اسلام آباد:

ایف بی آر افسران کی پروموشن سے متعلق کیس میں جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ریمارکس دیے کہ اگر اوپر دیانتداری ہوتی تو پھر نیچے بھی ہوگی، اوپر ٹھیک نہ ہو تو نیچے بھی نہیں ہو سکتا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایف بی آر افسران کی پروموشن کے لیے ہائی پاور سلیکشن بورڈ کا اجلاس نہ بلانے کا حکم برقرار رکھا ہے جبکہ بورڈ کا اجلاس نہ بلانے کے حکم امتناع میں 14 مارچ تک توسیع کر دی۔

ہائیکورٹ نے وکیل کے عدالتی سوالات کا جواب نہ دینے پر چیئرمین ایف بی آر کو طلب کرنے کا عندیہ بھی دے دیا۔

ایف بی آر کی گریڈ 21 کی افسر شاہ بانو کا نام گریڈ 22 میں ترقی کے لیے زیر غور نہ لائے جانے کے خلاف کیس کی سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کی۔ ہائیکورٹ نے ایف بی آر افسران کے گریڈ 22 میں ترقی پر حکمِ امتناع جاری کر رکھا ہے۔

 دوران سماعت، ایڈمن پول کی لیگل حیثیت کیا ہے، اس نکتے پر دلائل طلب کیے گئے۔

جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے استفسار کیا کہ جواب دیں کہ ایف بی آر افسران کو ایڈمن پول میں شامل کرنا قانونی طور پر درست ہے یا نہیں؟ اگر قانونی حیثیت ہے تو افسر کو کتنے عرصے تک ایڈمن پول میں رکھا جا سکتا ہے؟

جسٹس سردار اعجاز نے ریمارکس دیے کہ ایف بی آر حکام مطمئن نہ کر سکے تو چیئرمین ایف بی آر کو طلب کریں گے، عدالتی سوالات کے واضح جواب دیں آئندہ سماعت پر حکم امتناع ختم کر دوں گا۔

وکیل درخواست گزار دلائل میں کہا کہ کیس زیرسماعت ہونے کے دوران ایک نیا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا جو صرف درخواست گزار کی وجہ سے کیا گیا، نوٹیفکیشن کے مطابق ایک افسر کو دو بار ترقی کے لیے زیرغور لایا جا سکتا ہے۔

جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کہا کہ اِس کیس میں تو یہ عدالت اس نوٹیفکیشن کو نہیں دیکھ سکتی۔

وکیل ایف بی آر نے عدالت کو بتایا کہ گریڈ 22 میں ترقی کے لیے گزشتہ چھ سال کے تین بہترینPersonal evaluation reports ہونی چاہییں، درخواست گزار کی دو پی ای آرز بہترین ہیں اس لیے پہلے بھی ترقی نہیں مل سکی۔

درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ درخواست گزار کے خلاف ایک بوگس انکوائری شروع کروا دی گئی، انکوائری ہوتے ہوئے کیسے زیرغور لایا جا سکتا تھا۔ جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کہا کہ یہ پرانا طریقہ کار ہے۔ وکیل درخواست گزار نے کہا کہ درخواست گزار کو ایڈمن پول میں رکھ کر ایک اور داغ لگا دیا گیا۔

جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ریمارکس دیے کہ آپ کو معلوم ہے کہ ایف بی آر کے علاوہ ساری حکومت میں کیا ہو رہا ہے، اگر اوپر دیانتداری ہوتی تو پھر نیچے بھی ہوگی، اوپر ٹھیک نہ ہو تو نیچے بھی نہیں ہو سکتا۔

جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے استفسار کیا کہ افسران کو ایڈمن پول میں شامل کرنا قانونی طور پر درست ہے یا نہیں؟ ایف بی آر کی ایڈمن پول سے متعلق آفیشل ہدایات کیا ہیں؟

وکیل ایف بی آر نے بتایا کہ ایڈمن پول کا ایک مقصد ہے، کسی کو سزا دینا مقصد نہیں ہوتا۔ جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ریمارکس میں کہا کہ آپ کیوں اصل نکتے سے ہٹ کر غیر متعلقہ چیزیں بتا رہے ہیں؟ اگر آپ اس طرح چلیں گے تو میں پھر اسے بالکل آخر تک لے کر جاؤں گا۔

وکیل ایف بی آر نے بتایا کہ ایڈمن پول اسٹاپ کیپ ہے، افسران کو نئی تعیناتی سے پہلے اس میں رکھا جاتا ہے۔

جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ریمارکس میں کہا کہ نو ماہ؟ دس ماہ؟ ایک سال کے لیے رکھا جاتا ہے؟ یہ مکمل Arbitrary اختیار ہے، جس افسر کو جب تک چاہو اس پول میں شامل کر دو، ایک شخص کو دس، پندرہ یا 20 دن تک ہی پول میں رکھا جا سکتا ہے، آپ عدالت کی واضح ہدایات کے باوجود سوالات کا واضح جواب نہیں دے رہے۔

جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے سخت ریمارکس دیے کہ میں اب عدالتی وقت ضائع کرنے پر ایف بی آر پر بھاری جرمانہ عائد کروں گا، آپ جواب نہیں دیتے تو چیئرمین ایف بی آر کو یہاں پیش ہو کر اس ایک سوال کا جواب دینا ہوگا، کیا ایڈمن پول میں نام شامل کرنے اور نکالنے کا کرائٹیریا موجود ہے؟

ممبر ایف بی آر حامد عتیق نے کہا کہ میری استدعا ہے کہ ترقی روکنے کا حکمِ امتناعی آج ختم کر دیا جائے، میری سروس 35 سال ہو چکی ہے، جولائی میں ریٹائر ہو رہا ہوں۔

درخواست گزار شاہ بانو غزنوی نے کہا کہ میں سب سے سینیئر ہوں اور یہ مجھ سے 8 سال جونیئر ہیں۔

جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے ریمارکس دیے کہ پہلی بار کسی افسر نے یہ آواز اٹھائی ہے، اسے اپنے لیے نہیں بلکہ آنے والے افسران کے لیے دیکھیں۔

عدالت نے کیس کی سماعت 14 مارچ تک ملتوی کر دی۔

Tagsپاکستان.

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: پاکستان نے ریمارکس دیے کہ درخواست گزار نے کہا کہ ایف بی آر نیچے بھی نہیں ہو رکھا جا جا سکتا کے لیے

پڑھیں:

توہین عدالت میں توہین ہوتی ہے تشریح نہیں ،عدالت عظمیٰ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد(صباح نیوز) عدالت عظمیٰ کے آئینی بینچ میں سرکاری ملازمین کی بحالی کے حکم پر عملدرآمد نہ کرنے کے معاملے پردائرتوہین عدالت کی درخواستوں کے دوران بینچ کے رکن جسٹس سید حسن اظہررضوی نے ریمارکس دیے ہیں کہ عدالت عظمیٰ کے حکم کے بعد ہائی کورٹ کیسے جائیں گے، درخواست گزار ایف پی ایس سی کے ٹیسٹ سے کترارہے ہیں، ٹیسٹ پاس کرلیں، 59سال عمر والاتوزیادہ تجربہ کارہوگا۔جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے ہیں کہ توہین عدالت میں توہین ہوتی ہے تشریح نہیں ہوتی ، اگر ایف پی ایس سی سے کوئی نوٹس آیا توکیوں ٹیسٹ میں نہیں بیٹھے۔ جبکہ بینچ نے وفاقی حکومت سے عدالت عظمیٰ کے حکم پرمن و عن عملدرآمد کے حوالے سے رپورٹ آئندہ سماعت پر طلب کرلی۔ عدالت عظمیٰ کے سینئر جج جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہررضوی اور جسٹس شکیل احمد پر مشتمل 5رکنی آئینی بینچ نے عدالت عظمیٰ کے 2021کے حکم پر عملدرآمد نہ کرنے پردائر توہین عدالت کی درخواستوں اور برطرف ملازمین ایکٹ 2010کے قانون کوچیلنج کرنے کے معاملے پر دائر 25درخواستوں پرسماعت کی۔

خبر ایجنسی گلزار

متعلقہ مضامین

  • افغان سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی، ذبیح اللہ مجاہد
  • سندھ میں وزیراعلیٰ ہاؤس سے لے کر نیچے تک لوٹ مار جاری،حافظ نعیم
  • کراچی والوں کو بخش بھی دیں
  • کراچی گندہ نہیں اسے گندہ کہنے والوں کی سوچ گندی ہے، جویریہ سعود
  • موٹرسائیکل فلائی اوور سے نیچے گر گئی،سوارموقع پر جاں بحق
  • امریکہ امن کا نہیں، جنگ کا ایجنڈا آگے بڑھا رہا ہے، ثروت اعجاز قادری
  • لاہور: رشوت کے الزام میں گرفتار این سی سی آئی اے افسران کے جسمانی ریمانڈ کا حکمنامہ جاری
  • 31 اکتوبر تک 59 لاکھ ٹیکس ریٹرنز جمع تاریخ میں توسیع نہیں ہوگی، ایف بی آر
  • توہین عدالت میں توہین ہوتی ہے تشریح نہیں ،عدالت عظمیٰ
  • لاؤڈ اسپیکر ایکٹ کی سخت ترین عملداری کا فیصلہ، جدید ٹیکنالوجی سے نگرانی ہوگی