قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
اشاعت کی تاریخ: 9th, March 2025 GMT
یہ سچ ہے کہ موجودہ حکومت جس کے روح رواں اس وقت جناب شہباز شریف ہیں 2024 کے انتخابات کے نتائج کے بعداس پوزیشن میں نہ تھے کہ اکیلے ہی حکومت بناپائیں۔انھیں ملک کے حالات کی وجہ سے حکومت بنانے کے لیے مجبور کیا گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب ملک کے معاشی حالات انتہائی دگرگوں تھے اوردیوالیہ ہوجانے کا خوف ہمارے سروں پر طاری تھا۔ایسے میں اکثریت حاصل کرنے والی تحریک انصاف نے بھی حکومت بنانے سے انکار کردیا تھا۔
پاکستان پیپلزپارٹی جس نے ملک کے ایک صوبہ میں واضح اکثریت حاصل کرلی تھی مگر خواہش کے باوجود وفاق میں حکومت بنانے میں عدم دلچسپی ظاہر کردی اوراس طرح پاکستان مسلم لیگ نون ہی واحد آپشن رہ گیا تھا جسے اس کام پر راضی ورضامند کرلیا گیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی شدید اختلافات کے باوجود آج بھی اس حکومت کو قائم رکھنے کے لیے اپنے کاندھے بدستور فراہم کررہی ہے۔
بد لے میں اس نے آئینی عہدے بھی حاصل کرلیے اور آصف علی زرداری کے لیے ایک بار پھر صدر کاعہدہ اورمنصب، سینیٹ میں چیئرمین شپ بھی حاصل کرلی اور اس طرح زرداری صاحب کی ممکنہ خرابی صحت اورغیرفعال ہوجانے کی صورت میں یہ عہدہ اپنے پاس ہی رکھنے کا آپشن بھی حاصل کرلیا۔موجودہ دستور کے مطابق صدرمملکت کی غیر موجود گی میں چیئرمین سینیٹ ہی اس عہدے اورمنصب کا اہل تصور کیاجاتا ہے۔چاروں صوبوں میں اپنی مرضی کے گورنر اور سینیٹ کی چیئرمین شپ کے ساتھ ساتھ صدر مملکت کا عہدہ حاصل کرلینا کوئی چھوٹی موٹی کامیابی نہیں ہے۔
اسی لیے اگر صدر زرداری کو سیاسی بساط اورشطرنج کا ماہر کہاجائے تو شاید غلط بھی نہ ہوگا۔ موقع اورحالات کے مطابق چالیں چلنے کاہنر ہمارے یہاں صرف زرداری صاحب ہی کو آتا ہے۔دوراندیشی اورموقعہ شناسی میںاُن کے پائے کا ہمارے یہاں ابھی تک کوئی اور سیاست دان پیدا ہی نہیں ہوا۔
وہ جب تک صدر مملکت کے عہدے پر براجمان رہیں گے میاں شہبازشریف حکومت کو شاید ہی کوئی خطرہ لاحق ہو۔اُن کے چلے جانے کے بعد بلاول زرداری کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہاجاسکتا ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرینگے۔ فی الحال پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اُن کا وزیراعظم بننے کا خواب پورا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا شاید اسی وجہ سے وہ مصلحتاً بیک فٹ پرہیں۔
میاں شہبازشریف حکومت نے اپنا ایک سال خیروخوبی کے ساتھ گزار لیا ہے۔ معاشی طور پر جو مشکلات تھیں وہ کچھ کم ہوگئی ہیں مگر مکمل طور پرختم نہیں ہوئی ہیں۔ قوم خزانے میں اگر مانگے تانگے کے ڈالرز موجود نہ ہوں تو حالات ہرگز ایسے نہ رہیں جیسے ابھی نظر آرہے ہیں۔ سعودی عرب ، یواے ای اوربرادر دوست ملک چین ہم پر سے مہربانیوں کے ہاتھ اُٹھا لیںتو ہمیں لگ پتاجائے گا کہ ہم اس وقت کہاں کھڑے ہیں۔یہ درست ہے کہ ہمارے معاشی حالات بہتر ہوئے ہیں۔
ساتھ ہی ساتھ وزیرخزانہ محمد اورنگ زیب کی ذاتی کاوشوں کے سبب ہم IMF سے سات ارب ڈالرز کا قرضہ لینے میں کامیاب ہوپائے ہیں۔گزشتہ برس بجٹ کے اعلان کے موقعے پر حکومت نے اپنے اخراجات کم کرنے کا عندیہ دیا تھا مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حکومت اپنے اس وعدے پرعمل کرنے میں نہ صرف ناکام ہوگئی ہے بلکہ اس نے اپنے اخراجات مزید بڑھا بھی دیے ہیں۔
عوام پر ٹیکس پر ٹیکس لگا کرقربانی مانگنے کا کہہ کرخود کوئی قربانی دینے کو تیار نہیں۔ سب سے پہلے اپنے رفقاء وزرا ء اورارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں بے تحاشہ اضافہ کردیاگیا۔یہ اضافہ دس پندرہ فیصد نہیں بلکہ یکمشت کئی کئی گنا کردیاگیا۔جو ارکان آج سے پہلے ڈیڑھ دو لاکھ لے رہے تھے اس اضافے کے بعد پانچ سے دس لاکھ لینے لگے۔ یہی حال ججوں کے معاوضہ کا بھی کردیاگیا۔ 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد ججوں کی تعداد میں بھی تقریبا دگنا اضافہ کردیاگیا اوراسطرح قومی بجٹ پر اس مد میں زبردست اضافی مالی بوجھ ڈال دیاگیا۔آئی ایم ایف سے قرضہ کیاملا ، حکمرانوں کے ہاتھ فوراً کھل گئے ۔
عوام کو تو ہرروزقربانی دینے کو کہاجاتاہے جب کہ خود قرض کی مہ پی کر یہ سمجھ رہے ہیں کہ’’ رنگ لاؤے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن۔‘‘حکومت نے ایک لمحہ کے لیے بھی یہ نہیں سوچاکہ یہ اضافہ اس وقت بھلا کیوں ضروری ہے جب ہمارے ملک کے حالات اس چیز کی اجازت بھی نہیں دیتے۔ عوام پرقرضوں کا بوجھ ڈال کرخود اس قسم کی عیاشی کرنا کیونکر جائز اوردرست ہوسکتا ہے۔ دوسری طرف اپنے کاموں کی اشتہاری مہم پربھی اربوں روپے لگا دینا کہاں کی معاشی ترقی ہے۔
وہ کام جن سے ابھی ہمارے قومی خزانے میں کوئی اضافہ بھی نہیں ہوا ہو الٹا خرچ ہی ہوا ہو اس پر اتنے شادیانے بجانا کہاں کی عقلمندی ہے ۔ابھی ہمارے یہاں کوئی سرمایہ کاری بھی نہیں ہوئی ہے ،صرف MOU ہی سائن ہوئے ہیں۔اس زبانی عہدوپیمان پر خوش ہوکر قومی خزانے سے بے تحاشہ پیسہ خرچ کردینا ایک غریب ملک کے حکمرانوں کو بھلا کیسے زیب دے سکتا ہے۔ ابھی ہمارے اپنے سرمایہ کار یہاں پیسہ لگانے سے اجتناب برت رہے ہیں تو ایسی صورت میں کوئی غیر ملکی سرمایہ دار یہاں کیونکر راغب ہوگا۔
حکومت کو اپنی شاہ خرچیوں پر ایک بار پھر نظر دوڑانی چاہیے اورسوچنا چاہیے کہ کیا جس ملک کے چالیس فیصد نوجوان بے روزگار ہوں اورتقریباً آدھی آبادی کو دووقت کی روٹی نصیب نہیں ہوتی ہے وہاں کے پارلیمنٹرین کو اس قدر بڑی بڑی مراعات سے نوازا جانا کہاں کی بصیرت اوردانشمندی ہے۔
وہ ملک جو اپنے اثاثوں سے زیادہ غیر ملکی قرضوں میں ڈوبا ہوا ہو اوردوست ممالک یا بین الاقوامی مالی اداروں کا مقروض ہووہاں کے وزیر اورارکان پارلیمنٹ اتنی بڑی بڑی تنخواہوں کے کیسے اہل قرار پائیں۔ویسے بھی وہ کسی غریب طبقے سے تعلق نہیں رکھتے ہیں اچھی بھلی عیش کی زندگی گزار رہے ہیں انھیںتو یہ کام بلامعاوضہ ہی کرناچاہیے تھا۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس معاملے میں سارے پارلیمنٹرین ایک پیج پرہیں۔ کسی نے یہ اضافی تنخواہ قبول کرنے سے انکارنہیں کیا ۔لگتا ہی یہی جمہوریت کا حسن ہے جس کے ثمرات سے ہمارے عوام نہیں بلکہ ہمیشہ اُن کے یہ خیر خواہ ہی مستفید ہوتے آئے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بھی نہیں رہے ہیں کے لیے بھی نہ ملک کے
پڑھیں:
زباں فہمی267 ; عربی اسمائے معرفہ اور ہمارے ذرایع ابلاغ
ہمارے ذرایع ابلاغ (عُرف میڈیا) کی مثال خودرَو جنگل کی سی ہے کہ بس کسی نے کوئی تخم ڈالا نہ ڈالا، اِدھر اُدھر سے، ہوایا بارش یا کسی اور وسیلے سے تخم ریزی ہوئی اور مخصوص حالات میں یا مخصوص ومحدود ماحول میں بہت سے پودے درخت بنے، جھاڑیاں ۔یا۔ جھاڑ جھنکاڑ بنتے بنتے گویا چند برسوں میں ایک ایسا جنگل کھڑا ہوگیا کہ جس کی حالت میں سُدھار، کسی متعلق فرد یا سرپرست کے بس کی بات نہیں۔ یہ بات شاید بہت سے لوگوں کو ناگوار گزرے کہ صاحب! اگر آپ کو کوئی پوچھتا نہیں یعنی عوامی بولی (Slang) میں کہیں کہ Lift نہیں کراتا تو آپ ایسے سخت تبصرے کرتے ہیں۔
{کوئی پچیس سال پہلے جب ہمارے خبررَساں ٹیلیوژن چینلز(News TV channels) کا ’’سیلابی در‘‘ (Floodgate) کھُلا تھا تو اِبتدائی برسوں میں (بلکہ مابعد بھی، وقفے وقفے سے) اس راقم کا متعدد چینلز میں جانے اور ’’خوار ‘‘ ہونے کا کئی مرتبہ تجربہ ہوا، ایک بہت بڑے چینل میں ’پیشکش‘ بھی ہوئی جو ہم نے بوجوہ ٹھکرادی.....اصل بات یہ کہ جب اُس دور میں، خاکسار اپنی عادت سے مجبور ہوکر، ایسے ’ شُترِ بے مہار‘ جیسے چینلز کے متعلق کہیں یوں اظہارِخیال کرتا کہ فُلاں فُلاں معاملے میں، خصوصاً صحتِ زبان کے باب میں، یہ صحیح نہیں یا یُوں نہیں، یُوں ہونا چاہیے تو بعض لوگ چِڑ کر، میرے سامنے ہی ۔یا۔کبھی پیِٹھ پیچھے کہتے ،’’یہ آپ کی Frustration بول رہی ہے ;آپ کو کہیں Chance نہیں ملا تو آپ ایسا کہتے ہیں‘‘۔ یا۔ بعض لوگوں نے یہ کہہ کر اپنی اور ہماری اوقات بتائی کہ ’’اتنے ہی قابل ہوتے تو کسی ٹی وی چینل میں کسی بڑے عہدے پر کام کررہے ہوتے‘‘}۔
یہ چینلز اور پھر اِ ن سے منسلک یا متأثر ہونے والے اخبارات وجرائد نہ صرف اُردو کا ستیاناس کرنے پر تُلے رہتے ہیں، بلکہ حسبِ منشاء دنیا کی ہر زبان کا ہر نام یعنی اسم ِ معرفہ بھی بگاڑ کر کچھ کا کچھ بنادیتے ہیں۔ پچھلے مضمون میں چند تازہ مثالوں کی بات ہوئی تو لگے ہاتھوں یہ بھی دیکھتے چلیں کہ ہمارے شعبہ خبر کے لوگ، سب سے زیادہ جس زبان کی ایسی تیسی کرتے ہیں، وہ عربی ہے۔ (ہاں جہاں جہاں ان کی لاعلمی عروج پر ہو، انگریزی، فرینچ اور دیگر مغربی زبانوں کے ساتھ بھی سوتیلی ماں والا سلوک کرنے سے نہیں چُوکتے)۔
ماضی میں اس بارے میں متعددکالم اور مضامین لکھے جانے کے باوجود، تصحیح اِملاء و تلفظ کا باب ہنوز نامکمل ہے۔ ہمیں ایک ہی نام بہ یک وقت دس پندرہ یا کبھی تو اِس سے بھی زیادہ ٹی وی چینلز کی خبروں میں غلط سننے کو ملتا ہے اور پھر مَرے پہ سَو دُرّے کے مصداق اخبارات بھی بھیڑچال کا عملی نمونہ فراہم کرنے سے نہیں چُوکتے۔ یہاں مناسب بلکہ ناگزیر محسوس ہوتا ہے کہ عالمی تناظُر میں بہت عام اور مشہور اسمائے معرفہ کی چند مثالیں پیش کی جائیں جن کا ماخذ عربی ہے اور جو تقریباً تمام اردو چینل (نیز اُن کی تقلید میں مقامی/علاقائی زبانوں کے چینل) ہمیشہ یا اکثر غلط ہی بولتے ہیں۔
متحدہ عرب امارات میں شامل، سب سے بڑی ریاست، اَبوظبی کو ہمارے یہاں نہ صرف ذرایع ابلاغ بلکہ عوام وخواص کی غالب اکثریت ’ابوظُہہ۔بِی‘ یا انگریزی کے اثر سے ابو۔دھابی (Abu Dhabi) لکھتی پڑھتی اور کہتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ بعض حضرات ابوظبی ہی میں رہتے ہیں اور جب یہاں پاکستان آتے ہیں تو ابو۔دھابی یا ابودہابی کہتے ہیں۔ اسی طرح امارات میں شامل دوسری ریاست دُبئی کو ہمارے لوگ دو۔بئی لکھ دیتے ہیں، بلکہ بہت پہلے کسی نے مجھے ٹوکا بھی تھا کہ آپ نے دوبئی کو دُبئی کیوں لکھ دیا۔
{عربی سے ہٹ کر بات کروں تو ایک اور لسانی لطیفہ پیش کرسکتا ہوں۔ سندھ کا ایک شہر ہے خیرپُور مِیرس۔ یہ نام انگریز کا دیا ہوا ہے یعنی Khairpur Mirs۔یا۔ مِیروں /ٹالپُروں کا خیرپُور۔ ماضی قریب میں ایسے دو تین افراد سے واسطہ پڑا جو وہیں کے رہنے والے تھے مگر اپنے شہر کا نام ’’خیر پور مِی رَس‘‘ لے رہے تھے}۔
ہمارے ذرایع ابلاغ میں افریقی مسلم ملک الجزائر کو فرینچ/ انگریزی نام الجیریا ( Algeria) سے زیادہ یاد کیا جانے لگا ہے، جس کی کوئی وجہ نہیں۔ اس کا سرکاری نام الجمہوریۃ الجزائریۃ الدیمقراطیہ ) (People's Democratic Republic of Algeria ہے اور اِس کا مختصر نام الجزائر مدتوں سے اردو میں موجود ہے، مگر ہمارے ذرایع ابلاغ سے منسلک بہت سے لوگ نہیں جانتے۔ یہ نام دارالحکومت الجزائر ہی کے نام پر رکھا گیا ہے مگر اُسے انگریزی میں الجیریا کی بجائے الجیئر (Algiers ) کہتے ہیں (فرینچ لفظ ہے، آخری حرف ساکن کے ساتھ)۔
اَلاَخضَر اَلابرہیمی نہ کہ لخدر براہیمی (Lakhdar Brahimi): اقوام متحدہ کے سابق ایلچی اور الجزائر کے سابق وزیرخارجہ جن کا نام کوئی دس پندرہ سال پہلے بہت زیادہ لیا جاتا تھا (مگر غلط: لخدر) گویا زباں زدِخاص وعام تھا۔ بات کی بات ہے کہ ابراہیم سے ابراہیمی اور پھر براہیمی درست ہے، مگر اصل نام الاخضر یعنی سبز کو بِگاڑ کر ’’لخدر‘‘ کرنا کسی بھی طرح صحیح نہیں!
علامہ اقبال نے کہا تھا:
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں، لا الٰہ اِلّا اللہ
اور اُن کی نظم ’طلوعِ اسلام‘ کے ایک شعر میں ’براہیمی‘ بھی استعمال ہوا:
براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے
ہَوَس چھُپ چھُپ کے سِینوں میں بنالیتی ہے تصویریں
اسی طرح کا ایک اور نام بھی ماضی میں بہت زیادہ سننے پڑھنے کو ملتا تھا اور وہ بھی غلط: صائب عریقات (فلسطینی مذاکرات کار) کو بزبانِ انگریزی Saeb Erekat لکھا جاتا ہے۔ ہمارے چینلز اور اخبارات نے یہ نام سائب ارکات اور سائب اریکات بنا دیا۔
القاعدہ کو اِس قدر کثرت سے لکھا، پڑھا، پڑھایا اور سُنایا گیا کہ بہت سے لوگ اس کا صحیح املاء ہی بھول گئے یا اُنھوں نے جاننے کی سعی کیے بغیر ’القائدہ‘ لکھنا شروع کردیا، غالباً یہ وہی لوگ ہوں گے جنھوں نے بچپن میں ’قاعدہ ‘ نہیں پڑھا اور ’قائدہ‘ کہیں لکھا دیکھ کر یاد کرلیا۔ اسی تنظیم کے دوسرے سربراہ کا نام ہمارے یہاں اَیمَن اَلظواہِری ( اَظ۔ظوا۔ہِری: اس نام میں لام نہیں بولا جاتا) کی بجائے ایمن اَلزواہِری لکھا جاتا رہا جو کسی بھی طرح درست نہیں۔ اس غلطی کا سبب انگریزی سے اندھا دُھند نقل اور کسی عربی ماخذ یا کسی بھی عالم فاضل شخص سے معلوم نہ کرنا ہے۔
ہمارے عربی داں دوست جناب عبدالرحمٰن صدیقی بتاتے ہیں کہ ’القاعدہ‘ کا مطلب ہے، اَڈّہ، عمارت کی بنیاد یا ضابِطہ، جبکہ ’القائدہ‘ سے مراد ہے پھیلا ہوا لمبا ٹِیلہ ۔یا۔ آگے رہنے والا (کارواں یا قطار میں) اونٹ۔ اب جنھیں اونٹ کی سواری کا شوق زیادہ ہو، وہ ’القاعدہ‘ نہ لکھا کریں، القائدہ ہی پر ڈٹے رہیں۔
عربی میں ’اَل‘ کا استعمال کلمہ تخصیصی (Definite article) کے طور پر ہوتا ہے۔ یہ چھوٹی سی بات ہمارے خواندہ لوگ عموماً یاد نہیں رکھتے اور اَسمائے معرفہ کے معاملے میں اُلجھن کا شکار رہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ذرایع ابلاغ نے ایک اور عربی لفظ ’آل‘ کو گڈ مڈ کردیا ہے یعنی اگر کسی نے نام کے ساتھ نسبت لگی ہے، آل، تو وہ اسے ’ال‘ بنادیتے ہیں۔ شیخ زایدبن سلطان آل نہیان (6 مئی1918ء تا 2 نومبر 2004ء) کا نام ہمارے یہاں نہ صرف ذرایع ابلاغ میں بلکہ عام گفتگو میں بھی بکثرت غلط لیا جاتا ہے۔ لوگ عموماً شیخ زید ۔بن۔سلطان ۔اَل۔نَہیَان لکھتے پڑھتے اور کہتے سُنائی دیتے ہیں۔ اس کے برعکس ’ال‘ کے استعمال کی مثالیں بھی موجود ہیں:
قطر کے موجودہ اَمیر کا نام شیخ تَمِیم بن حَمَد الثانی (SheikhTamim bin Hamad Al Thani) ہے۔ اُنھیں یار لوگ تمیم بن حماد۔ اَتھ۔تھانی پڑھ دیتے ہیں کیونکہ یہ تو ۹۹ فیصد پاکستانی خواندہ (عرف دیسی انگریزوں) کو معلوم ہی نہیں کہ TH کی آواز، عربی کے ’ث‘ کے مماثل بھی ہے، اسی لیے حدیث کو Hadith لکھا جاتا رہا ہے مگر ہمارے برگر بچّوں کو بہت دِقّت ہوتی تھی، اس لیے آکسفرڈ اور کیمبرج نے اپنا معیار تبدیل کرتے ہوئے Hadeesکو بھی صحیح قرار دے دیا، حالانکہ حدیس کہنے سے یہ کچھ اور ہی ہوجاتا ہے۔
امیر موصوف کے والد مرحوم اور دیگر اَراکین ِ خانہ کو بھی ’حمََد‘ کی بجائے ’حماد‘ (بلکہ بعض جگہ تو میم پر تشدید کے ساتھ) اور اَث۔ثانی کی بجائے اَتھ۔تھانی لکھا، پڑھا اورکہا جاتا رہا ہے۔ ’ال‘ کے استعمال کی ایک اور مثال اُردَن ( نہ کہ اُردُن) کے بادشاہ عبداللّہ اَلثانی کی ہے۔ اس کے علاوہ، سعودی عرب کے عمائدین کے یہاں ’ال‘ کا استعمال بہت عام ہے، البتہ ’آلِ سعود‘ کو ’اَل۔سعود‘ ۔یا۔ اَس سعود لکھنا اور کہنا درست نہیں!
پچھلے مضمون میں یہ بات لکھنے سے رہ گئی کہ رام اللّہ کے دو معانی ملتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ قدیم کنعانی زبان کے لفظ ’رام‘ بمعنیٰ بلند علاقہ کے ساتھ عربوں نے اللّہ کا اضافہ کرکے اسے خالص اسلامی عربی نام بنادیا گویا مفہوم ہوا، اللّہ کا بلند وبالا علاقہ، دیگر یہ کہ ایک رائے یہ بھی ہے کہ عربی میں رام کا مطلب ہے ’ارادہ۔یا۔فیصلہ کرنا‘، چنانچہ ’’رام اللّہ‘‘ کا مطلب ہوا: اللّہ نے ارادہ کیا یا اللہ نے فیصلہ کیا۔ میرا لسانی قیاس یہ کہتا ہے کہ پہلی توجیہ ہی صحیح ہے۔
فلسطین کی انتظامیہ کے زیرانتظام، مغربی کنارے کے جنوب میں واقع، علاقہ الخلیل، انگریزی میں Hebron کہا جاتا ہے، مگر تعجب ہے کہ ہمارے یہاں بھی لوگ انگریزی یا صہیونی یہودی/اسرائیلی نام ہیبرون پکارنے اور لکھنے لگے ہیں۔ یہ شہر، یہودیوں کے چار مقدس شہروں میں شامل ہے۔ دیگر تین کے نام یہ ہیں: یروشلم یعنی بیت المقدس، الخلیل، طبریا(Tiberias) اور صَفَد (عبرانی میں زیفاتTzfat or Zefat:) جسے سہواً سفید بھی لکھا گیا ہے۔ اسی طرح فلسطین ہی کا قدیم علاقہ اَرِیحا بھی ہے جس کا نام اسلامی تاریخ میں بھی منقول ہے، اس کا انگریزی نام Jericho ہمارے یہاں نقل ہورہا ہے۔
مُلک شام کا قدیم اور تاریخی شہر حَلَب، انگریزی میں Aleppo کہلاتا ہے۔ یہ شہر دنیا کے اُن قدیم شہروں میں شامل ہے جو ہزاروں سال سے مسلسل آباد ہیں۔ آرامی (Aramaic) جیسی انتہائی قدیم زبان میں اسے حلبہ (Halba) کہتے تھے، پھر عَکّادی ۔یا۔اَکّادی (Akkadian) زبان میں اسے حَلَب کہا گیا اور یہی نام عربی میں اپنالیا گیا۔ ابنِ بَطّوطہ کے سفرنامے میں مذکور رِوایت کی رُو سے اس شہر کے قدیم مقام پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) مہمانوں اور مسافروں کو اَپنی بکریوں کا دودھ پیش کیا کرتے تھے اور اِسی وجہ سے اس جگہ کو ’’حَلَبِ اِبراہیم‘‘ کہا جانے لگا تھا۔
حَلَب کا نام ہماری اسلامی تاریخ میں بھی بہت مشہور ہوا۔ سپہ سالارِاِسلام ’امین الامّت‘ حضرت ابوعًبیدہ بن الجرّاح (رضی اللہ عنہ‘) نے، سن16ہجری (مطابق 637 عیسوی) میں امیرالمؤمنین سَیّذُنا عمر فاروق (رضی اللہ عنہ‘) کے عہد ِ خلافت میں اسے فتح کرکے اسلامی حکومت کا حصہ بنایا۔ حیرت اور افسوس کی بات ہے کہ ہماری درسی کتب میں یہ نام ہنوز موجود ہے، کوئی نامانوس یا متروک نام نہیں، مگر ہمارے ٹی وی چینلز نے کچھ عرصے سے انگریزی نام اپنالیا ہے، کیونکہ وہاں اتنے پڑھے لکھے لوگ نہیں جو اَصل عربی نام جاننے کی زحمت گوارا کریں۔
رَفَح نامی فلسطینی شہر کو رومن رسم الخط میں Rafah لکھا ہوا دیکھ کر ہمارے چینلز اور اخبارات نے ’’رفاہ‘‘ بنا دیا۔
کرکٹ کے شعبے میں شارجہ کا نام بہت مشہور ہے، یہ اصل میں شارقہ ہے جس کا انگریزی رُوپ ہمارے یہاں اپنالیا گیا اور آج لوگ باگ شارقہ سے واقف نہیں۔ عرب دنیا میں دو نام فقط ہجّے کے فرق سے مختلف ہیں، ورنہ بظاہر ایک ہی ہیں اور اِسی وجہ سے لوگ انھیں گڈ مڈ کردیتے ہیں۔ عَمّان (Amman)، اُردَن کا دارالحکومت ہے جبکہ عُمان (Oman) ایک خلیجی ملک کا نام ہے جس کا دارالحکومت مسقط ہے۔ ہمارے یہاں اکثر لوگ ان دونوں ناموں کو خلط ملط کرنے کے علاوہ، عُمان کو ’’اومان‘‘ بھی لکھ دیتے ہیں۔ فِلَسطِین کا ایک بڑا شہر ہے نابلُس (Nablus)، اسے ہمارے یہاں سہواً نابلُوس کہا جانے لگا۔ ایک اور فلسطینی شہر ’طولکرِم‘ (Tulkarem) ہے جسے ہمارے یہاں تُلکرم لکھا جانے لگا ہے۔
یہ فہرست بہت طویل ہے مگر قارئین کرام بشمول ذرایع ابلاغ سے متعلق لوگ پہلے اسے ہی پڑھ کر، سمجھ کر، پرچار کریں اور دوسروں کو دعوتِ اصلاح دیں تو سارے نام گنوانے کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔
ہدیہ سپاس: اس مضمون کی تیاری میں بزم زباں فہمی کے معزز رُکن اور میرے دیرینہ (غائبانہ) دوست جناب عبدالرحمٰن صدیقی کی نگارش بعنوان ’’اردو ذرایع ابلاغ میں عربی زبان کی بعض عام اغلاط کا جائزہ‘‘، مشمولہ معارف مجلّہ تحقیق، بابت جنوری تا جون 2015ء سے استفادہ کیا گیا ہے۔