امریکی حکام سے ملاقات کیلیے یوکرینی صدر ریاض پہنچ گئے، سعودی ولی عہد سے ملاقات
اشاعت کی تاریخ: 11th, March 2025 GMT
JEDDAH:
یوکرین کے صدر ایک وفد کے ہمراہ سعودی عرب کے شہر ریاض پہنچ گئے ہیں جہاں وہ امریکی حکام سے مذاکرات کریں گے۔
سعودی پریس ایجنسی کے مطابق سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کا استقبال کیا، جو سعودی عرب اور امریکی حکام کے ساتھ یوکرینی افسران کے مذاکرات سے قبل سعودی عرب پہنچے ہیں۔
ولی عہد نے ملاقات کے دوران مملکت کی جانب سے یوکرین روس جنگ کے حل اور امن کے قیام کے لیے عالمی کوششوں کی بھرپور حمایت کا اعادہ کیا۔
صدر زیلنسکی نے سعودی عرب کی کوششوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے مشرق وسطیٰ اور دنیا میں اس کے اہم کردار کو سراہا۔
اس ملاقات میں سعودی اور یوکرینی اعلیٰ حکام بھی موجود تھے۔
زیلنسکی کو قبل ازیں مکّہ ریجن کے نائب گورنر شہزادہ سعود بن مشعل بن عبدالعزیز اور دیگر حکام نے شاہ عبدالعزیز انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر خوش آمدید کہا۔
مذاکرات میں حصہ لینے کیلیے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو گزشتہ روز سعودی عرب پہنچے تھے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
ریاض کو ایف 35 کی فروخت صرف تب ہوگی جب یہ طیارے مغربی سعودیہ میں تعینات نہ ہوں، تل ابیب کی شرط
ویب سائٹ ٹائمز آف اسرائیل نے ہفتہ کی شب رپورٹ کیا تھا کہ صہیونی ذرائع کے مطابق تل ابیب کو سعودی عرب کو ایف 35 طیارے دینے پر اصولی اعتراض نہیں، مگر یہ سودا نارمل تعلقات سے مشروط ہے۔ اسلام ٹائمز۔ صہیونی ذرائع کا کہنا ہے کہ اسرائیل، امریکہ کی جانب سے جدید ایف 35 جنگی طیاروں کی سعودی عرب کو فروخت کی مخالفت نہیں کرتا، لیکن اس معاملے پر چند لازمی شرائط عائد کی گئی ہیں، جن میں سب سے اہم یہ ہے کہ یہ طیارے مغربی سعودیہ میں تعینات نہ کیے جائیں۔ بین الاقوامی خبر رساں ادارہ تسنیم کے مطابق صہیونی حکومت نے کہا ہے کہ سعودی عرب کو ایف 35 جنگی طیاروں کی فروخت صرف اس صورت میں ممکن ہے، جب ریاض اور تل ابیب کے درمیان تعلقات کی نارملائزیشن کی سازش مکمل ہو جائے۔
ویب سائٹ ٹائمز آف اسرائیل نے ہفتہ کی شب رپورٹ کیا تھا کہ صہیونی ذرائع کے مطابق تل ابیب کو سعودی عرب کو ایف 35 طیارے دینے پر اصولی اعتراض نہیں، مگر یہ سودا نارمل تعلقات سے مشروط ہے۔ ایک صہیونی اہلکار نے کہا کہ ہم نے ٹرمپ انتظامیہ سے کہا تھا کہ ایف 35 کی سعودی عرب کو فروخت، تعلقات کی نارملائزیشن سے مشروط ہونی چاہیے،
ورنہ اس کے منفی نتائج سامنے آئیں گے۔
دوسرے اسرائیلی اہلکار نے کہا کہ ترکی کو ایف 35 دینے کی ہم سخت مخالفت کرتے ہیں، لیکن سعودی عرب کے بارے میں ہمارا خدشہ کم ہے، بشرطیکہ یہ سودا ابراہیمی معاہدوں کے فریم ورک میں علاقائی سیکیورٹی تعاون کا حصہ ہو، جیسا تعاون اس وقت ہمارے اور امارات کے درمیان ہے۔ ایف 35 کی خطے میں تیزی سے نقل و حرکت کی صلاحیت کے متعلق تل ابیب پہلے بھی خطے کے ممالک کو ایف 35 طیاروں کی فروخت پر اعتراضات اٹھاتا رہا ہے، کیونکہ اسرائیل اپنی معیاری فوجی برتری کو اپنی بقا کا حامل سمجھتا ہے۔
مبصرین کے مطابق فی الحال اسرائیل خطے کا واحد ملک ہے جس کے پاس یہ جدید طیارے موجود ہیں، اس کے پاس 45 ایف 35 طیارے فعال حیثیت میں ہیں، جبکہ مزید 30 طیارے آرڈر پر ہیں۔ ایک اور صہیونی اہلکار نے خبردار کیا ہے کہ ایک ایف 35 طیارہ سعودی عرب سے اسرائیل تک پہنچنے میں صرف چند منٹ لیتا ہے، اس لیے ہم زور دیتے ہیں کہ یہ جنگی طیارے مغربی سعودیہ میں کسی صورت مستقر نہ کیے جائیں۔