مونو کلونل اینٹی باڈیز اور ہماری شراکت داری
اشاعت کی تاریخ: 13th, March 2025 GMT
سوال: مونو کلونل اینٹی باڈیز کیا ہیں؟ کیسے بنائی جاتی ہیں؟ بنانے کےلیے کیا سہولیات درکار ہیں؟ وغیرہ وغیرہ
جواب: ویسے ہمارا علم کمزور ہے، کہیں کام کرنے کے احساس کی قلت اور کہیں تشنگی۔ خیر جو کچھ نظر سے گزرا چاہے کتاب پڑھنے سے، ماہرین سے گفتگو کرنے سے یا لیکچر سننے سے یا بیرون ملک مونو کلونل اینٹی باڈیز کی تیاری اور مینوفیکچرنگ کی سہولیات کا تفصیلی معائنہ کرنے سے، وہ یہاں تحریر کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ یقیناً یہ طویل ہوجائے گا۔ لیکن اس کو سادہ لفظوں میں مختصر رکھنے کی کوشش ضرور کروں گا۔
اینٹی باڈی ایک پروٹین ہوتی ہے، یعنی امائنو ایسڈ کی چین۔ اینٹی باڈی کا مطلب مخالف جسم (قوت) جو دشمن کو زیر کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ ہماری زندگی کو کبھی وائرس سے، کبھی بیکٹریا سے، کبھی جسم میں بننے والے کینسر کے خلیات سے یا جسم میں نکلنے یا پیدا ہونے والے زہریلے مادوں سے۔ انھیں ہم اینٹیجن کے نام سے پہنچانتے ہیں۔ یہ دشمن بھی عمومی طور پر خاصیت میں پروٹین ہی ہوتے ہیں۔
مونو کلونل اینٹی باڈیز اپنے دشمن کو خوب پہنچانتے ہیں اور تاک کر ان پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ بقا کی خاطر دونوں میں گھمسان کی جنگ ہوتی ہے۔ اگر جنگ جیت جائیں تو مریض صحت مند اور کامیابی کی داستان بیان کی جاتی ہیں، ورنہ ناکامی کی تاریخ دل سے نہیں لکھی جاتی۔
اینٹی باڈیز کی تیاری کےلیے پہلے وہ مخصوص دشمن تلاش کیا جاتا ہے جس کے خلاف اینٹی باڈیز بنانی ہو۔ اس دشمن کو الگ خالص شکل میں لایا جاتا ہے۔ پھر وہ اینٹیجن کسی زندہ جانور مثلا چوہے میں انجیکٹ (داخل) کیا جاتا ہے, تاکہ چوہے کا مدافعتی نظام اس اینٹیجن کے خلاف اینٹی باڈیز بنائے۔
عمومی طور پر اینٹیجن کی کئی خوراک متواتر چوہے کو لگائی جاتی ہیں تاکہ خاطر خواہ اینٹی باڈیز چوہے کے جسم میں بن سکے۔ اب اس چوہے کے خون سے بی سیل نکالتے ہیں۔ بی سیل دراصل اینٹی باڈیز بناتے ہیں۔ ان بی سیل کو لیبارٹری میں کینسر کے سیل کے ساتھ ملایا جاتا ہے۔ اس طرح دونوں مل کر ایک نیا سیل بناتے ہیں جنھیں سائنس کی زبان میں ہائبروڈوما کہا جاتا ہے۔ ان سیل کو الگ ایک محلول میں رکھا جاتا ہے اور ان کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔ تاکہ توانا ہائبروڈوما سیل الگ کیا جاسکے۔ منتخب شدہ ہائبروڈوما سیک کو بائیو ریکٹر میں مقررہ وقت کےلیے رکھا جاتا ہے جہاں وہ تیزی سے بڑھتے ہیں اور بڑی مقدار میں اینٹی باڈیز پیدا کرتے ہیں۔
اینٹی باڈیز کو فلٹر کیا جاتا ہے تاکہ ناپسندیدہ مواد اور دیگر غیر ضروری سیلز نکال دیے جائیں۔ اس کے بعد اینٹی باڈیز کی ٹیسٹنگ کی جاتی ہے تاکہ معلوم ہو کہ وہ بیماری کے خلاف مؤثر بھی ہیں یا نہیں۔ جب یہ اینٹی باڈیز خالص اور مؤثر ثابت ہوجائیں تو انہیں دوا کے طور پر استعمال کرنے کےلیے مزید تجربات کیے جاتے ہیں۔ پہلے جانوروں پر پھر گورنمنٹ کی پیشگی اجازت سے محدود تعداد میں انسانوں پر اور آخر میں درجہ بدرجہ بڑی تعداد میں مریضوں پر ان کا تجربہ کیا جاتا ہے۔
اگر یہ محفوظ اور مؤثر ثابت ہوتے ہیں تو گورنمنٹ کی نظر ثانی کےلیے درخواست تمام ضروری تفصیلات و مشاہدات کے ساتھ خصوصی فارمیٹ پر جمع کرائی جاتی ہے۔ گورنمنٹ اچھی طرح چھانٹ پھٹک اور جانچ پڑتال کے بعد اسے مونو کلونل اینٹی باڈیز کو حدود کے تعین کے ساتھ مریضوں پر استعمال کا اختیار دیتی ہے۔
مونو کلونل اینٹی باڈیز بنانے کا عمل پیچیدہ لیکن منظم ہوتا ہے۔ اس کو بنانے کے پورے سفر میں خاص طور پر انکویٹرز، بائیو ریکٹر، سینٹی فیوجز، مائیکرو اسکوپ، کرومیٹوگروفی، فلٹریشن سسٹم، ماس اسپیکٹرواسکوپی۔ فلو سائٹومیٹر، پی سی آر، لائیفو لائزر، منفی 80 ڈگری والا فریج درکار ہوتے ہیں اور یہ سب پاکستان میں کثیر تعداد میں دستیاب ہیں۔
مونو کلونل اینٹی باڈیز اکیسویں صدی کی ادویاتی دنیا میں مجموعی قدر و قیمت کے لحاظ سے سب سے آگے ہیں۔ یہ ایک دو بلین ڈالر کی دنیا نہیں، یہ سیکڑوں بلین امریکی ڈالر کا عالمی بازار ہے۔ ہم اس دوڑ میں کہیں نہیں کھڑے ہیں۔ ہاں کہیں کہیں ہم اپنی قوم کو ساز باز کے ذریعے دھوکا دے رہے ہیں اور شاباش ہے دھوکا کھانے والوں پر۔ پچھلے پندرہ برس سے شاید دانستاً دھوکا کھا کر انھی سے امید لگا رہے ہیں۔ ہماری دانست میں ہمارے یہاں جس کی قلت ہے وہ ہے سچائی، وہ ہے اخلاص، وہ ہے جذبہ خدمت، وہ ہے سچی شان و شوکت۔ ورنہ ایسا کچھ نہیں جو پڑوسی ممالک میں ہم سے زیادہ ہو۔ بقول میر
میر کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کیا جاتا ہے ہوتے ہیں ہیں اور کے ساتھ
پڑھیں:
کوکنگ آئل اور ہماری صحت
سائنسی نقطہ نگاہ سے ایک اسٹڈی کی گئی کہ سب سے بہتر کھانے کا تیل کون سا ہے۔ جس میں 30کے قریب آئل کے برانڈز کو ٹیسٹ کیا گیا کیونکہ بہت سی خطرناک بیماریاں یعنی کینسر اور دل کے امراض ناقص تیل کی وجہ سے پیدا ہورہی ہیں ۔ اس لیے بہت ضروری ہے کہ ہم یہ دیکھیں کہ کون سے تیل استعمال کرنے چاہیں اور کون سے نہیں ۔اس وقت اولیو آئل ، پام آئل ، کینولا آئل ، سن فلاور وغیرہ پوری دنیا میں بہت زیادہ استعمال ہو رہے ہیں ۔ آئل میں دو قسم کے فیٹfat) (ہوتے ہیں ۔
پہلا سیچوریٹڈ فیٹ اور دوسرا ان سیچوریٹڈ فیٹ ، دیسی گھی ،مکھن اور ڈالڈا میں بھی سیچوریٹڈ فیٹ ہوتے ہیں لیکن یہ کمرے کے درجہ حرارت پر پگھلتے نہیں اس لیے یہ نقصان دہ ہیں ۔ اگر ہمارے جسم میں مناسب مقدار میں فیٹ نہیں ہونگے تو ہماری باڈی وٹامن کو جذب نہیں کر سکے گی ۔اس کے علاوہ یہ فیٹ ہماری باڈی کے سیلزسٹریکچر کو بھی بناتے ہیں ۔ لیکن جب ہم دیسی گھی مکھن استعمال کرتے ہیں تو آہستہ آہستہ ہمارا کولیسٹرول لیول بڑھنا شروع ہو جاتا ہے ۔ ہمارے جسم کو اومیگا تھری اور اومیگا سکس چاہیے ہوتا ہے جو انسانی دماغ کے لیے بہت ضروری ہے ۔ جب کہ اومیگا تھری خون کی نالیوں کو کھولتا ہے ۔ اس طرح ہمیں دل کے اٹیک سے محفوظ رکھتا ہے ۔ اگر اومیگا سکس کو بہت زیادہ استعمال کیا جائے جو سرسوں کے تیل میں ہوتا ہے تو ذیابیطس کا مرض لاحق ہوسکتا ہے۔
علاوہ اس کے الزائمر دل کی بیماریاں بھی ہو سکتی ہیں کیونکہ یہ دل کی نالیوں کو تنگ کرتا ہے ۔ اگر آپ ایک ایسے تیل کا استعمال کر رہے ہیں تو یہ انسانی صحت کے لیے خطرناک ہے ۔ اس کے لیے ہمیں ایک ایسا کوکنگ آئل استعمال کرنا چاہیے جس میں اومیگا تھر ی اور اومیگا سکس کی مناسب مقدار ہو ۔ اومیگا تھری ہمارے جسم کے اندر نہیں بنتا ، چنانچہ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے مچھلی آئل اور خشک میوہ جات استعمال کرنے چاہیے ۔مچھلی آئل دماغ کے لیے بہت مفید ہے ۔ یہ حافظے کو طاقتور بناتا ہے ، مچھلی آئل دل کی صحت اور بلڈ پریشر کے لیے بہت مفید ہے۔ جسم کی اندرونی سوجن کو ٹھیک کرتا ہے ، دماغ کے لیے بہت اچھا ہے ، خاص طور پر طالبعلموں کی دماغی صلاحیت میں اضافہ کرتا ہے ۔
جب آپ کسی کوکنگ آئل کو انتہائی درجہ حرارت پر گرم کرتے ہیں تو سرسوں کا تیل کسی اور کیمیکل میں بدل جاتا ہے ۔ کیونکہ اس تیل کو بار بار اور بہت زیادہ پکانے سے ان ہوٹلوں یا ان جگہوں پر جہاں اس تیل کو بار بار استعمال کیا جائے یعنی ایک ہی تیل کو تو اس جگہ پر ایک خاص قسم کی بدبو پیدا ہو جاتی ہے ۔ ایسے تیل کے استعمال کی وجہ سے ذیابیطس ٹائپ ٹو ہونے کا شدید خطرہ ہوتا ہے ۔ ایسے زہریلے آئل کی وجہ سے دماغ کو نقصان پہنچ سکتا ہے ، ذہانت کم ہو سکتی ہے اور مزید یہ کہ دل کی بیماریاں بھی ہو سکتی ہیں ۔
ایکسٹرا ورجن آئل کا استعمال سائنسی نقطہ نگاہ سے انسانی جسم کے لیے بہت مفید اور محفوظ ہے لیکن معاملہ یہ ہے کہ اولیو آئل صرف اس صورت میں فائدہ مند ہے جب ہم چائے کے چھوٹے چار چمچ سلاد پر ڈال کر کھائیں لیکن اگر ہم اسکو انتہائی درجہ حرارت پر پکائیں گے یا اس میں کھانا پکائیں گئے تو یہ اپنی شکل تبدیل کرکے ایک ایسے کیمیکل میں بدل جائے گا جو انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے ۔ اولیو آئل کو پکانے کے لیے صرف فرائی پین میں استعمال کرسکتے ہیں یعنی انڈہ ، شامی کباب وغیرہ یعنی وہ تمام اشیاء جو کم درجہ حرارت پر پک سکتی ہیں ۔ جب کہ اولیو آئل تمام کوکنگ آئل میں ایک مہنگا آئل ہے ۔
کیتھرائنا ریڈل ایک ریسرچ میں بتاتی ہیں کہ جن کا تعلق کوئین مارگریٹ یونیورسٹی ہے انھوں نے پام آئل پر ریسرچ کی جس کا پوری دنیا میں بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے، مزید یہ کہ اس آئل کا استعمال ہوٹلوں اور بیکریوں میں بہت زیادہ ہوتا ہے ۔ خاص طور پر اس تیل سے کیک اور بسکٹ بنائے جاتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس میں سیچوریٹڈ فیٹس بہت زیادہ مقدار میں پائے جاتے ہیں جوانسانی صحت کے لیے بہت زیادہ نقصان دہ ہے ۔ چنانچہ ان خاتون نے پام آئل کی ایک نئی قسم ایجاد کی ۔اس میں سیچوریٹڈ فیٹ عام پام آئل کے مقابلے میں 88فیصد کم ہوتے ہیں لیکن اس پام آئل کی قسم ہمارے ملک میں ابھی دستیاب نہیں ہے۔
اب آتے ہیں سرسوں کے آئل کی طرف جو ایشیاء میں بہت زیادہ استعمال کیا جاتاہے لیکن اس پر بہت زیادہ ریسرچ نہیں ہوئی ہے ۔ اس میں بھی اومیگا سکس اور اومیگا تھری کی بڑی اچھی مقدار پائی جاتی ہے لیکن سرسوں کے تیل میں اومیگا سکس کی کچھ زیادہ مقدار ہی پائی جاتی ہے ۔ اس لیے سرسوں کے تیل کا زیادہ استعمال بھی انسانی صحت کے لیے بہت زیادہ نقصان دہ ہے ۔ کیونکہ اس کا زیادہ استعمال یورک ایسڈ بڑھا سکتا ہے ۔سن فلاور بھی ایک اچھا تیل ہے اور اس کے علاوہ کینولا آئل کا استعمال بھی بہتر ہے ، لیکن یاد رہے مکھن کا استعمال نقصان دہ ہے لیکن دیسی گھی اگر آپ کم مقدار میں استعمال کریں تو ٹھیک ہے ۔
اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو حالیہ اور تازہ ترین خبر یہ ہے کہ پنجاب فوڈز اتھارٹی نے تقریباً 10ہزار لیٹر ناقص کوکنگ آئل ضبط اور2000کلو سے زائد مردہ مرغیاں تلف کردی ہیں ۔ جسے فائیو اسٹار ریسٹورنٹس میں بھی سپلائی ہونا تھا۔ اس کے علاوہ ہزاروں لیٹر کیمیکل دودھ ہر ہفتے کئی مرتبہ تلف کیا جارہا ہوتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ہم کس ملک میں رہ رہے ہیں یہ جرم قتل آمد کے زمرے میں آتا ہے جس کی سزا کم از کم عمر قید یا سزائے موت ہونی چاہیے ۔ علاوہ ازیں ان جرائم پیشہ افراد کی تمام دولت ، جائیداد بحق سرکار ضبط کرنی چاہیے خالی خولی معمولی جرمانوں سے کچھ نہیں ہوگا۔ خطرناک بیماریوں میں مبتلا افراد ان بیماریوں کا علاج کرواتے کرواتے مالی طور پر تباہ وبرباد ہو جاتے ہیں ۔ اعلی عدلیہ سے گزارش ہے کہ اس انتہائی اہم عوامی مسئلہ پر فوری طور پر سو موٹو نوٹس لیا جائے ۔