UrduPoint:
2025-11-04@01:13:02 GMT

چولستان سے نہریں نکالنے کے منصوبے پر تنازعہ کیوں؟

اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT

چولستان سے نہریں نکالنے کے منصوبے پر تنازعہ کیوں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 مارچ 2025ء) وہ ماہرین جو دریائے سندھ کے نظام سے مزید نہریں نکالنے، خاص طور پر چولستان نہر کی فزیبلٹی تیار کرنے میں سرگرم رہے ہیں، کہتے ہیں کہ یہ منصوبہ قابل عمل نہیں ہے اور حکام کو اس بارے میں کافی عرصہ پہلے ایک رپورٹ میں آگاہ کر دیا گیا تھا۔ یہ رپورٹ گرین پاکستان منصوبے کی درخواست پر تیار کی گئی تھی۔

حال ہی میں صدر آصف علی زرداری نے حکومت کی جانب سے دریائے سندھ کے نظام سے مزید نہریں نکالنے کے منصوبے سے متعلق یکطرفہ پالیسیوں پر سخت تنقید کی۔ انہوں نے خبردار کیا کہ ایسے فیصلے وفاق پر ’’سنگین دباؤ‘‘ پیدا کر رہے ہیں۔

سندھ نہروں کا معاملہ، ماحولیاتی نظام کے لیے خطرہ؟

ماہرین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حکومت کو دی گئی رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا تھا کہ خاص طور پر چولستان نہر نکالنے سے وفاقی اکائیوں کے درمیان تنازع پیدا ہوگا کیونکہ اضافی نہروں کے لیے پانی دستیاب نہیں ہے، اور پانی کا رخ موڑنے سے مقامی کمیونٹیز کے مفادات کو شدید نقصان پہنچے گا۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر حسن عباس، جو ایک معروف ماہرِ آبیات ہیں، نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ستمبر سن دو ہزار تیئس میں ہمیں اس وقت کے سربراہ گرین پاکستان جنرل عاصم ملک کی جانب سے یہ تجزیہ کرنے کے لیے کہا گیا تھا کہ کارپوریٹ فارمنگ منصوبوں کے لیے نہروں کے متبادل پانی کے ذرائع کیا ہو سکتے ہیں۔ ہم نے ایک رپورٹ تیار کی جو ایک امریکی کمپنی ’ہائیڈرو سیمولیٹک انک‘ کے تعاون سے مرتب کی گئی اور اس میں چولستان نہر منصوبے سے اجتناب برتنے کی تجویز شامل تھی کیونکہ ہماری تحقیق چولستان نہر پر مرکوز تھی۔

‘‘

پاک بھارت سندھ طاس معاہدے سے متعلق تنازعہ ہے کیا؟

حسن عباس نے مزید بتایا کہ گرین پاکستان اتھارٹی نے اس تحقیقی رپورٹ کے لیے دس ملین روپے ادا کیے، مگر اس رپورٹ میں چولستان نہر کی مخالفت میں نتیجہ آنے کے باوجود گرین پاکستان نے اس منصوبے کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ حسن عباس کے بقول انہوں نے پانی کے ذخائر سے قریبی دریا کے کنارے سے پانی نکال کر پائپنگ سسٹم کے ذریعے ترسیل کا متبادل طریقہ تجویز کیا تھا۔

انہوں نے کہا، ''ریگستانوں میں نہریں نکالنا کبھی بھی قابل عمل نہیں ہوتا اور حکام اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں، مگر حیران کن بات یہ ہے کہ اتھارٹیز نے اپریل سن دو ہزار چوبیس میں پیش کی گئی رپورٹ کو مکمل طور پر نظرانداز کر دیا، حالانکہ وہ اس کے لیے ادائیگی بھی کر چکے تھے۔‘‘

مختلف گروپس حکومت کے اس نئے نہری منصوبے کی مخالفت میں آواز بلند کر رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ نئی نہریں تعمیر کرنا انیس سو اکانوے کے آبی معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی، جس کے تحت یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ کم از کم دس ملین ایکڑ فٹ پانی دریائے سندھ کے ڈیلٹا تک پہنچایا جائے گا۔

نہریں نکالنے سے کیا نقصان ہو گا؟

پاکستان میں طویل عرصے سے یہ تاثر دیا جاتا رہا ہے کہ دریائے سندھ کا پانی سمندر میں ضائع ہو رہا ہے۔ تاہم، چند ماہرین کا ایک مختلف نقطہ نظر ہے، جن کا کہنا ہے کہ قدرتی ماحول اور ماحولیاتی نظام کو بچانے کے لیے ایک مخصوص مقدار میں پانی کا سمندر تک پہنچنا ضروری ہے۔

دریائے سندھ کو آلودگی سے بچانے کے لیے مل کر اقدامات کرنا ہوں گے، وجاہت ملک

جامی چانڈیو، جو ایک مصنف، اسکالر اور سماجی کارکن ہیں اور سینٹر فار پیس اینڈ سول سوسائٹی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں، دریائے سندھ کے ڈیلٹا تک پانی کی کم فراہمی کے سنگین نتائج پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ پانی کی مقدار میں کمی کی وجہ سے سمندر اب تک چوبیس لاکھ ایکڑ سے زائد سندھ کی زمین نگل چکا ہے، جو کہ ایک بہت بڑا نقصان ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ سندھ پہلے ہی پانی کی کم فراہمی کے باعث مشکلات کا شکار ہے اور اگر دریائے سندھ سے مزید نہریں نکالی گئیں تو یہ صوبہ شدید نقصان اٹھائے گا۔ ان کا کہنا تھا، ''ایوب خان کے دور میں سندھ میں تیرہ لاکھ اچلیس ہزار ایکڑ زمین قابل کاشت تھی، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ پانی کی کمی کے باعث یہ رقبہ کم ہو کر اب صرف سترہ لاکھ بیس ہزار ایکڑ رہ گیا ہے۔

‘‘

جامی چانڈیو کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور دیگر سیاسی جماعتوں کو اس مسئلے کو زیادہ سنجیدگی سے لینا چاہیے، کیونکہ یہ تباہ کن نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔ انہوں نے کہا، ''ہم جانتے ہیں کہ فیصلے کہیں اور ہو رہے ہیں اور حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں کا ان معاملات میں زیادہ اختیار نہیں، لیکن پھر بھی اس مسئلے کو انتہائی سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔‘‘

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے دریائے سندھ کے گرین پاکستان نہریں نکالنے چولستان نہر انہوں نے پانی کی رہے ہیں گیا تھا کے لیے تھا کہ

پڑھیں:

لاہور میں زیر زمین پانی کی سطح بلند کرنے کا منصوبہ 

شہر لاہور میں ایک ہزار گراؤنڈ واٹر ریچارج ویلز بنانے کا بڑا منصوبہ تیار کیا گیا ہے۔ 

تفصیلات کے مطابق زیر زمین پانی کی سطح کو برقرار اور ریچارج کرنے کے لیے بڑا منصوبہ متعارف کروایا جائے گا۔ سیکرٹری ہاؤسنگ نورالامین مینگل نے لبرٹی چوک گراؤنڈ واٹر ریچارج ویل سائٹ کا دورہ کیا جہاں ایم ڈی واسا غفران احمد نے پراجیکٹ پر بریفنگ دی۔

بریفنگ میں بتایا گیا کہ زیر زمین پانی کی سطح کو ریچارج کرنے کےلیے ریچارج ویل بنایا گیا ہے۔ گراؤنڈ واٹر ریچارج ویل کی کپیسٹی یومیہ 8000 گیلن ہے جبکہ لاہور میں تین گراؤنڈ واٹر ریچارج ویلز فنکشنل ہیں۔

مزید برآں لاہور میں کل 15 مقامات پر گراؤنڈ واٹر ویل بنائے جائیں گے۔ نورالامین مینگل نے کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کی ہدایت کے مطابق جدید انجینئرنگ حل متعارف کراویا گیا ہے۔ پی ایچ اے لاہور تمام پارکس میں گراؤنڈ واٹر ریچارج ویل کے لیے جگہ مختص کرے گی۔

نورالامین مینگل نے کہا کہ گراؤنڈ واٹر ریچارج ویلز کی تعمیر کے دوران موجودہ درختوں کا خاص خیال رکھا جائے، ماحولیاتی آلودگی کے تدارک کے لیے اہم فیصلے لیے گئے ہیں۔ واسا پنجاب کے تحت صوبہ بھر میں گراؤنڈ واٹر ریچارج پوائنٹس بنائے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ پانی ایک نعمت، اسے ضائع ہونے سے بچانا ہے۔ تمام ادارے اس پراجیکٹ کو سنجیدگی سے مکمل کریں گے۔

متعلقہ مضامین

  • حکومتی خواب تعبیر سے محروم کیوں؟
  • ای چالان۔ اہل کراچی کے ساتھ امتیازی سلوک کیوں؟
  • تاریخی خشک سالی، تہران میں پینے کے پانی کا ذخیرہ 2 ہفتوں میں ختم ہوجائے گا
  • سندھ طاس معاہدے کی معطلی سے پاکستان میں پانی کی شدید قلت کا خطرہ، بین الاقوامی رپورٹ میں انکشاف
  • وزیر داخلہ کا ٹی چوک فلائی اوور اور شاہین چوک انڈر پاس کا دورہ  
  • پنجاب میں اسموگ کے خاتمے کے لیے ’اینٹی اسموگ گنز‘ کا استعمال
  • ڈنگی کی وبا، بلدیاتی اداروں اور محکمہ صحت کی غفلت
  • نوکری سے نکالنے پر ملازم نے بریانی سینٹر کے مالک پر فائرنگ کردی
  • لاہور میں زیر زمین پانی کی سطح بلند کرنے کا منصوبہ 
  • کراچی : وزیراعلیٰ سندھ مرادعلی شاہ گھوٹکی کندھکوٹ پل منصوبے پر پیشرفت کے جائزہ اجلاس کی صدارت کررہے ہیں