ایچ بی ایل پی ایس ایل کی تاریخ میں پہلی بار ٹرافی ٹور کا آغاز آج حیدر آباد اور کراچی سے ہو رہا ہے اور ’لومینارا‘ ٹرافی 29 مارچ تک پاکستان کے 11 شہروں کا سفر کرے گی۔

پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے مطابق ٹرافی ٹور کے پہلے مرحلے میں، ’لومینارا‘ ٹرافی حیدرآباد اور کراچی کے مختلف مقامات پر 15 مارچ تک نمائش کے لیے رکھی جائے گی۔ حیدرآباد اور کراچی کے بعد، ٹرافی لاہور، ملتان، بہاولپور، فیصل آباد، پشاور اور اسلام آباد جائے گی۔ ٹرافی ٹور کے دوسرے مرحلے کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں: ایچ بی ایل پی ایس ایل 10 کی ٹرافی ’لومینارا‘ کی بحیرہ عرب میں رونمائی 

ایچ بی ایل پی ایس ایل کے چیف ایگزیکٹو آفیسر سلمان نصیر نے کہا ہے کہ ٹرافی ٹور پاکستان کی بھرپور ثقافت، متنوع کمیونٹیز اور سب سے بڑھ کر کرکٹ کے لیے اس کی گہری محبت کا جشن ہے۔ اس ٹور کا مقصد پورے پاکستان میں HBL PSL ٹرافی کی رسائی کو بڑھانا ہے۔

The #HBLPSLX trophy is on the move! ????

Catch ‘Luminara’ as it travels across Pakistan in the first-ever HBL PSL trophy tour ????

More details⤵️https://t.

co/aOftu7oCPI

— PakistanSuperLeague (@thePSLt20) March 14, 2025

پہلے مرحلے میں، ٹرافی کراچی کی رنگین گلیوں سے لاہور کے تاریخی مقامات تک نمائش کے لیے رکھی جائے گی، جہاں پاکستان کے دلکش منظر ناموں کا بھی تعارف کرایا جائے گا، اور مزید تاریخی اور نمایاں مقامات کا سفر کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں:پی ایس ایل کے 10ویں ایڈیشن کا شیڈول جاری، افتتاحی میچ اور فائنل کہاں کھیلا جائے گا؟

سلمان نصیر نے کہا کہ ٹرافی ٹور ہمارے لیے ان مداحوں کا شکریہ ادا کرنے کا طریقہ ہے، جو پچھلے دہائی بھر سے HBL PSL کی جان اور روح ہیں۔ ان کی غیر متزلزل حمایت ہمارے کھلاڑیوں کے جذبے کو فروغ دیتی ہے اور اس لیگ کو دنیا کی بہترین لیگ میں سے ایک بناتی ہے۔
ایچ بی ایل پی ایس ایل 10 کی ٹرافی ’لومینارا‘ کے پہلے مرحلے کا شیڈول

14 مارچ – حیدرآباد
14-15 مارچ – کراچی
16-17 مارچ – لاہور
18 مارچ – ملتان
19 مارچ – بہاولپور
20 مارچ – فیصل آباد
22 مارچ – پشاور
23 مارچ – اسلام آباد

واضح رہے کہ ایچ بی ایل پی ایس ایل کا 10واں ایڈیشن 11 اپریل سے 18 مئی تک کراچی، لاہور، ملتان اور راولپنڈی میں کھیلا جائے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

HBL PSL ایچ بی ایل پی ایس ایل پاکستان کرکٹ بورڈ پی ایس ایل ٹرافی ٹور چیف ایگزیکٹو آفیسر سلمان نصیر

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ایچ بی ایل پی ایس ایل پاکستان کرکٹ بورڈ پی ایس ایل ٹرافی ٹور چیف ایگزیکٹو آفیسر سلمان نصیر ٹرافی ٹور جائے گا کے لیے

پڑھیں:

جب عورت کا ’نہ‘ جرم بن جائے: ثنا یوسف کا قتل اور اِن سیل ذہنیت کا المیہ

ثنا یوسف چترال سے تعلق رکھنے والی ایک باہمت، تخلیقی اور خودمختار نوجوان لڑکی تھی جو سوشل میڈیا پر سرگرم تھی اور ایک بااثر ڈیجیٹل کریئیٹر کے طور پر ابھر رہی تھی۔ مگر بدقسمتی سے اس کی زندگی کا اختتام ایک ایسے المیے پر ہوا جو صرف ذاتی سانحہ نہیں بلکہ ایک گہری سماجی بیماری کی علامت ہے۔

ثنا کو ایک 23 سالہ نوجوان عمر حیات نے صرف اس لیے قتل کر دیا کہ اس نے اس کی دوستی کی پیشکش قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے: ٹک ٹاکر ثنا یوسف قتل کیس میں سنسنی خیز انکشافات: قاتل کا اعتراف، رینٹ کی گاڑی، تحائف ٹھکرانے کا رنج

یہ معاملہ محض ‘غیرت’ یا وقتی غصے کا نہیں بلکہ ایک زہریلی سوچ کی پیداوار ہے۔ وہ سوچ جو عورت کے انکار کو جرم اور مرد کی انا کو انصاف کا پیمانہ سمجھتی ہے۔ دنیا اس سوچ کو ان سیل (In Cel) کے نام سے جانتی ہے۔

اِن سیل کلچر: ایک خطرناک ذہنیت

‘ان سیل’ (Involuntary Celibate) یعنی ‘بغیر اپنی مرضی کے غیررومانوی زندگی گزارنے والے افراد’ کی اصطلاح مغرب میں ایک آن لائن کمیونٹی سے وابستہ رہی ہے، جو جنسی یا رومانوی تعلق سے محرومی کے باعث عورتوں کے خلاف شدید نفرت اور غصے میں مبتلا ہوتے ہیں۔

یہ لوگ عورتوں کے ‘نہ’ کو اپنی تذلیل سمجھتے ہیں اور اس انکار کو ‘انتقام’ کے قابل جرم مانتے ہیں۔ ان کی گفتگو، آن لائن فورمز، یوٹیوب چینلز اور سوشل میڈیا گروپس میں عورت دشمنی عام سی بات ہے۔

اگرچہ پاکستان میں اس اصطلاح سے واقفیت عام نہیں لیکن اس کی روح اور ذہنیت ہمارے معاشرے میں کئی انداز سے موجود ہے:

مردانگی کو تسلیم کروانے کے لیے تعلق کا ‘حاصل ہونا’ ضروری سمجھا جاتا ہے؛

عورت کا انکار مرد کی تذلیل کے مترادف سمجھا جاتا ہے؛

خودمختار عورت کو ‘مغرور’ یا ‘قابلِ سزا’ قرار دیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: اسلام آباد میں قتل ہونے والی 17 سالہ سوشل میڈیا انفلوئنسر ثنا یوسف کون تھیں؟

یہ وہ معاشرتی سانچے ہیں جو عمر حیات جیسے نوجوانوں کی سوچ کی تشکیل کرتے ہیں۔ وہ شعوری طور پر خود کو ‘ان سیل’ نہ بھی سمجھتے ہوں، تب بھی ان کی سوچ اسی زہریلے سانچے سے جنم لیتی ہے۔

ثنا کا ‘نہ’ اور معاشرتی انا کا زخم

ثنا یوسف کا جرم صرف یہ تھا کہ اس نے تعلق سے انکار کیا، اپنی پسند اور اپنی آزادی کا استعمال کیا۔ عمر نے اس انکار کو نہ صرف انا کا مسئلہ بنایا، بلکہ اسے ‘سزا دینے’ کی حد تک پہنچا دیا۔ اس نے اسے قتل کیا ، وہ بھی دن دیہاڑے۔

یہ ردعمل محض ایک فرد کی نفسیاتی بے چینی نہیں تھی، بلکہ ایک پوری سوچ کی نمائندگی کرتا ہے۔ وہ سوچ جو عورت کو انسان نہیں، ایک شے یا ‘حق’ سمجھتی ہے۔

عمر، ان سیل تھا؟ شاید خود بھی نہ جانتا ہو

یہاں ایک بنیادی نکتہ سمجھنا ضروری ہے: عمر شاید کبھی Reddit یا 4chan پر نہ گیا ہو، نہ ہی ‘ان سیل’ کے نظریے سے واقف ہو۔ مگر اس کے طرزِ فکر میں وہ تمام علامات موجود تھیں جو ان سیل کلچر کی بنیاد ہیں:

عورت کا انکار ناقابلِ برداشت؛

تعلق پر ‘حق’ کا تصور؛

مسترد کیے جانے پر غصہ اور انتقام کی جبلّت۔

یہ بھی پڑھیے: بیگم جہاں آرا شاہنواز سے نسیم جہاں تک، جدوجہدِحقوقِ نسواں کی اَن کہی داستان

یہی وہ ذہنیت ہے جو ہمارے نوجوانوں میں غیر محسوس طریقے سے سرایت کرتی جا رہی ہے، کبھی واٹس ایپ گروپس، کبھی یوٹیوب پر ‘مردانہ طاقت’ کے نام پر ویڈیوز، اور کبھی روزمرہ لطیفوں اور گفتگو میں۔

سوشل میڈیا اور زہریلا مردانہ بیانیہ

سوشل میڈیا پر مردوں کے لیے مخصوص کئی وی لاگرز، ‘ریڈ پِل’ چینلز اور آن لائن گروپس موجود ہیں جو عورت کو ناقابلِ بھروسا، چالاک یا کمتر ثابت کرتے ہیں۔ وہ مرد کو یہ سکھاتے ہیں کہ عورت کو کیسے ‘جیتا’ جائے، کیسے ‘قابو’ میں رکھا جائے، اور کیسے اس کے انکار کو اپنی طاقت سے شکست دی جائے۔

یہی وہ بیانیہ ہے جو مسترد کیے جانے کو مرد کی شکست اور عورت کی غلطی بنا دیتا ہے اور آخر کار ثنا یوسف کے قتل جییسے سانحات کو جنم دیتا ہے۔

حل کہاں ہے؟

ہمیں فرد کو سزا دینے سے آگے بڑھ کر، اس ذہنیت کا احتساب کرنا ہوگا جو ہر گھر، ہر سوشل میڈیا پلیٹ فارم اور ہر کلاس روم میں جنم لے رہی ہے۔

عورت کے انکار کو حق تسلیم کرنا — یہ نصاب، میڈیا اور والدین کی تربیت کا حصہ ہونا چاہیے۔ مردوں کی جذباتی تربیت — لڑکوں کو یہ سکھانا کہ انکار زندگی کا ایک عام تجربہ ہے، نہ کہ انا کا زخم۔ سوشل میڈیا پر عورت دشمن مواد کی روک تھام — پلیٹ فارمز کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ ان کے مواد سے حقیقی دنیا میں کیا اثرات پیدا ہو رہے ہیں۔ معاشرتی گفتگو کی اصلاح — ہر وہ جملہ، مذاق، یا تصور جو عورت کو کمتر یا مرد کو غالب ظاہر کرے، اسی ذہنیت کو فروغ دیتا ہے جس نے ثنا کو مارا۔ ثنا کی یاد، ایک سوال بن کر باقی ہے

ثنا یوسف کا قتل ہمیں یاد دلاتا ہے کہ عورتوں کی خودمختاری، انکار اور انتخاب کو صرف قانون نہیں، معاشرتی سوچ بھی خطرہ سمجھتی ہے۔ جب تک ہم اس سوچ کو جڑ سے نہیں اکھاڑتے، ‘نہیں’ کہنا کئی عورتوں کے لیے جان لیوا فیصلہ بنا رہے گا۔

یہ بھی پڑھیے: سعودی عرب میں با اختیار خواتین کی کامیابیوں کی متاثر کن کہانیاں

اب وقت ہے کہ ہم خود سے سوال کریں:

کیا ہم واقعی عورتوں کے ‘نہ’ کہنے کے حق کا احترام کرتے ہیں؟

یا ہم اسے مرد کی شکست، اور سزا کے قابل جرم سمجھتے ہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

احسن بودلہ

ان سیل کلچر تشدد ثنا یوسف خواتین

متعلقہ مضامین

  • ملک کے بیشتر شہروں میں سورج آگ اگلتا رہا، اسلام آباد و لاہور میں بھی معمول سے زیادہ گرمی
  • بھارت کی ایٹمی تنصیبات اور مواد غیر محفوظ ہیں، ان کی سیکیورٹی لیا جائے، پاکستان کا مطالبہ
  • مالی سال 26-2025 کا وفاقی بجٹ کل پیش کیا جائے گا
  • وفاقی بجٹ 10 جون کو قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا
  • بھارت کی جانب سے سکھ یاتریوں کو روکنے کی اطلاع کے باوجود واہگہ بارڈر میں علامتی استقبال ہوگا
  • بھارت کی جانب سے سکھ یاتریوں کو روکنے کی اطلار پر واہگہ بارڈر میں علامتی استقبال ہوگا
  • عیدالاضحیٰ کا پہلا دن مذہبی جوش و جذبے سے منایا گیا ، دوسرے دن بھی قربانی جاری
  • دنیا میں پاکستان کے بیانیے کو تسلیم کیا جا رہا ہے، یوسف رضا گیلانی
  • وفاقی بجٹ 10 جون کو آئے گا، سندھ کا بجٹ 13 جون کو پیش کیا جائے گا، وزیراعلیٰ سندھ
  • جب عورت کا ’نہ‘ جرم بن جائے: ثنا یوسف کا قتل اور اِن سیل ذہنیت کا المیہ