چولستان سے نہریں نکالنے کے منصوبے پر تنازعہ کیوں؟
اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 مارچ 2025ء) وہ ماہرین جو دریائے سندھ کے نظام سے مزید نہریں نکالنے، خاص طور پر چولستان نہر کی فزیبلٹی تیار کرنے میں سرگرم رہے ہیں، کہتے ہیں کہ یہ منصوبہ قابل عمل نہیں ہے اور حکام کو اس بارے میں کافی عرصہ پہلے ایک رپورٹ میں آگاہ کر دیا گیا تھا۔ یہ رپورٹ گرین پاکستان منصوبے کی درخواست پر تیار کی گئی تھی۔
حال ہی میں صدر آصف علی زرداری نے حکومت کی جانب سے دریائے سندھ کے نظام سے مزید نہریں نکالنے کے منصوبے سے متعلق یکطرفہ پالیسیوں پر سخت تنقید کی۔ انہوں نے خبردار کیا کہ ایسے فیصلے وفاق پر ’’سنگین دباؤ‘‘ پیدا کر رہے ہیں۔
سندھ نہروں کا معاملہ، ماحولیاتی نظام کے لیے خطرہ؟
ماہرین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حکومت کو دی گئی رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا تھا کہ خاص طور پر چولستان نہر نکالنے سے وفاقی اکائیوں کے درمیان تنازع پیدا ہوگا کیونکہ اضافی نہروں کے لیے پانی دستیاب نہیں ہے، اور پانی کا رخ موڑنے سے مقامی کمیونٹیز کے مفادات کو شدید نقصان پہنچے گا۔
(جاری ہے)
ڈاکٹر حسن عباس، جو ایک معروف ماہرِ آبیات ہیں، نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ستمبر سن دو ہزار تیئس میں ہمیں اس وقت کے سربراہ گرین پاکستان جنرل عاصم ملک کی جانب سے یہ تجزیہ کرنے کے لیے کہا گیا تھا کہ کارپوریٹ فارمنگ منصوبوں کے لیے نہروں کے متبادل پانی کے ذرائع کیا ہو سکتے ہیں۔ ہم نے ایک رپورٹ تیار کی جو ایک امریکی کمپنی ’ہائیڈرو سیمولیٹک انک‘ کے تعاون سے مرتب کی گئی اور اس میں چولستان نہر منصوبے سے اجتناب برتنے کی تجویز شامل تھی کیونکہ ہماری تحقیق چولستان نہر پر مرکوز تھی۔
‘‘پاک بھارت سندھ طاس معاہدے سے متعلق تنازعہ ہے کیا؟
حسن عباس نے مزید بتایا کہ گرین پاکستان اتھارٹی نے اس تحقیقی رپورٹ کے لیے دس ملین روپے ادا کیے، مگر اس رپورٹ میں چولستان نہر کی مخالفت میں نتیجہ آنے کے باوجود گرین پاکستان نے اس منصوبے کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ حسن عباس کے بقول انہوں نے پانی کے ذخائر سے قریبی دریا کے کنارے سے پانی نکال کر پائپنگ سسٹم کے ذریعے ترسیل کا متبادل طریقہ تجویز کیا تھا۔
انہوں نے کہا، ''ریگستانوں میں نہریں نکالنا کبھی بھی قابل عمل نہیں ہوتا اور حکام اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں، مگر حیران کن بات یہ ہے کہ اتھارٹیز نے اپریل سن دو ہزار چوبیس میں پیش کی گئی رپورٹ کو مکمل طور پر نظرانداز کر دیا، حالانکہ وہ اس کے لیے ادائیگی بھی کر چکے تھے۔‘‘مختلف گروپس حکومت کے اس نئے نہری منصوبے کی مخالفت میں آواز بلند کر رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ نئی نہریں تعمیر کرنا انیس سو اکانوے کے آبی معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی، جس کے تحت یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ کم از کم دس ملین ایکڑ فٹ پانی دریائے سندھ کے ڈیلٹا تک پہنچایا جائے گا۔
نہریں نکالنے سے کیا نقصان ہو گا؟
پاکستان میں طویل عرصے سے یہ تاثر دیا جاتا رہا ہے کہ دریائے سندھ کا پانی سمندر میں ضائع ہو رہا ہے۔ تاہم، چند ماہرین کا ایک مختلف نقطہ نظر ہے، جن کا کہنا ہے کہ قدرتی ماحول اور ماحولیاتی نظام کو بچانے کے لیے ایک مخصوص مقدار میں پانی کا سمندر تک پہنچنا ضروری ہے۔
دریائے سندھ کو آلودگی سے بچانے کے لیے مل کر اقدامات کرنا ہوں گے، وجاہت ملک
جامی چانڈیو، جو ایک مصنف، اسکالر اور سماجی کارکن ہیں اور سینٹر فار پیس اینڈ سول سوسائٹی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں، دریائے سندھ کے ڈیلٹا تک پانی کی کم فراہمی کے سنگین نتائج پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ پانی کی مقدار میں کمی کی وجہ سے سمندر اب تک چوبیس لاکھ ایکڑ سے زائد سندھ کی زمین نگل چکا ہے، جو کہ ایک بہت بڑا نقصان ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سندھ پہلے ہی پانی کی کم فراہمی کے باعث مشکلات کا شکار ہے اور اگر دریائے سندھ سے مزید نہریں نکالی گئیں تو یہ صوبہ شدید نقصان اٹھائے گا۔ ان کا کہنا تھا، ''ایوب خان کے دور میں سندھ میں تیرہ لاکھ اچلیس ہزار ایکڑ زمین قابل کاشت تھی، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ پانی کی کمی کے باعث یہ رقبہ کم ہو کر اب صرف سترہ لاکھ بیس ہزار ایکڑ رہ گیا ہے۔
‘‘جامی چانڈیو کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور دیگر سیاسی جماعتوں کو اس مسئلے کو زیادہ سنجیدگی سے لینا چاہیے، کیونکہ یہ تباہ کن نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔ انہوں نے کہا، ''ہم جانتے ہیں کہ فیصلے کہیں اور ہو رہے ہیں اور حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں کا ان معاملات میں زیادہ اختیار نہیں، لیکن پھر بھی اس مسئلے کو انتہائی سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔‘‘
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے دریائے سندھ کے گرین پاکستان نہریں نکالنے چولستان نہر انہوں نے پانی کی رہے ہیں گیا تھا کے لیے تھا کہ
پڑھیں:
دریائے نیلم اور جہلم میں پانی معمول کے مطابق چل رہا ہے، ذرائع
دریائے نیلم اور دریائے جہلم میں پانی معمول کے مطابق چل رہا ہے، دریائے نیلم آزاد کشمیر میں ٹاؤ بٹ پر بھی پانی کا بہاؤ معمول کے مطابق ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ دریائے جہلم پر اڑی ون 480 میگا واٹ پراجیکٹ سے بھی پانی کا اخراج معمول کے مطابق ہے، اڑی ٹو 240 میگا واٹ پروجیکٹ سے پانی کا اخراج معمول کے مطابق جاری ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان دریاؤں کی تقسیم کا سندھ طاس معاہدہ کیا ہے؟بھارت اور پاکستان کے نمائندوں کے درمیان برسوں کے مذاکرات کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان عالمی بینک کی ثالثی میں (Indus Water Treaty ) سندھ طاس معاہدہ 19ستمبر 1960 کو عمل میں آیا تھا۔
پاکستان نے بھارتی پروازوں کیلئے فضائی حدود ایک ماہ کیلئے بند کردیپاکستانی فضائی حدود کی بندش سے بھارتی پروازوں کو 2 گھنٹوں کا اضافی وقت درکار ہوگا، بھارت کیلئے فضائی حدود کی بندش سے پاکستان کو بھی لاکھوں ڈالر یومیہ کا نقصان ہوگا۔
اس وقت بھارت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور پاکستان کے سربراہ مملکت جنرل ایوب خان نے کراچی میں اس معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
مغربی دریاؤں یعنی سندھ، جہلم اور چناب کو پاکستان، مشرقی دریاؤں یعنی راوی، بیاس اور ستلج کا کنٹرول بھارت کے ہاتھ میں دیا گیا، دونوں ممالک نے دریاؤں کے حوالے سے اپنے مشترکہ مفادات کو تسلیم کرتے ہوئے ایک مستقل انڈس کمیشن قائم کیا، بھارت یکطرفہ معاہدہ معطل یا ختم نہیں کر سکتا، تبدیلی کیلئے رضامندی ضرور ی ،پاکستان ثالثی عدالت جانےکاحق رکھتا ہے۔
قومی سلامتی کمیٹی نے واضح کردیا ہے کہ پاکستان اور اس کی مسلح افواج کسی بھی غلط قدم کے خلاف مکمل طور پر تیار ہے۔
پاکستان سندھ طاس معاہدے کے آرٹیکل 9 کے تحت بھارتی انڈس واٹر کمشنر سے رجوع کرنے پر غور کررہا ہے، معاہدہ معطل کرنے کی وجوہات جاننے کیلئے پاکستانی انڈس واٹر کمشنر کی جانب سے بھارتی ہم منصب کو خط لکھے جانے کا امکان ہے، یہ امید کی گئی تھی کہ یہ معاہدہ دونوں ملکوں کے کاشتکاروں کے لیے خوشحالی لائے گا اور امن، خیر سگالی اور دوستی کا ضامن ہوگا۔
دریاؤں کی تقسیم کا یہ معاہدہ کئی جنگوں، اختلافات اور جھگڑوں کے باوجود 62 برس سے اپنی جگہ قائم ہے۔
سندھ طاس معاہدے کے تحت مغربی دریاؤں یعنی سندھ، جہلم اور چناب کو پاکستان کے کنٹرول میں دیا گیا۔
بھارت کو ان دریاؤں کے بہتے ہوئے پانی سے بجلی پیدا کرنے کا حق ہے لیکن اسے پانی ذخیرہ کرنے یا اس کے بہاؤ کو کم کرنے کا حق نہیں ہے۔ بھارت نے وعدہ کیا کہ وہ پاکستان میں ان کے بہاؤ میں کبھی کوئی مداخلت نہیں کرے گا۔
مشرقی دریاؤں یعنی راوی، بیاس اور ستلج کا کنٹرول بھارت کے ہاتھ میں دیا گیا، بھارت کو ان دریاؤں پر پراجیکٹ وغیرہ بنانے کا حق حاصل ہے جن پر پاکستان اعتراض نہیں کر سکتا۔
دونوں ممالک نے دریاؤں کے حوالے سے اپنے مشترکہ مفادات کو تسلیم کرتے ہوئے ایک مستقل انڈس کمیشن قائم کیا۔ جو بھارت اور پاکستان کے کمشنروں پر مشتمل تھا۔ ہائیڈرولوجیکل اور موسمیاتی مراکز کا ایک مربوط نظام قائم کیا گیا۔