Express News:
2025-07-06@23:58:53 GMT

قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں

اشاعت کی تاریخ: 9th, March 2025 GMT

یہ سچ ہے کہ موجودہ حکومت جس کے روح رواں اس وقت جناب شہباز شریف ہیں 2024 کے انتخابات کے نتائج کے بعداس پوزیشن میں نہ تھے کہ اکیلے ہی حکومت بناپائیں۔انھیں ملک کے حالات کی وجہ سے حکومت بنانے کے لیے مجبور کیا گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب ملک کے معاشی حالات انتہائی دگرگوں تھے اوردیوالیہ ہوجانے کا خوف ہمارے سروں پر طاری تھا۔ایسے میں اکثریت حاصل کرنے والی تحریک انصاف نے بھی حکومت بنانے سے انکار کردیا تھا۔

پاکستان پیپلزپارٹی جس نے ملک کے ایک صوبہ میں واضح اکثریت حاصل کرلی تھی مگر خواہش کے باوجود وفاق میں حکومت بنانے میں عدم دلچسپی ظاہر کردی اوراس طرح پاکستان مسلم لیگ نون ہی واحد آپشن رہ گیا تھا جسے اس کام پر راضی ورضامند کرلیا گیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی شدید اختلافات کے باوجود آج بھی اس حکومت کو قائم رکھنے کے لیے اپنے کاندھے بدستور فراہم کررہی ہے۔

بد لے میں اس نے آئینی عہدے بھی حاصل کرلیے اور آصف علی زرداری کے لیے ایک بار پھر صدر کاعہدہ اورمنصب، سینیٹ میں چیئرمین شپ بھی حاصل کرلی اور اس طرح زرداری صاحب کی ممکنہ خرابی صحت اورغیرفعال ہوجانے کی صورت میں یہ عہدہ اپنے پاس ہی رکھنے کا آپشن بھی حاصل کرلیا۔موجودہ دستور کے مطابق صدرمملکت کی غیر موجود گی میں چیئرمین سینیٹ ہی اس عہدے اورمنصب کا اہل تصور کیاجاتا ہے۔چاروں صوبوں میں اپنی مرضی کے گورنر اور سینیٹ کی چیئرمین شپ کے ساتھ ساتھ صدر مملکت کا عہدہ حاصل کرلینا کوئی چھوٹی موٹی کامیابی نہیں ہے۔

اسی لیے اگر صدر زرداری کو سیاسی بساط اورشطرنج کا ماہر کہاجائے تو شاید غلط بھی نہ ہوگا۔ موقع اورحالات کے مطابق چالیں چلنے کاہنر ہمارے یہاں صرف زرداری صاحب ہی کو آتا ہے۔دوراندیشی اورموقعہ شناسی میںاُن کے پائے کا ہمارے یہاں ابھی تک کوئی اور سیاست دان پیدا ہی نہیں ہوا۔

وہ جب تک صدر مملکت کے عہدے پر براجمان رہیں گے میاں شہبازشریف حکومت کو شاید ہی کوئی خطرہ لاحق ہو۔اُن کے چلے جانے کے بعد بلاول زرداری کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہاجاسکتا ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرینگے۔ فی الحال پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اُن کا وزیراعظم بننے کا خواب پورا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا شاید اسی وجہ سے وہ مصلحتاً بیک فٹ پرہیں۔

میاں شہبازشریف حکومت نے اپنا ایک سال خیروخوبی کے ساتھ گزار لیا ہے۔ معاشی طور پر جو مشکلات تھیں وہ کچھ کم ہوگئی ہیں مگر مکمل طور پرختم نہیں ہوئی ہیں۔ قوم خزانے میں اگر مانگے تانگے کے ڈالرز موجود نہ ہوں تو حالات ہرگز ایسے نہ رہیں جیسے ابھی نظر آرہے ہیں۔ سعودی عرب ، یواے ای اوربرادر دوست ملک چین ہم پر سے مہربانیوں کے ہاتھ اُٹھا لیںتو ہمیں لگ پتاجائے گا کہ ہم اس وقت کہاں کھڑے ہیں۔یہ درست ہے کہ ہمارے معاشی حالات بہتر ہوئے ہیں۔

ساتھ ہی ساتھ وزیرخزانہ محمد اورنگ زیب کی ذاتی کاوشوں کے سبب ہم IMF سے سات ارب ڈالرز کا قرضہ لینے میں کامیاب ہوپائے ہیں۔گزشتہ برس بجٹ کے اعلان کے موقعے پر حکومت نے اپنے اخراجات کم کرنے کا عندیہ دیا تھا مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حکومت اپنے اس وعدے پرعمل کرنے میں نہ صرف ناکام ہوگئی ہے بلکہ اس نے اپنے اخراجات مزید بڑھا بھی دیے ہیں۔

عوام پر ٹیکس پر ٹیکس لگا کرقربانی مانگنے کا کہہ کرخود کوئی قربانی دینے کو تیار نہیں۔ سب سے پہلے اپنے رفقاء وزرا ء اورارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں بے تحاشہ اضافہ کردیاگیا۔یہ اضافہ دس پندرہ فیصد نہیں بلکہ یکمشت کئی کئی گنا کردیاگیا۔جو ارکان آج سے پہلے ڈیڑھ دو لاکھ لے رہے تھے اس اضافے کے بعد پانچ سے دس لاکھ لینے لگے۔ یہی حال ججوں کے معاوضہ کا بھی کردیاگیا۔ 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد ججوں کی تعداد میں بھی تقریبا دگنا اضافہ کردیاگیا اوراسطرح قومی بجٹ پر اس مد میں زبردست اضافی مالی بوجھ ڈال دیاگیا۔آئی ایم ایف سے قرضہ کیاملا ، حکمرانوں کے ہاتھ فوراً کھل گئے ۔

عوام کو تو ہرروزقربانی دینے کو کہاجاتاہے جب کہ خود قرض کی مہ پی کر یہ سمجھ رہے ہیں کہ’’ رنگ لاؤے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن۔‘‘حکومت نے ایک لمحہ کے لیے بھی یہ نہیں سوچاکہ یہ اضافہ اس وقت بھلا کیوں ضروری ہے جب ہمارے ملک کے حالات اس چیز کی اجازت بھی نہیں دیتے۔ عوام پرقرضوں کا بوجھ ڈال کرخود اس قسم کی عیاشی کرنا کیونکر جائز اوردرست ہوسکتا ہے۔ دوسری طرف اپنے کاموں کی اشتہاری مہم پربھی اربوں روپے لگا دینا کہاں کی معاشی ترقی ہے۔

وہ کام جن سے ابھی ہمارے قومی خزانے میں کوئی اضافہ بھی نہیں ہوا ہو الٹا خرچ ہی ہوا ہو اس پر اتنے شادیانے بجانا کہاں کی عقلمندی ہے ۔ابھی ہمارے یہاں کوئی سرمایہ کاری بھی نہیں ہوئی ہے ،صرف MOU ہی سائن ہوئے ہیں۔اس زبانی عہدوپیمان پر خوش ہوکر قومی خزانے سے بے تحاشہ پیسہ خرچ کردینا ایک غریب ملک کے حکمرانوں کو بھلا کیسے زیب دے سکتا ہے۔ ابھی ہمارے اپنے سرمایہ کار یہاں پیسہ لگانے سے اجتناب برت رہے ہیں تو ایسی صورت میں کوئی غیر ملکی سرمایہ دار یہاں کیونکر راغب ہوگا۔

حکومت کو اپنی شاہ خرچیوں پر ایک بار پھر نظر دوڑانی چاہیے اورسوچنا چاہیے کہ کیا جس ملک کے چالیس فیصد نوجوان بے روزگار ہوں اورتقریباً  آدھی آبادی کو دووقت کی روٹی نصیب نہیں ہوتی ہے وہاں کے پارلیمنٹرین کو اس قدر بڑی بڑی مراعات سے نوازا جانا کہاں کی بصیرت اوردانشمندی ہے۔

وہ ملک جو اپنے اثاثوں سے زیادہ غیر ملکی قرضوں میں ڈوبا ہوا ہو اوردوست ممالک یا بین الاقوامی مالی اداروں کا مقروض ہووہاں کے وزیر اورارکان پارلیمنٹ اتنی بڑی بڑی تنخواہوں کے کیسے اہل قرار پائیں۔ویسے بھی وہ کسی غریب طبقے سے تعلق نہیں رکھتے ہیں اچھی بھلی عیش کی زندگی گزار رہے ہیں انھیںتو یہ کام بلامعاوضہ ہی کرناچاہیے تھا۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس معاملے میں سارے پارلیمنٹرین ایک پیج پرہیں۔ کسی نے یہ اضافی تنخواہ قبول کرنے سے انکارنہیں کیا ۔لگتا ہی یہی جمہوریت کا حسن ہے جس کے ثمرات سے ہمارے عوام نہیں بلکہ ہمیشہ اُن کے یہ خیر خواہ ہی مستفید ہوتے آئے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بھی نہیں رہے ہیں کے لیے بھی نہ ملک کے

پڑھیں:

بجٹ پاس نہ کرتے تو ہماری حکومت چلی جاتی، علی امین گنڈاپور

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پشاور (مانیٹرنگ ڈیسک) وزیراعلیٰ پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ بجٹ پاس نہ کرتے تو حکومت چلی جاتی اور قصور ہمارا اپنا ہی ہوتا جبکہ مخالفین شادیانے بجاتے، ہمارے اپنے ہی ساتھیوں کا پروپیگنڈا تھا کہ بجٹ پیش نہ کرو اور پھر بجٹ پاس نہ کرنے کا شور شروع کردیا، ہماری حکومت مضبوط ہے، کوئی بھی رکن کہیں نہیں جارہا، جسے زعم ہے وہ تحریک عدم اعتماد لانے کا شوق پورا کرلے حقیقت سامنے آجائے گی۔سینئر صحافیوں سے غیر رسمی بات چیت کرتے ہوئے علی امین گنڈاپور نے کہا کہ پارٹی کے پیٹرن انچیف کو جب بیرسٹرسیف نے بریفنگ دی تو انہوں نے بجٹ کی منظوری پر اطمینان کا اظہار کیا، بجٹ کی منظوری میں ہمارے صرف 2 ارکان نے ووٹ نہیں دیا اور وہ سب کو معلوم ہے کہ کس کے بندے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ صوبائی اسمبلی کے نئے ارکان کے حلف کے بعد معاملات سامنے آئیں گے، اس وقت اسمبلی میں ہمارے تمام ارکان آزاد ہیں کوئی بھی پی ٹی آئی کا رکن نہیں کیونکہ آئینی بینچ کے فیصلے کے بعد عدالت عظمیٰ کا پہلا فیصلہ ختم ہوگیا۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ میں آزاد نہیں پی ٹی آئی کا رکن ہوں کیونکہ میں نے اپنے کاغذات نامزدگی میں پی ٹی آئی کا نام لکھا تھا۔ انہوں ںے کہا کہ میں اپنے کاغذات نامزدگی کی بنیاد پر عدالت سے رجوع کرنے جارہا ہوں تاکہ اس بنیاد پر ہمیں مخصوص نشستیں دی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ سینیٹ کے 21 جولائی کے انتخابات کے حوالے سے مشاورت کی جائے گی، گورنر ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا وہ چول مارتا رہتا ہے۔ وزیراعلیٰ پختونخوا نے مزید کہا کہ میں نے ساڑھے 11 کروڑ کے بسکٹ نہیں کھائے بلکہ اس رقم سے وزیراعلیٰ ہاؤس و سیکرٹریٹ کے 400 کلاس 4 کے ملازمین کو کھانا کھلایا گیا ہے، میں اگر اخراجات کرتا ہوں تو میں نے ڈھائی سو ارب کی بچت بھی تو کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بیورو کریسی کو کنٹرول میں رکھنا سیاسی لوگوں کا کام ہوتا ہے اور ہم ایسا کرکے دکھائیں گے، یہ نہیں کہتا کہ کرپشن ختم ہوگئی لیکن ہم نے اسے کنٹرول کرلیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ترکیے اور چین ہمارے دوست ممالک ہیں لیکن جنگ پاکستان نے خود لڑی: وزیردفاع
  • امن کا راستہ ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہے ، طاقت حقیقی امن نہیں لا سکتی، چینی وزیر خارجہ
  • مودی حکومت کی ناکامیوں کے سبب تمام ممالک ہمارے دشمن بنتے جا رہے ہیں، ملکارجن کھڑگے
  • حکومت مضبوط، کوئی رکن کہیں نہیں جا رہا، گورنر کچھ نہیں بگاڑ سکتے، علی امین گنڈاپور
  • پیپلز پارٹی سے ہمارے اچھے تعلقات ہیں، حکومت کو کوئی خطرہ نہیں، اسحاق ڈار
  • حکومت مضبوط، سب ممبران وفادار، کوئی کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا: علی امین گنڈاپور
  • شہبازشریف بیوروکریٹک حکومت چلاتے ہیں لیکن کل ناکام ہوئے تو ناکام سیاستدان ہوں گے: سہیل وڑائچ
  • بجٹ پاس نہ کرتے تو ہماری حکومت چلی جاتی، علی امین گنڈاپور
  • ہمارا کوئی رکن کہیں نہیں جارہا، بجٹ پاس نہ کرتے تو ہماری حکومت ختم ہوجاتی، علی امین
  • ہمارا کوئی رکن کہیں نہیں جارہا، بجٹ پاس نہ کرتے تو ہماری حکومت ختم ہوجاتی، علی امین گنڈا پور