نوعمر ٹک ٹاکرز کے اکاؤنٹ اب ان کے والدین کنٹرول کرسکیں گے
اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT
ٹک ٹاک نے والدین کو اجازت دے دی ہے کہ وہ اپنے نوعمر بچوں کے فالورز کی لسٹ چیک کریں اور مخصوص اوقات میں بچوں کو ٹک ٹاک کے استعمال سے روکیں۔
منگل کے روز ٹک ٹاک نے اپنی ایک پوسٹ کے ذریعے اعلان کیا کہ وہ اپنی ایپ پر نوعمروں کی حفاظت کے لیے نئی خصوصیات متعارف کررہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ٹک ٹاک کا ’کریئٹر ایوارڈز 2024‘ کا اعلان، کون سے پاکستانی نامزد؟
سوشل نیٹ ورک والدین کو یہ اہلیت دے رہا ہے کہ وہ اپنے نوعمروں کو مخصوص گھنٹوں کے دوران ٹک ٹاک استعمال کرنے سے روک سکتے ہیں اور فیملی پیئرنگ کی نئی خصوصیات کے ذریعے اپنے نوعمروں کی پیروی اور پیروکاروں کی فہرستیں دیکھ سکتے ہیں۔
نئی ’ٹائم ایوے‘ خصوصیت کے ساتھ والدین اپنے نوعمروں کو مخصوص اوقات میں ٹاک تک رسائی سے روک سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر وہ گھر میں فیملی کے ساتھ وقت، اسکول، رات کے وقت، یا کسی ہفتے کے آخر میں رسائی کو روکنے کا انتخاب کرسکتے ہیں۔ والدین اس خصوصیت کا استعمال ایک بار بار چلنے والا شیڈول ترتیب دینے کے لیے بھی ک سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ایلون مسک کے ممکنہ طور پر ٹک ٹاک خریدنے پر ٹرمپ نے کیا کہا؟
جبکہ نوعمر اضافی وقت کی درخواست کرسکتے ہیں، جس کا فیصلہ والدین کریں گے کہ آیا وہ رسائی دینا چاہتے ہیں یا نہیں۔
اس کے علاوہ والدین اب دیکھ سکتے ہیں کہ ان کا نوعمر کس کی پیروی کر رہا ہے اور کون ان کی پیروی کرتا ہے۔ وہ یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ ان کے نوعمر نے کس کو بلاک کیا ہے۔
ٹک ٹاک کا کہنا ہے کہ اس سے والدین کو اپنے نوعمروں کو ڈیجیٹل خواندگی کی مہارتوں کو فروغ دینے اور حفاظت کے بارے میں ان کے ساتھ مسلسل بات چیت کرنے میں مدد ملے گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news ٹک ٹاک فالورز نو عمر والدین.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ٹک ٹاک فالورز والدین اپنے نوعمروں اپنے نوعمر سکتے ہیں ٹک ٹاک
پڑھیں:
آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد حالات غیر مستحکم، مقبوضہ کشمیر مودی کے کنٹرول سے باہر
مقبوضہ کشمیر جنگی جنون میں مبتلا بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے کنٹرول سے باہر ہو چکا ہے اور آرٹیکل 370 کی منسوخی بھی مودی سرکار کا ایک ناکام اقدام ثابت ہوا ہے۔
آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال غیر مستحکم و تشویش ناک ہے اور مقبوضہ وادی کا کنٹرول مودی سرکار کے ہاتھ سے نکل چکا ہے، جس سے امن کے دعوے بے بنیاد ثابت ہو رہے ہیں۔
آرٹیکل370 کی منسوخی سمیت مودی کی تمام یکطرفہ پالیسیوں نے عوامی غصے کو بغاوت کی شکل دے دی ہے۔
یاد رہے کہ آرٹیکل 370 کی منسوخی پر امت شاہ نے اسے پارلیمنٹ میں تاریخی قدم قرار دیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہآرٹیکل 370 ہٹانے سے کشمیر میں دہشت گردی ختم ہوگی امن ویکساں حقوق ملیں گے۔
حالات نے ثابت کردیا ہے کہ امت شاہ کے یہ دعوے حقیقت سے کوسوں دور ہیں اور مقبوضہ وادی آج بھی سلگ رہی ہے۔
مودی حکومت نے کشمیری عوام اور قیادت کو نظرانداز کرتے ہوئے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کیا تھا۔ محبوبہ مفتی، عمر عبداللہ اور دیگر رہنماؤں کو نظر بند کیا، جس کے ردعمل میں احتجاج اور تحریکیں شدت پکڑ گئیں۔
مودی کی پالیسیوں کے خلاف جموں و کشمیر اپنی پارٹی جیسی جماعتیں منظر عام پر آئیں۔ اس کے علاوہ بھی کشمیر میں مودی حکومت کے خلاف مزاحمت بڑھ رہی ہے اور آزادی کی آوازیں مزید بلند ہو رہی ہیں ۔
مودی حکومت کے اقدامات سے کشمیر ایک کھلی جیل کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ کرفیو نافذ کرکے انسانی حقوق کی پامالیاں عام بات بن چکی ہے۔ یہاں تک کہ ہیومن رائٹس واچ نے 2019 کے بعد مقبوضہ کشمیر میں حقوق کی پامالیوں کو دستاویزی شکل دی۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق 2020 اور 2021 میں 200 سے زائد شہری سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ’فیک انکاؤنٹر‘ میں مارے گئے۔ ہزاروں کشمیری بشمول سیاسی رہنماؤں، کارکنوں اور طلبا کو بغیر الزام یا مقدمے کے گرفتار کیا گیا۔
انسانی حقوق تنظیم کے مطابق اگست 2019 سے فروری 2020 تک 7 ماہ کی طویل انٹرنیٹ کی بندش سے زندگی مفلوج ہیں اور پابندیاں اب بھی جاری ہیں۔ فوجی کارروائیوں کے دوران تشدد اور ریپ کے واقعات میں اضافہ ہو چکا ہے جب کہ میڈیا پر پابندیاں ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں مودی کےجبر کیخلاف جاری مزاحمت، آزادی کے لیے کشمیری عوام کے عزم کی عکاسی ہے۔