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب ملک کے معاشی حالات انتہائی دگرگوں تھے اوردیوالیہ ہوجانے کا خوف ہمارے سروں پر طاری تھا۔ایسے میں اکثریت حاصل کرنے والی تحریک انصاف نے بھی حکومت بنانے سے انکار کردیا تھا۔

پاکستان پیپلزپارٹی جس نے ملک کے ایک صوبہ میں واضح اکثریت حاصل کرلی تھی مگر خواہش کے باوجود وفاق میں حکومت بنانے میں عدم دلچسپی ظاہر کردی اوراس طرح پاکستان مسلم لیگ نون ہی واحد آپشن رہ گیا تھا جسے اس کام پر راضی ورضامند کرلیا گیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی شدید اختلافات کے باوجود آج بھی اس حکومت کو قائم رکھنے کے لیے اپنے کاندھے بدستور فراہم کررہی ہے۔

بد لے میں اس نے آئینی عہدے بھی حاصل کرلیے اور آصف علی زرداری کے لیے ایک بار پھر صدر کاعہدہ اورمنصب، سینیٹ میں چیئرمین شپ بھی حاصل کرلی اور اس طرح زرداری صاحب کی ممکنہ خرابی صحت اورغیرفعال ہوجانے کی صورت میں یہ عہدہ اپنے پاس ہی رکھنے کا آپشن بھی حاصل کرلیا۔موجودہ دستور کے مطابق صدرمملکت کی غیر موجود گی میں چیئرمین سینیٹ ہی اس عہدے اورمنصب کا اہل تصور کیاجاتا ہے۔چاروں صوبوں میں اپنی مرضی کے گورنر اور سینیٹ کی چیئرمین شپ کے ساتھ ساتھ صدر مملکت کا عہدہ حاصل کرلینا کوئی چھوٹی موٹی کامیابی نہیں ہے۔

اسی لیے اگر صدر زرداری کو سیاسی بساط اورشطرنج کا ماہر کہاجائے تو شاید غلط بھی نہ ہوگا۔ موقع اورحالات کے مطابق چالیں چلنے کاہنر ہمارے یہاں صرف زرداری صاحب ہی کو آتا ہے۔دوراندیشی اورموقعہ شناسی میںاُن کے پائے کا ہمارے یہاں ابھی تک کوئی اور سیاست دان پیدا ہی نہیں ہوا۔

وہ جب تک صدر مملکت کے عہدے پر براجمان رہیں گے میاں شہبازشریف حکومت کو شاید ہی کوئی خطرہ لاحق ہو۔اُن کے چلے جانے کے بعد بلاول زرداری کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہاجاسکتا ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرینگے۔ فی الحال پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اُن کا وزیراعظم بننے کا خواب پورا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا شاید اسی وجہ سے وہ مصلحتاً بیک فٹ پرہیں۔

میاں شہبازشریف حکومت نے اپنا ایک سال خیروخوبی کے ساتھ گزار لیا ہے۔ معاشی طور پر جو مشکلات تھیں وہ کچھ کم ہوگئی ہیں مگر مکمل طور پرختم نہیں ہوئی ہیں۔ قوم خزانے میں اگر مانگے تانگے کے ڈالرز موجود نہ ہوں تو حالات ہرگز ایسے نہ رہیں جیسے ابھی نظر آرہے ہیں۔ سعودی عرب ، یواے ای اوربرادر دوست ملک چین ہم پر سے مہربانیوں کے ہاتھ اُٹھا لیںتو ہمیں لگ پتاجائے گا کہ ہم اس وقت کہاں کھڑے ہیں۔یہ درست ہے کہ ہمارے معاشی حالات بہتر ہوئے ہیں۔

ساتھ ہی ساتھ وزیرخزانہ محمد اورنگ زیب کی ذاتی کاوشوں کے سبب ہم IMF سے سات ارب ڈالرز کا قرضہ لینے میں کامیاب ہوپائے ہیں۔گزشتہ برس بجٹ کے اعلان کے موقعے پر حکومت نے اپنے اخراجات کم کرنے کا عندیہ دیا تھا مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حکومت اپنے اس وعدے پرعمل کرنے میں نہ صرف ناکام ہوگئی ہے بلکہ اس نے اپنے اخراجات مزید بڑھا بھی دیے ہیں۔

عوام پر ٹیکس پر ٹیکس لگا کرقربانی مانگنے کا کہہ کرخود کوئی قربانی دینے کو تیار نہیں۔ سب سے پہلے اپنے رفقاء وزرا ء اورارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں بے تحاشہ اضافہ کردیاگیا۔یہ اضافہ دس پندرہ فیصد نہیں بلکہ یکمشت کئی کئی گنا کردیاگیا۔جو ارکان آج سے پہلے ڈیڑھ دو لاکھ لے رہے تھے اس اضافے کے بعد پانچ سے دس لاکھ لینے لگے۔ یہی حال ججوں کے معاوضہ کا بھی کردیاگیا۔ 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد ججوں کی تعداد میں بھی تقریبا دگنا اضافہ کردیاگیا اوراسطرح قومی بجٹ پر اس مد میں زبردست اضافی مالی بوجھ ڈال دیاگیا۔آئی ایم ایف سے قرضہ کیاملا ، حکمرانوں کے ہاتھ فوراً کھل گئے ۔

عوام کو تو ہرروزقربانی دینے کو کہاجاتاہے جب کہ خود قرض کی مہ پی کر یہ سمجھ رہے ہیں کہ’’ رنگ لاؤے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن۔‘‘حکومت نے ایک لمحہ کے لیے بھی یہ نہیں سوچاکہ یہ اضافہ اس وقت بھلا کیوں ضروری ہے جب ہمارے ملک کے حالات اس چیز کی اجازت بھی نہیں دیتے۔ عوام پرقرضوں کا بوجھ ڈال کرخود اس قسم کی عیاشی کرنا کیونکر جائز اوردرست ہوسکتا ہے۔ دوسری طرف اپنے کاموں کی اشتہاری مہم پربھی اربوں روپے لگا دینا کہاں کی معاشی ترقی ہے۔

وہ کام جن سے ابھی ہمارے قومی خزانے میں کوئی اضافہ بھی نہیں ہوا ہو الٹا خرچ ہی ہوا ہو اس پر اتنے شادیانے بجانا کہاں کی عقلمندی ہے ۔ابھی ہمارے یہاں کوئی سرمایہ کاری بھی نہیں ہوئی ہے ،صرف MOU ہی سائن ہوئے ہیں۔اس زبانی عہدوپیمان پر خوش ہوکر قومی خزانے سے بے تحاشہ پیسہ خرچ کردینا ایک غریب ملک کے حکمرانوں کو بھلا کیسے زیب دے سکتا ہے۔ ابھی ہمارے اپنے سرمایہ کار یہاں پیسہ لگانے سے اجتناب برت رہے ہیں تو ایسی صورت میں کوئی غیر ملکی سرمایہ دار یہاں کیونکر راغب ہوگا۔

حکومت کو اپنی شاہ خرچیوں پر ایک بار پھر نظر دوڑانی چاہیے اورسوچنا چاہیے کہ کیا جس ملک کے چالیس فیصد نوجوان بے روزگار ہوں اورتقریباً  آدھی آبادی کو دووقت کی روٹی نصیب نہیں ہوتی ہے وہاں کے پارلیمنٹرین کو اس قدر بڑی بڑی مراعات سے نوازا جانا کہاں کی بصیرت اوردانشمندی ہے۔

وہ ملک جو اپنے اثاثوں سے زیادہ غیر ملکی قرضوں میں ڈوبا ہوا ہو اوردوست ممالک یا بین الاقوامی مالی اداروں کا مقروض ہووہاں کے وزیر اورارکان پارلیمنٹ اتنی بڑی بڑی تنخواہوں کے کیسے اہل قرار پائیں۔ویسے بھی وہ کسی غریب طبقے سے تعلق نہیں رکھتے ہیں اچھی بھلی عیش کی زندگی گزار رہے ہیں انھیںتو یہ کام بلامعاوضہ ہی کرناچاہیے تھا۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس معاملے میں سارے پارلیمنٹرین ایک پیج پرہیں۔ کسی نے یہ اضافی تنخواہ قبول کرنے سے انکارنہیں کیا ۔لگتا ہی یہی جمہوریت کا حسن ہے جس کے ثمرات سے ہمارے عوام نہیں بلکہ ہمیشہ اُن کے یہ خیر خواہ ہی مستفید ہوتے آئے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بھی نہیں رہے ہیں کے لیے بھی نہ ملک کے

پڑھیں:

ہونیاں اور انہونیاں

پاکستان میں نظام انصاف میں معاشرے سے زیادہ تقسیم نظر آرہی ہے۔ اب صرف باہمی اختلاف نہیں بلکہ عدم برداشت والا تاثر ابھر رہا ہے۔ اسے ملکی نظام انصاف کی کوئی خوشنما شکل قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ اس سے لوگوں کا نظام انصاف پر اعتماد جو پہلے ہی ڈگمگاہٹ کا شکار ہے، مزید ڈگمگانے کے خدشات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتاہے۔

پاکستان کے لوگ پہلے ہی سیاستدانوں کی لڑائیوں سے تنگ ہیں۔ اگر نظام انصاف کے بارے میں وہ یہی تاثر لیتے ہیں، تو یہ کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں تو جو کچھ چل رہا ہے، یہ سب کچھ چونکا دینے والا ہے۔ حال میں جو تین واقعات ہوئے ہیں، ان پر ججز پر بحث و مباحثہ شروع ہے جو اچھی روایت نہیں ہے۔ ہمارے لیے تو عدلیہ کا احترام لازم ہے۔ ججز کے لیے ایسا ہی ہے۔ عوام میں یہ تاثر نہیں پیدا ہونا چاہیے کہ ججز اور وکلا تو کچھ بھی کرسکتے ہیں لیکن عوام ایسا نہیں کرسکتے۔

سب سے پہلے ایمان مزاری اور اسلام آباد ہا ئی کورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کا معاملہ دیکھ لیں۔ کھلی عدالت میں ایک معاملہ ہوا۔ ججز صاحب نے اگلے دن معذرت مانگ لی۔ یہ معاملہ غصہ میں ہوئی گفتگو سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔

میری رائے ہے کہ ایمان مزاری کو معذرت قبول کرلینی چاہیے تھی۔ محترم جج صاحب نے انھیں بیٹی بھی کہا۔ لیکن ایمان مزاری نے اس واقعہ پر سیاست کرنی شروع کر دی جو زیادہ افسوسناک بات ہے۔

ایمان مزاری نے اسلام آباد ہا ئی کورٹ میں جج ثمن رفعت کو چیف جسٹس صاحب کے خلاف ہراسگی کی درخواست دے دی، اس درخواست پر فورا ً تین جج صاحبان پر مشتمل کمیٹی بنا دی۔ یوں صورتحال کس رخ پر جارہی ہے، وہ ہم سب کے سامنے ہے۔

اس سے پہلے اسلام ا ٓباد ہائی کورٹ کے رولز بنانے پر بھی قانونی لڑائی سب کے سامنے تھی۔ سپریم کورٹ میں بھی صورتحال سب کے سامنے ہے۔

 اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک ڈبل بنچ نے جسٹس طارق جہانگیری کو کام کرنے سے روک دیا ہے۔ ان کی ڈگری کا معاملہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں جج کی ڈگری ایک حساس معاملہ ہوتی ہے۔

حال ہی میں ایک رکن قومی اسمبلی جمشید دستی کی ڈگری جعلی نکلی ہے تو الیکشن کمیشن نے اسے ڈس کوالیفائی کر دیا ہے۔ یہ قانونی پہلو بھی درست ہے کہ کسی بھی جج کے خلاف کاروائی کرنے کا واحد فورم سپریم جیوڈیشل کونسل ہے۔

بہرحال قانونی نکات اور تشریحات کے معاملات قانون دان ہی بہتر سمجھ سکتے ہیں اور ججز ہی ان پر فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔

 پاکستان میں خط میں تو ساتھی ججز کوچارج شیٹ کرنے کا طریقہ تو عام ہو چکا ہے۔ اس حوالے سے میڈیا میں خبریں بھی آتی رہی ہیں۔ بہر حال رٹ پٹیشن میں کسی جج صاحب کو کام کرنے سے روکنے کا اپنی نوعیت کا یہ پہلا معاملہ ہے۔

لیکن میرا خیال ہے کہ آئین وقانون میں جعلی ڈگری کے ایشو پر کسی جج کوکام سے روکنے کی کوئی ممانعت بھی نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آئین اس کی اجازت دیتا ہے۔ اس لیے مجھے فیصلہ میں کوئی قانونی رکاوٹ نظر نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی یہ ایک پنڈورا بکس کھول دے گا۔

پاکستان میں سیاسی تقسیم بہت گہری ہے اور حالیہ چند برسوں میں اس تقسیم میں نفرت ‘عدم برداشت اس قدر بڑھی ہے کہ معاملہ دشمنی کی حدود میں داخل ہو چکا ہے۔ خصوصاً پی ٹی آئی نے جس انداز میں مہم جوئیانہ سیاست کا آغاز کیا ‘اس کا اثر پاکستان کے تمام مکتبہ ہائے فکر پر پڑا ہے۔

پاکستان میں نظام انصاف کے حوالے سے باتیں ہوتی رہتی ہیں تاہم یہ باتیں زیادہ تر سیاسی و عوامی حلقے کرتے تھے ‘زیادہ سے زیادہ وکلا حضرات ذرا کھل کر بات کرتے تھے لیکن نظام انصاف کے اندر اختلافات اور تقسیم کی باتیں باہر کم ہی آتی تھیں لیکن حالیہ کچھ عرصے سے جہاں بہت سی چیزوں میں بدلاؤ آیا ہے ‘یہاں بھی صورت حال میں تبدیلی آئی ہے۔

اب پاکستان کے عام شہری کو بھی بہت سے معاملات سے آگاہی مل رہی ہے کیونکہ بحث و مباحثہ مین اسٹریم میڈیا میںہی نہیں بلکہ سوشل میڈیا تک پہنچ چکے ہیں۔ سوشل میڈیا کے بارے میں تو آپ کو پتہ ہے کہ چھوٹی سی بات بھی کتنی بڑی بن جاتی ہے اور گلی محلوں تک پھیل جاتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے جرت مندانہ فیصلے کریں. عمران خان کا چیف جسٹس کو خط
  • لیڈی ڈاکٹر نے نالے میں چھلانگ لگا لی، وجہ کیا بنی؟
  • ہونیاں اور انہونیاں
  • گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد
  • اگر آپ سمجھتے ہیں ہم ٹوٹ جائیں گے یہ آپ کی غلط فہمی ہے.عمران خان کا آرمی چیف کے نام پیغام
  • انیق ناجی نے ولاگنگ سے دوری کی وجہ خود ہی بتا دی ، پنجاب حکومت پر تنقید
  • سچ بولنے والوں پر کالے قانون "پی ایس اے" کیوں عائد کئے جارہے ہیں، آغا سید روح اللہ مہدی
  • لاڈلا بیٹا شادی کے بعد ’’کھٹکنے‘‘ کیوں لگتا ہے؟
  • غیر دانشمندانہ سیاست کب تک؟
  • ہمارے احتجاج کے باعث قاضی فائز کو ایکسٹینشن نہ ملی، علی امین