شامی حکومت کا بشار الاسد کے حامیوں کیخلاف فوجی آپریشن ختم کرنے کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT
شام کی نئی حکومت نے بشار الاسد کے حامیوں کے خلاف جاری ملٹری آپریشن ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق معزول صدر بشار الاسد کی حامی فورسز اور شامی فوج کے ساتھ جھڑپوں کا سلسلہ ایک ہفتے سے جاری ہے۔
جنگی نگرانی کرنے والی ایک تنظیم نے دعویٰ کیا کہ ان جھڑپوں میں ایک ہزار سے زائد شہری ہلاک ہوگئے جن میں زیادہ تر علوی اقلیتی فرقے کے افراد شامل ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ان افراد کو شام کی سیکیورٹی فورسز یا اتحادی گروپوں نے قتل کیا۔
یہ تشویش ناک تشدد شام کے ساحلی علاقے میں پیش آیا، جو علوی کمیونٹی کا گڑھ ہے اور اس سے شام کے نئے انتظامی دور کی نازک صورتحال کو شدید دھچکا پہنچا ہے۔
وزارت دفاع کے ترجمان حسن عبدالغنی نے بتایا کہ حکومت نے لاطاکیہ اور طرطوس کے ساحلی علاقوں میں سیکیورٹی خطرات اور "بشار الاسد ریجم کے باقیات" کے خلاف جاری "فوجی آپریشن" کو ختم کر دیا ہے۔
یہ اعلان شام کے عبوری صدر احمد الشاراع کے خطاب کے بعد آیا، جنہوں نے کہا تھا کہ شام کو کسی بھی بیرونی طاقت یا داخلی فریق کے ذریعے خانہ جنگی میں دھکیلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
احمد شاراع نے اس خونریزی میں ملوث افراد کو سخت سزا دینے کا وعدہ کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے تمام نسلی اور مذہبی اقلیتی گروپ ہماری ذمہ داری ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق تشدد کی اس لہر میں 231 سیکیورٹی اہلکار اور 250 بشار الاسد کے حامی جنگجو مارے گئے ہیں۔
جابلہ کے رہائشیوں نے بتایا کہ مقامی مسلح گروپوں نے شہر پر قبضہ کر لیا ہے اور وہاں بے شمار افراد کو قتل کر کے اجتماعی قبروں میں دفن کر دیا گیا۔
اس دوران، دمشق میں یونانی آرتھوڈوکس پیٹریارک جان ایکس نے کہا کہ "بیشتر معصوم عیسائیوں کو بھی قتل کر دیا گیا"۔
سیاستدانوں اور تجزیہ کاروں کے مطابق، اس بدترین تشدد نے شام کے نئے حکام کے لیے سوالات اٹھا دیے ہیں کہ کیا وہ ملک میں امن قائم کرنے اور ریاستی طاقت کو مستحکم کرنے میں کامیاب ہو سکیں گے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مطالبہ کیا ہے کہ آزاد قومی اور بین الاقوامی محققین کو شام کے ساحلی علاقوں میں تحقیق کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ اس قتل عام کے ذمہ داروں کا پتا چلایا جا سکے۔
ایران، جو بشار الاسد کا اہم اتحادی ہے، نے ان الزامات کو مسترد کیا ہے کہ تہران نے اس تشدد میں ملوث ہونے کی کسی طرح کی کوشش کی ہو۔
یاد رہے کہ احمد الشاراع کی قیادت میں باغی گروہوں نے گزشتہ برس کے آخر میں بشار الاسد کے طویل آمرانہ دور اقتدار کا تختہ الٹ دیا تھا۔
جس کے نتیجے میں بشار الاسد ملک سے فرار ہوکر اہل خانہ کے ہمراہ روس پہنچ گئے تھے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بشار الاسد کے شام کے
پڑھیں:
پاکستانی کسانوں کا آلودگی پھیلانے پر جرمن کمپنیوں کیخلاف مقدمہ دائر کرنےکا اعلان
سندھ کے کسانوں نے 2022 کے تباہ کن سیلابوں سے اپنی زمینیں اور روزگار کھو دینے کے بعد جرمنی کی آلودگی پھیلانے والی کمپنیوں کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کا اعلان کردیا۔کسانوں کی جانب سے جرمن توانائی کمپنی آر ڈبلیو ای (RWE) اور سیمنٹ بنانے والی کمپنی ہائیڈلبرگ (Heidelberg) کو باقاعدہ نوٹس بھیج دیا گیا جس میں خبردار کیا گیا کہ اگر ان کے نقصان کی قیمت ادا نہ کی گئی تو دسمبر میں مقدمہ دائر کیا جائے گا۔کسانوں کا کہنا ہے کہ جرمن کمپنیاں دنیا کی بڑی آلودگی پھیلانے والی کمپنیوں میں شامل ہیں، جنہوں نے نقصان پہنچایا ہے، انہیں ہی اس کی قیمت ادا کرنی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے ماحولیاتی بحران میں سب سے کم حصہ ڈالا مگر نقصان ہم ہی اٹھا رہے ہیں جبکہ امیر ممالک کی کمپنیاں منافع کما رہی ہیں۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ ان کی زمینیں مکمل طور پر تباہ ہو گئیں اور چاول و گندم کی فصلیں ضائع ہوئیں۔ وہ تخمینہ لگاتے ہیں کہ انہیں 10 لاکھ یورو سے زائد کا نقصان ہوا جس کا ازالہ وہ ان کمپنیوں سے چاہتے ہیں۔دوسری جانب جرمن کمپنیوں کاکہناہے انہیں موصول ہونے والے قانونی نوٹس پر غور کیا جارہا ہے۔برطانوی میڈیا نے عالمی کلائمیٹ رسک انڈیکس کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ 2022 میں پاکستان دنیا کا سب سے زیادہ موسمیاتی آفات سے متاثرہ ملک تھا۔ اس سال کی شدید بارشوں نے ملک کا ایک تہائی حصہ زیر آب کردیا جس سے 1،700 سے زائد افراد جاں بحق جبکہ 3 کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ بے گھر اور 30 ارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان ہوا۔سندھ کا علاقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا جہاں بعض اضلاع ایک سال تک زیر آب رہے۔