پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اہم ایشوز کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے: مولانا فضل الرحمان
اشاعت کی تاریخ: 14th, March 2025 GMT
اسلام آباد ( ڈیلی پاکستان آن لائن )اپوزیشن جماعت جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی۔ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ میں اہم ایشوز کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔
"جنگ " کے مطابق ایک بیان میں مولانا فضل الرحمان نے جنوبی وزیرستان کی مسجد میں دھماکے کی مذمت کی اور اس واقعے کو افسوسناک قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ رمضان کے مہینے اور مسجد کی حرمت کو پامال کیا گیا، دھماکا افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔امن و امان کی صورتحال پر قوم کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے، پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اہم ایشوز کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
جو ریاست کو تسلیم نہیں کرتے وہ اسپتال اور ڈیموں پر حملہ کرتے ہیں ،وزیر مملکت سینیٹر طلال چوہدری
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
پڑھیں:
کلاسیکی تحریک کے اردو اد ب پر اثرات
فنون لطیفہ ہو یا شعرو ادب ،کلاسیکل تحریک ایسی تحریک کو کہا جاتا ہے جو قدیم یونانی ،رومی اور تاریخ کے ابتدائی ادوار کے اصولوں، جمالیات اور فکری اقدارو روایات کو اپنا موضوع بناتی ہے۔اردو ادب کی تاریخ لکھنے والوں کا کہنا ہے کہ ’’اردو ادب میں کلاسیکی تحریک براہ راست،تو مغرب کی طرح ایک منظم تحریک کے طور پر نہیں آئی،لیکن اس کا اثر فارسی اور عربی کلاسیکی ادب کے ذریعے ابتدا ہی سے اردو شاعری اورنثر میں موجود رہا‘‘۔
کلاسیکی تحریک کے زیر اثرتخلیق ہونے والے ادب کابنیادی وصف یہ رہا ہے کہ اس میں سادگی ،توازن ،ترتیب و تہذیب اور اخلاقی اقدار و روایات کا لحاظ رکھا جاتا ہے ۔ اردو کے شعری ادب میں خصوصاً غزل میں عشق و محبت اور اخلاقیات جیسے موضوعات باندھے جاتے رہے ہیں ۔ جسے عرف عام میں کلاسیکی روایت کانام دیا جاتا ہے۔ اردو داستان اور مثنوی میں بھی مذکورہ روایات کا اثر بہر حال ملتا ہی ہے خصوصاً قصہ گوئی میں اس امر کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا رہا ۔
کلاسیکی ادب میں عموماً فطرت ،انسانی کردار ،اخلاقی روایات اور فلسفیانہ حیات کے مستقل اصولوں پر ارتکاز کیا گیا۔شمالی ہندوستان کے شعرا میر انیس ،ولی دکنی ،میر تقی میر ،سودا اور نظیر اکبر آبادی کے اسلوب نگارش میں جوسادگی،اور تہذیبی تواز ن جھلکتا ہے وہ کلاسیکیت کے فارسی اسلوب کا آئینہ دار ہے۔
انیسویں صدی میں جب بدیشی ادب کے تراجم کے چل چلائو کا زمانہ آیا تو مغربی کلاسیکی تحریک کے قواعد و ضوابط اپنے جلو میں لئے ہوئے ہی آیا۔ یوں معروضیت کی روایت کو بھی تقویت حاصل ہوئی اور اردو ادب میں تنقیدی اصول بھی اسی تناظر میں مرتب کئے گئے اور یہ کلاسیکی شعور کی بیداری کا سنہری دور تھا جس میں قدیم ادب کی آبیاری و پاسداری کا رواج عام ہوا۔ادب قدیم ہو یا جدید اس میں اگر فکری اور تہذیبی شعور کا فقدان ہو تو ہم اسے عمدہ ادب نہیں کہہ سکتے ۔کیونکہ انسانی تہذیب کی قدیم ادبی روایات کی بنیاد عقل ، منطق ،اصول پسندی اور اعتدال پر مبنی رہی ہے۔جو آج بھی توازن اور اعتدال کو معیاری ادب کا مستحکم حوالہ تصور کیا جاتا ہے ۔
یو نان اور روم کی قدیم تہذیب جہاں افلاطون ،ارسطو ،ہیروڈس،ہومراور سافیکل جیسے نابغہ روزگار لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے ادب و فن کے لئے اصول وضع کئے ،ان کے نکتہ نظر کے مطابق ’’ادب کا مقصد کردار سازی ،اخلاقی تربیت اور فطرت کے حسن و توازن کا اظہار تھا‘‘۔
رومی ادب کے امتزاج اس حسن کو دوبالاکردیا۔پھر اس کے بعد جب مغر ب نے نئی کروٹ لی جسے نشاہ الثانیہ (Renaissance) کہا جاتا ہے تو مغرب نے نئے تہذیبی شعور کے ساتھ کلاسیکی اقدار کو گلے لگایا،یوں سترھویں اور اٹھارہویں صدی میں انگلستان اور فرانس میں کلاسیکی تحریک کے طفیل ایک بار پھر اد بی ماحول کی فضا بنی اور ڈرائیڈن ودیگر معتبر ادیبوں نے کلاسیکی تحریک کے زیر سایہ نئے ادبی اصول مرتب کئے ۔ اور ادب جو عقل و شعورسے ماورا جذباتیت کے اظہار کاذریعہ بن کے رہ گیا تھا اس میں ایک عقل و خرد اور استدلال نے جگہ پالی ۔
یہ ایک ادبی معجزہ تھا جس میں نئے اخلاقی قواعدوضوابط ترتیب دیئے گئے ،زندگی کی صداقتوں کو ادب کا موضوع بنایا گیا۔ادب اور فنون لطیفہ کے نئے سانچے ڈھالے گئے اور پیش پا افتادہ خیالات کے کہنہ پیریوں معیوب سمجھ کر ان سے انحراف کو ادبی مزاج کا لازمہ بنایا گیا۔ حقیقت پسندی کو شعار بنایا گیا ۔ زندگی کی تلخیاں ادب کا تازہ موضوع بنیں ۔پھر جب اظہار پر پابندیوں کی روش چلی تو علامت و تجرید بھی ہتھیار بنے ۔
مگر جو حسن کلاسیکی ادب میں ہے اس کا نکھار کوئی نہیں چھین سکا۔اردو ادب نے فقط کلاسیکی تحریک کا اثر ہی قبول نہیں کیا بلکہ بین الاقوامی سطح پر شعرو ادب ، فلسفہ و نفسیات میں جو بھی معروضی تبدیلیاں آئیں انہیں اپنی روح میں جذب کیا ۔