سیاست ہمیشہ سے مکالمے برداشت اور دلیل کی بنیاد پر چلتی آئی ہے۔ اختلافات رہے، نظریاتی تقسیم بھی موجود رہی مگر جمہوریت اسی صورت میں پروان چڑھتی ہے جب اختلافِ رائے کو برداشت کیا جائے، جب دوسروں کو سننے اور سمجھنے کی روایت باقی رہے۔ مگر جب سیاست میں سے رواداری ختم ہو جائے ،جب اختلاف کو دشمنی سمجھا جانے لگے ،جب مکالمے کی جگہ دھمکی اور دلیل کی جگہ تحقیر لے لے تو پھر جمہوریت صرف ایک دکھاؤا بن کر رہ جاتی ہے۔
دنیا کی تاریخ میں کئی بار ایسے مرحلے آئے ہیں جب طاقت کے نشے میں چور حکمرانوں نے مکالمے کے بجائے طاقت اور جبر کا راستہ اپنایا، جب دلیل کو مسترد کرکے دھونس کو سیاست کا ہتھیار بنایا گیا۔ ایسی سیاست کا انجام ہمیشہ ایک جیسا رہا ہے، انتشار، بد امنی، عوام میں مایوسی اور ریاست میں عدم استحکام۔
یہ صرف کسی ایک ملک کی کہانی نہیں۔ آج دنیا میں کئی مقامات پر یہی کچھ ہو رہا ہے۔ جمہوریت کا لبادہ اوڑھے کئی ممالک میں آمریت کی روح سرایت کرچکی ہے۔ طاقتور لوگ اختلاف کو برداشت کرنے کے بجائے اسے دبانے پر یقین رکھتے ہیں۔ گفتگو کے دروازے بند کردیے گئے ہیں اور جو سوال اٹھائے اسے یا تو باغی قرار دے دیا جاتا ہے یا غدار۔ حالیہ دنوں میں ایک عالمی رہنما نے ایک ریاستی صدر کے ساتھ جس انداز میں گفتگو کی وہ اسی جمہوری زوال کی ایک جھلک ہے۔
لب و لباب یہی تھا کہ یا تو ہماری بات مانو ورنہ سنگین نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہو۔ یہ زبان کسی جمہوری رہنما کی نہیں ہوسکتی یہ وہ طرزِ عمل ہے جو آمریت میں دیکھا جاتا ہے جہاں اقتدار پر قابض لوگ کسی بھی اختلاف کو اپنی طاقت کے لیے خطرہ سمجھ کر اسے کچل دینا چاہتے ہیں۔
پاکستان کی سیاست بھی اسی روش پر چل رہی ہے۔ یہاں بھی مکالمہ ختم ہوچکا ہے یہاں بھی برداشت کا جنازہ نکل چکا ہے اور یہاں بھی اختلاف کو دشمنی سمجھا جانے لگا ہے۔ سیاسی تقسیم اس نہج پر پہنچ چکی ہے جہاں دلیل کی جگہ الزامات اور تحقیر نے لے لی ہے۔
ماضی میں بھی یہاں اختلاف کو دبانے کے لیے ہر ممکن ہتھکنڈہ استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ 1970 کی دہائی میں جب ملک شدید سیاسی تقسیم کا شکار تھا تو اس کا نتیجہ ہمیں 1971 میں دکھائی دیا۔ ایک ایسا بحران پیدا ہوا جس نے ملک کے دو ٹکڑے کر دیے۔ اس کے بعد بھی یہی روش جاری رہی، 1990 کی دہائی میں سیاسی قیادت کے درمیان محاذ آرائی نے جمہوریت کو کمزور کیا، معیشت کو نقصان پہنچایا اور اداروں کو بے توقیر کردیا۔
آج بھی وہی کچھ ہو رہا ہے۔ سیاسی اختلاف کو غداری قرار دیا جا رہا ہے، ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ ہے اور سیاست صرف مخالفین کو نیچا دکھانے کی دوڑ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ سیاستدانوں کی گفتگو میں دلیل کم اور نفرت زیادہ ہوتی جا رہی ہے۔ جو بلند آواز میں بولے جو زیادہ اشتعال انگیز بات کرے وہی کامیاب سمجھا جاتا ہے۔
یہ رویہ صرف سیاست تک محدود نہیں رہا۔ میڈیا، سوشل میڈیا اور عوامی سطح پر بھی یہی مزاج سرایت کر چکا ہے۔ ایک وقت تھا جب سیاسی مباحثے علمی ہوا کرتے تھے جب اختلاف کو علمی و فکری بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ مگر آج ہر ٹی وی اسکرین پر الزامات ،گالی گلوچ اور دھمکیوں کی بھرمار ہے۔
سیاستدانوں کے لیے مخالف کو نیچا دکھانا سب سے بڑی ترجیح بن چکا ہے۔ ایک وقت تھا جب پارلیمنٹ میں سیاسی قیادت ایک دوسرے کو برداشت کرتی تھی مگر آج وہاں بھی وہی کچھ ہوتا ہے جو ٹی وی اسکرین پر نظر آتا ہے۔ کوئی چیختا ہے، کوئی میز پر ہاتھ مارتا ہے، کوئی دوسرے کو غدار کہتا ہے اور کوئی ہاتھا پائی پر اتر آتا ہے۔ یہ سیاست نہیں، یہ ایک تماشا ہے، ایک ایسا تماشا جو سماج کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کرتا ہے۔
اس تماشے کے اثرات عوام پر بھی پڑ رہے ہیں۔ جب سیاست میں برداشت ختم ہو جائے، جب دلیل کا قتل کردیا جائے، جب اختلاف کرنے والوں کو غدار قرار دیا جائے تو پھر یہی رویہ عام زندگی میں بھی نظر آتا ہے۔
لوگ ایک دوسرے کو سننے کے بجائے لڑنے کو تیار ہوجاتے ہیں، عدم برداشت عام ہو جاتا ہے اور ہر اختلاف کا نتیجہ نفرت اور تصادم میں نکلتا ہے۔ آج پاکستان میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ سڑکوں پر گھروں میں تعلیمی اداروں میں ہر جگہ تلخی بڑھتی جا رہی ہے۔ سیاسی تقسیم نے عوامی زندگی کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ کوئی کسی ایک جماعت کو سپورٹ کرتا ہے ،کوئی کسی دوسری کو، مگر دونوں کے درمیان مکالمہ ممکن نہیں۔ دونوں اپنے اپنے نظریے پر اس قدر ڈٹے ہوئے ہیں کہ دوسروں کی بات سننے کے لیے تیار نہیں۔ یہی وہ رویہ ہے جو سماجی زوال کی نشاندہی کرتا ہے۔
معاشی بحران سنگین ہوتا جا رہا ہے، عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں، بے روزگاری عام ہو چکی ہے مگر سیاستدانوں کی توجہ ان مسائل پر نہیں۔ ان کے نزدیک سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ کون اقتدار میں آئے گا اور کس کو اقتدار سے باہر رکھنا ہے۔ معیشت کی زبوں حالی کسی کا مسئلہ نہیں تعلیم اور صحت کی تباہی کسی کی ترجیح نہیں، بس اقتدار کا کھیل جاری ہے۔ اسی کھیل میں ادارے بھی کمزور ہو رہے ہیں، عدلیہ بھی دباؤ میں آ رہی ہے اور جمہوری عمل بھی اپنی ساکھ کھو رہا ہے۔ ایسے میں اگر سیاستدان خود بھی مکالمے اور رواداری کو خیرباد کہہ دیں تو پھر سیاست کا مطلب ہی ختم ہو جاتا ہے۔ وہ سیاست جس کا مقصد عوام کی خدمت تھا،وہ محض طاقت کی جنگ بن کر رہ جاتی ہے۔
یہ سب کچھ دیکھ کر سوال اٹھتا ہے کہ آخر اس صورتحال کا حل کیا ہے؟ کیا سیاست ہمیشہ اسی طرح رہے گی؟ کیا برداشت کبھی واپس آئے گی؟ کیا سیاستدان کبھی ایک دوسرے کو سننے اور سمجھنے کے لیے تیار ہوں گے؟ ان سوالوں کے جواب شاید اتنے آسان نہیں مگر ایک بات طے ہے کہ جب تک سیاست میں مکالمہ بحال نہیں ہوگا جب تک برداشت واپس نہیں آئے گی، جب تک دلیل کو دبانے کے بجائے اسے سننے اور سمجھنے کا رجحان پیدا نہیں ہوگا، تب تک سیاست اسی طرح زہر آلود رہے گی اور اس کا نقصان صرف سیاستدانوں کو نہیں پورے ملک کو اٹھانا پڑے گا۔ عوام کو بھی سوچنا ہوگا کہ وہ کیسی سیاست چاہتے ہیں۔ اگر وہ بار بار ان ہی لوگوں کو منتخب کریں گے جو نفرت کی سیاست کرتے ہیں جو مکالمے کے بجائے تصادم کو ترجیح دیتے ہیں تو پھر بہتری کی امید کیسے رکھی جا سکتی ہے؟
سیاست صرف اقتدار کا نام نہیں، یہ ایک ذمے داری ہے، ایک عہد ہے کہ عوام کی بہتری کے لیے کام کیا جائے گا۔ اگر سیاستدان اپنی ذمے داری کو بھول جائیں، اگر وہ اپنے مفادات کو عوامی مفادات پر ترجیح دینے لگیں، اگر وہ اقتدار کے لیے ہر حد پار کرنے کو تیار ہو جائیں تو پھر سیاست اپنی اصل سے محروم ہو جاتی ہے۔ پاکستان ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے اور اس وقت اسے ایسی سیاست کی ضرورت ہے جو دلیل برداشت اور مکالمے پر مبنی ہو۔ مگر اگر سیاست اسی طرح نفرت اور تصادم کا شکار ہو جائے گی تو یہ ممکن نہیں رہے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اختلاف کو جب اختلاف ایک دوسرے کے بجائے دوسرے کو جاتا ہے کے لیے تو پھر ختم ہو دیا جا چکی ہے رہا ہے ہے اور رہی ہے کچھ ہو
پڑھیں:
ظلم کا لفظ کم پڑ گیا، غزہ، کربلا کی صدا
اسلام ٹائمز: یہ نام نہاد تنظیمیں دہرے معیار رکھتی ہیں، یوکرین پر حملہ ہو تو پورا مغرب چیخ اٹھتا ہے، روس پر پابندیاں لگتی ہیں، میڈیا آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے۔ لیکن فلسطین کے لیے وہی دنیا صرف "تشویش" اور "فکر" ظاہر کرکے چپ ہو جاتی ہے۔ یہ دوہرا معیار انسانیت کے منہ پر طمانچہ ہے۔۔ آخر میں وہی جو امید کی کرن ہیں، ظلم کی سیاہ رات میں روشنی کا چراغ ہیں، غریب اور بے بسوں کی آس ہے، دل کی صدا ہیں۔ مولا آجائیے، مولا آجائیے۔ جب دنیا ظلم سے بھر جائے، جب انصاف سو جائے، جب آنکھیں اشکبار ہوں، تب ایک ہی صدا دل سے نکلتی ہے: "یا صاحبَ الزمان! أدرِکنا!" (اے زمانے کے آقا! ہماری مدد کو پہنچیں!) تحریر: سیدہ زہراء عباس
ظلم کا لفظ کم پڑ گیا ہے۔ غزہ اور فلسطین میں ایسے مظالم کی داستانیں رقم ہو رہی ہیں کہ رہتی دنیا تک انسانیت ان کو سن کر شرمائے گی۔ ظالم صہیونی اپنی درندگی کی تمام حدیں پار کرچکے ہیں، لیکن۔۔۔۔ نہ کوئی روکنے والا ہے، نہ پوچھنے والا۔ خالی باتیں، جلوس، ریلیاں، کانفرنسیں۔۔۔۔ اور عمل؟ آہ! کیسا ظلم ہے یہ کہ روحیں کانپ جاتی ہیں، دل دہل جاتے ہیں۔ قاہرہ کے ایک اسکول میں موجود بےگھر فلسطینی خاندانوں پر جب اسرائیلی فضائی حملہ ہوا، تو ایک بچے کا بازو اس کے جسم سے الگ ہوگیا۔۔۔۔ وہ بچہ اذیت میں تڑپتا رہا، بلکتا رہا، لیکن انصاف ساکت و صامت رہا۔
مسلمانوں! کیا تمہیں ان معصوموں کی آہ و بکا سنائی نہیں دیتی۔؟ کیا بچوں کی کٹی ہوئی لاشیں، ان کی سسکیاں، ان کی رُکتی سانسیں تمہارے دل پر دستک نہیں دیتیں۔؟ (رونے کی بھی ہمت ختم ہوچکی ہے) ظلم پر ظلم۔۔۔۔ دھماکے۔۔۔ تباہی۔۔۔ بھوک، پیاس، قحط۔۔۔۔ کون سی ایسی اذیت باقی رہ گئی ہے، جس سے وہ نہیں گزرے۔؟ الفاظ بے بس ہیں۔ کبھی کسی ماں کو گولی لگی، کہیں کوئی بچہ دم توڑتا رہا۔۔۔۔ اور غزہ کے بچے سوال کرتے ہیں: "امتِ مسلمہ کہاں ہے۔؟" معصوم لاشیں ہم سے پوچھتی ہیں: "مسلمانوں، تم کب جاگو گے۔؟" اوہ مجالس و ماتم برپا کرنے والو! یہ ظلم تمہیں نظر نہیں آرہا۔؟ کیا یہی درسِ کربلا ہے۔؟ کیا یہی پیغامِ مولا حسینؑ ہے۔؟
کربلا تو ہمیں ظلم کے خلاف ڈٹ جانے کا پیغام دیتی ہے، مگر ہم کیا کر رہے ہیں۔؟ مجالس میں رو دھو کر، ماتم کرکے، چند لوگوں میں نذر و نیاز بانٹ کر یہ سمجھ لیتے ہیں کہ حق ادا ہوگیا؟ کہ ہم نے مولا کو راضی کر لیا۔ نہیں! کربلا کو سمجھو۔۔۔ اگر مقصدِ کربلا سمجھ آ جاتا، تو ہم آج ہر ظالم کے خلاف اور ہر مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوتے۔ "ظالم کے آگے خاموش رہنا، ظلم سے بھی بڑا ظلم ہے!" امام حسینؑ کا کردار ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ظلم کے خلاف خاموشی بھی گناہ کے زمرے میں آتی ہے۔ آج ظلم کی سیاہ چادر غزہ کے افق پر چھا چکی ہے۔ غزہ میں تقریباً 2.1 ملین انسان رہ رہے ہیں۔ ان میں سے 96%، یعنی 2.13 ملین افراد شدید قحط اور خوراک کے بحران کا شکار ہیں۔
4700,000 ہزار افراد ایسے ہیں، جو مکمل فاقے اور موت کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ 71,000 بچے اور 17,000 مائیں شدید غذائی قلت کا شکار ہیں اور موت کے خطرے میں ہیں۔ غزہ ہمیں پکار رہا ہے۔ اس مظلوم خطے میں لوگ درد، ظلم، تباہی، بھوک، افلاس، قحط میں گھرے ہیں بچے، عورتیں، بوڑھے بزرگ سب اپنے بنیادی حقوق کے لیے ترس رہے ہیں اور ان کی چیخ و پکار عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ رہی ہے۔ آج جب پوری دنیا میں آزادی اور حقوق انسانی اور جمہوریت کی بات ہوتی ہے، کسی کو غزہ اور فلسطین کے مظلوم نظر نہیں آرہے، کہاں ہیں وہ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے علمبردار؟ جس کا قیام اور مقصد انسانی حقوق کا تحفظ تھا۔
یہ نام نہاد تنظیمیں دہرے معیار رکھتی ہیں، یوکرین پر حملہ ہو تو پورا مغرب چیخ اٹھتا ہے، روس پر پابندیاں لگتی ہیں، میڈیا آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے۔ لیکن فلسطین کے لیے وہی دنیا صرف "تشویش" اور "فکر" ظاہر کرکے چپ ہو جاتی ہے۔ یہ دوہرا معیار انسانیت کے منہ پر طمانچہ ہے۔۔ آخر میں وہی جو امید کی کرن ہیں، ظلم کی سیاہ رات میں روشنی کا چراغ ہیں، غریب اور بے بسوں کی آس ہے، دل کی صدا ہیں۔ مولا آجائیے، مولا آجائیے۔ جب دنیا ظلم سے بھر جائے، جب انصاف سو جائے، جب آنکھیں اشکبار ہوں، تب ایک ہی صدا دل سے نکلتی ہے: "یا صاحبَ الزمان! أدرِکنا!" (اے زمانے کے آقا! ہماری مدد کو پہنچیں!)