ملک کے دو اہم صوبے کے پی کے اور بلوچستان گزشتہ چند ماہ سے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیں، رمضان المبارک کا مقدس و بابرکت مہینہ شروع ہو چکا ہے لیکن دہشت گردوں نے جو خود کو اسلام کا داعی قرار دیتے ہیں اس ماہ مقدس کے احترام اور تقدس کا بھی خیال نہ رکھا اور اپنی مذموم کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
گزشتہ منگل کو عین افطار کے وقت جب روزہ دار بنوں بازار میں افطاری خرید رہے تھے اور لوگوں کا جم غفیر وہاں موجود تھا تو ملحقہ سیکیورٹی کی کینٹ چھاؤنی کی دیوار سے بارود کی بھری ہوئی دو گاڑیاں ٹکرا دیں جس سے قریبی مسجد بھی شہید ہو گئی۔ دہشت گرد عناصر کا اصل ٹارگٹ کینٹ کے اندر داخل ہو کرکارروائی کرنا تھا لیکن ہمارے بہادر سیکیورٹی اہلکاروں نے ان کی کوشش کو ناکام بناتے ہوئے تمام دہشت گردوں کو جہنم واصل کر دیا، فائرنگ کے دو طرفہ مقابلے میں 5 فوجی جوان بھی جام شہادت نوش کر گئے، دہشت گردوں کے اس حملے میں مسجد کے علاوہ آس پاس کے بعض مکانات کو بھی نقصان پہنچا جس کے نتیجے میں عین افطاری کے موقع پر 13 افراد شہید اور 30 سے زائد زخمی ہوگئے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق تحقیقاتی اداروں کی رپورٹ سے اس بات کی تصدیق ہوئی ہے کہ بنوں حملے میں افغان شہری براہ راست ملوث تھے اور اس کی منصوبہ بندی افغانستان میں پناہ گزین خوارج کے سرغنہ کر رہے تھے۔ پاکستان کی جانب سے حکومتی سطح پر افغان طالبان حکومت سے بار بار یہ گزارش کی گئی ہے کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دے۔
اس کے باوجود افغانستان کی طالبان حکومت نے غیر سنجیدہ طرز عمل اختیار کر رکھا ہے۔ پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے پے در پے واقعات کے تانے بانے افغانستان میں موجود طالبان کے مختلف گروپوں سے ملتے ہیں۔ بنوں واقعے کی ذمے داری بھی ایک ایسے ہی گروپ کی طرف سے قبول کرنے کی اطلاعات ہیں جس کا تعلق کالعدم حافظ گل بہادر گروپ سے بتایا جاتا ہے۔ اس گروپ نے ماضی میں بھی ایسی کئی کارروائیاں کی ہیں۔ بنوں میں اس سے قبل بھی دہشت گردی کے واقعات رونما ہو چکے ہیں، جولائی 24 میں خودکش حملہ آور نے بارود سے بھری گاڑی سپلائی ڈپو کے مرکز سے ٹکرا دی تھی۔ دسمبر 2022 میں بنوں چھاؤنی میں دھماکے اور فائرنگ کے واقعات رونما ہوئے تھے۔ یہ تسلسل اب بنوں چھاؤنی پر دوسرا حملہ قرار دیا جا رہا ہے۔
آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بنوں چھاؤنی کے دورے کے دوران پاک فوج کے اس عزم کا اظہار کیا کہ اس افسوس ناک سانحے کے منصوبہ سازوں اور ان کے سہولت کاروں کو جلد انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ انھوں نے واضح کیا کہ شرپسند خوارج خواہ کہیں بھی چھپے ہوں انھیں قانون کی گرفت میں لایا جائے گا۔ آرمی چیف نے یہ بھی نشان دہی کی کہ دہشت گردوں کے پاس سے جو اسلحہ برآمد ہوا ہے اس کے بارے میں شواہد ملے ہیں کہ وہ افغان سرزمین سے حاصل کیا گیا ہے۔
گزشتہ دو عشروں سے ملک کے طول و عرض میں دہشت گردی کے عفریت نے جو پنجے گاڑے ہوئے ہیں اس کی بیخ کنی کے لیے پاک فوج کے بہادر افسر و جوانوں نے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے جو پوری قوم کے لیے باعث فخر ہے۔ ہمارے خفیہ اداروں کی کارکردگی بھی مثالی رہی ہے۔ لیکن دہشت گردوں کے تانے بانے افغانستان سے ملتے ہیں جہاں سے ان کی سہولت کاری کی جاتی ہے۔ بنوں چھاؤنی حملے میں افغان ساختہ اسلحے کا ملنا اس حقیقت کا بین ثبوت ہے۔
کہا جاتا ہے کہ یہ وہ اسلحہ ہے جو امریکا اور اس کے نیٹو اتحادی ممالک نے افغانستان ن ہی میں چھوڑ دیا ہے۔ افغان طالبان اسی اسلحے کا استعمال کر رہے ہیں اور پاکستان میں موجود ان کے سہولت کار ان کی مدد سے دہشت گردانہ کارروائیاں کرکے پاکستان کے امن کو تباہ کر رہے ہیں۔ ہم من حیث القوم ہر بڑے واقعے کے بعد دہشت گردوں کے خلاف نئے عزم و جذبے کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں جو بلاشبہ ہمارے یقین کی علامت ہے۔ صورت حال کی نزاکت کا تقاضا ہے کہ ایسے عملی اقدامات اٹھائے جائیں کہ فتنہ الخوارج کو دہشت گردی کا موقع نہ مل سکے۔ ان کے بڑھتے ہوئے قدموں کے فل اسٹاپ لگ جائے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: دہشت گردوں کے دہشت گردی کے بنوں چھاؤنی
پڑھیں:
افغانستان سے دہشت گردی قومی سلامتی کے لیے بڑا خطرہ ہے، عاصم افتخار
نیویارک(نیوز ڈیسک) اقوام متحدہ میں پاکستانی مندوب عاصم افتخار احمد نے کہا ہے کہ افغانستان میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سمیت دہشت گرد گروہوں کے 60 سے زائد کیمپ فعال ہیں، افغانستان سے اٹھنے والی دہشت گردی قومی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں افغانستان کی صورتحال پر بریفنگ کے دوران پاکستان کے مستقل مندوب سفیر عاصم افتخار احمد نے کہا کہ طالبان حکام کو انسدادِ دہشت گردی سے متعلق اپنی بین الاقوامی ذمہ داریاں پوری کرنا ہوں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان، چین نے کالعدم تنظیموں بی ایل اے، مجید بریگیڈ پر پابندیوں کی درخواست دی ہے، دہشت گرد افغان پناہ گاہوں سے پاکستان پر حملوں میں ملوث ہیں۔
پاکستانی مندوب نے کہا کہ ان شواہد میں مشترکہ تربیت، غیر قانونی اسلحہ کی تجارت، دہشت گردوں کو پناہ دینا اور مربوط حملے شامل ہیں، جن کا مقصد پاکستان میں شہری اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نشانہ بنانا اور بنیادی ڈھانچے اور ترقیاتی منصوبوں کو درہم برہم کرنا اور سبوتاژ کرنا ہے۔
مستقل مندوب عاصم افتخار نے کہا کہ طالبان بین الاقوامی ذمہ داریاں پوری کریں اور دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ختم کریں۔
عاصم افتخار کا مزید کہنا تھا کہ دنیا کو ایک پُر امن اور مستحکم افغانستان کے قیام میں کردار ادا کرنا ہوگا۔
Post Views: 3