اسلام ٹائمز کیساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں جموں و کشمیر اتحاد المسلمین کے صدر کا کہنا تھا کہ انکی تنظیم پر پابندی اور اسے غیر قانونی قرار دینا قابل مذمت اور سراسر ناانصافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ "اتحاد المسلمین" عدم تشدد اور جمہوری طریقے سے کشمیری عوام کی نمائندگی کرتی ہے، انکی امنگوں اور حقوق کی مکمل حمایت کرتی ہے اور مذاکرات کے ذریعے تنازعہ کشمیر کے پُرامن حل کا مطالبہ کرتی ہے۔ متعلقہ فائیلیںمولانا مسرور عباس انصاری کا تعلق مقبوضہ کشمیر کے شہر خاص سرینگر سے ہے، وہ جموں و کشمیر اتحاد المسلمین کے سربراہ ہیں، اتحاد المسلمین پچھلے 55 سالوں سے کشمیر کی سرزمین پر فعال رول ادا کر رہی ہے، اتحاد و اخوت اسلامی کے علاوہ یہ تنظیم کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کا دفاع کر رہی ہے۔ ادھر منگل کے روز بھارتی وزارت داخلہ نے میرواعظ عمر فاروق کی زیر قیادت جموں و کشمیر کی دینی، سماجی و سیاسی تنظیم عوامی ایکشن کمیٹی اور مولانا مسرور عباس انصاری کی زیر قیادت کشمیر کی دینی، سماجی و سیاسی تنظیم جموں و کشمیر اتحاد المسلمین کو غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ 1967ء "یو اے پی اے" کے تحت پانچ سال کے لئے کالعدم قرار دے دیا۔ بھارتی وزارت نے یہ فیصلہ ان تنظیموں کی بھارت مخالف سرگرمیوں، آزادی پسند پروپیگنڈے اور جموں و کشمیر میں دہشتگردی کی حمایت میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کا حوالہ دیتے ہوئے کیا۔ بھارتی وزارت داخلہ نے ایک نوٹیفکیشن میں کہا کہ عوام ایکشن کمیٹی غیر قانونی سرگرمیوں میں مصروف ہے، جو بھارت کی سالمیت، خود مختاری اور سلامتی کیلئے نقصاندہ ہے اور اسکے ارکان جموں و کشمیر میں آزادی پسندی کو فروغ دینے کیلئے دہشتگردانہ سرگرمیوں اور ملک مخالف پروپیگنڈے میں ملوث رہے ہیں۔

وزارت نے مسرور عباس انصاری کی زیرقیادت اتحاد المسلمین پر بھی انہی الزامات کے تحت پابندی عائد کر دی ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ کالے قانون "یو اے پی اے" کے تحت پابندی متنازعہ علاقے میں سیاسی تنظیموں کیخلاف بھارت کی ہندوتوا حکومت کا ایک اور ظالمانہ اقدام ہے۔ بھارتی حکومت کی ان پابندیوں کو لیکر اسلام ٹائمز کے نمائندے نے "اتحاد المسلمین" کے سربراہ مولانا مسرور عباس انصاری سے خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جس دوران انہوں نے کہا کہ انکی تنظیم پر پابندی اور اسے غیر قانونی قرار دینا قابل مذمت اور سراسر ناانصافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ "اتحاد المسلمین" عدم تشدد اور جمہوری طریقے سے کشمیری عوام کی نمائندگی کرتی ہے، انکی امنگوں اور حقوق کی مکمل حمایت کرتی ہے اور مذاکرات کے ذریعے تنازعہ کشمیر کے پُرامن حل کا مطالبہ کرتی ہے، جس کیلئے انہوں نے سالہا سال سے صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ مولانا مسرور عباس اںصاری نے کہا کہ حق کی آواز کو طاقت کے ذریعے دبایا نہیں جا سکتا ہے۔ قارئین و ناظرین محترم آپ اس ویڈیو سمیت بہت سی دیگر اہم ویڈیوز کو اسلام ٹائمز کے یوٹیوب چینل کے درج ذیل لنک پر بھی دیکھ اور سن سکتے ہیں۔ (ادارہ)

https://www.

youtube.com/@ITNEWSUrduOfficial

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: مولانا مسرور عباس انصاری اتحاد المسلمین نے کہا کہ انہوں نے کشمیر کی کرتی ہے

پڑھیں:

بھارت کے جیلوں میں بند کشمیری قیدیوں کو واپس لایا جائے، محبوبہ مفتی

درخواست میں کہا گیا ہے کہ شواہد وسیع ہیں اور گواہوں کی فہرست طویل ہے، جس کیلئے ملزمان اور انکے وکلاء کے درمیان باقاعدہ اور خفیہ مشاورت کی ضرورت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر کی سابق وزیراعلٰی اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر محبوبہ مفتی جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں پیش ہوئیں۔ محبوبہ مفتی نے جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں ایک پی آئی ایل دائر کی ہے۔ پی آئی ایل میں درخواست کی گئی ہے کہ جموں و کشمیر سے باہر (بھارت) کی جیلوں میں بند قیدیوں کو واپس لایا جائے۔ اس درخواست میں محبوبہ مفتی بمقابلہ یونین آف انڈیا کے عنوان سے، قیدیوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے بارے میں فوری عدالتی مداخلت کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ محبوبہ مفتی کے وکیل نے استدلال کیا کہ 5 اگست 2019ء کو جب دفعہ 370 کو منسوخ کیا گیا تھا اس وقت بہت سے قیدیوں کو دور دراز ریاستوں کی جیلوں میں منتقل کردیا گیا تھا۔

پی آئی ایل میں کہا گیا ہے کہ سیکڑوں کلومیٹر دور ان کی نظربندی عدالت تک ان کی رسائی، خاندان کے لوگوں اور وکیلوں سے ملاقاتوں کو متاثر کرتی ہے، سفر کی لاگت خاندانوں کے لئے بہت زیادہ ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کی نظربندی آئین کے آرٹیکل 14 اور 21 کے تحت دیئے گئے حقوق کی خلاف ورزی ہے، خاص طور پر مساوات کا حق، خاندانی رابطہ، موثر قانونی امداد اور جلد سماعت۔ انہوں نے کہا کہ قیدی اپنے اہل خانہ سے ملاقات نہیں کر سکتے کیونکہ دوری ہونے کے سبب اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔ رشتہ داروں کے لئے باقاعدگی سے سفر کرنا بھی مشکل ہوتا ہے، جس کی وجہ سے مقدمے کی کارروائی خود ہی سزا بن جاتی ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ شواہد وسیع ہیں اور گواہوں کی فہرست طویل ہے، جس کے لئے ملزمان اور ان کے وکلاء کے درمیان باقاعدہ اور خفیہ مشاورت کی ضرورت ہے۔ تاہم یہ عملاً اس وقت ناممکن ہو جاتا ہے جب قیدی کو دور کی جیل میں رکھا جاتا ہے۔ غور طلب ہے کہ بہت سے معاملات میں کچھ نظربندوں کو سکیورٹی وجوہات کی بناء پر یونین ٹیریٹری (جموں و کشمیر) سے باہر جیلوں میں منتقل کیا جاتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت کے جیلوں میں بند کشمیری قیدیوں کو واپس لایا جائے، محبوبہ مفتی
  • نیوکلیئر پروگرام پر مذاکرات کے لیے تیار ہیں: ایران
  • مقبوضہ وادی میں اسلامی لٹریچر نشانہ
  •  دینی مدارس کے خلاف اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی کا رویہ دراصل بیرونی ایجنڈے کا حصہ ہے، مولانا فضل الرحمن 
  • گورنر سندھ کامران ٹیسوری کا گلگت بلتستان کے پاکستان سے الحاق کے دن پر خصوصی پیغام
  • مقبوضہ وادی میں جماعت اسلامی پر پابندی
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، کبھی تھا نہ کبھی ہوگا، پاکستان
  • یوسف تاریگامی کا بھارت میں آزادی صحافت کی سنگین صورتحال پر اظہار تشویش
  • ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس کا خصوصی انٹرویو
  • سوڈان، امریکی ایجنڈا و عرب امارات کا کردار؟ تجزیہ کار سید راشد احد کا خصوصی انٹرویو