کوئی ملک آئین کے مطابق نہ چلے تو یہ سنگین جرم ہے، شبلی فراز
اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT
پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کے رہنما شبلی فراز کا کہنا ہے کہ کسی ملک کا آئین کے مطابق نہ چلنا سنگین جرم ہے۔
رہنما پی ٹی آئی شبلی فراز نے جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ جو بھی چیزیں ہو رہی ہیں وہ آئین کے خلاف ہیں۔ کوئی ملک آئین کے مطابق نہ چلے تو یہ سنگین جرم ہے۔
شبلی فراز نے کہا کہ کل میں نے سینیٹ میں اپنی تقریر میں آئینی نکات اٹھائے ہیں۔ سینیٹ کے چیئرمین، ڈپٹی چیئرمین یا صدر کے جو الیکشن ہوئے یہ ایک لحاظ سے غیر آئینی ہیں۔ جن شقوں کا حوالہ دیا گیا ہے یہ واضح ہے کہ ان شقوں کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔
پی ٹی آئی کے رہنما کا مزید کہنا تھا کہ یہ جو آئین کی خلاف ورزی کی گئی ہے اس معاملے کو ہم سپریم کورٹ لے کے جا رہے ہیں۔ جب کسی طریقہ کار کے بغیر آئین میں تبدیلیاں کر دی جائیں تو آئین محض کاغذ کا ٹکڑا بن کے رہ جاتا ہے۔ مختلف کیسز کی آج سماعت ہوئی جن میں سے اکثر کیسز کی لاہور ہائیکورٹ سے ضمانتیں ہو چکی ہیں۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
سول ہسپتال کوئٹہ میں مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں سول ہسپتال کوئٹہ کے آڈٹ کے دوران ادویات کے ریکارڈ میں انحراف اور 537 روپے کے آکیسجن سلینڈر کیلئے 40 ہزار ادا کرنے سمیت دیگر بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بلوچستان اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں سنڈیمن پرووینشل (سول) ہسپتال کوئٹہ میں کروڑوں روپے کی مالی بے ضابطگیوں اور سنگین انتظامی بدنظمی کا انکشاف ہوا ہے۔ کمیٹی کے چیئرمین اصغر علی ترین کی زیر صدارت اجلاس میں پیش کی گئی اسپیشل آڈٹ رپورٹ کے مطابق مالی سال 2017 تا 2022 کے دوران اسپتال انتظامیہ نے 3 کروڑ روپے مالیت کی ادویات خریدیں، لیکن سپلائی آرڈرز اور بلز میں شدید تضاد پایا گیا۔ ریکارڈ کے مطابق آرڈر ایک کمپنی کو جاری کیا گیا، جبکہ ادائیگی کسی دوسری کمپنی کو کی گئی۔ اس کے علاوہ اسٹاک رجسٹر اور معائنہ کی رپورٹس بھی موجود نہیں ہیں۔
رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ مالی سال 2019-20 کے دوران سول ہسپتال کے مرکزی اسٹور سے دو کروڑ 28 لاکھ روپے مالیت کی ادویات غائب ہو گئیں۔ اس سنگین غفلت پر مؤقف اختیار کیا گیا کہ سابقہ فارماسسٹ نے بیماری کے باعث بروقت انٹریاں درج نہیں کیں۔ تاہم تشویشناک بات یہ ہے کہ مذکورہ فارماسسٹ کی جانب سے آج تک مکمل ریکارڈ جمع نہیں کرایا گیا۔ اس کے علاوہ آکسیجن سلنڈرز کی زائد نرخوں پر خریداری سے حکومتی خزانے کو ساڑھے 13 لاکھ روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔
آڈٹ رپورٹ میں بتایا گیا کہ معاہدے کے تحت سلنڈرز کی قیمت 537 روپے مقرر تھی، لیکن وبائی دور میں مارکیٹ سے 40 ہزار روپے فی سلنڈر کے ناقابل یقین نرخ پر خریداری کی گئی۔ مزید یہ کہ تمام کوٹیشنز ایک ہی تحریر میں تیار کی گئی تھیں، جس سے شفافیت پر سنگین سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔ کمیٹی نے ان تمام معاملات پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وضاحت کو غیر تسلی بخش قرار دیا اور ذمہ دار افسران کی شناخت اور غفلت کے مرتکب اہلکاروں کے خلاف کارروائی اور انکوائری کرکے ایک ہفتے میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔