Express News:
2025-06-09@13:34:54 GMT

سیاست سے رواداری ختم

اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT

سیاست ہمیشہ سے مکالمے برداشت اور دلیل کی بنیاد پر چلتی آئی ہے۔ اختلافات رہے، نظریاتی تقسیم بھی موجود رہی مگر جمہوریت اسی صورت میں پروان چڑھتی ہے جب اختلافِ رائے کو برداشت کیا جائے، جب دوسروں کو سننے اور سمجھنے کی روایت باقی رہے۔ مگر جب سیاست میں سے رواداری ختم ہو جائے ،جب اختلاف کو دشمنی سمجھا جانے لگے ،جب مکالمے کی جگہ دھمکی اور دلیل کی جگہ تحقیر لے لے تو پھر جمہوریت صرف ایک دکھاؤا بن کر رہ جاتی ہے۔

 دنیا کی تاریخ میں کئی بار ایسے مرحلے آئے ہیں جب طاقت کے نشے میں چور حکمرانوں نے مکالمے کے بجائے طاقت اور جبر کا راستہ اپنایا، جب دلیل کو مسترد کرکے دھونس کو سیاست کا ہتھیار بنایا گیا۔ ایسی سیاست کا انجام ہمیشہ ایک جیسا رہا ہے، انتشار، بد امنی، عوام میں مایوسی اور ریاست میں عدم استحکام۔

 یہ صرف کسی ایک ملک کی کہانی نہیں۔ آج دنیا میں کئی مقامات پر یہی کچھ ہو رہا ہے۔ جمہوریت کا لبادہ اوڑھے کئی ممالک میں آمریت کی روح سرایت کرچکی ہے۔ طاقتور لوگ اختلاف کو برداشت کرنے کے بجائے اسے دبانے پر یقین رکھتے ہیں۔ گفتگو کے دروازے بند کردیے گئے ہیں اور جو سوال اٹھائے اسے یا تو باغی قرار دے دیا جاتا ہے یا غدار۔ حالیہ دنوں میں ایک عالمی رہنما نے ایک ریاستی صدر کے ساتھ جس انداز میں گفتگو کی وہ اسی جمہوری زوال کی ایک جھلک ہے۔

لب و لباب یہی تھا کہ یا تو ہماری بات مانو ورنہ سنگین نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہو۔ یہ زبان کسی جمہوری رہنما کی نہیں ہوسکتی یہ وہ طرزِ عمل ہے جو آمریت میں دیکھا جاتا ہے جہاں اقتدار پر قابض لوگ کسی بھی اختلاف کو اپنی طاقت کے لیے خطرہ سمجھ کر اسے کچل دینا چاہتے ہیں۔

 پاکستان کی سیاست بھی اسی روش پر چل رہی ہے۔ یہاں بھی مکالمہ ختم ہوچکا ہے یہاں بھی برداشت کا جنازہ نکل چکا ہے اور یہاں بھی اختلاف کو دشمنی سمجھا جانے لگا ہے۔ سیاسی تقسیم اس نہج پر پہنچ چکی ہے جہاں دلیل کی جگہ الزامات اور تحقیر نے لے لی ہے۔

 ماضی میں بھی یہاں اختلاف کو دبانے کے لیے ہر ممکن ہتھکنڈہ استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ 1970 کی دہائی میں جب ملک شدید سیاسی تقسیم کا شکار تھا تو اس کا نتیجہ ہمیں 1971 میں دکھائی دیا۔ ایک ایسا بحران پیدا ہوا جس نے ملک کے دو ٹکڑے کر دیے۔ اس کے بعد بھی یہی روش جاری رہی، 1990 کی دہائی میں سیاسی قیادت کے درمیان محاذ آرائی نے جمہوریت کو کمزور کیا، معیشت کو نقصان پہنچایا اور اداروں کو بے توقیر کردیا۔

 آج بھی وہی کچھ ہو رہا ہے۔ سیاسی اختلاف کو غداری قرار دیا جا رہا ہے، ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ ہے اور سیاست صرف مخالفین کو نیچا دکھانے کی دوڑ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ سیاستدانوں کی گفتگو میں دلیل کم اور نفرت زیادہ ہوتی جا رہی ہے۔ جو بلند آواز میں بولے جو زیادہ اشتعال انگیز بات کرے وہی کامیاب سمجھا جاتا ہے۔

 یہ رویہ صرف سیاست تک محدود نہیں رہا۔ میڈیا، سوشل میڈیا اور عوامی سطح پر بھی یہی مزاج سرایت کر چکا ہے۔ ایک وقت تھا جب سیاسی مباحثے علمی ہوا کرتے تھے جب اختلاف کو علمی و فکری بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ مگر آج ہر ٹی وی اسکرین پر الزامات ،گالی گلوچ اور دھمکیوں کی بھرمار ہے۔

سیاستدانوں کے لیے مخالف کو نیچا دکھانا سب سے بڑی ترجیح بن چکا ہے۔ ایک وقت تھا جب پارلیمنٹ میں سیاسی قیادت ایک دوسرے کو برداشت کرتی تھی مگر آج وہاں بھی وہی کچھ ہوتا ہے جو ٹی وی اسکرین پر نظر آتا ہے۔ کوئی چیختا ہے، کوئی میز پر ہاتھ مارتا ہے، کوئی دوسرے کو غدار کہتا ہے اور کوئی ہاتھا پائی پر اتر آتا ہے۔ یہ سیاست نہیں، یہ ایک تماشا ہے، ایک ایسا تماشا جو سماج کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کرتا ہے۔

 اس تماشے کے اثرات عوام پر بھی پڑ رہے ہیں۔ جب سیاست میں برداشت ختم ہو جائے، جب دلیل کا قتل کردیا جائے، جب اختلاف کرنے والوں کو غدار قرار دیا جائے تو پھر یہی رویہ عام زندگی میں بھی نظر آتا ہے۔

لوگ ایک دوسرے کو سننے کے بجائے لڑنے کو تیار ہوجاتے ہیں، عدم برداشت عام ہو جاتا ہے اور ہر اختلاف کا نتیجہ نفرت اور تصادم میں نکلتا ہے۔ آج پاکستان میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ سڑکوں پر گھروں میں تعلیمی اداروں میں ہر جگہ تلخی بڑھتی جا رہی ہے۔ سیاسی تقسیم نے عوامی زندگی کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ کوئی کسی ایک جماعت کو سپورٹ کرتا ہے ،کوئی کسی دوسری کو، مگر دونوں کے درمیان مکالمہ ممکن نہیں۔ دونوں اپنے اپنے نظریے پر اس قدر ڈٹے ہوئے ہیں کہ دوسروں کی بات سننے کے لیے تیار نہیں۔ یہی وہ رویہ ہے جو سماجی زوال کی نشاندہی کرتا ہے۔

معاشی بحران سنگین ہوتا جا رہا ہے، عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں، بے روزگاری عام ہو چکی ہے مگر سیاستدانوں کی توجہ ان مسائل پر نہیں۔ ان کے نزدیک سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ کون اقتدار میں آئے گا اور کس کو اقتدار سے باہر رکھنا ہے۔ معیشت کی زبوں حالی کسی کا مسئلہ نہیں تعلیم اور صحت کی تباہی کسی کی ترجیح نہیں، بس اقتدار کا کھیل جاری ہے۔ اسی کھیل میں ادارے بھی کمزور ہو رہے ہیں، عدلیہ بھی دباؤ میں آ رہی ہے اور جمہوری عمل بھی اپنی ساکھ کھو رہا ہے۔ ایسے میں اگر سیاستدان خود بھی مکالمے اور رواداری کو خیرباد کہہ دیں تو پھر سیاست کا مطلب ہی ختم ہو جاتا ہے۔ وہ سیاست جس کا مقصد عوام کی خدمت تھا،وہ محض طاقت کی جنگ بن کر رہ جاتی ہے۔

یہ سب کچھ دیکھ کر سوال اٹھتا ہے کہ آخر اس صورتحال کا حل کیا ہے؟ کیا سیاست ہمیشہ اسی طرح رہے گی؟ کیا برداشت کبھی واپس آئے گی؟ کیا سیاستدان کبھی ایک دوسرے کو سننے اور سمجھنے کے لیے تیار ہوں گے؟ ان سوالوں کے جواب شاید اتنے آسان نہیں مگر ایک بات طے ہے کہ جب تک سیاست میں مکالمہ بحال نہیں ہوگا جب تک برداشت واپس نہیں آئے گی، جب تک دلیل کو دبانے کے بجائے اسے سننے اور سمجھنے کا رجحان پیدا نہیں ہوگا، تب تک سیاست اسی طرح زہر آلود رہے گی اور اس کا نقصان صرف سیاستدانوں کو نہیں پورے ملک کو اٹھانا پڑے گا۔ عوام کو بھی سوچنا ہوگا کہ وہ کیسی سیاست چاہتے ہیں۔ اگر وہ بار بار ان ہی لوگوں کو منتخب کریں گے جو نفرت کی سیاست کرتے ہیں جو مکالمے کے بجائے تصادم کو ترجیح دیتے ہیں تو پھر بہتری کی امید کیسے رکھی جا سکتی ہے؟

سیاست صرف اقتدار کا نام نہیں، یہ ایک ذمے داری ہے، ایک عہد ہے کہ عوام کی بہتری کے لیے کام کیا جائے گا۔ اگر سیاستدان اپنی ذمے داری کو بھول جائیں، اگر وہ اپنے مفادات کو عوامی مفادات پر ترجیح دینے لگیں، اگر وہ اقتدار کے لیے ہر حد پار کرنے کو تیار ہو جائیں تو پھر سیاست اپنی اصل سے محروم ہو جاتی ہے۔ پاکستان ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے اور اس وقت اسے ایسی سیاست کی ضرورت ہے جو دلیل برداشت اور مکالمے پر مبنی ہو۔ مگر اگر سیاست اسی طرح نفرت اور تصادم کا شکار ہو جائے گی تو یہ ممکن نہیں رہے گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اختلاف کو جب اختلاف ایک دوسرے کے بجائے دوسرے کو جاتا ہے کے لیے تو پھر ختم ہو دیا جا چکی ہے رہا ہے ہے اور رہی ہے کچھ ہو

پڑھیں:

تین سال پہلے کے نرخ اب؟

جس دن وزیراعظم نے بجلی کے بلوں میں ’’باتصویر‘‘ کمی کا اعلان کیا اس سے اگلے دن ہم اخبارات کا بے چینی سے انتظار کررہے تھے کہ ’’لازم وملزوم‘‘ اس پر کیا بیان آئے گا؟

’’لازم وملزوم‘‘خیبر پختون خوا کے اخبارات کا وہ کام ہے جو معاون خصوصی برائے اطلاعات کو مستقل طورپر الاٹ کی جا چکی ہے یہ جگہ پہلے صفحے کے عین بیچوں بیچ دائیں طرف واقع ہے نہ ایک انچ ادھر نہ ایک انچ ادھر۔ سرکاری جگہ میں معاون خصوصی کے ’’عہدوں‘‘ ڈگریوں سے مزین گل افشانی ہوتی ہے ۔ عین ممکن ہے کہ وزیراعظم ، صدر ، گورنر ،وزیراعلیٰ کے بیانات میں ناغہ ہوجائے لیکن ڈگریوں، عہدوں اور تصویر سے مزین اس شاعری میں ناغہ نہیں ہوسکتا ہے اوراس دن بھی ناغہ نہیں ہوا تھا لیکن جو بیان آیا تھا اس نے ہمیں حیران پریشان ، ناطقہ سربگریبان اورخامہ انگشت بدندان کردیا تھا کہ ’’بجلی اورپٹرولیم کے نرخوں میں جس نے یہ کمی کی تھی وہ جیل میں پڑا ہے ‘‘

 ظاہرہے کہ یہ بہت بڑا انکشاف بلکہ کشاف الاکشاف تھا، بجلی اورپٹرولیم وغیرہ میں ’’جس ‘‘ نے کمی کی تھی وہ سال ڈیڑھ سال سے جیل میں ہے ، اس سے پہلے بھی اسلام آباد پر چڑھائیوں میں مصروف تھے یعنیکل ملا کر اگر وہ نرخوں میں ’’کمی‘‘ کرچکے تھے تو اسے تین سال کا عرصہ تو یقیناً گزرا ہے تو یہ کمی اب تک کہاں تھی ؟ اتنی دیر سے کیوں پہنچی ، ہمارا خیال ہے یہ ’’کمی ‘‘ کسی خرگوش کی پیٹھ پر سوار کی گئی تھی اگر کچھوے کی پیٹھ پر ہوتی تو پھر بھی سال چھ مہینے میں اسے پہنچ جانا چاہیے تھا لیکن سلسلہ مواصلات یقیناً ’’خرگوش‘‘ تھا جو کہیں کسی درخت کے سائے میں یاکسی اے سی کمرے میں سو گیا ہوگا ۔

اس پر ہمیں وہ شخص یاد آیا جس کا ذکر ہم نے کہیں کیا بھی ہے ۔ وہ پڑوس کے گاؤں سے ہمارے پاس اپنی شاعری سنانے آتا تھا کیوں کہ اس کاکہنا تھا کہ صرف ہم ہی اس کی شاعری کو سمجھتے ہیں ، ایک بات اس نے یہ بتائی تھی کہ اس نے بینظیر بھٹو پر ایک نظم لکھی تھی جس کے عوض پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے پانچ لاکھ روپے کی پیش کش کی تھی لیکن میں نے رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ تمہاری نظر میں بینظیر کی قیمت صرف پانچ لاکھ روپے کی ہے اورمیری نظر میں اس کی قیمت قارون کے سارے خزانوں سے بھی زیادہ ہے ۔دوسری بات یہ کہ جب ہم نے جان چھڑا نے کے لیے کہا کہ ہم ایک جنازے میں جارہے ہیں، دو نوجوان بھائی ایک روڈایکیسڈنٹ میں مرے ہیں اوریہ بات سچ تھی ۔ تو اس نے کہا اگر کوئی جیب میں ’’پریزیڈنٹ پن‘‘ رکھے تو اسے کوئی حادثہ پیش نہیں آسکتا۔لیکن اس کا تیسرا نظریہ یا دعویٰ ہم نے آپ کو نہیں بتایا ہے ، اس کا دعویٰ تھا کہ رحمان بابا کادیوان اصل میں میرا دیوان ہے ۔میں نے جب رحمان بابا اوراس کے زمانے کی بات کی تو اس نے کہا کہ وہ اس جنم سے پہلے رحمان بابا کے زمانے میں بھی پیدا ہوا تھا بلکہ رحمان بابا میرا شاگرد ہوا کرتا اورمجھ پر جب بھی ’’آمد‘‘ طاری ہوجاتی تھی،رحمان بابا اسے لکھنے لگتا تھا ۔پھر ایک خاتون کے عشق میں جب اس کے بھائیوں نے مجھے مرتبہ شہادت پر پہنچایا تو میرا کلام رحمان بابا کے پاس رہ گیا ۔ لیکن اس نے خود یہ خیانت نہیں کی تھی بلکہ جب وہ فوت ہوگیا تھا اوراس کے سامان میں چند تصویر بتاں کے ساتھ یہ کلام بھی نکل آیا تو لوگوں میں اس کا یہ کلام مشہورہوگیا۔دراصل کچھ غلطی میری بھی تھی کہ میں اپنے کلام میں تخلص نہیں استعمال کرتا تھا کیوں کہ ہم دونوں کا نام رحمان تھا۔

ہمارا خیال ہے کہ یہ بجلی وجلی کے نرخوں کاچکر بھی کچھ ایسا ہی ہے کام بلکہ کارنامہ اس کا تھاجو جیل میں ہے اوربیچارا دیسی گھی میں دیسی مرغ کھانے پر مجبور ہے ۔خیر اس کا بدلہ تو ہم لے کر رہیں گے اوران مینڈیٹ چوروں کو اس سے ڈبل عرصہ دیسی مر غ اوردیسی گھی کھلائیں گے جو انھوں نے ’’بانی‘‘ کو کھلائے ہیں ۔

اوراس بیان پر ہمیں پکا پکا یقین اس لیے ہے کہ ہمارے معاون خصوصی برائے اطلاعات کبھی جھوٹ نہیں بولتے اورجو بھی بولتے ہیں سچ بولتے ہیں اوریہ صرف ہم نہیں کہہ رہے بلکہ صوبہ خیر پخیرکا بچہ بچہ جانتا ہے کہ ان کے بیانات ’’سچ‘‘ کاسرچشمہ ہوتے ہیں ، خاص طورپر وہ جو کچھ پنجاب اوروفاق کی مینڈیٹ چورحکومتوں کے بارے میں بولتے ہیں ۔

  ویسے یہ اطلاعات بھی آرہی ہیں کہ ان کے بیانات پڑھ پڑھ کر اوراس میں حد سے زیادہ سچائی پاکر لوگ الٹیاں کرنے لگ گئے ہیں کیوں کہ ملاوٹ کے عادی معدے اتنی خالص سچائیاں ہضم نہیں کرپارہے ہیں

سچ بڑھے یاگھٹے تو سچ نہ رہے

جھوٹ کی کوئی انتہا ہیں نہیں

متعلقہ مضامین

  • افسوس بھارت نے سیاست کو مذہب سے جوڑ دیا: رمیش سنگھ اروڑا
  • بھارت میں آزادیٔ اظہار جرم، اختلافِ رائے گناہ ؛ مودی سرکار میں سنسر شپ بڑھ گئی
  • ٹرمپ اور ایلون مسک آمنے سامنے: سیاست، معیشت اور خلائی پروگرام پر لرزہ طاری
  • اڈیالہ جیل میں صبح 7 بجے نماز عید ادا کی گئی
  • ڈاکٹر، مگر کونسا؟
  • انکار کیوں کیا؟
  • سیاست میں اتار چڑھا آتا رہتا، پی ٹی آئی کی مقبولیت کم نہیں ہوئی، فواد چودھری
  • سکردو، عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں کی گرفتاری کیخلاف احتجاجی مظاہرہ
  • تین سال پہلے کے نرخ اب؟
  • بس اب بہت ہو چکا