جب وزیراعظم کا بیٹا تھا اُس زمانے میں مجھے گھر سے اغواء کرنے کی کوشش کی گئی: بلاول بھٹو
اشاعت کی تاریخ: 13th, March 2025 GMT
بلاول بھٹو— فائل فوٹو
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ وزیراعظم کا بیٹا تھا اُس زمانے میں مجھے وزیراعظم کے گھر سے اغوا کرنے کی کوشش کی گئی۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان میں دہشت گردی نیا مسئلہ نہیں، ملک نے دہشت گردی کی وجہ سے بہت نقصان اٹھایا ہے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ جب بچہ تھا تب سے یہ دہشت گردی دیکھتا ہوا آ رہا ہوں، بے نظیر بھٹو دہشت گردی کی وجہ سے شہید ہوئیں، نواز شریف نے نیشنل ایکشن پلان بنایا تھا۔
انہوں نے کہا کہ شہباز شریف بھی نیشنل ایکشن پلان ٹو بنا سکتے ہیں، جو قوتیں اس ملک کو غیر مستحکم کرنا چاہتی ہیں وہ متحد ہیں۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ سانحہ اے پی ایس پر ہم نے سیاست کو ایک طرف رکھ کر قومی مفاد کو ترجیح دی اور نیشنل ایکشن پلان کی توثیق کی، ہم نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی تھی۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت ہم ماضی سے زیادہ خطرناک دور سے گزر رہے ہیں، ہمارا اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے دہشت گرد فائدہ اٹھا رہے ہیں، پختون خوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات ہو رہے ہیں، ہر دہشت گردی کا واقعہ پچھلے واقعے سے زیادہ خطرناک ہے، ان دہشت گردوں کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا ان کی کوئی سیاست نہیں ہوتی۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ مذہب کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، ان تمام تنظیموں کا مقصد دہشت پھیلانا ہے، یہ دہشت گرد اسلامی ریاست نہیں چاہتے، بین الاقوامی قوتیں ان دہشت گردوں کی مالی مدد کر رہی ہیں، یہ دہشت گرد عام شہری کو قتل کر کے چین کو کیوں للکارتے ہیں؟۔
وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے، اپوزیشن بینچز سےدرخواست ہے کہ وہ بانیٔ پی ٹی آئی کے بجائے پاکستان کی بقا کی جنگ لڑیں، پاکستان کے بقا کی بات کریں ایک شخص کی بقا کی بات نہ کریں۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان ہو یا وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا قیام امن کے لیے ان کی مدد کرنی چاہیے، بلوچستان کے عوام اپنے حقوق مانگ رہے ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ خیبر پختون خوا حکومت کے پاس قیدی 804 کو رہا کرانے کے علاوہ اور بھی کام ہیں، آپ نے اگر درست سیاست کرنی ہے تو آپ ہمیں 804 کے علاوہ اور معاملات پر بھی تنقید کیا کریں۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ قبائلی علاقوں سے لے کر پشاور تک کوئی ایک ترقیاتی منصوبہ تو شروع کردیں، اس ایوان میں ان لوگوں میں وہ اہلیت اور صلاحیت ہے کہ دہشت گردی سمیت تمام مسائل کو مل کر حل کرسکیں، ہم اپنی سیاست کرتے رہیں مگر قومی ایشوز پر اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ مسائل حل کرسکیں۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ یہ ہر بات پر کہتے ہیں قیدی نمبر 804 کو رہا کرو، صدر زرداری فلسطین کی بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں قیدی نمبر 804 کو رہا کرو، ان کے اپنے قائد کے لیے جذبات ہوں گے، ہمارے ووٹر اور ساتھیوں کو قیدی نمبر 804 سے کوئی دلچسپی نہیں۔
انہوں نے کہا کہ کے پی کو ماننا پڑے گا قیدی نمبر 804 کو رہا کرنے کے علاوہ بھی ذمہ داریاں ہیں۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: بلاول بھٹو نے کہا کہ انہوں نے کہا کہ رہے ہیں کو رہا بقا کی
پڑھیں:
وزیراعظم نے 27 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کیلیے حمایت مانگی، بلاول بھٹو نے تفصیلات جاری کردیں
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ وزیراعظم کی زیرقیادت مسلم لیگ ن کے وفد نے 27 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے حمایت مانگی ہے۔
سماجی رابطوں کے پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر جاری اپنے بیان میں چیئرمین پیپلز پارٹی اور سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ ن کا وفد صدر زرداری اور مجھ سے ملنے آیا تھا۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ مسلم لیگ ن کے وفد نے 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری میں پاکستان پیپلزپارٹی کی حمایت مانگی۔ اس مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم میں آئینی عدالت کا قیام، ایگزیکٹو مجسٹریٹس کی بحالی اور ججوں کے تبادلے کا اختیار شامل ہے۔
PMLN delegation headed by PM @CMShehbaz called on @AAliZardari & myself. Requested PPPs support in passing 27th amendment. Proposal includes; setting up Constitutional court, executive magistrates, transfer of judges, removal of protection of provincial share in NFC, amending…
— Bilawal Bhutto Zardari (@BBhuttoZardari) November 3, 2025انہوں نے اپنے بیان میں مزید بتایا کہ مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم میں این ایف سی میں صوبائی حصے کے تحفظ کا خاتمہ اور آرٹیکل 243 میں ترمیم کے نکات بھی شامل ہیں۔
علاوہ ازیں مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم میں تعلیم اور آبادی کی منصوبہ بندی کے اختیارات کی وفاق کو واپسی اور الیکشن کمیشن کی تقرری پر جاری تعطل ختم کرنا شامل ہیں۔
بلاول بھٹو نے اپنے بیان میں بتایا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس 6 نومبر کو صدرِ پاکستان کے دوحا سے واپسی پر طلب کیا گیا ہے تاکہ پارٹی پالیسی کا فیصلہ کیا جاسکے۔