ب نقاب /ایم آر ملک
11مارچ بھی ہم پر بھاری گزرا ، ماہ ِصیام رحمت و برکات کا مژدہ لیے کیوں رحمت کی گھڑیاں، اندوہ گیں ٹھہری ہیں؟
مبارک مہینے کے لمحات، موت کے جام کیوں چھلکانے لگے۔۔۔؟
بولان ، کیوں موت کے اندھیروں میں ڈوبتا جا رہا ہے؟
کوئٹہ کا ڈان ہوٹل ،مشرق ہوٹل مہمان نوازی کی روایات کے امیں ،جو پورے مُلک کے باسیوں کے لئے خوشیاں بانٹا کرتے ، جہاں زیست کے بیش بہا سامان اور تفریحِ قلب و نظر کے بے شمار امکان تھے۔۔۔۔ کوئٹہ ، وطن کے دور دراز علاقوں کے رہنے والے جہاں آ کر اپنی زندگی سنوارتے اور خود کو نکھارتے تھے۔۔۔بولان جہاں، غریب سے غریب بھی ”امیرانہ سوچ” سے جیتا اور قہقہے لگاتا تھا۔ آج وہاں ہر طرف لاشیں ہی لاشیں بکھری پڑی ہیں۔۔۔ وہ صوبہ جہاں زندگی کے نغمے گونجتے ، آج موت کی ارزانی پر، ہر طرف بین ہی بین سنائی دے رہے ہیں۔
جعفر ایکپریس کا اندوہناک سانحہ ،زندگی کی تمام تر رنگینیاں اور پُرکیف رونقیں ماتم آگیں ماحول میں ڈھل گئیں ۔
وہ صوبہ جہاں قائد پاکستان نے زندگی کے آخری ایام گزارے ، عرصے سے قتل و غارت کی سازشوں سے کرچی کرچی ہے،پنجاب سے عازم ِ سفر ہونے والوں کی روز لاشیں گرتی ہیں ، مگر جس کثرت و تواتر سے گزشتہ روز ”مرگ انبوہ” کا ”تماشا” ہوا ، اور جس بڑی تعداد میں لوگ مرے ، بولان کی آنکھوں نے کبھی اس کثرت میں اکٹھے اتنی لاشوں کو نہ دیکھا تھا، نہ کبھی سُنا تھا۔بولان ہی کیا، پاکستان کہ دہشت گردی کے بڑے بڑے سانحات جھیل چکا ہے، پھر بھی، اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی ہلاکتیں پاکستان کی آنکھ نے کبھی نہیں دیکھیں۔
کیا کہا جائے؟ کیا لکھا جائے۔۔۔؟
موت کے ننگے ناچ نے زندگی کو اور زیادہ بے اعتبار کر دیا ہے۔۔۔ حقیقت میں ”قیامتِ صغریٰ” برپا ہو گئی ہے، لوگ اس طرح مر رہے ہیں جیسے ”بے جان” ہونے کا مقابلہ ہو رہا ہے۔۔۔۔ جیسے لوگ، ایک دوسرے کو باور کروا رہے ہوں کہ چھوڑو،زندگی کی گہما گہمی میں کچھ نہیں رکھا، آؤ مرگِ انبوہ کا جشن منائیں۔۔۔
اب جینے کی باتیں رہنے دو، اب جی کر کیا کر لیں گے
اک موت کا دھندہ باقی ہے، جب چاہیں گے نپٹا لیں گے
یہ تیرا کفن، وہ میرا کفن، یہ تیری لحد وہ میری ہے۔۔۔
تابوت پر تابوت رکھا جارہا ہے ہر ایک غمگیں ہے، ہر کوئی رو رہا ہے، کوئی شقی القلب ہی ہو گا، جس کے کلیجے کو ہاتھ نہ پڑا ہوا!
بلوچستان ،پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ، اس پاکستان کا جس کو دُنیا کی چھٹی ایٹمی طاقت ہونے کا ”گھمنڈ” ہے، جو ایشیا کا ٹائیگر کہلانا چاہتا ہے، جہاں کے حکمرانوں کی دُنیا بھر کے ممالک میں جائیدادیں ہیں، جہاں کے سیاست دانوں کی اربوں ڈالرز کی ہنڈی کی کہانیاں اور بیگمات کے جوئے میں یکبارگی 60لاکھ پونڈ ہارنے کے قصے، دُنیا بھر میں پھیلے ہیں۔۔۔
حیف کہ اک غیر جمہوری وزیر اعلیٰ نے شہداء کیلیے حرفِ عقیدت فضائوں میں بکھیرے ۔۔۔
سیاست دان، تجزیہ کار، اپنی اپنی ہانک رہے ہیں، کوئی کچھ کہہ رہا ہے، کوئی کچھ اور، لکھنے والوں کے قلم خشک ہوتے جا رہے ہیں عجب ہاہا کار مچی ہے، کسی کی انگلی کسی کی طرف ہے تو اس کی کسی اور کی طرف۔۔۔
عوام و خواص، حکمرانوں کے لتے لے رہے ہیں، اُن کو، ان کے وعدے اور دعوے یاد کرا رہے ہیں۔۔۔ پوچھ رہے ہیں،امن و مان قائم کرنے کے بلند و بانگ دعوے کیا ہوئے؟”۔۔۔
لوگ پوچھ رہے ہیں ”سائیں! تم تو عوام کے نعرے لگا لگا کر بوڑھے ہو گئے، تمہاری پارٹی کی حکمرانی میں یوں کیوں ہوا ۔۔۔؟
حکمران، اپنی طرف اٹھی انگلیوں کو اپنے سے پہلے حکمرانوں کی طرف گھمانے کی فکر میں ہیں۔۔۔ سبھی ایک دوسرے کو گھورنے میں لگے ہیں، حکمرانوں سے مایوس عوام، ایک بار پھر، مرنے والوں کی ہلاکت پر نوحہ کناں ؟
ان شہادتوں پر غم گیں بھی ہوں اور ایک دوسرے کی طرف اُٹھی انگلیوں پر حیران بھی ہوں، نم آنکھوں سے، ان بے بصیرت لوگوں کو دیکھ رہا ہوں اور سوچ رہا ہوں، اس طوفاں انگیز و ہلاکت خیز ماحول نے عقلیں اس قدرکند کر دی ہیں کہ ایک دوسرے کی طرف انگلیاں اٹھانے والے، اوپر عرش والے کی طرف کیوں نہیں دیکھتے۔۔۔؟
انہیں کیا ہوا ہے کہ یہ قادرِ مطلق کو بالکل بھول گئے ہیں۔۔۔ لوگ اس کثرت سے مرنے لگے۔۔۔؟ لاشوں کا کاروبار کرنے والے اپنے ناپاک ارادوں کے ساتھ دندناتے پھر رہے ہیں ۔۔۔؟
عوام حکمرانوں کی طرف دیکھنے کی بجائے اس کی طرف دیکھیں جو مسبب الاسباب ہے اور جس کے ہاتھ میں سب کے دِل ہیں، جومالک ہے دو مشرق کا اور مالک ہے دو مغرب کا ۔۔۔ اے کاش! اے کاش۔۔۔ اے کاش۔۔۔!
بولان کے کہساروں میں بکھرے لاشوں کی جگہ ان بے حس، بے بصیرت زندہ لاشوں کو بھی ٹھکانہ مل جائے کہ جوزندگی کے مقاصد کو،زندگی دینے والے کے تعلق کو اور زندہ رہ جانے والوں کے حقوق کو نظر انداز کر کے عیاشی کرتے اور گھومتے پھررہے ہیں، اے کاش! اے کاش! اے کاش۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: ایک دوسرے رہے ہیں رہا ہے کی طرف اے کاش
پڑھیں:
ایسی دنیا جہاں تقسیم اور چیلنجز بڑھ رہے ہیں ہمیں تصادم کے بجائے تعاون اور طاقت کے بجائے سفارتکاری کو ترجیح دینی چاہیے، پاکستان مشترکہ اہداف پر پیش قدمی کےلئے سب کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہے، نائب وزیراعظم سینیٹر محمد اسحاق ڈار
نیویارک (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 23 جولائی2025ء) نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ ایسی دنیا جہاں تقسیم اور چیلنجز بڑھ رہے ہیں ہمیں تصادم کے بجائے تعاون اور طاقت کے بجائے سفارت کاری کو ترجیح دینی چاہیے، پاکستان ان مشترکہ اہداف پر پیش قدمی کے لیے سب کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے، ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون کثیرالجہتی اور اقوام متحدہ کے ساتھ ہمارا مضبوط عہد ہے، اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج مقاصد اور اصول، خاص طور پر تنازعات کے پرامن حل اور طاقت کے استعمال یا دھمکی سے گریز، بین الاقوامی انصاف کے لیے ناگزیر ہیں، یہی رہنما اصول پاکستان کی صدارت میں منعقدہ تقریبات کےلئے کلید رہیں گے ۔ دفتر خارجہ کے ترجمان کی طرف سے جاری بیان کے مطابق نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اراکین، معزز مہماناں اور دیگر شرکا کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان کی اس ماہ کی صدارت کا جشن منا تے ہوئے استقبالیہ تقریب میں آپ سب کو خوش آمدید کہنا میرے لیے انتہائی مسرت کا باعث ہے۔(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون کثیرالجہتی اور اقوام متحدہ کے ساتھ ہمارا مضبوط عہد ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج مقاصد اور اصول بالخصوص تنازعات کے پرامن حل اور طاقت کے استعمال یا دھمکی سے گریز بین الاقوامی انصاف کے لیے ناگزیر ہیں، یہی رہنما اصول ہماری اس ماہ کی صدارت میں بھی سلامتی کونسل کے کام خواہ وہ مباحثے ہوں یا عملی اقدامات ہماری شراکت کو شکل دے رہے ہیں ۔ محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ آج دنیا میں بڑھتی بے چینی اور تنازعات کے دور میں غیر حل شدہ تنازعات، طویل المدت تصفیہ طلب تنازعات، یکطرفہ اقدامات اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں کے نتائج ہر خطے میں محسوس کئے جا رہے ہیں، ہمارا یقین ہے کہ عالمی امن و سلامتی صرف کثیرالجہتی، تنازعات کے پرامن حل، جامع مکالمے اور بین الاقوامی قانون کے احترام سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ اسی تناظر میں جیسا کہ آپ جانتے ہیں، پاکستان نے اپنی صدارت کے دوران تین ترجیحات پر توجہ مرکوز کی ہے، اول تنازعات کا پرامن حل اقوام متحدہ کے چارٹر کا بنیادی اصول ہے لیکن اسے اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے، اعلیٰ سطحی کھلے مباحثے اور سلامتی کونسل کی متفقہ قرارداد 2788 میں اس ترجیح کی عکاسی کی گئی ہے ۔ دوم کثیرالجہتی، ہم کثیرالجہتی کو نعرے کے بجائے ایک ضرورت سمجھتے ہیں، سلامتی کونسل کو صرف ردعمل کا ایوان نہیں بلکہ روک تھام، مسائل کے حل اور اصولی قیادت کا فورم ہونا چاہیے ۔ سوم اقوام متحدہ اور علاقائی تنظیموں کے درمیان تعاون، بالخصوص اسلامی تعاون کی تنظیم (او آئی سی)جو 57 رکن ممالک کے ساتھ عالمی امن کی تعمیر میں ایک اہم شراکت دار ہے، ہم 24 جولائی کو او آئی سی کے ساتھ ہونے والے اجلاس میں اس تعاون کو مزید بڑھانے کے منتظر ہیں ۔ محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ اور دنیا بھر میں امن اور ترقی کے مشترکہ مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے رکن ممالک، دوستوں اور شراکت داروں کے ساتھ فعال طور پر مصروف عمل ہے، یہ مشغولیت اور عہد صرف سلامتی کونسل تک محدود نہیں بلکہ پورے اقوام متحدہ کے نظام میں پھیلا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی اور ترقی کے عالمی مباحثے میں ایک اہم آواز ہے، چاہے وہ جنرل اسمبلی ہو، ای سی او ایس او سی ہو یا دیگر فورمز، ہم نے اقوام متحدہ کے تین ستونوں امن و سلامتی، ترقی اور انسانی حقوق کو مضبوط بنانے کی وکالت کی ہے اور عالمی ادارے کی اصلاحات کو سپورٹ کیا ہے تاکہ ہماری تنظیم کو زیادہ موثر، مضبوط اور عام اراکین کے مفادات کے لیے جوابدہ بنایا جا سکے ۔ نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان نے 2026-28 کے لیے انسانی حقوق کونسل کے انتخابات میں اپنی امیدواری پیش کی ہے جو ایشیا پیسیفک گروپ کی طرف سے حمایت شدہ ہے، ہم آپ کی قیمتی حمایت کے لئے بھی پر امید ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا انسانی حقوق کونسل کے ساتھ تعلق ٹی آر یو سی ای (رواداری، احترام، عالمگیریت، اتفاق رائے اور مشغولیت) کے تصور پر مبنی ہے ۔ محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ آخر میں میرا پیغام ہے کہ ایک ایسی دنیا میں جہاں تقسیم اور چیلنجز بڑھ رہے ہیں، ہمیں تصادم کے بجائے تعاون اور طاقت کے بجائے سفارت کاری کو ترجیح دینی چاہیے، پاکستان ان مشترکہ اہداف کو آگے بڑھانے کے لیے آپ سب کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے۔\932