Express News:
2025-04-25@11:28:48 GMT

قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں

اشاعت کی تاریخ: 9th, March 2025 GMT

یہ سچ ہے کہ موجودہ حکومت جس کے روح رواں اس وقت جناب شہباز شریف ہیں 2024 کے انتخابات کے نتائج کے بعداس پوزیشن میں نہ تھے کہ اکیلے ہی حکومت بناپائیں۔انھیں ملک کے حالات کی وجہ سے حکومت بنانے کے لیے مجبور کیا گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب ملک کے معاشی حالات انتہائی دگرگوں تھے اوردیوالیہ ہوجانے کا خوف ہمارے سروں پر طاری تھا۔ایسے میں اکثریت حاصل کرنے والی تحریک انصاف نے بھی حکومت بنانے سے انکار کردیا تھا۔

پاکستان پیپلزپارٹی جس نے ملک کے ایک صوبہ میں واضح اکثریت حاصل کرلی تھی مگر خواہش کے باوجود وفاق میں حکومت بنانے میں عدم دلچسپی ظاہر کردی اوراس طرح پاکستان مسلم لیگ نون ہی واحد آپشن رہ گیا تھا جسے اس کام پر راضی ورضامند کرلیا گیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی شدید اختلافات کے باوجود آج بھی اس حکومت کو قائم رکھنے کے لیے اپنے کاندھے بدستور فراہم کررہی ہے۔

بد لے میں اس نے آئینی عہدے بھی حاصل کرلیے اور آصف علی زرداری کے لیے ایک بار پھر صدر کاعہدہ اورمنصب، سینیٹ میں چیئرمین شپ بھی حاصل کرلی اور اس طرح زرداری صاحب کی ممکنہ خرابی صحت اورغیرفعال ہوجانے کی صورت میں یہ عہدہ اپنے پاس ہی رکھنے کا آپشن بھی حاصل کرلیا۔موجودہ دستور کے مطابق صدرمملکت کی غیر موجود گی میں چیئرمین سینیٹ ہی اس عہدے اورمنصب کا اہل تصور کیاجاتا ہے۔چاروں صوبوں میں اپنی مرضی کے گورنر اور سینیٹ کی چیئرمین شپ کے ساتھ ساتھ صدر مملکت کا عہدہ حاصل کرلینا کوئی چھوٹی موٹی کامیابی نہیں ہے۔

اسی لیے اگر صدر زرداری کو سیاسی بساط اورشطرنج کا ماہر کہاجائے تو شاید غلط بھی نہ ہوگا۔ موقع اورحالات کے مطابق چالیں چلنے کاہنر ہمارے یہاں صرف زرداری صاحب ہی کو آتا ہے۔دوراندیشی اورموقعہ شناسی میںاُن کے پائے کا ہمارے یہاں ابھی تک کوئی اور سیاست دان پیدا ہی نہیں ہوا۔

وہ جب تک صدر مملکت کے عہدے پر براجمان رہیں گے میاں شہبازشریف حکومت کو شاید ہی کوئی خطرہ لاحق ہو۔اُن کے چلے جانے کے بعد بلاول زرداری کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہاجاسکتا ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرینگے۔ فی الحال پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اُن کا وزیراعظم بننے کا خواب پورا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا شاید اسی وجہ سے وہ مصلحتاً بیک فٹ پرہیں۔

میاں شہبازشریف حکومت نے اپنا ایک سال خیروخوبی کے ساتھ گزار لیا ہے۔ معاشی طور پر جو مشکلات تھیں وہ کچھ کم ہوگئی ہیں مگر مکمل طور پرختم نہیں ہوئی ہیں۔ قوم خزانے میں اگر مانگے تانگے کے ڈالرز موجود نہ ہوں تو حالات ہرگز ایسے نہ رہیں جیسے ابھی نظر آرہے ہیں۔ سعودی عرب ، یواے ای اوربرادر دوست ملک چین ہم پر سے مہربانیوں کے ہاتھ اُٹھا لیںتو ہمیں لگ پتاجائے گا کہ ہم اس وقت کہاں کھڑے ہیں۔یہ درست ہے کہ ہمارے معاشی حالات بہتر ہوئے ہیں۔

ساتھ ہی ساتھ وزیرخزانہ محمد اورنگ زیب کی ذاتی کاوشوں کے سبب ہم IMF سے سات ارب ڈالرز کا قرضہ لینے میں کامیاب ہوپائے ہیں۔گزشتہ برس بجٹ کے اعلان کے موقعے پر حکومت نے اپنے اخراجات کم کرنے کا عندیہ دیا تھا مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حکومت اپنے اس وعدے پرعمل کرنے میں نہ صرف ناکام ہوگئی ہے بلکہ اس نے اپنے اخراجات مزید بڑھا بھی دیے ہیں۔

عوام پر ٹیکس پر ٹیکس لگا کرقربانی مانگنے کا کہہ کرخود کوئی قربانی دینے کو تیار نہیں۔ سب سے پہلے اپنے رفقاء وزرا ء اورارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں بے تحاشہ اضافہ کردیاگیا۔یہ اضافہ دس پندرہ فیصد نہیں بلکہ یکمشت کئی کئی گنا کردیاگیا۔جو ارکان آج سے پہلے ڈیڑھ دو لاکھ لے رہے تھے اس اضافے کے بعد پانچ سے دس لاکھ لینے لگے۔ یہی حال ججوں کے معاوضہ کا بھی کردیاگیا۔ 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد ججوں کی تعداد میں بھی تقریبا دگنا اضافہ کردیاگیا اوراسطرح قومی بجٹ پر اس مد میں زبردست اضافی مالی بوجھ ڈال دیاگیا۔آئی ایم ایف سے قرضہ کیاملا ، حکمرانوں کے ہاتھ فوراً کھل گئے ۔

عوام کو تو ہرروزقربانی دینے کو کہاجاتاہے جب کہ خود قرض کی مہ پی کر یہ سمجھ رہے ہیں کہ’’ رنگ لاؤے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن۔‘‘حکومت نے ایک لمحہ کے لیے بھی یہ نہیں سوچاکہ یہ اضافہ اس وقت بھلا کیوں ضروری ہے جب ہمارے ملک کے حالات اس چیز کی اجازت بھی نہیں دیتے۔ عوام پرقرضوں کا بوجھ ڈال کرخود اس قسم کی عیاشی کرنا کیونکر جائز اوردرست ہوسکتا ہے۔ دوسری طرف اپنے کاموں کی اشتہاری مہم پربھی اربوں روپے لگا دینا کہاں کی معاشی ترقی ہے۔

وہ کام جن سے ابھی ہمارے قومی خزانے میں کوئی اضافہ بھی نہیں ہوا ہو الٹا خرچ ہی ہوا ہو اس پر اتنے شادیانے بجانا کہاں کی عقلمندی ہے ۔ابھی ہمارے یہاں کوئی سرمایہ کاری بھی نہیں ہوئی ہے ،صرف MOU ہی سائن ہوئے ہیں۔اس زبانی عہدوپیمان پر خوش ہوکر قومی خزانے سے بے تحاشہ پیسہ خرچ کردینا ایک غریب ملک کے حکمرانوں کو بھلا کیسے زیب دے سکتا ہے۔ ابھی ہمارے اپنے سرمایہ کار یہاں پیسہ لگانے سے اجتناب برت رہے ہیں تو ایسی صورت میں کوئی غیر ملکی سرمایہ دار یہاں کیونکر راغب ہوگا۔

حکومت کو اپنی شاہ خرچیوں پر ایک بار پھر نظر دوڑانی چاہیے اورسوچنا چاہیے کہ کیا جس ملک کے چالیس فیصد نوجوان بے روزگار ہوں اورتقریباً  آدھی آبادی کو دووقت کی روٹی نصیب نہیں ہوتی ہے وہاں کے پارلیمنٹرین کو اس قدر بڑی بڑی مراعات سے نوازا جانا کہاں کی بصیرت اوردانشمندی ہے۔

وہ ملک جو اپنے اثاثوں سے زیادہ غیر ملکی قرضوں میں ڈوبا ہوا ہو اوردوست ممالک یا بین الاقوامی مالی اداروں کا مقروض ہووہاں کے وزیر اورارکان پارلیمنٹ اتنی بڑی بڑی تنخواہوں کے کیسے اہل قرار پائیں۔ویسے بھی وہ کسی غریب طبقے سے تعلق نہیں رکھتے ہیں اچھی بھلی عیش کی زندگی گزار رہے ہیں انھیںتو یہ کام بلامعاوضہ ہی کرناچاہیے تھا۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس معاملے میں سارے پارلیمنٹرین ایک پیج پرہیں۔ کسی نے یہ اضافی تنخواہ قبول کرنے سے انکارنہیں کیا ۔لگتا ہی یہی جمہوریت کا حسن ہے جس کے ثمرات سے ہمارے عوام نہیں بلکہ ہمیشہ اُن کے یہ خیر خواہ ہی مستفید ہوتے آئے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بھی نہیں رہے ہیں کے لیے بھی نہ ملک کے

پڑھیں:

مودی حکومت وقف کے تعلق سے غلط فہمی پیدا کررہی ہے، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر نے کہا کہ ہمارے درمیان مسلکی اور عقیدے کی بنیاد پر اختلافات ہوسکتے ہیں، لیکن اسکو ہمیں اپنے درسگاہوں تک محدود رکھنا ہوگا اور اس لڑائی کیلئے سبھی کو اتحاد کیساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ اسلام ٹائمز۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ذریعہ تال کٹورہ انڈور اسٹیڈیم میں منعقدہ تحفظ اوقاف کانفرنس میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے صدارتی خطاب میں کہا کہ وقف قانون کے تعلق سے لوگوں میں غلط فہمیاں پیدا کی جا رہی ہیں اور عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مودی حکومت کے لوگ کہتے ہیں کہ وقف قانون کا مذہب سے تعلق نہیں ہے، تو پھر مذہبی قیدوبند کیوں لگائی ہے، کہا جاتا ہے کہ وقف قانون کا مقصد غریبوں کی مدد کرنا ہے، لیکن ہم پوچھتے ہیں کہ کوئی بھی نکات یا پہلو بتا دیجیئے جس سے غریبوں کو فائدہ ہوسکتا ہو۔ انہوں نے کہا کہ یہ قانون کسی بھی طرح سے غریبوں کے حق میں نہیں ہے، ہمیں احتجاج کرنا ہے، یہ ہمارا جمہوری حق ہے، لیکن احتجاج پُرامن ہونا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری صفوں میں لوگ گھس کر امن و امان کو ختم کرنا چاہتے ہیں، لیکن ہمیں اس سے محتاط رہنا ہے۔

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ ہمیں اپنے اتحاد کو مزید مضبوط کرنا ہے، ہمارے درمیان مسلکی اور عقیدے کی بنیاد پر اختلافات ہوسکتے ہیں، لیکن اس کو ہمیں اپنے درسگاہوں تک محدود رکھنا ہوگا اور اس لڑائی کے لئے سبھی کو اتحاد کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے غیر مسلم بھائی اور دوسرے مذاہب کے لوگ بھی ہمارے ساتھ ہیں، ہماری مضبوط لڑائی کو جیت ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ آج ہمارے علماء کرام اس کانفرنس میں شیروانی پہن کر آئے ہیں، کل اگر ضرورت پڑی تو وہ کفن بھی پہن کر آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ آج ان کے ہاتھوں میں گھڑی ہے، کل ضرورت پڑی تو ہتکڑی بھی پہننے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا کہنا ہے کہ ملک کی موجودہ حکومت کہتی ہے کہ یہ قانون مسلمانوں کے مفاد میں ہے اور غریب مسلمانوں کے مفاد میں ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکومت ملک میں نفرت پیدا کرکے اوقاف کی زمینوں پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ بورڈ کا کہنا ہے کہ وقف قانون بناکر حکومت نے اپنی فرقہ وارانہ ذہنیت کو اجاگر کر دیا ہے، لیکن ہم اپنی پُرامن لڑائی کے ذریعہ اس قانون کی مخالفت کرتے رہیں گے۔ اس موقع پر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا فضل الرحیم مجددی، امیر جماعت اسلامی ہند سید سعادت اللہ حسینی، بورڈ کے نائب صدر اور مرکزی جمعیت اہل حدیث کے امیر مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی، شیعہ مذہبی رہنما مولانا سید کلب جواد، خواجہ اجمیری درگاہ کے سجادہ نشین حضرت مولانا سرور چشتی، محمد سلیمان، صدر انڈین یونین مسلم لیگ، عیسائی رہنما اے سی مائیکل، محمد شفیع، نائب صدر ایس ڈی پی آئی، روی شنکر ترپاٹھی، سردار دیال سنگھ وغیرہ موجود تھے۔

قابل ذکر ہے کہ مودی حکومت نے وقف ترمیمی بل 2024 کو پارلیمنٹ میں پیش کیا تھا، لیکن اپوزیشن کی مخالفت کے بعد اسے جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی (جے پی سی) میں بھیج دیا گیا۔ جے پی سی کا چیئرمین یوپی کے ڈومریا گنج کے رکن پارلیمنٹ جگدمبیکا پال کو بنایا گیا تھا۔ مختلف ریاستوں میں کئی میٹنگوں کے بعد 14 ترامیم کے ساتھ اس بل کو منظوری دی تھی۔ جس کے بعد پارلیمنٹ میں اس بل کو منظور کیا گیا۔ اس کے بعد صدر جمہوریہ دروپدی مرمو نے بھی مہر لگا دی، جس کے بعد یہ قانون بن گیا۔ اس کے بعد مختلف تنظیموں اور کئی اراکین پارلیمنٹ نے اس قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا، جس پر سماعت جاری ہے۔ حکومت کو جواب داخل کرنے کے لئے ایک ہفتے کا وقت دیا گیا ہے، جبکہ عدالت نے عبوری حکم جاری کرتے ہوئے اس قانون کے کچھ پہلوؤں پر سوال اٹھایا اور چند نکات کے نفاذ پر روک لگا دی ہے۔ عدالت میں اب 5 مئی 2025ء کو اس معاملے کی اگلی سماعت ہوگی۔

متعلقہ مضامین

  • ہمارے نظریاتی اختلافات ہوسکتے ہیں لیکن پاکستان کی سالمیت سب سے مقدم ہے، سینیٹر ایمل ولی خان
  • عالمی تہذیبی جنگ اور ہمارے محاذ
  • پاکستان کے جواب سے بہت زیادہ مطمئن ہوں، مشاہد حسین
  • کوئی بھی نماز پڑھنے سے نہیں روک سکتا، نصرت بھروچا ٹرولنگ پر پھٹ پڑیں
  • متنازع کینالوں کے برعکس نیا پروجیکٹ، جس میں حکومت کو کوئی دلچسپی نہیں
  • وفاق نے معاملہ خراب کردیا، حکومت گرانا نہیں چاہتے لیکن گراسکتے ہیں، وزیراعلیٰ سندھ
  • اڈیالہ جیل پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں: ملک احمد خان
  • مودی حکومت وقف کے تعلق سے غلط فہمی پیدا کررہی ہے، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
  • غزہ میں ایک ماہ سے کوئی امدادی ٹرک داخل نہیں ہوا، لوگ بھوکے مر رہے ہیں، اقوام متحدہ
  • طعنہ دینے والے ہمارے ووٹوں سے ہی صدر بنے ،بلاول کی حکومت پر سخت تنقید سے متعلق رانا ثنا کا ردعمل