امریکا: حماس کی حمایت کرنے والوں کے گرین کارڈ اور ویزے منسوخ کرنے کا عمل شروع
اشاعت کی تاریخ: 11th, March 2025 GMT
امریکا نے اپنے ملک میں موجود فلسطینی مزاحمتی گروپ حماس کے حامیوں کے گرین کارڈ اور ویزے منسوخ کرنے کا عمل شروع کردیا۔
امریکی وزیر خارجہ مارک روبیو کے مطابق حماس کے حامیوں کو ڈی پورٹ کرنے کے لیے ان کے گرین کارڈ اور ویزے منسوخ کیے جارہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں امریکا اپنے شہری کی رہائی کے لیے متحرک، حماس سے مذاکرات کی تفصیل سامنے آگئی
دوسری جانب غیرملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی وزیرخارجہ مارکو روبیو کے اعلان کے باوجود عدالت نے فلسطین نواز شخصیت محمود خلیل کو جبری طور پر ملک سے نکالنے سے روک دیا۔
حماس کی حمایت کرنے والے گرین کارڈ ہولڈر محمود خلیل کی وکیل نے ان کی گرفتاری کو عدالت میں چیلنج کیا ہے، جس پر جج نے 12 مارچ کی تاریخ مقرر کرتے ہوئے فریقین کو دلائل کے لیے بلا لیا ہے۔
محمود خلیل کو ہفتے کی رات اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ مین ہٹن میں اپنی اہلیہ کے ساتھ موجود تھے، انہیں اس سے قبل بھی لیوزی اینا میں حراست میں لیا جا چکا تھا۔
غیرملکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق محمود خلیل الجزائر کی شہریت رکھتے ہیں تاہم ان کے آباؤاجداد فلسطین سے ہیں۔ محمود خلیل نے کولمبیا یونیورسٹی سےعالمی امور میں پچھلے سال ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی تھی۔ فلسطینیوں کے حق میں احتجاج کرنے پر ٹرمپ انتظامیہ انہیں ملک سے نکالنا چاہتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں ترکیہ کے حماس کے ساتھ معاملات اب معمول کے مطابق نہیں چل سکتے، امریکا
امریکی صدر ٹرمپ بھی تسلیم کر چکے ہیں کہ محمود خلیل کی گرفتاری ان کے حکم پر عمل میں لائی گئی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews امریکا امریکی صدر امریکی وزیر خارجہ ٹرمپ انتظامیہ حماس کی حمایت ڈونلڈ ٹرمپ گرین کارڈ وی نیوز ویزا منسوخی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا امریکی صدر امریکی وزیر خارجہ ٹرمپ انتظامیہ حماس کی حمایت ڈونلڈ ٹرمپ گرین کارڈ وی نیوز ویزا منسوخی محمود خلیل گرین کارڈ کے مطابق کے لیے
پڑھیں:
’اداکار نہیں بن سکتے‘ کہنے والوں کو قہقہوں سے جواب دینے والے ورسٹائل ایکٹر محمود
بھارتی فلم انڈسٹری کے لیجنڈ اداکار اور مزاح کے بادشاہ محمود نے وہ مقام حاصل کیا جو صرف مسلسل جدوجہد، بے پناہ صبر اور خالص جذبے سے ممکن ہوتا ہے۔ جنہیں کبھی کہا گیا کہ یہ اداکار بننے کے قابل نہیں، وہی محمود ایک دن سینما اسکرین پر قہقہوں کا راج لے کر آئے اور تقریباً 300 فلموں میں اپنی موجودگی سے لوگوں کو ہنسانے والا ’کنگ آف کامیڈی‘ بن گیا۔
29 ستمبر 1932 کو ممبئی میں پیدا ہونے والے محمود علی کے والد ممتاز علی بمبئی ٹاکیز سے وابستہ تھے مگر گھر کے حالات نہایت خراب تھے۔ کم عمری میں ہی محمود کو لوکل ٹرینوں میں ٹافیاں بیچنی پڑیں۔ مگر دل میں اداکار بننے کا خواب پوری شدت سے زندہ تھا۔
ابتدائی موقع فلم ’قسمت‘ (1943) میں اشوک کمار کے بچپن کا کردار ادا کرنے کی صورت میں ملا۔ مگر یہ صرف آغاز تھا، اصل جدوجہد ابھی باقی تھی۔
ڈرائیور سے اداکار تکمحمود نے مختلف فلمی شخصیات کے لیے بطور ڈرائیور کام کیا، صرف اس لیے کہ اسٹوڈیوز تک رسائی ہو جائے۔ ایک دن فلم ’نادان‘ کے سیٹ پر قسمت نے دروازہ کھٹکھٹایا جب ایک جونیئر آرٹسٹ ڈائیلاگ بولنے میں ناکام رہا تو ہدایت کار نے وہ مکالمہ محمود کو دیا۔
انہوں نے پہلی کوشش میں ایسا ادا کیا کہ سب دنگ رہ گئے۔ انعام میں 300 روپے ملے جو اس وقت ان کی مہینے بھر کی تنخواہ سے بھی 4 گنا زیادہ تھے۔ وہیں سے فلمی سفر نے نیا رخ لیا۔
ناکامی کا سامنا اور پھر کامیابیوں کے انبارمحمود نے چھوٹے موٹے کرداروں سے شروعات کی ’دو بیگھہ زمین‘، ’سی آئی ڈی‘، ’پیاسا‘ جیسی فلموں میں نظر آئے، مگر کوئی خاص پہچان نہ بنا سکے۔ اس دوران انہیں فلم ’مس میری‘ کے لیے اسکرین ٹیسٹ سے مسترد کر دیا گیا۔ یہاں تک کہ کمال امروہی جیسے فلمساز نے کہا کہ ’تم میں اداکاری کی صلاحیت نہیں ہے، اداکار کا بیٹا ہونا کافی نہیں‘۔
مگر محمود نے ہار نہیں مانی۔ ایک فلم میں اپنی سالی مینا کماری کی سفارش پر کام مل رہا تھا مگر انہوں نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ ’میں اپنی پہچان سفارش سے نہیں، محنت سے بناؤں گا‘۔
سنہ1958 میں فلم ’پرورش‘ میں انہیں راج کپور کے بھائی کا کردار ملا، جس کے بعد ’چھوٹی بہن‘ نے ان کے لیے فلمی دروازے کھول دیے۔ ٹائمز آف انڈیا نے ان کی اداکاری کو سراہا۔ ان کو معاوضہ 6000 روپے ملا تھا جو ان وقتوں میں کسی خواب سے کم نہ تھا۔
سال1961 کی فلم ’سسرال‘ میں شوبھا کھوٹے کے ساتھ ان کی جوڑی مقبول ہوئی اور اسی سال انہوں نے بطور ہدایت کار اپنی پہلی فلم ’چھوٹے نواب‘ بنائی، جس سے آر ڈی برمن (پنچم دا) نے بطور موسیقار ڈیبیو کیا۔
اداکاری میں جدت، کرداروں میں رنگینیمحمود نے خود کو ایک جیسے کرداروں میں محدود نہیں رکھا۔ فلم ’پڑوسن‘ (1968) میں جنوبی ہند کے موسیقار کا کردار ان کی ورسٹائل اداکاری کا شاہکار تھا۔
سنہ 1970 کی فلم ’ہمجولی‘ میں انہوں نے ٹرپل رول ادا کر کے اپنی وسعت فن کا لوہا منوایا۔
محمود، صرف اداکار نہیں بلکہ ایک ادارہانہوں نے اداکاری کے ساتھ ساتھ کئی فلموں کی ہدایت کاری، پروڈکشن اور گلوکاری بھی کی۔ فلمی کیریئر میں تقریباً 300 فلمیں کیں اور 3 فلم فیئر ایوارڈز جیتے۔ محمود نہ صرف ہنسانے والا اداکار تھا بلکہ ایک پورا عہد تھا۔
23 جولائی 2004 کو محمود دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن ان کی مسکراہٹ، منفرد انداز اور ناقابلِ فراموش مزاح آج بھی ہر نسل کے دلوں میں زندہ ہے۔
وہ ہر اس شخص کے لیے مثال بن گئے جو بار بار یہ سنتا ہے کہ ’تم یہ نہیں کر سکتے‘ اور پھر اپنے وہ اپنی صلاحیتیوں کا کمال دکھا کر دنیا کو غلط ثابت کر دیتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اداکار محمود بھارتی اداکار محمود لکی علی