دبئی کا وہ ریسٹورینٹ جہاں رمضان میں روزانہ 35 ہزار پکوڑے فروخت ہوتے ہیں
اشاعت کی تاریخ: 11th, March 2025 GMT
رمضان المبارک کی بابرکت سعادتوں سے جہاں روحانی فوائد حاصل ہوتے ہیں وہیں ہر ملک اور علاقے میں اپنی اپنی روایات اور تہذیب کے مطابق پکوان بھی تیار کیے جاتے ہیں۔
بالخصوص جنوبی ایشیائی ممالک میں پکوڑوں کے بغیر افطاری کا تصور بھی محال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں پکوڑوں کی ریکارڈ فروخت ہوتی ہے۔
متحدہ عرب امارات بھی متعدد ایشیائی ممالک کے باشندوں کا دوسرا مسکن ہے۔ یہاں آباد پاکستانی، بھارتی، بنگلادیشی وغیرہ رمضان میں روایتی پکوان کھانا چاہتے ہیں۔
دبئی میں اس مقصد کے لیے 1968 میں ایک چھوٹا سا ریسٹورنٹ قائم ہوا تھا جہاں اب رمضان کے دوران روزانہ اوسطاً 35 ہزار سموسے فروخت ہوتے ہیں۔
یہ ریسٹورنٹ نہ صرف دبئی بلکہ ابو ظہبی، العین اور یہاں تک کہ یو اے ای- سعودی عرب کے سرحدی علاقے سے بھی آرڈرز وصول کرتا ہے۔
ریسٹورینٹ کے مالک نے بتایا کہ ان کے خریداروں میں پاکستانی، بھارتی، بنگلادیشی تو ہیں ہی لیکن آپ کو حیرات ہوگی کہ سب سے زیادہ اماراتی سموسے خریدتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
بھارت کے بے بنیاد الزامات کی مذمت کرتے ہیں، رانا احسان افضل
اسلام آباد:دفاعی تجزیہ کار (ر)میجر جنرل زاہد محمود کا کہنا ہے کہ بہت افسوس ناک سچویشن ہے اور یہ نہ صرف پاکستان کے لیے، ہندوستان کے لیے یہ پورے خطے کے لیے بہت خطرناک سچویشن ہے، یہ کسی بھی لحاظ سے قابل قبول نہیں، ریجن ہمارا جب ڈی سٹیبلائز ہو گا تو پورے ورلڈ کی چیزیں ڈی سٹیبلائز ہوں گی۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام کل تک میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ کوئی عام ریجن نہیں ہے یہ ہمیں پتہ ہونا چاہیے، دو نیوکلیئرکنٹریز ہیں انڈیا، پاکستان، پھر چین یہاں پر ہے، روس یہاں پر ہے تو یہ پورے ریجن کو امپیکٹ کرے گا، انڈیا جو ہے اس وقت اس کو اب بلیم میں اس طرح کرنا چاہوں گاکہ اس نے ایک ہاتھی کاروپ اپنایا ہے یہ تو ایک انسیڈنٹ ہوا ہے، جو ان کا بیسیکلی ایک فیلیئر ہے۔
رہنما تحریک انصاف نیاز اللہ نیازی نے کہاکہ ہمارے پولیٹیکل اختلافات تو ہو سکتے ہیں لیکن پاکستان پہ کوئی کمپرومائز نہیں ہے، جہاں تک آپ ٹیررازم کی بات کرتے ہیں تو ہم نے ہمیشہ ہماری گورنمنٹ کے دوران ٹیررازم کا ایک بھی واقعہ نہیں ہوا اور جہاں بھی ہو ہم اس کی مخالفت کرتے ہیں جہاں بھی دہشت گردی ہو لیکن حکومت وقت کا کام ہوتا ہے فارن پالیسی بنانا اور فارن پالیسی جو گورنمنٹ بیٹھی ہے کی فارن پالیسی کا کیا جواب ہے اس کا جواب راناصاحب دیں گے، ریاست کو بچانا ہم پر بھی اتنا ہی فرض ہے جتنا ان پر ہے ہم اس سے زیادہ آگے جائیں گے۔
رہنما مسلم لیگ (ن) رانا احسان افضل نے کہا کہ سب سے پہلے تو ہم سمجھتے ہیں کہ جہاں پاکستان کے فارن آفس نے افسوس کا اظہار کیا ہے جو معاملات ہوئے انڈیا کے اندر، وہاں انڈیا کی طرف سے جو ری ایکشن آیا ہے وہ بے جااور غیر ضروری ہے، اگر انڈیا کی تاریخ نکال کر دیکھ لیں تو ہمیشہ انڈیا نے ایسے ہی کیا ہے، پلوامہ پہ پاکستان پہ انگلیاں اٹھائی گئیں لیکن کوئی شواہد نہیں دیے گئے تو ہمارا بھی مطالبہ ہے کہ ہم جہاں یہ بے بنیاد الزامات جو انڈیا پاکستان پر لگا رہا ہے اس کی مذمت کرتے ہیں اور ہم کہتے ہیں کہ اگر انڈیا کے پاس کوئی شواہد ہیں تو وہ سامنے لیکر آئے۔