UrduPoint:
2025-07-24@22:15:40 GMT

بلوچستان: علیحدگی پسندوں کے حملوں میں آٹھ ہلاک چالیس زخمی

اشاعت کی تاریخ: 16th, March 2025 GMT

بلوچستان: علیحدگی پسندوں کے حملوں میں آٹھ ہلاک چالیس زخمی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 مارچ 2025ء) ذرائع کے مطابق پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستانکے ضلع نوشکی میں سکیورٹی فورسز کے قافلے پر خودکش حملے میں کم از کم سات افراد ہلاک جبکہ 32 زخمی ہوئے۔ زخمیوں کو طبی امداد کے لیے مختلف ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا ہے۔

صوبے کے مختلف علاقوں میں ہونے والے ان تازہ حملوں کی ذمہ داری بھی کالعدم عسکریت پسند تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی، (بی ایل اے) نے قبول کی ہے۔

نوشکی میں خودکش حملے کااصل ہدف کون؟

ضلع چاغی میں تعینات ایک سینئر سکیورٹی اہلکار رؤف بلوچ کہتے ہیں کہ خودکش حملے کا نشانہ بننے والا قافلہ بسوں اورچھوٹی گاڑیوں پر مشتمل تھا۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''کوئٹہ سے نوکنڈی جانے والے سکیورٹی فورسز کے قافلے میں شامل ایک بس سے ایک خودکش حملہ آور نے بارود سے بھری گاڑی ٹکرائی، جس کے دھماکےسے بس مکمل طور پر تباہ ہو گئی۔

(جاری ہے)

حملے میں ہلاک ہونے والے افراد میں سے اب تک تین کی شناخت سکیورٹی اہلکاروں کے طور پر ہوئی ہے۔‘‘

رؤف بلوچ کے مطابق حملہ آوروں نے قافلے کی دیگر بسوں پر بھی فائرنگ کی، جبکہ جوابی کارروائی میں تین حملہ اور بھی مارے گئے، جن کی اب تک شناخت نہیں ہوئی۔

عسکریت پسندوں کی طرف سے دیگر حملے

گزشتہ شب عسکرپت پسندوں نےپاکستانی صوبہ بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں کرانی روڈ پر انسداد دہشت گردی فورس کی ٹیم کو بھی بم دھماکے کے ذریعے نشانہ بنایا تھا۔

اس بم دھماکے میں ایک اہلکار ہلاک جبکہ سات دیگر زخمی ہوئے۔

صوبے کے شمال مشرقی علاقے قلعہ سیف اللہ میں لیویز لائن کے بیرونی گیٹ پر بھی گزشتہ شب ایک بم حملہ کیا گیا تھا، تاہم اس دھماکے میں کسی جانی نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔ اطلاعات کے مطابق عسکریت پسندوں نے گوادر، کیچ کے علاقے زامران اور مستونگ میں بھی سکیورٹی چیک پوسٹوں پر دستی بموں سے حملے کیے۔

ان حملوں کے دوران سرکاری املاک کو شدید نقصان پہنچا۔

بلوچ عسکریت پسندوں نے آج صبح ضلع مستونگ میں پولیس کی ایک چوکی پر بھی حملہ کیا اور وہاں موجود تمام اہلکارو ں سے سرکاری اسلحہ چھین لیا۔

بلوچستان کے محکمہ داخلہ میں تعینات ایک سینئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ماہ صیام میں دہشت گرد حملوں میں غیر معمولی اضافے کے بعد صوبے بھر میں سکیورٹی انتظامات کا از سر نو جائزہ لیا جارہا ہے: ''یہ دہشت گردی کی ایک نئی لہر ہے جس سے نمٹنے کے لیے ہر ممکن اقدمات کیے جا رہے ہیں۔

صوبے کے شورش زدہ علاقوں میں عسکریت پسند ان حملوں میں بڑے پیمانے پر معصوم اور نہتے افراد کو نشانہ بنا کر امن و امان کی صورتحال کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

اس سکیورٹی اہلکار کا یہ بھی کہنا تھا کہ بلوچستان میں غیرملکی سرمایہ کار ی کو ناکام بنانے کے لیے ملک دشمن قوتوں کو فعال کیا گیا ہے۔

بلوچستان میں غیر یقینی صورتحال پر مبصرین کیا کہتے ہیں ؟

اسلام آباد میں مقیم دفاعی امور کے تجزیہ کار میجر (ر) عمر فاروق کہتے ہیں کہ بلوچستان میں شورش کی حالیہ لہر واضح کرتی ہے کہ داخلی سلامتی کی حکومتی پالیسی کو مزید جامع بنانے کی ضرورت ہے۔

ڈویچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''جعفر ایکسپریس پر ہونے والے حالیہ حملے سمیت صوبے میں پیش آنے والے دہشت گردی کے تمام واقعات ایک منظم پلان کا حصہ معلوم ہوتے ہیں۔ اگر نیشنل ایکشن پلان پر من وعن عمل کیا جاتا تو آج حالات صوبے میں اس قدر خراب نہ ہوتے۔ میرے خیال میں سیاسی استحکام کے بغیر یہ صورتحال بہتر نہیں ہوسکتی۔

‘‘

عمر فاروق کے بقول ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبے کے تمام قبیلوں کے سربراہاں کو اعتماد میں لے کر ایک انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی وضع کی جائے۔

ان کا مزید کہنا تھا، ''اس وقت بلوچستان میں جو ممالک اپنی پراکسیز کے ذریعے بد امنی پھیلا رہے ہیں، ان کے ساتھ سفارتی سطح پر یہ معاملات سختی سے اٹھانے کی ضرورت ہے۔ حالیہ حملو ں میں ملوث عناصر کے افغانستان اور دیگر ممالک کے ساتھ رابطوں کے ٹھوس شواہد سامنے آئے ہیں۔

وقت کے ضیاع کے بغیر موجودہ حکومت کو اب ایک نتیجہ خیز حکمت عملی کے ساتھ اس معاملے سے نمٹنا ہوگا۔‘‘ کالعدم تنظیموں کے خلاف غیر معمولی آپریشن

واضح رہے کہ جعفر ایکسپریس پر ہونے والے حملے کے بعد بلوچستان میں کالعدم تنظیموں کے خلاف سکیورٹی فورسز کی جانب سے ایک غیرمعمولی آپریشن کیا جا رہا ہے۔ اس آپریشن میں شامل فورسز کو فضائی معاونت بھی فراہم کی گئی ہے۔

حکام کے مطابق آپریشن کے پہلے مرحلے میں عسکریت پسندوں کے ان ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے جو شورش زدہ پہاڑی علاقوں میں قائم کیے گئے ہیں۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے عسکریت پسندوں بلوچستان میں ہونے والے کے مطابق صوبے کے

پڑھیں:

ملک بھرمیں ساڑھے چارسال کے دوران 79 خود کش حملے، 690 افراد جاں بحق

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 24 جولائی2025ء) ملک بھر میں گزشتہ ساڑھے چار سال کے دوران 79 خودکش حملے ہوئے جن میں 690 جاں بحق اور 1300 سے زائد زخمی ہوئے۔خیبرپختونخوا میں 54، بلوچستان میں 19، سندھ میں 4 اور پنچاب میں ایک خودکش حملہ ہوا، خیبر پختونخوا سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ رہا جبکہ بلوچستان دوسرے نمبر پر متاثر صوبہ رہا۔

(جاری ہے)

2025 کے پہلے چھ ماہ میں 13 خودکش حملے ہوئے، جن میں 103 افراد جاں بحق اور 230 افراد زخمی ہوئے، 2024 میں 17 خود کش دھماکے ہوئے جن میں 139 جاں بحق اور 134 افراد زخمی ہوئے۔

اسی طرح 2023 میں 29 حملوں میں 329 افراد جاں بحق اور 582 زخمی ہوئے جبکہ 2022 میں ان حملوں کی تعداد 15 رہی جن میں 101 افراد جاں بحق اور 290 افراد زخمی ہوئے تھے۔2021 میں سب سے کم حملے ہوئے، اس سال صرف چار حملے ہوئے تھے جن میں 15 افراد جاں بحق اور 41 افراد زخمی ہوئے تھے۔

متعلقہ مضامین

  • سکیورٹی فورسز کی کارروائی، فتنہ الہندوستان کے 3 دہشتگرد ہلاک، میجر اور سپاہی شہید
  • سکیورٹی فورسز کامستنونگ میں آپریشن، 3 دہشت گرد ہلاک
  • راکٹ حملوں کے جواب میں تھائی لینڈ کے کمبوڈیا کے فوجی اہداف پر تابڑ توڑ فضائی حملے
  • ملک بھرمیں ساڑھے چارسال کے دوران 79 خود کش حملے، 690 افراد جاں بحق
  • روسی ریسٹورینٹس پر بڑے پیمانے پر سائبر حملے، نظام مفلوج
  • خیبرپختونخوا حکومت نے صوبہ عسکریت پسندوں کو ٹھیکے پہ دیا ہوا ہے، گورنر فیصل کریم کنڈی
  • قلات میں سکیورٹی فورسز کے آپریشنز، بھارتی حمایت یافتہ 8 دہشت گرد ہلاک
  • سکیورٹی فورسز کے کامیاب آپریشن میں فتنہ الہندوستان کے 8 دہشتگرد ہلاک
  • ایک کمزور پاسورڈ نے 158 سال پرانی کمپنی تباہ کر دی، 700 ملازمین بے روزگار
  • غزہ پٹی میں نئے اسرائیلی حملوں میں کم از کم 15 فلسطینی ہلاک