Express News:
2025-07-25@23:17:09 GMT

سنبھلنے کے علاوہ

اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT

’’میں خانہ کعبہ کے سامنے کھڑا تھا اور وہ مجھے بددعائیں دے رہا تھا‘ میں نے پریشان ہو کر پوچھا‘ بھائی تم مجھے بددعائیں کیوں دے رہے ہو‘ میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے؟ اس نے میری طرف دیکھا اور پھر خانہ کعبہ کی طرف دیکھ کر بولا‘ میں جب بھی یہاں آتا ہوں تو میں پہلے سب پاکستانیوں کے لیے بددعا کرتا ہوں‘ تم بھی پاکستانی ہو لہٰذا اﷲ تمہیں بھی ۔۔۔کرے‘ میں دکھی ہو گیا‘ اپنے گناہوں کی معافی مانگی اور جا کر برآمدے میں بیٹھ گیا‘ وہ جب دعا کے بعد برآمدے کی طرف آیا تو میں اٹھا اور زبردستی اس سے بغل گیر ہو گیا‘ وہ اپنا آپ مجھ سے چھڑاتا رہا لیکن میں نے اسے دبوچ رکھا تھا‘ میں اس سے معافی بھی مانگ رہا تھا اور ساتھ ساتھ پوچھ رہا تھا بھائی تم مجھ سے کیوں ناراض ہو‘ وہ چھڑانے کی کوشش کرتا رہا مگر میری گرفت زیادہ مضبوط تھی‘ بہرحال وہ تھک گیا۔

 اس کا سانس چڑھ گیا اور اس نے ہاتھ کے اشارے سے نیچے بیٹھنے کا اشارہ کیا‘ میں اسے لے کر حرم شریف کی طرف منہ کر کے بیٹھ گیا‘ اس نے بڑی مشکل سے اپنی سانس درست کی اور پھر بولا‘ مجھے تم سے کوئی گلہ‘ کوئی تکلیف نہیں‘ میں دراصل ہرپاکستانی سے نفرت کرتا ہوں‘ میں نے وجہ پوچھی تو اس کا کہنا تھا‘ ہم افغانی پاکستان کی وجہ سے تباہ وبرباد اور دربدر ہو گئے‘ افغانستان اگر آج قبرستان ہے تو اس کا واحد ذمے دار پاکستان ہے‘ افغانستان ایک ماڈرن اور نارمل ملک تھا‘ ہم امن سے رہ رہے تھے لیکن پھر تم لوگوں نے برہان الدین ربانی اور گل بدین حکمت یار جیسے لوگوں کو پناہ اور ٹریننگ دی اور پھر افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہو گئی‘ یہ خانہ جنگی دیکھتے ہی دیکھتے سوویت یونین اور امریکا کی جنگ میں تبدیل ہو گئی اور اس نے ہنستے کھیلتے ماڈرن ملک کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا‘‘۔

وہ رکا‘ لمبی سانس لی اور پھر بولا ’’ یہ جنگ ختم ہوئی تو تم لوگوں نے طالبان بھجوا دیے‘ وہ جنگ سے زیادہ ہول ناک دور تھا‘ وہ ختم ہوا تو تم لوگوں نے امریکا کے ساتھ مل کر رہا سہا افغانستان بھی قبرستان بنا دیا اور اب تم نے ایک بار پھر طالبان بھجوا دیے ہیں‘ ہم تم سے نفرت نہ کریں تو کیا کریں‘ وہ مسلسل بول رہا تھا اور میں اسے خاموشی سے دیکھ رہا تھا‘ وہ رکا تو میں نے اس سے کہا‘ میرے بھائی پاکستان افغانستان سے زیادہ نارمل‘ ماڈرن اور پرسکون ملک ہوتا تھا‘ ہم نے افغانستان کو بچاتے بچاتے اپنا بیڑا غرق کر لیا‘ ہمارے ملک میں جہادی سوچ آئی‘ فرقہ واریت آئی‘ ہیروئن اور کلاشنکوف آئی اور آخر میں بم دھماکے اور خودکش دھماکے بھی آ گئے‘ ہماری معیشت کا جنازہ بھی نکل گیا اور ہم دنیا میں اکیلے بھی ہو گئے اور ہمیں یہ سزا صرف اور صرف افغانستان کی محبت میں ملی‘ ہم آپ لوگوں کو کمیونسٹ روس سے بچانا چاہتے تھے۔

 آج اگر آپ لوگوں میں تھوڑا سا اسلام بچ گیا ہے تو اس کا کریڈٹ پاکستان کو جاتا ہے اگر روس رہتا تو افغانستان میں مسجدیں ہوتیں اور نہ نمازی‘ آپ تاجکستان بن چکے ہوتے‘ ہم پچاس لاکھ افغانیوں کو بیس سال پالتے بھی رہے‘ اس وقت بھی بیس لاکھ سے زائد افغانی پاکستان میں ہیں لیکن آپ اس کے باوجود ہم سے نفرت کرتے ہیں‘ کیا یہ احسان فراموشی نہیں؟ وہ مسکرایا اور پھر ہنس کر بولا‘ کون سا احسان! آپ لوگ یہ سب ڈالرز کے لیے کرتے رہے‘ 1980کی دہائی میں ڈالر لیے‘ پھر 1996کی دہائی میں ڈالر لیے پھر 2001میں ڈالر لیے اور اب ایک بار پھر ڈالرز کی تیاری کر رہے ہیں‘ میں آپ کی عزت کیوں کروں؟ یہ سن کر میری برداشت جواب دے گئی‘ میں اٹھا اور چپ چاپ حرم شریف سے نکل گیا جب کہ وہ مجھے مسلسل طعنے دیتا رہا‘‘۔

یہ واقعہ میرے ایک جاننے والے کے ساتھ چند دن قبل پیش آیا‘ وہ اس پر بہت دکھی تھا‘ میں نے یہ سن کر اسے تسلی دی اور اس کے بعد اسے مشورہ دیا تم کسی فیصلے پر پہنچنے سے قبل تاریخ کا مطالعہ ضرور کرو‘ تم چند لمحوں میں وجوہات سمجھ جاؤ گے‘ وہ حیران ہو کر بولا‘ کیسے؟ میں نے عرض کیا’’ پاکستان کے موجودہ علاقوں اور ہندوستان میں ہزاروں سال سے سینٹرل ایشین حملہ آور ہوتے رہے ‘ افغانستان کے راستے یہاں آرین بھی آئے‘ ہن بھی اور منگول بھی‘ ان کے بعد ایرانی اور افغانی لگاتار آتے رہے‘ محمود غزنوی ہو‘ شہاب الدین غوری ہو‘نادر شاہ درانی ہو یا پھر احمد شاہ ابدالی ہو یہ سب افغانی (نادرشاہ کے علاوہ) تھے لہٰذا پاکستان اور ہندوستان پر حملہ افغانیوں کا ڈی این اے ہے۔

 یہ لوگ پہلے لشکر کی شکل میں ہم پر حملہ آور ہوتے تھے اور اب یہ خودکش حملوں اور نفرت کی شکل میں حملہ آور ہیں‘ دور کوئی بھی ہو انھیں جہاں بھی ہم نظر آئیں گے‘ یہ ہم پر حملہ کریں گے‘ دوسرا ہم ہزاروں سال سے افغانوں کی مہمان نوازی کر رہے ہیں‘ یہ ہمارا ڈی این اے ہے اور تیسرا برصغیر کا مزاج دفاعی ہے‘ ہم پر ہزاروں سال سے حملے ہو رہے ہیں چناں چہ ہمارا ڈی این اے دفاعی ہو گیا ہے‘ ہم صرف اپنے آپ کو بچاتے ہیں‘ ہم کبھی کسی پر حملہ نہیں کرتے‘ ہماری لڑائیاں بھی ذاتی اور مقامی ہوتی ہیں‘ جاٹ راجپوتوں سے لڑ پڑتے ہیں اور راجپوت ایک دوسرے کے سر کھول دیتے ہیں اور بس‘ آپ دیکھ لیں پاکستان اور بھارت بھی پچھلے 76 برسوں سے ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔

 ہماری لڑائی کبھی ہندوستان سے باہر نہیں گئی‘ بھارت بھی اتنی بڑی طاقت ہونے کے باوجود آج تک چین سے نہیں لڑ سکا اور ہم افغانوں اور ایرانیوں سے نہیں‘ ہم جب بھی لڑیں گے انڈیا سے لڑیں گے اور انڈیا بھی جب پنگا کرے گا یہ پاکستان سے کرے گا‘ سرحد سے نکل کر یہ بھی چین میں چھیڑ چھاڑ نہیں کرے گا‘ جارحیت افغانوں کا ڈی این اے ہے اور افغانیوں سے مار کھانا پاکستانیوں کا چناں چہ چپ چاپ برداشت کرو‘ یہ آج کا ایشو نہیں‘ یہ صدیوں کی لڑائی ہے اور یہ صدیوں تک چلے گی‘‘ وہ حیرت سے میری طرف دیکھتا رہا‘ میں نے اس کے بعد عرض کیا ’’ اور احسان فراموشی اور محسن کشی بھی افغانوں کے ڈی این اے میں ہے‘ آپ تاریخ میں دیکھ لیں جس ملک‘ قوم اور گروپ نے ان پر احسان کیا افغانوں نے نفرت‘ دشمنی اور ظلم سے اس کا بدلہ دیا‘ روس بیس سال افغانوں کو پالتا رہا‘ اسے اس کا کیا صلہ ملا؟ امریکا نے 12 سال افغان جہاد کے لیے رقم‘ اسلحہ اور سفارتی مدد دی‘ اسے کیا ملا؟ یہ 2001میں ایک بار پھر افغانستان آیا‘ 20 سال اس نے کھربوں ڈالر افغانی تنور میں جھونکے‘ پورا ملک دوبارہ بنایا‘افغانستان کو سڑکوں سے لے کر آرمی تک بنا کر دی لیکن اسے کیا صلہ ملا؟ پاکستان نے بھی ہر دور میں افغانوں کی مدد کی‘ برہان الدین ربانی اور حکمت یار سے لے کر طالبان کی موجودہ قیادت تک تمام افغان لیڈر پاکستان میں رہے یہاں شادیاں کیں‘ جائیدادیں بنائیں‘ سرکاری گاڑیوں میں سفر کیا اور پاکستانی پاسپورٹ استعمال کیے‘ ہم نے ان کے لیے پوری دنیا کی مخالفت بھی برداشت کی لیکن ہر دور میں ہمیں نفرت اور حقارت کے سوا کچھ نہیں ملا‘ طالبان کی موجودہ کابینہ کے تمام وزراء پاکستان میں پناہ گزین رہے ہیں‘ ہم نے امریکا سے دشمنی مول لے لی مگر انھیں بش سے لے کر ٹرمپ تک سب سے بچاتے رہے‘ ہمیں اس کا کیا صلہ ملا؟ بنوں کینٹ پر حملہ اور جعفر ایکسپریس پر قبضہ‘ یہ ہے اس کا صلہ‘‘ میں خاموش ہوگیا۔

میرا دوست دیر تک خاموش بیٹھا رہا اور پھر بولا ’’اس کا حل کیا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’اس کے تین حل ہیں‘ ایک‘ ہم انڈیا کے ساتھ اپنے تعلقات ٹھیک کر لیں‘ ایٹم بم کے بعد ہم انڈیا سے لڑ سکتے ہیں اور نہ انڈیا ہم سے لہٰذا ہمیں اب اچھا ہمسایہ بن جانا چاہیے‘ سرحدیں نرم کریں اور تجارتی تعلقات میں اضافہ کریں‘ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ بھارت افغانستان کے راستے پاکستان میں دہشت گردی کراتا ہے‘ تعلقات میں بہتری کے بعد بھارت یہ بند کر دے گا یوں افغانوں کو بھارتی پیسے کی سپلائی بند ہو جائے گی اور ان کی بلیک میلنگ رک جائے گی‘ دوسرا ہمیں اندرونی لڑائیاں ہمیشہ کے لیے بند کرنا ہوں گی‘ سیاست دان‘ فوج اور عدلیہ اکٹھی بیٹھے‘ آئین میں جوترامیم کرنی ہیں ایک ہی بار کر دیں اور اس کے بعد فیصلہ ہو جائے اب کوئی بندوق علی خان آئین اور سسٹم کو نہیں چھیڑے گا‘ الیکشن وقت پر ہوں گے اور جسے ووٹ ملے گا وہ حکومت بنا لے گا۔

 اسٹیبلشمنٹ کسی کو لائے گی اور نہ نکالے گی‘ ملک میں اس سے استحکام آجائے گا اور ہمارا آگے کا سفر شروع ہو جائے گا اور تیسرا دنیا میں کوئی برادر اسلامی ملک نہیں‘ یہ سب مفاد اور بزنس کا کھیل ہے لہٰذا ہمیں اسلامک برادر ہڈ سے اوپر اٹھ کر صرف اور صرف اپنا مفاد دیکھنا چاہیے‘ سرحدیں مضبوط بنانی چاہییں اور کسی ملک کے لیے کسی قسم کی قربانی نہیں دینی چاہیے‘ طالبان جانیں اور امریکا جانے‘ ہمیں کسی سے کوئی غرض نہیں ہونی چاہیے۔

 ہم پر اگر کوئی حملہ کرے تو ہم اسے منہ توڑ جواب دیں اور خودکسی دوسرے ملک میں دراندازی نہ کریں‘ ہمارا کوئی بھائی یا دشمن نہیں ہونا چاہیے‘ ہم نے اگر فوری طور پر یہ فیصلے کر لیے تو ہم بچ جائیں گے ورنہ ہم فیصلوں کے قابل نہیں رہیں گے‘ انسان ہوں یا قومیں یہ بیک وقت اندر اور باہر نہیں لڑ سکتیں اور ہم نے بدقسمتی سے باہر اور اندر دونوں جگہوں پر محاذ کھولے ہوئے ہیں اور یہ دوطرفہ جنگ ہمیں تیزی سے نگلتی چلی جا رہی ہے چناں چہ سنبھلنے کے علاوہ ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں‘‘۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستان میں ڈی این اے سے لے کر پر حملہ اور پھر رہے ہیں رہا تھا ہیں اور اور اس کے بعد کے لیے اور ہم

پڑھیں:

پاکستان علماء کونسل نے بلوچستان میں قتل خاتون کے والدین کے بیان کو قرآن و سنت کے منافی قرار دے دیا

پاکستان علماء کونسل نے بلوچستان میں قتل ہونے والی خاتون کے والدین کی طرف سے آنے والے بیان کو قرآن و سنت اور پاکستان کے آئین اور قانون کے منافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کا بیان ظاہر کرتا ہے کہ قتل میں والدین کی مرضی شامل تھی۔

چیئرمین پاکستان علماء کونسل و سیکریٹری جنرل انٹرنیشنل تعظیم حرمین شریفین کونسل حافظ محمد طاہر محمود اشرفی، مولانا حافظ مقبول احمد ، علامہ طاہر الحسن، مولانا محمد شفیع قاسمی، مولانا اسد اللہ فاروق، مولانا طاہر عقیل اعوان، مولانا محمد اشفا ق پتافی، مولانا محمد اسلم صدیقی، مولانا عزیز اکبر قاسمی، مولانا مبشر رحیمی اور دیگر نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ریاست پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں، حکومت بلوچستان، بلوچستان کی عدلیہ کی ذمہ داری ہے کہ قتل کرنے والوں کے سہولت کاروں کے خلاف ایکشن لیں۔

بیان میں کہا گیاکہ والدین کا یہ بیان قرآن و سنت کے احکامات اور پاکستان کے آئین اور دستور کے خلاف ہے اور اسے مکمل طور پر مسترد کیا جاتا ہے، شریعت اسلامیہ یہ حکم دیتی ہے کہ اگر کسی ظلم میں کوئی بھی قریبی عزیز بھی شامل ہو تو اس کو بھی سزا ملنی چاہیے۔

یہ بھی پرھیں: بلوچستان میں قتل خاتون کی والدہ کا تہلکہ خیز بیان، کیس کا رخ ہی موڑ دیا

اس میں مزید کہا گیا کہ والدین کے بیان میں یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ خاتون کے قتل میں والدین کی مرضی شامل تھی جو کہ افسوسناک اور قابل مذمت ہے اور اس حوالے سے مکمل تحقیقات اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی ذمہ داری ریاست پاکستان کی ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ اس حوالے سے کوئی کوتاہی نہیں ہوگی۔

چیئرمین پاکستان علما کونسل نے کہا کہ  بلوچستان میں قتل مرد،عورت کے والدین بھی قاتلوں کو معاف کرنا چاہیں تو یہ کسی صورت جائز نہیں، شریعت بھی اس طرح کے قاتلوں کو معافی کا حق نہیں دیتی، عورت کے والدین کو بھی اس قتل ناحق میں مجرم تصور کرنا ہوگا۔

خیال رہے کہ پاکستان علماء کونسل کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جبکہ مقتولہ کی والدہ نے اپنے جاری  بیان میں کہا تھا  یہ کوئی بے غیرتی نہیں تھی بلکہ بلوچ رسم و رواج کے مطابق کیا گیا۔

انہوں نے کہا تھا کہ بانو کو بلوچی رسم و رواج کے مطابق سزا دی گئی، بلوچی معاشرتی جرگے کے ذریعے بانو کو سزا دی گئی، ہمارے لوگوں نے کوئی ناجائز فیصلہ نہیں کیا، ہم نے لڑکی کو قتل کرنے کا فیصلہ سردار شیر باز ساتکزئی کے ساتھ نہیں، بلکہ بلوچی جرگے میں کیا۔

انہوں نے کہا تھا کہ میں اپیل کرتی ہوں کہ سردار شیر باز ساتکزئی اور دیگر گرفتار افراد کو رہا کیا جائے۔

یاد رہے کہ کوئٹہ کے نواحی علاقے ڈیگاری میں عیدالاضحیٰ سے 3 روز قبل خاتون اور مرد کو سرعام قتل کیا گیا تھا، واقعے کی ویڈیو 3 روز قبل سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس کے بعد وزیراعلیٰ بلوچستان سردار سرفراز بگٹی نے واقعے کا نوٹس لینے لیا تھا اور متعدد ملزمان کو گرفتار کیا گیا تھا۔

متعلقہ مضامین

  • صدر آصف علی زرداری اتحاد، خودمختاری اور جمہوری استحکام کے علمبردار
  • پی ٹی آئی راہنماؤں کو بے بنیاد سزائیں دی گئیں، عمر ایوب
  • پی ٹی آئی کے پاس احتجاج کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا: اسد عمر
  • تحفظ آئین پاکستان کی قیادت کی اہم پریس کانفرنس
  • "پاکستان کا نوجوان باشعور ہے اور اب وہ کسی بھی فتنے کے جھانسے میں نہیں آئے گا: عظمیٰ بخاری
  • پی ٹی آئی رہنماوں نے عمران خان کے بیٹوں کی پاکستان آمد کی تصدیق کر دی 
  • دہشتگردی صرف پاکستان کا نہیں پوری دنیا کا مسئلہ ہے: عطا تارڑ
  • مٹھی بھر دہشتگرد بلوچستان اور پاکستان کی ترقی نہیں روک سکتے، ڈی جی آئی ایس پی آر
  • پوری پی ٹی آئی کچھ نہیں کرسکی تو عمران خان کے بچے کیا کرلیں گے؟ طلال چوہدری
  • پاکستان علماء کونسل نے بلوچستان میں قتل خاتون کے والدین کے بیان کو قرآن و سنت کے منافی قرار دے دیا