رمضان المبارک میں دہشتگرد حملے کیوں ہوتے ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT
دہشتگردی کے واقعات کے اعتبار سے سال 2024 ملک کے لیے کافی ہولناک تھا لیکن رواں برس کے ابتدائی مہینوں میں بھی کئی دہشتگرد حملے ہو چکے ہیں۔
عام تصور یہ ہے کہ دہشتگردی کا تعلق مذہب سے ہے اور ایسی تنظمیں جو مذہب کی من مانی تشریحات مسلط کرنا چاہتی ہیں وہی دہشتگردی کے پیچھے کارفرما ہوتی ہیں۔ لیکن پھر سوال یہ ہے کہ اس طرح کی مذہبی تنظیمیں مقدس مہینوں کا احترام ملحوظ خاطر کیوں نہیں رکھتیں۔ بلکہ دیکھنے میں آیا ہے کہ رمضان کے مبارک اور مقدس مہینے میں پاکستان میں دہشتگرد حملوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ایک تاثر یہ ہے کہ اِس مہینے میں چونکہ لوگوں کے اجتماعات ہوتے ہیں تو دہشتگردوں کو اپنے ٹارگٹ منتخب کرنے میں آسانی رہتی ہے۔
رمضان 2025حالیہ جعفر ایکسپریس دہشتگرد حملہ 10 رمضان کو ہوا اور اس سے قبل یکم رمضان کو ایک دہشتگرد حملہ بنوں کنٹونمنٹ پر کیا گیا جس میں 9 سے 13 لوگ شہید ہوئے جبکہ ایک مسجد کا کچھ حصہ بھی شہید ہوا۔ رمضان سے صرف ایک دن قبل اکوڑہ خٹک کی مسجد میں دھماکہ ہوا جس میں جمیعت علمائے اسلام س کے مولانا حامد الحق سمیت دیگر 5 افراد شہید ہوئے۔
رمضان 2024رمضان 2024 پاکستان میں دہشتگردی کے 5 بڑے واقعات ہوئے۔ پہلا واقعہ 16 مارچ کو شمالی وزیرستان کے علاقے میں میرعلی میں ہوا جس میں خود کش بم حملے میں سات فوجی جوان شہید ہو گئے۔ دوسرا حملہ 20 مارچ کو بی ایل اے کے دہشتگردوں نے گوادر پورٹ اتھارٹی کمپلیکس پر کیا جس میں 10 لوگ شہید ہوئے جن میں 2 فوجی جوان بھی شامل تھے۔
تیسرا حملہ 26 مارچ کو نیول ایئربیس پر ہوا جس میں 6 لوگ جاں بحق ہوئے۔ چوتھا حملہ بھی 26 مارچ ہی کو چینی شہریوں پر ہوا جس میں 5 چینی شہری جاں بحق ہوئے جبکہ پانچواں حملہ 30 مارچ کو بلوچستان کے ضلع ہرنائی میں بم حملہ ہوا جس میں 15 لوگ جاں بحق ہوئے۔
رمضان 2023رمضان 2023 پاکستان میں 12 دہشتگرد حملے ہوئے جبکہ رمضان شروع ہونے قبل اور اس مہینے کے آخر پر بھی ہمیں دہشتگرد حملوں کی طویل فہرست نظر آتی ہے۔ 29 مارچ 2023 کو رمضان میں دہشتگردوں نے لکی مروت کے پولیس اسٹیشن پر حملہ کیا جس میں 4 پولیس اہلکار شہید اور 6 زخمی ہو گئے۔ یکم اپریل 2023 کو پاک ایران بارڈر پر کیچ ضلعے میں دہشت گردوں کے حملے میں 4 فوجی جوان شہید ہو گئے۔
طالبان سمجھتے ہیں رمضان میں حملہ ان کے لیے باعث برکت ہے، فخر کاکاخیلنامور صحافی اور تجزیہ نگار فخر کاکاخیل نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ رمضان میں مذہبی جوش و خروش زیادہ ہو جاتا ہے۔ طالبان یہ سمجھتے ہیں کہ رمضان کا مہینہ ان کے حملوں کے لیے بابرکت ہے اور اس مہینے میں انہیں کامیابی ملے گی۔ جبکہ بلوچ تو روزے کا اتنا خیال نہیں رکھتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ روزے کی وجہ سے لا انفورسمنٹ اہلکار جسمانی طور پر قدرے نڈھال ہوں گے تو ہم اِس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ فخر کاکا خیل نے بتایا کہ سنہ 2023 کے رمضان میں 14 حملے ہوئے تھے۔ اس رمضان یہ اور بھی بڑھیں گے۔
انہوں نے کہا کہ جتنے دہشتگردی اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات اب تک ہو چکے ہیں وہ بہت تشویش ناک صورتحال ہے اور دہشتگردی بڑھنے کی بنیادی وجہ 15 اگست 2021 ہے۔
فخر کاکا خیل کے مطابق طالبان یہ سمجھتے ہیں کہ اگر انہوں نے امریکا کو شکست دے دی ہے تو پاکستان کو بھی دے سکتے ہیں۔
ساری دہشت گردی مذہبی نہیں، سید محمد علیدفاعی تجزیہ نگار سید محمد علی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے دہشتگردی کی تمام شکلیں مذہبی نہیں۔ ایک نسل زبان اور علاقے کی بنیاد پر دہشت گردی ہو رہی ہے جیسا کہ بی ایل اے کر رہی ہے اور دوسری مذہب کی بنیاد پر دہشتگردی ہو رہی ہے جیسا کہ طالبان کر رہے ہیں اور تیسرے عالمی دہشت گردی ہے جیسے داعش جیسی تنظمیں جو مقامی دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ مل کر وہاں اپنے پاؤں جمانا چاہتی ہیں۔
سید محمد علی نے کہا کہ داعش ایغور مسلمانوں کو بھی اپنے ساتھ شامل کر رہی ہے اور اسی طرح افغان طالبان کی سرپرستی میں 20 کے قریب دہشتگرد تنظمیں وہاں کام کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے درمیان اختلافات شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ حقانی نیٹ ورک جو دوحہ مذاکرات میں بھی شامل رہا وہ تھوڑا دنیا کو جدید انداز سے سمجھتا ہے جبکہ طالبان جو قندھار کو فالو کرتے ہیں وہ قدامت پسند ہیں۔ لیکن اس وقت وہ قدامت پسند طالبان غالب آ رہے ہیں تو افغانستان میں ایسے تمام ایشوز جیسا کہ خواتین کے حقوق اور اقلیتوں کے حقوق ان پر بات نہیں ہو سکے گی۔
پاکستان میں امریکی سفارتخانے جعفر ایکسپریس پر دہشتگرد حملے کی مذمت کی ہے۔ ایکس پر جاری ایک بیان میں سفارت خانے نے کہا ہے کہ ’ہم جعفر ایکسپریس ٹرین پر حملے اور بلوچستان کے ضلع کچھی میں مسافروں کو یرغمال بنانے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ اس حملے کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کی ہے، جسے امریکا نے ایک عالمی دہشتگرد گروپ قرار دیا ہے۔ ہم متاثرین، ان کے اہلخانہ اور اس خوفناک واقعے سے متاثر ہونے والے تمام افراد سے گہری ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کرتے ہیں۔ پاکستانی عوام کو تشدد اور خوف سے آزاد زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے۔ امریکا پاکستان کا مضبوط شراکت دار رہے گا تاکہ وہ اپنے تمام شہریوں کی حفاظت اور سلامتی کو یقینی بنا سکے۔ ہم اس مشکل وقت میں پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں‘۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا بی ایل اے دہشتگرد حملے دہشتگردی رمضضان میں دہشتگردی طالبان.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا بی ایل اے دہشتگرد حملے دہشتگردی رمضضان میں دہشتگردی طالبان دہشتگرد حملے میں دہشتگرد پاکستان میں سمجھتے ہیں ہوا جس میں بی ایل اے کہ رمضان مارچ کو شہید ہو کے لیے کہا کہ ہے اور رہی ہے نے کہا اور اس
پڑھیں:
ایران کیخلاف حملے کے "سنگین نتائج" پر عرب ممالک کیجانب سے ٹرمپ کو "سخت انتباہ"
امریکی میڈیا نے دعوی کیا ہے کہ 3 اہم عرب ممالک کے رہنماؤں نے انتہاء پسند امریکی صدر کیساتھ ملاقات میں ایران پر حملے کی "شدید مخالفت" کرتے ہوئے خطے میں موجود امریکی اتحادیوں کو لاحق ہونیوالے اس اقدام کے "سنگین نتائج" پر خبردار کیا ہے اسلام ٹائمز۔ امریکی تجزیاتی ای مجلے ایکسیس (Axios) نے 3 باخبر ذرائع سے نقل کرتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ سعودی عرب، قطر و متحدہ عرب امارات کے سربراہان نے انتہاء پسند امریکی صدر کی جانب سے ان ممالک کے حالیہ دورے کے دوران ایرانی جوہری تنصیبات کے خلاف حملے کی "شدید مخالفت" کرتے ہوئے امریکی صدر کو "ایک نئے جوہری معاہدے" تک پہنچنے کے لئے کام جاری رکھنے کی نصیحت کی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق سال 2015 میں طے پانے والے ایرانی جوہری معاہدے (JCPOA) کی "مخالفت" کرنے والے ممالک سعودی عرب و متحدہ عرب امارات سمیت کئی دیگر خلیجی عرب ریاستیں بھی، اب "سفارتکاری" کی حامی بن چکی ہیں لہذا انہیں اس بات پر بھی گہری تشویش لاحق ہو چکی ہے کہ اس صورتحال میں کہیں ایران کے خلاف قابض اسرائیلی وزیر اعظم ہی "ٹرگر" نہ دبا دے یا ڈونلڈ ٹرمپ مذاکرات ترک کر کے فوجی آپشن کا انتخاب نہ کر لے!
اس بارے ایکسیس کا لکھنا ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان، صدر متحدہ عرب امارات محمد بن زاید، اور قطری امیر تمیم آل ثانی نے ڈونلڈ ٹرمپ کو کہا ہے کہ انہیں اس بات پر گہری تشویش لاحق ہے کہ اگر ایرانی جوہری تنصیبات پر حملہ کیا گیا تو تہران کی جانب سے جوابی کارروائی کے باعث ان کے ممالک کو "بری طرح سے" نشانہ بنایا جائے گا۔ اس معاملے سے واقف ذرائع نے ایکسیس کو مزید بتایا کہ یہ دیکھتے ہوئے کہ تینوں ممالک امریکی فوجی اڈوں کے میزبان ہیں، قطری امیر نے ٹرمپ کو کہا کہ ایسی صورتحال میں خلیجی ریاستیں کسی بھی دوسرے فریق سے زیادہ متاثر ہوں گی۔
امریکی میڈیا نے لکھا کہ سعودیوں و قطریوں نے ایران پر اسرائیلی فوجی حملے سے متعلق اپنی "خصوصی تشویش" کا اظہار بھی کیا ہے جبکہ اماراتی صدر نے زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم "سفارتی حل" کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایکسیس کے مطابق اس بارے امریکی حکام کا بھی کہنا ہے کہ تینوں عرب ممالک کے رہنماؤں نے ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے "ایران کے ساتھ مذاکرات" کی حمایت کی ہے۔
ادھر خلیج فارس کو جعلی نام دینے کے اپنے ارادے کے بارے جاری ہونے والے ٹرمپ کے بیانات کے بارے بھی 2 عرب حکام کا کہنا تھا کہ اس فیصلے کی وجہ خلیج فارس کے ممالک کے درمیان اتفاق رائے کا فقدان پیدا ہو گیا ہے جبکہ ماہرین کا خیال ہے کہ اس طرح کے اقدام سے ایران کے ساتھ "غیر ضروری کشیدگی" بھی پیدا ہو گی۔ امریکی ای مجلے نے مزید لکھا کہ اس وقت سعودیوں و اماراتیوں کی ترجیح "علاقائی استحکام" کو برقرار رکھنا اور "اقتصادی ترقی" پر توجہ دینا ہے!!