مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر کی 2 بڑی سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا دی
اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT
مودی سرکار نے اپنے کالے قانون کی آڑ لیتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی 2 مقبول سیاسی تنظیموں پر پابندی لگا دی۔
بھارتی میڈیا کے مطابق پابندی میر واعظ عمر فاروق کی عوامی ایکشن کمیٹی اور منصور عباس انصاری کی جماعت جموں و کشمیر اتحاد المسلمین پر عائد کی گئی ہے۔
بھارتی وزارت داخلہ کی جانب سے جاری نوٹی فکیشن میں کہا گیا ہے کہ ان دونوں تنظیموں کے علیحدگی پسند مسلح سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں۔
نوٹی فیکشن میں کہا گیا ہے کہ اگر ان دونوں جماعتوں نے اپنی عسکری سرگرمیوں کو ختم نہ کیا تو یہ پابندی مستقل طور پر بھی عائد کی جا سکتی ہے۔
مقبوضہ کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی اور دیگر سیاسی رہنماؤں نے مودی سرکار کے اس اقدام کو جمہوریت پر شب خون قرار دیا۔
یاد رہے کہ یہ پہلی بار نہیں جب مقبوضہ کشمیر کی کسی سیاسی جماعت پر پابندی عائد کی گئی ہو۔
جنت نظیر وادی پر قابض بھارت کی مودی سرکار نے 2019ء سے اب تک 10 سیاسی جماعتوں پر پابندی لگائی ہے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مقبوضہ کشمیر کی مودی سرکار
پڑھیں:
آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد حالات غیر مستحکم، مقبوضہ کشمیر مودی کے کنٹرول سے باہر
مقبوضہ کشمیر جنگی جنون میں مبتلا بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے کنٹرول سے باہر ہو چکا ہے اور آرٹیکل 370 کی منسوخی بھی مودی سرکار کا ایک ناکام اقدام ثابت ہوا ہے۔
آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال غیر مستحکم و تشویش ناک ہے اور مقبوضہ وادی کا کنٹرول مودی سرکار کے ہاتھ سے نکل چکا ہے، جس سے امن کے دعوے بے بنیاد ثابت ہو رہے ہیں۔
آرٹیکل370 کی منسوخی سمیت مودی کی تمام یکطرفہ پالیسیوں نے عوامی غصے کو بغاوت کی شکل دے دی ہے۔
یاد رہے کہ آرٹیکل 370 کی منسوخی پر امت شاہ نے اسے پارلیمنٹ میں تاریخی قدم قرار دیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہآرٹیکل 370 ہٹانے سے کشمیر میں دہشت گردی ختم ہوگی امن ویکساں حقوق ملیں گے۔
حالات نے ثابت کردیا ہے کہ امت شاہ کے یہ دعوے حقیقت سے کوسوں دور ہیں اور مقبوضہ وادی آج بھی سلگ رہی ہے۔
مودی حکومت نے کشمیری عوام اور قیادت کو نظرانداز کرتے ہوئے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کیا تھا۔ محبوبہ مفتی، عمر عبداللہ اور دیگر رہنماؤں کو نظر بند کیا، جس کے ردعمل میں احتجاج اور تحریکیں شدت پکڑ گئیں۔
مودی کی پالیسیوں کے خلاف جموں و کشمیر اپنی پارٹی جیسی جماعتیں منظر عام پر آئیں۔ اس کے علاوہ بھی کشمیر میں مودی حکومت کے خلاف مزاحمت بڑھ رہی ہے اور آزادی کی آوازیں مزید بلند ہو رہی ہیں ۔
مودی حکومت کے اقدامات سے کشمیر ایک کھلی جیل کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ کرفیو نافذ کرکے انسانی حقوق کی پامالیاں عام بات بن چکی ہے۔ یہاں تک کہ ہیومن رائٹس واچ نے 2019 کے بعد مقبوضہ کشمیر میں حقوق کی پامالیوں کو دستاویزی شکل دی۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق 2020 اور 2021 میں 200 سے زائد شہری سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ’فیک انکاؤنٹر‘ میں مارے گئے۔ ہزاروں کشمیری بشمول سیاسی رہنماؤں، کارکنوں اور طلبا کو بغیر الزام یا مقدمے کے گرفتار کیا گیا۔
انسانی حقوق تنظیم کے مطابق اگست 2019 سے فروری 2020 تک 7 ماہ کی طویل انٹرنیٹ کی بندش سے زندگی مفلوج ہیں اور پابندیاں اب بھی جاری ہیں۔ فوجی کارروائیوں کے دوران تشدد اور ریپ کے واقعات میں اضافہ ہو چکا ہے جب کہ میڈیا پر پابندیاں ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں مودی کےجبر کیخلاف جاری مزاحمت، آزادی کے لیے کشمیری عوام کے عزم کی عکاسی ہے۔