لاہور: بغیر لائسنس شیر رکھنے اور سیلفی بنانے پر شہری گرفتار
اشاعت کی تاریخ: 11th, March 2025 GMT
لاہور کے علاقے اقبال ٹاؤن میں محکمہ وائلڈ لائف پنجاب نے ایک شہری کے گھر پر چھاپہ مار کر بغیر لائسنس رکھے گئے شیر کو برآمد کر لیا, کارروائی سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو کے بعد کی گئی، جس میں شہری اظہر محمود کو شیر کے ساتھ سیلفی لیتے دیکھا گیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق محکمہ وائلڈ لائف کے مطابق اظہر محمود نے اپنے گھر کی چھت پر ایک غیر قانونی پنجرے میں شیر رکھا ہوا تھا، جو مقررہ معیار کے مطابق نہیں تھا۔ وائلڈ لائف ایکٹ کے تحت بغیر اجازت جنگلی جانور رکھنا اور ان کی عوامی تشہیر جرم ہے۔
حکومت پنجاب نے حال ہی میں وائلڈ لائف قوانین میں سخت ترامیم کی ہیں، جن کے تحت بغیر لائسنس شیر یا دیگر جنگلی جانور رکھنے، عوام میں ان کی نمائش کرنے یا ان کی تشہیر پر 7 سال قید اور 50 لاکھ روپے جرمانے کی سزا مقرر کی گئی ہے۔
صوبائی وزیر مریم اورنگزیب نے وائلڈ لائف ٹیم کی کارروائی کو سراہتے ہوئے کہا کہ قانون کی خلاف ورزی پر کسی کو رعایت نہیں دی جائے گی اور جنگلی جانوروں کے تحفظ سے متعلق قوانین پر سختی سے عملدرآمد جاری رکھا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی ہدایت پر وائلڈ لائف قوانین کے سختی سے نفاذ کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔
.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
پنجاب میں قبضہ مافیا، دھوکا دہی اور جعلسازوں کو سخت سزائیں کیلیے قوانین تیار
پنجاب حکومت نے قبضہ مافیا، دھوکا دہی اور جعلسازوں کیخلاف سخت قوانین تیار کرلیے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق پنجاب حکومت نے قبضہ مافیا،دھوکا اور جعلسازوں کیخلاف سخت سزاوں کے قوانین تیار کر لیے، جس کے آرڈیننس کی تفصیلات سامنے آگئیں ہیں۔
پنجاب پروٹیکشن آف اونرشپ آف امووایبل پراپرٹی آرڈیننس 2025 وزیر اعلیٰ کی منظوری کے بعد پنجاب اسمبلی کو ارسال کر دیا۔ جس کو آج منظوری کیلیے پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔
آرڈیننس میں بتایا گیا ہے کہ غیر قانونی قبضہ، جعلسازی، دھوکہ یا زبردستی جائیداد ہتھیانے پر 5 سے 10 سال قید کی سزا مقرر کی گئی ہے جبکہ جائیداد پر غیرقانونی قبضہ دلانے یا فروخت میں معاونت پر 1 سے 3 سال قید اور 10 لاکھ روپے تک جرمانہ ہوگا۔
آرڈیننس کے مطابق کمپنی، سوسائٹی یا ادارے کی جانب سے جرم ثابت ہونے پر ذمہ دار افسران بھی سزا کے مستحق ہوں گے، جائیداد کے مالک کو شکایت براہِ راست متعلقہ ڈپٹی کمشنر کے پاس جمع کرانی ہوگی۔
آرڈیننس کے مطابق ہر ضلع میں تنازعات کے حل کے لیے ڈسٹرکٹ ڈسپیوٹ ریزولوشن کمیٹی قائم کی جائے گی، جس کی سربراہی ڈپٹی کمشنر کرے گا جبکہ ممبران میں ڈی پی او، اے ڈی سی ریونیو اور متعلقہ افسران شامل ہوں گے۔
کمیٹی کو ریکارڈ طلبی، سماعت، اور جائیداد کے تحفظ کے لیے فوری انتظامی کارروائی کا اختیار حاصل ہوگا جبکہ کمیٹی 90 دن میں شکایت نمٹانے کی پابند ہوگی، کمشنر کی منظوری سے مزید 90 دن کی توسیع ممکن ہوسکے گی۔
آرڈیننس کے مطابق فریقین کو کمیٹی کے سامنے خود پیش ہونا لازمیہ ہوگیا، وکیل کے ذریعے نمائندگی عام طور پر منظور نہیں ہوگی، کمیٹی کی رپورٹ یا سمجھوتہ تحریری طور پر پراپرٹی ٹریبونل کو بھیجا جائے گا۔
آرڈیننس کے مطابق تنازع حل نہ ہونے کی صورت میں کمیٹی 30 دن کے اندر کیس ٹریبونل کو ریفر کرے گی، جھوٹی یا بدنیتی پر مبنی شکایت پر 1 سے 5 سال قید اور جائیداد کی ویلیو کے 25 فیصد تک جرمانہ ہوگا۔
آرڈیننس میں بتایا گیا ہے کہ صوبے بھر میں پراپرٹی ٹریبونلز قائم کیے جائیں گے، ہر ضلع میں کم از کم ایک ٹریبونل ہوگا، ٹریبونل کے سربراہ ہائی کورٹ یا ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج رہ چکے افسران ہوں گے۔
آرڈیننس کے تحت ٹریبونل کو سول کورٹ اور سیشن کورٹ کے برابر اختیارات حاصل ہوں گے۔ ٹریبونل غیرقانونی قبضے کے مقدمات 90 دن میں نمٹانے کا پابند ہوگا۔
آرڈیننس میں بتایا گیا ہے کہ ٹریبونل جائیداد کی واپسی، منافع اور معاوضہ ادا کرنے کے احکامات جاری کر سکے گا، قبضہ چھڑانے کے لیے پولیس یا سرکاری اداروں کی مدد سے زبردستی کارروائی کی جا سکے گی۔
آرڈیننس کے مطابق ٹریبونل کے فیصلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں دو رکنی بینچ کے سامنے اپیل دائر کی جا سکے گی جبکہ آرڈیننس کا مقصد شہریوں کی جائیداد کے قانونی مالکانہ حقوق کا تحفظ یقینی بنانا ہے۔