Express News:
2025-11-03@06:37:47 GMT

سنبھلنے کے علاوہ

اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT

’’میں خانہ کعبہ کے سامنے کھڑا تھا اور وہ مجھے بددعائیں دے رہا تھا‘ میں نے پریشان ہو کر پوچھا‘ بھائی تم مجھے بددعائیں کیوں دے رہے ہو‘ میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے؟ اس نے میری طرف دیکھا اور پھر خانہ کعبہ کی طرف دیکھ کر بولا‘ میں جب بھی یہاں آتا ہوں تو میں پہلے سب پاکستانیوں کے لیے بددعا کرتا ہوں‘ تم بھی پاکستانی ہو لہٰذا اﷲ تمہیں بھی ۔۔۔کرے‘ میں دکھی ہو گیا‘ اپنے گناہوں کی معافی مانگی اور جا کر برآمدے میں بیٹھ گیا‘ وہ جب دعا کے بعد برآمدے کی طرف آیا تو میں اٹھا اور زبردستی اس سے بغل گیر ہو گیا‘ وہ اپنا آپ مجھ سے چھڑاتا رہا لیکن میں نے اسے دبوچ رکھا تھا‘ میں اس سے معافی بھی مانگ رہا تھا اور ساتھ ساتھ پوچھ رہا تھا بھائی تم مجھ سے کیوں ناراض ہو‘ وہ چھڑانے کی کوشش کرتا رہا مگر میری گرفت زیادہ مضبوط تھی‘ بہرحال وہ تھک گیا۔

 اس کا سانس چڑھ گیا اور اس نے ہاتھ کے اشارے سے نیچے بیٹھنے کا اشارہ کیا‘ میں اسے لے کر حرم شریف کی طرف منہ کر کے بیٹھ گیا‘ اس نے بڑی مشکل سے اپنی سانس درست کی اور پھر بولا‘ مجھے تم سے کوئی گلہ‘ کوئی تکلیف نہیں‘ میں دراصل ہرپاکستانی سے نفرت کرتا ہوں‘ میں نے وجہ پوچھی تو اس کا کہنا تھا‘ ہم افغانی پاکستان کی وجہ سے تباہ وبرباد اور دربدر ہو گئے‘ افغانستان اگر آج قبرستان ہے تو اس کا واحد ذمے دار پاکستان ہے‘ افغانستان ایک ماڈرن اور نارمل ملک تھا‘ ہم امن سے رہ رہے تھے لیکن پھر تم لوگوں نے برہان الدین ربانی اور گل بدین حکمت یار جیسے لوگوں کو پناہ اور ٹریننگ دی اور پھر افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہو گئی‘ یہ خانہ جنگی دیکھتے ہی دیکھتے سوویت یونین اور امریکا کی جنگ میں تبدیل ہو گئی اور اس نے ہنستے کھیلتے ماڈرن ملک کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا‘‘۔

وہ رکا‘ لمبی سانس لی اور پھر بولا ’’ یہ جنگ ختم ہوئی تو تم لوگوں نے طالبان بھجوا دیے‘ وہ جنگ سے زیادہ ہول ناک دور تھا‘ وہ ختم ہوا تو تم لوگوں نے امریکا کے ساتھ مل کر رہا سہا افغانستان بھی قبرستان بنا دیا اور اب تم نے ایک بار پھر طالبان بھجوا دیے ہیں‘ ہم تم سے نفرت نہ کریں تو کیا کریں‘ وہ مسلسل بول رہا تھا اور میں اسے خاموشی سے دیکھ رہا تھا‘ وہ رکا تو میں نے اس سے کہا‘ میرے بھائی پاکستان افغانستان سے زیادہ نارمل‘ ماڈرن اور پرسکون ملک ہوتا تھا‘ ہم نے افغانستان کو بچاتے بچاتے اپنا بیڑا غرق کر لیا‘ ہمارے ملک میں جہادی سوچ آئی‘ فرقہ واریت آئی‘ ہیروئن اور کلاشنکوف آئی اور آخر میں بم دھماکے اور خودکش دھماکے بھی آ گئے‘ ہماری معیشت کا جنازہ بھی نکل گیا اور ہم دنیا میں اکیلے بھی ہو گئے اور ہمیں یہ سزا صرف اور صرف افغانستان کی محبت میں ملی‘ ہم آپ لوگوں کو کمیونسٹ روس سے بچانا چاہتے تھے۔

 آج اگر آپ لوگوں میں تھوڑا سا اسلام بچ گیا ہے تو اس کا کریڈٹ پاکستان کو جاتا ہے اگر روس رہتا تو افغانستان میں مسجدیں ہوتیں اور نہ نمازی‘ آپ تاجکستان بن چکے ہوتے‘ ہم پچاس لاکھ افغانیوں کو بیس سال پالتے بھی رہے‘ اس وقت بھی بیس لاکھ سے زائد افغانی پاکستان میں ہیں لیکن آپ اس کے باوجود ہم سے نفرت کرتے ہیں‘ کیا یہ احسان فراموشی نہیں؟ وہ مسکرایا اور پھر ہنس کر بولا‘ کون سا احسان! آپ لوگ یہ سب ڈالرز کے لیے کرتے رہے‘ 1980کی دہائی میں ڈالر لیے‘ پھر 1996کی دہائی میں ڈالر لیے پھر 2001میں ڈالر لیے اور اب ایک بار پھر ڈالرز کی تیاری کر رہے ہیں‘ میں آپ کی عزت کیوں کروں؟ یہ سن کر میری برداشت جواب دے گئی‘ میں اٹھا اور چپ چاپ حرم شریف سے نکل گیا جب کہ وہ مجھے مسلسل طعنے دیتا رہا‘‘۔

یہ واقعہ میرے ایک جاننے والے کے ساتھ چند دن قبل پیش آیا‘ وہ اس پر بہت دکھی تھا‘ میں نے یہ سن کر اسے تسلی دی اور اس کے بعد اسے مشورہ دیا تم کسی فیصلے پر پہنچنے سے قبل تاریخ کا مطالعہ ضرور کرو‘ تم چند لمحوں میں وجوہات سمجھ جاؤ گے‘ وہ حیران ہو کر بولا‘ کیسے؟ میں نے عرض کیا’’ پاکستان کے موجودہ علاقوں اور ہندوستان میں ہزاروں سال سے سینٹرل ایشین حملہ آور ہوتے رہے ‘ افغانستان کے راستے یہاں آرین بھی آئے‘ ہن بھی اور منگول بھی‘ ان کے بعد ایرانی اور افغانی لگاتار آتے رہے‘ محمود غزنوی ہو‘ شہاب الدین غوری ہو‘نادر شاہ درانی ہو یا پھر احمد شاہ ابدالی ہو یہ سب افغانی (نادرشاہ کے علاوہ) تھے لہٰذا پاکستان اور ہندوستان پر حملہ افغانیوں کا ڈی این اے ہے۔

 یہ لوگ پہلے لشکر کی شکل میں ہم پر حملہ آور ہوتے تھے اور اب یہ خودکش حملوں اور نفرت کی شکل میں حملہ آور ہیں‘ دور کوئی بھی ہو انھیں جہاں بھی ہم نظر آئیں گے‘ یہ ہم پر حملہ کریں گے‘ دوسرا ہم ہزاروں سال سے افغانوں کی مہمان نوازی کر رہے ہیں‘ یہ ہمارا ڈی این اے ہے اور تیسرا برصغیر کا مزاج دفاعی ہے‘ ہم پر ہزاروں سال سے حملے ہو رہے ہیں چناں چہ ہمارا ڈی این اے دفاعی ہو گیا ہے‘ ہم صرف اپنے آپ کو بچاتے ہیں‘ ہم کبھی کسی پر حملہ نہیں کرتے‘ ہماری لڑائیاں بھی ذاتی اور مقامی ہوتی ہیں‘ جاٹ راجپوتوں سے لڑ پڑتے ہیں اور راجپوت ایک دوسرے کے سر کھول دیتے ہیں اور بس‘ آپ دیکھ لیں پاکستان اور بھارت بھی پچھلے 76 برسوں سے ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔

 ہماری لڑائی کبھی ہندوستان سے باہر نہیں گئی‘ بھارت بھی اتنی بڑی طاقت ہونے کے باوجود آج تک چین سے نہیں لڑ سکا اور ہم افغانوں اور ایرانیوں سے نہیں‘ ہم جب بھی لڑیں گے انڈیا سے لڑیں گے اور انڈیا بھی جب پنگا کرے گا یہ پاکستان سے کرے گا‘ سرحد سے نکل کر یہ بھی چین میں چھیڑ چھاڑ نہیں کرے گا‘ جارحیت افغانوں کا ڈی این اے ہے اور افغانیوں سے مار کھانا پاکستانیوں کا چناں چہ چپ چاپ برداشت کرو‘ یہ آج کا ایشو نہیں‘ یہ صدیوں کی لڑائی ہے اور یہ صدیوں تک چلے گی‘‘ وہ حیرت سے میری طرف دیکھتا رہا‘ میں نے اس کے بعد عرض کیا ’’ اور احسان فراموشی اور محسن کشی بھی افغانوں کے ڈی این اے میں ہے‘ آپ تاریخ میں دیکھ لیں جس ملک‘ قوم اور گروپ نے ان پر احسان کیا افغانوں نے نفرت‘ دشمنی اور ظلم سے اس کا بدلہ دیا‘ روس بیس سال افغانوں کو پالتا رہا‘ اسے اس کا کیا صلہ ملا؟ امریکا نے 12 سال افغان جہاد کے لیے رقم‘ اسلحہ اور سفارتی مدد دی‘ اسے کیا ملا؟ یہ 2001میں ایک بار پھر افغانستان آیا‘ 20 سال اس نے کھربوں ڈالر افغانی تنور میں جھونکے‘ پورا ملک دوبارہ بنایا‘افغانستان کو سڑکوں سے لے کر آرمی تک بنا کر دی لیکن اسے کیا صلہ ملا؟ پاکستان نے بھی ہر دور میں افغانوں کی مدد کی‘ برہان الدین ربانی اور حکمت یار سے لے کر طالبان کی موجودہ قیادت تک تمام افغان لیڈر پاکستان میں رہے یہاں شادیاں کیں‘ جائیدادیں بنائیں‘ سرکاری گاڑیوں میں سفر کیا اور پاکستانی پاسپورٹ استعمال کیے‘ ہم نے ان کے لیے پوری دنیا کی مخالفت بھی برداشت کی لیکن ہر دور میں ہمیں نفرت اور حقارت کے سوا کچھ نہیں ملا‘ طالبان کی موجودہ کابینہ کے تمام وزراء پاکستان میں پناہ گزین رہے ہیں‘ ہم نے امریکا سے دشمنی مول لے لی مگر انھیں بش سے لے کر ٹرمپ تک سب سے بچاتے رہے‘ ہمیں اس کا کیا صلہ ملا؟ بنوں کینٹ پر حملہ اور جعفر ایکسپریس پر قبضہ‘ یہ ہے اس کا صلہ‘‘ میں خاموش ہوگیا۔

میرا دوست دیر تک خاموش بیٹھا رہا اور پھر بولا ’’اس کا حل کیا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’اس کے تین حل ہیں‘ ایک‘ ہم انڈیا کے ساتھ اپنے تعلقات ٹھیک کر لیں‘ ایٹم بم کے بعد ہم انڈیا سے لڑ سکتے ہیں اور نہ انڈیا ہم سے لہٰذا ہمیں اب اچھا ہمسایہ بن جانا چاہیے‘ سرحدیں نرم کریں اور تجارتی تعلقات میں اضافہ کریں‘ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ بھارت افغانستان کے راستے پاکستان میں دہشت گردی کراتا ہے‘ تعلقات میں بہتری کے بعد بھارت یہ بند کر دے گا یوں افغانوں کو بھارتی پیسے کی سپلائی بند ہو جائے گی اور ان کی بلیک میلنگ رک جائے گی‘ دوسرا ہمیں اندرونی لڑائیاں ہمیشہ کے لیے بند کرنا ہوں گی‘ سیاست دان‘ فوج اور عدلیہ اکٹھی بیٹھے‘ آئین میں جوترامیم کرنی ہیں ایک ہی بار کر دیں اور اس کے بعد فیصلہ ہو جائے اب کوئی بندوق علی خان آئین اور سسٹم کو نہیں چھیڑے گا‘ الیکشن وقت پر ہوں گے اور جسے ووٹ ملے گا وہ حکومت بنا لے گا۔

 اسٹیبلشمنٹ کسی کو لائے گی اور نہ نکالے گی‘ ملک میں اس سے استحکام آجائے گا اور ہمارا آگے کا سفر شروع ہو جائے گا اور تیسرا دنیا میں کوئی برادر اسلامی ملک نہیں‘ یہ سب مفاد اور بزنس کا کھیل ہے لہٰذا ہمیں اسلامک برادر ہڈ سے اوپر اٹھ کر صرف اور صرف اپنا مفاد دیکھنا چاہیے‘ سرحدیں مضبوط بنانی چاہییں اور کسی ملک کے لیے کسی قسم کی قربانی نہیں دینی چاہیے‘ طالبان جانیں اور امریکا جانے‘ ہمیں کسی سے کوئی غرض نہیں ہونی چاہیے۔

 ہم پر اگر کوئی حملہ کرے تو ہم اسے منہ توڑ جواب دیں اور خودکسی دوسرے ملک میں دراندازی نہ کریں‘ ہمارا کوئی بھائی یا دشمن نہیں ہونا چاہیے‘ ہم نے اگر فوری طور پر یہ فیصلے کر لیے تو ہم بچ جائیں گے ورنہ ہم فیصلوں کے قابل نہیں رہیں گے‘ انسان ہوں یا قومیں یہ بیک وقت اندر اور باہر نہیں لڑ سکتیں اور ہم نے بدقسمتی سے باہر اور اندر دونوں جگہوں پر محاذ کھولے ہوئے ہیں اور یہ دوطرفہ جنگ ہمیں تیزی سے نگلتی چلی جا رہی ہے چناں چہ سنبھلنے کے علاوہ ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں‘‘۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستان میں ڈی این اے سے لے کر پر حملہ اور پھر رہے ہیں رہا تھا ہیں اور اور اس کے بعد کے لیے اور ہم

پڑھیں:

کالعدم ٹی ایل پی کے ٹکٹ ہولڈرز کا پارٹی سے لاتعلقی کا اعلان

کالعدم ٹی ایل پی کے ٹکٹ ہولڈرز کا پارٹی سے لاتعلقی کا اعلان WhatsAppFacebookTwitter 0 31 October, 2025 سب نیوز

ملتان(سب نیوز)کالعدم ٹی ایل پی کے جنوبی پنجاب کے ٹکٹ ہولڈرز نے پارٹی چھوڑنے کا اعلان کردیا اور کہا ہے کہ ٹی ایل پی کے پاس احتجاج کا کوئی جواز نہیں تھا، احتجاج کی کال دینا نامناسب عمل تھا۔
ملتان میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کالعدم ٹی ایل پی کے جنوبی پنجاب کے ٹکٹ ہولڈر نے کہا کہ ہم تحریک لبیک سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہیں اور ہم پر کوئی دبا نہیں، ٹی ایل پی کے پاس فلسطین کے نام پر احتجاج کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا، فلسطینی خود معاہدے پر مطمئن تھے مگر یہاں احتجاج کی کال دی گئی۔انہوں نے کہا کہ احتجاج کا کوئی جواز نہیں تھا، بیرونی چیلنجز ہوتے ہوئے ملک میں احتجاج کی کال دینا نامناسب عمل تھا، ٹی ایل پی کے لانگ مارچ سے ملک کو نقصان پہنچا، ہم تحریک لبیک سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہیں۔
ٹکٹ ہولڈرز نے کہا کہ پاکستان کلمہ کے نام پر حاصل کیا گیا، دشمن قوتوں کے عزائم کو ناکام بنائیں گے، پاکستان تاقیامت قائم رہے گا کوئی اس کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔محمد حسین بابر نے کہا کہ کالعدم ٹی ایل پی سے بغیر کسی دباو کے علیحدہ ہورہے ہیں۔ راو عارف سجاد نے کہا کہ پاکستان انتشار کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرافغان طالبان نے کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر دہشتگرد تنظیموں کی افغانستان میں موجودگی کو تسلیم کیا ہے،پاکستان افغان طالبان نے کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر دہشتگرد تنظیموں کی افغانستان میں موجودگی کو تسلیم کیا ہے،پاکستان چیئرمین سی ڈی اے کی زیر صدارت اجلاس،سی ڈی اے اور سپارکو کے درمیان بہتر شہری منصوبہ بندی کے حوالے سے سیٹلائٹ امیجز کی... پی پی کشمیر کاز کی علمبردار،کبھی حقوق پر سودا نہیں کریں گے،بلاول بھٹو پاک افغان تعلقات کے حوالے سے نیا فورم دستیاب ہوگا،وزیر اطلاعات بھارتی پراپیگنڈہ بے بنیاد، اسرائیل کو تسلیم کیا نہ فوجی تعاون زیر غور ہے: پاکستان شیخ رشید کی بیرون ملک جانے کی درخواست منظور TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کرکٹ زندہ باد
  • خطے کے استحکام کا سوال
  • ہم پی ٹی آئی میں کسی ’مائنس فارمولے‘ کے مشن پر نہیں،عمران اسمٰعیل
  • پاک افغان مذاکرات: افغان ہٹ دھرمی نئے تصادم کا باعث بن سکتی ہے
  • پاکستان کو تصادم نہیں، مفاہمت کی سیاست کی ضرورت ہے، محمود مولوی
  • تاریخ کی نئی سمت
  •  افغانستان کے ساتھ مذاکرات کے نتیجے تک سب کچھ معطل رہےگا
  • دہشت گردوں کی سرپرستی کاخاتمہ ناگزیر
  • کالعدم ٹی ایل پی کے ٹکٹ ہولڈرز کا پارٹی سے لاتعلقی کا اعلان
  • نیازی لاء اب نہیں چلے گا: وزیر دفاع