Express News:
2025-11-03@17:52:38 GMT

حضرت حنظلہؓ کا لکھا کتبہ

اشاعت کی تاریخ: 16th, March 2025 GMT

یہ چند سال پہلے کی بات ہے، ترکی کے ممتاز خطاط ، یوسف بیلین (Yusef Bilin) سعودی عرب کے شہر ، طائف پہنچے۔ وہاں وہ قدیم مساجد دیکھنا چاہتے تھے جن میں سے اکثر مخدوش حالت کی وجہ سے اب بند کر دی گئی تھیں۔

وہاں انھوں نے مسجد الکوع بھی دیکھی جسے خاص طور پہ پاکستان سے جانے والے مسجد علیؓ بھی کہتے ہیں۔ روایت ہے، یہ مسجد حضرت علیؓ نے تعمیر کرائی تھی۔ روایت نے شاید اس باعث جنم لیا کہ اس کے عین سامنے ’’کرامت عداس النصرانی‘‘کا مقام واقع ہے۔ یہ وہی مقام ہے جہاں طائف سے مکہ مکرمہ جاتے ہوئے نبی اکرم ﷺ کو عداس نامی عیسائی غلام ملا تھا۔

عداس مکہ مکرمہ سے تعلق رکھنے والے ایک امیر خاندان کی ملکیتی باغ میں ملازم تھا۔ اس نے جب نبی کریم ﷺ کو تھکن سے چور دیکھا تو آپ ﷺ کی خدمت میں انگور پیش کیے۔ آپﷺ نے انھیں نوش فرمانے سے قبل بسم اللہ فرمایا تو عداس بہت حیران ہوا۔ اسے پھر بفضل ِ خدا آپ ﷺ میں نبوت کی نشانیاں دکھائی دیں اور وہ مسلمان ہو گیا۔ فتح طائف کے بعد حضرت علی ؓ شہر آتے جاتے رہتے تھے کیونکہ وہ مکہ مدینہ کے بعد عرب کا تیسرا بڑا نگر تھا۔

کتبوں کی دریافت

یوسف بیلین نے علاقے کی مساجد ملاحظہ کر لیں تو وہ وہاں واقع پہاڑیوں کی سیر کرنے لگے۔ مسجد علیؓ سے ایک سو میٹر (تین سو تیس فٹ)دور چلنے کے بعد انھیں ایک چٹان پر کچھ لکھا نظر آیا۔ بہ حیثیت خطاط وہ ’’قدیم عربی خط‘‘ (Paleo-Arabic) سے واقف تھے ۔ لہذا انھیں یہ جان کر بڑی حیرت ہوئی کہ چٹان پر لکھے الفاظ قدیم عربی خط کا نمونہ تھے۔ عرب میں عربی کے جتنے بھی خط زمانہ اسلام سے قبل رائج تھے، ماہرین اثریات اب انھیں ’’قدیم عربی خط ‘‘کے زمرے میں رکھتے ہیں۔

عرب میں پچھلے ایک سو سال کے دوران ماہرین اثریات کو چٹانوں پر لکھے کئی نقش یا کتبے مل چکے۔مگر ان میں صرف ایک ابتدائی دور اسلام سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ حصرت خالدؓ بن عاص کا آٹوگراف یا کندہ نام ہے جو حجاز کے علاقے، وادی البہا میں 2015ء میں دریافت ہوا۔ آپ حضرت عمرفاروق ؓ کے چچازاد بھائی کے فرزند تھے۔

حصرت خالدؓ بن عاص

حضرت خالد ؓ کے داد ا، ہشام بن مغیرہ قریش کے قبیلے، بنو مخزوم کے سردار تھے۔ ان کا شمار قریش کے بااثر لیڈروں میں ہوتا تھا۔ ان کی ایک دخترحضرت عمر فاروق ؓ کی والدہ تھیں۔ یہی صاحب عمرو بن ہشام کے بھی والد تھے جو تاریخ اسلام میں ابو جہل کے نام سے مشہور ہوا۔ولید بن مغیرہ ان کے بھائی تھے جن کے فرزند، حضرت خالدؓ بن ولید نے عظیم جرنیل کی حیثیت سے شہرت پائی۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ غزوہ بدر میں حضرت عمر ؓ نے اپنے چچازاد بھائی اور حضرت خالد ؓ کے والد،عاص بن ہشام کو قتل کر دیا تھا جو لشکر کفار میں شامل تھے۔ یوں قریبی رشتے بھی حق و سچائی کی راہ میں حائل نہ ہو سکے۔ حضرت خالد ؓ بن عاص فتح مکہ کے موقع پر اسلام لے آئے تھے۔ آپ کا شمار قریش کے سرداروں میں ہوتا تھا۔ بعد ازاں حضرت عمر ؓ نے حضرت خالد ؓ بن عاص کو قابل منتظم پا کر انھیں مکہ مکرمہ کا گورنر بنایا تھا۔ آپ نے حضرت معاویہ ؓ کے دور حکومت میں وفات پائی۔

حضرت خالد ؓ بن عاص کے آٹوگراف دریافت ہونا ایک تاریخی واقعہ ہے کہ آپ پہلے صحابی ہیں جن کی لکھی تحریر زمانہ حال میں ایک چٹان پر سے دریافت ہوئی۔ تحریر کی قدامت معلوم کرنے والے سائنسی طریقے شہادت دے چکے کہ یہ تحریر اس زمانے (پہلی صدی ہجری کے ابتدائی دور)میں لکھی گئی جب حضرت خالد ؓ زندہ تھے۔

تحقیق کا آغاز

یوسف بیلین ایک اردنی نژاد امریکی اثریات داں،احمد الجالد (Ahmad Al-Jallad) سے واقف تھے۔ احمد جالد امریکا کی اوہایو سٹیٹ یونیورسٹی میں علومِ عربی کے پروفیسر ہیں۔ مشرق میں چٹانوں پہ کندہ حروف اور جملوں کا مطالعہ کرنے میں آپ کو دورجدید کا معروف ترین ماہر سمجھا جاتا ہے۔ احمد جالد مذید براں ایک اور عرب نژاد امریکی ماہر، ہاشم صدقی کے ساتھ ’’طائف۔ مکہ کندہ کاری سروے پروجیکٹ ‘‘(Taif-Mecca Epigraphic Survey Project)چلا رہے تھے۔ اس منصوبے کے لیے شاہ فیصل مرکز برائے تحقیق و علوم اسلامیہ ، سعودی عرب نے رقم فراہم کی تھی۔

   جب احمد جالد اور ہاشم صدقی کو طائف کی چٹان پہ کندہ قدیم عربی میں لکھے حروف کی بابت علم ہوا تو وہ فورا طائف پہنچے۔ انھوں نے پھر بغور ان حروف کا مشاہدہ کیا۔ تیز ہوا، گرد، بارش اور دیگر قدرتی اشیا نے حروف کے بعض حصے مٹا دئیے تھے۔ لکھے حروف کے طرزِ کتابت اور آب و ہوائی اثرات سے ظاہر تھا کہ یہ کتبے دور جدید میں نہیں لکھے گئے۔

بعد ازاں سائنسی طریقوں سے بھی ثابت ہو گیا کہ کہ حروف تقریباً پونے پندرہ سو سال پہلے لکھے گئے تھے۔

دو پیغام

چٹان پر اوپر نچے دو اشخاص کے نام اور پیغام لکھے ہیں۔ پہلا پیغام یہ پڑھنے کو ملتا ہے:

٭بسمک ربنا…انا حنظلہ بن …عبد عمرو… اوصے ببر اللہ

ترجمہ: اے میرے رب، تیرے نام سے شروع کرتا ہوں…میں حنظلہ ہوں بیٹا…عبدعمرو کا…میں (تمھیں)تلقین کرتا ہوں کہ اللہ کی جانب (رخ کر کے)تقوی اختیار کرو۔

دوسرا پیغام یہ کندہ ہے:

٭بسمک ربنا…انا عبدالعزی بن…سفیان… اوصے ببر اللہ

ترجمہ: اے میرے رب، تیرے نام سے شروع کرتا ہوں…میں عبدالعزی ہوں بیٹا…سفیان کا…میں (تمھیں)تلقین کرتا ہوں کہ اللہ کی جانب (رخ کر کے)تقوی اختیار کرو۔

یاد رہے، درج بالا جملے نقطے ڈال کر لکھے گئے ہیں ورنہ حقیقی کتبے میں وہ درج نہیں۔ وجہ یہ ہے، اس زمانے میں عربی زبان نقطوں کے بغیر لکھی جاتی تھی۔ نقطے ڈالنے کا رواج اموی خلفا کے دور سے شروع ہوا۔

شخصیات کی تلاش

اب احمد جالد اور ہاشم صدقی کتب تاریخ کا مطالعہ کرنے لگے۔مقصد یہ تھا کہ چٹان پہ جن شخصیات نے اپنے نام اور پیغام لکھے، ان کو شناخت کیا جا سکے۔ پوری چھان بین کرنے میں کئی ماہ لگ گئے۔ ان کو عبدالعزی بن سفیان نامی شخص کا تذکرہ کسی کتاب یا مخطوطے میں نہیں مل سکا۔ تاہم حنظلہؓ بن عبدعمرو کے بارے میں واضح ہو گیا کہ آپ مشہور صحابی ہیں جنھیں ’’غسیل الملائکہ‘‘بھی کہا جاتا ہے۔ آپ 601ء میں پیدا ہوئے اور 625ء میں بہ موقع غزوہ احد شہادت پائی۔

عبدعمرو بن صیفی

حضرت حنظلہؓ کے والد کا نام عبدعمرو بن صیفی تھا۔جب نبی کریم ﷺ مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تو وہ مدینہ منورہ میں انصار کے قبیلے بنی اوس کا سردار تھا یا پھر بہت معزز مقام رکھتا تھا۔ اس کی کنیت ابو عامر راہب تھی۔ نام سے عیاں ہے کہ وہ ایک راہب تھا ۔ تاہم مورخین نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ عیسائی تھا یا حضرت ابراہیم ؑ کے مذہب پر کاربند جسے عرب میں دین حنیف کہا جاتا تھا۔ مورخ البلاذری نے لکھا ہے کہ وہ خود کو رسول سمجھتا تھا۔اس کی بیوی انصار کے سب سے بڑے قبیلے، خزرج کے سردار، عبداللہ بن ابی سلول کی بہن تھی۔

مورخین نے لکھا ہے کہ جب نبی کریم ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپﷺ کی ابو عامر راہب کے ساتھ نشستیں ہوئیں۔ آپﷺ نے بنو اوس کے سردار کو دعوت اسلام دی تو اس نے سوچ بچار کرنے کا وعدہ کیا۔ مگر جلد ہی اہل مدینہ بیشتر معاملات میں نبی اکرم ﷺ سے مشورہ اور آپﷺ کی تجاویز و احکامات پر عمل کرنے لگے۔ یوں ابو عامر کا اثرورسوخ کافی کم ہو گیا جس پر اسے رنج پہنچا۔ وہ جلد نبی کریم ﷺ اور اسلام کا دشمن بن گیا۔ روایت ہے کہ وہ اپنے ساٹھ پینسٹھ ساتھیوں سمیت مکہ چلا گیا اور قریش کا حلیف بن بیٹھا۔کہا جاتا ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کی والدہ ، حضرت آمنہ کی قبر مبارک منہدم کرنا چاہتا تھا مگر اللہ تعالی نے اسے یہ فعل انجام دینے سے باز رکھا۔

 ’’مسجد الضرار‘‘

ابو عامر پھر مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنے لگا۔ابتدائی مورخین اسلام… الطبری، واقدی، ابن ہشام اور البلاذری نے لکھا ہے کہ اسی نے مدینہ منورہ میں رہتے ہوئے منافقوں کو تجویز دی تھی کہ ’’مسجد الضرار‘‘ تعمیر کی جائے۔ مدعا یہ تھا کہ مسلمانوں کو تقسیم کیا جا سکے۔ نبی کریم ﷺ نے وحی نازل ہونے کے بعد یہ مسجد منہدم کرا ڈالی تھی۔ابوعامر پھر مکہ مکرمہ چلا گیا۔وہ غزوہ بدر میں شریک نہیں ہوا تاہم غزوہ احد میں کفار مکہ کے ساتھ مدینہ آیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنے آدمیوں سے خندقیں کھدوائی تھیں تاکہ مسلمان ان میں گر جائیں۔ دوران جنگ نبی کریم ﷺ اسی منافق کے کھدوائے ایک گڑھے میں گر پڑے تھے ۔ تبھی آپ ﷺ کے چہرئہ مبارک کے زخمی ہونے اور دندان مبارک کے شہید ہونے کا واقعہ پیش آیا۔

کتب تاریخ میں درج نہیں کہ حضرت حنظلہؓ کب مسلمان ہوئے۔ مگر غزوہ احد میں ان کی شمولیت سے عیاں ہے کہ وہ اپنے باپ کے نقش قدم پر نہیں چلے اور تب تک مسلمان ہو چکے تھے۔ گویا انھیں سچائی کی روشنی نظر آ گئی۔اور یہ بھی آشکارا ہے کہ وہ مدینہ میں نمایاں مقام رکھتے تھے کیونکہ سردار خزرج، عبداللہ بن ابی سلول نے اپنی دختر، جمیلہؓ کا نکاح حضرت حنظلہؓ سے کیا تھا۔وہ بھی مسلمان ہو چکی تھیں۔

شہادت کا درجہ ِ بلند

اتفاق سے جب غزوہ احد کا موقع آیا تو انہی دنوں نکاح ہوا۔ حضرت حنظلہؓ نے نبی کریم ﷺ سے دریافت فرمایا کہ وہ غزوہ میں شریک ہوں یا اپنے نکاح میں؟نبی کریم ﷺ نے انھیں نکاح میں شرکت کرنے کی ہدایت فرمائی۔ مگر حضرت حنظلہؓ جہاد میں شریک ہونے کے لیے بے تاب تھے۔اس لیے شب عروسی گذار کر وہ صبح سویرے ہی میدان جنگ میں پہنچ گئے۔ان کو جہاد میں شرکت کرنے کی اتنی زیادہ بے تابی تھی کہ ٖغسل جنابت بھی نہ فرما سکے۔

حضرت حنظلہؓ نوجوانی کے جوش وجذبے سے مالامال تھے۔ وہ بڑی بے جگری سے لڑتے ہوئے سردار قریش، ابو سفیان کے قریب پہنچ گئے۔ وہ اپنے شکار سے دو دو ہاتھ کرنا چاہتے تھے ۔تبھی ابو سفیان نے ساتھیوں کو مدد کے لیے پکارا۔ شداد بن اسولیثی نامی کافر حضرت حنظلہؓ سے لڑنے لگا۔اس دوران ابو سفیان نے پیچھے سے حضرت حنظلہؓ کی کمر میں نیزہ گھونپ دیا۔ آپ زمین پر گر پڑے اور جلد اللہ کو پیارے ہو گئے۔

مدینہ منورہ کے نامور صحابی

مورخین نے لکھا ہے کہ حضرت حنظلہؓ کی شہادت سے ابو سفیان اور قریش کو بہت خوشی ہوئی اور انھوں نے نعرہ ہائے تحسین بلند کیے۔آپ کی شہادت پر انھوں نے نظمیں کہیں اور قصیدے لکھے۔قصیدوں میں ابو سفیان کا لکھا قصیدہ ’’حنظلہ بئی حنظلہؓ ‘‘مشہور ہوا یعنی ’’حنظلہ کے بدلے حنظلہؓ ‘‘۔ دراصل غزوہ بدر میں اسلامی لشکر نے ابو سفیان کا ایک بیٹا، حنظلہ مار دیا تھا۔

غزوہ احد میں یہ افواہ پھیل گئی تھی کہ نعوذ باللہ نبی کریم ﷺ شہید ہو گئے۔اس لیے ابوسفیان اور ابو عامر آپﷺ کو تلاش کرتے رہے۔ ایک جگہ انھیں حضرت حنظلہؓ کی لاش دکھائی دی۔ روایت ہے کہ بیٹے کی لاش دیکھ کر ابو عامر نے کہا:’’اس جنگ کے تمام مقتولین میں یہی مقتول مجھے سب سے پیارا ہے۔‘‘اس کی درخواست پر کفار نے حضرت حنظلہؓ کا لاش کا مثلہ کرنے سے پرہیز کیا۔

مورخین نے لکھا ہے کہ بنی اوس میں حضرت حنظلہؓ بہت مشہور تھے۔ وہ خزرجی نوجوانوں کے مقابلے میں آپ ہی کو پیش کرتے تھے۔ یہ روایت بھی ملتی ہے کہ حضرت حنظلہؓ وحی کی کتابت بھی کرتے رہے۔ اس روایت سے عیاں ہے کہ شہید لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔

’’غسیل ملائکہ ‘‘

غزوہ اختتام کو پہنچا اور مسلمان شہدا کی لاشیں اٹھانے لگے تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:’’میں دیکھ رہا ہوں کہ فرشتے حضرت حنظلہؓ کو غسل دے رہے ہیں۔‘‘اس فرمان رسول ﷺ کے بعد شہید صحابی کو ’’غسیل ملائکہ ‘‘کہا جانے لگا۔ آپ تاریخ اسلام میں ’’تقی‘‘کے لقب سے بھی مشہور ہیں۔

روایت ہے کہ جب حضرت حنظلہؓ کے باپ کی اسلام دشمنی اور شرانگیز ی انتہا کو پہنچ گئی توآپ کی غیرت ایمانی کو تاب ضبط نہ رہی۔ایک دن بارگاہ رسالت میں حاضر ہوکر عرض کی’’ یارسول اللہﷺ، اگر اجازت ہوتو اپنے باپ کا سراتار لاؤں؟‘‘ رحمت عالم ﷺ نے فرمایا’’ نہیں ہم ان سے براسلوک نہیں کریں گے۔‘‘تاہم آپﷺ نے غزوہ احد کے بعد ابو عامر کو ’’منافق‘‘کا لقب عطا فرمایا تھا۔

مورخین لکھتے ہیں کہ فتح مکہ کے بعد ابو عامر طائف چلا گیا تھا۔ جب مسلمانوں نے طائف بھی فتح کر لیا تو وہ شام چلا گیا۔ وہاں وہ رومیوں سے مل کر عیسائی ہو گیا۔ وہ نفری اور اسلحہ جمع کر کے مکہ پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنا رہا تھا کہ631ء میں چل بسا اور جہنم رسید ہوا۔

قبل از اسلام کا کتبہ

احمد جالد اور ہاشم صدقی، دونوں ماہرین کا کہنا ہے کہ طائف کی چٹان پہ کندہ حضرت حنظلہؓ کا نام اس زمانے کا ہے جب وہ اسلام نہیں لائے تھے۔ وجہ یہ ہے کہ اہل طائف مسلمانوں کے شدید دشمن تھے۔ لہذا کسی مسلمان کا طائف جانا اور وہاں ایک چٹان پر اپنا نام لکھنا تقریباً ناممکن تھا۔ اور ایسا سمجھنے کی اہم وجہ یہ بھی ہے کہ مورخین و ماہرین اثریات کے مطابق زمانہ قدیم میں مسجد الکوع کی جگہ لات دیوی کا مندر واقع تھا۔ طائف میں واقع لات کا یہ مندر پورے عرب میں مشہور تھا۔

لات، منات اور العزی عرب کی تین ممتاز دیویاں تھیں۔ ان تینوں کے مندر عرب میں تعمیر کیے گئے تھے۔ احمد جالد اور ہاشم صدقی کا خیال ہے کہ عبدالعزی نامی فرد جس کا نام بھی چٹان پہ کندہ ہے، حضرت حنظلہؓ کا واقف کار تھا۔ عین ممکن ہے، وہی ان کو طائف لایا ہو تاکہ لات کے بت کی زیارت ہو سکے۔ اسی دورے کے دوران چٹان پہ اپنے اپنے نام لکھنے کا پروگرام بن گیا جس پر عمل بھی ہوا۔ جبکہ اللہ لفظ اس لیے لکھا گیا کہ تب بھی خاص طور پر مکہ ومدینہ کے کئی باشندے سیکڑوں بتوں کی پوجا کرنے کے باوجود اللہ ہی کو سب سے عظیم قوت کی حیثیت سے مانتے تھے۔

یہ ممکن ہے کہ حضرت حنظلہؓ اور عبدالعزی نے کسی کاتب سے اپنے نام کندہ کرائے ہوں۔ مگر بیان ہو چکا کہ حضرت حنظلہؓ کو کتابت وحی کا اعزاز حاصل ہوا۔ لہذا ہو سکتا ہے کہ انھوں نے چٹان پر کندہ کاری کی ہو۔ ذی حیثیت فرد ہونے کی وجہ سے ان کے پاس کندہ کاری کرنے کے وسائل بھی تھے۔ یوں نامور شہید صحابی کے لکھے جملے آج ہمارے لیے مقدس حیثیت اختیار کر چکے۔ مدینہ جانے والے اہل وطن سے گذارش ہے کہ وہ شہر نبوی ﷺ کی زیارتیں دیکھنے نکلیں تو اس تاریخی زیارت کو بھی ملاحظہ کریں۔اس کو دیکھتے ہوئے دور نبوی ﷺ کا مقدس و محبوب ماحول آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے جب یہ نگر برکات و تجلیوں سے بھرپور تھا۔ 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: احمد جالد اور ہاشم صدقی کہ حضرت حنظلہ مکہ مکرمہ ابو سفیان مسلمان ہو حضرت خالد ا جاتا ہے کرتا ہوں کہا جاتا کے سردار غزوہ احد انھوں نے ہے کہ وہ نے اپنے پہ کندہ چلا گیا چٹان پر ہے کہ ا تھا کہ کے دور ہو گیا کے بعد

پڑھیں:

معاملات بہتر کیسے ہونگے؟

دنیا کا کاروبارِ زندگی بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ یہ کرہ ارض‘ حقیقت کی بنیاد پر چل رہا ہے۔ عرض کرنے کا مدعا ہے کہ یہ تمام دنیا Physical laws پر مبنی ہے۔ عمل اور رد عمل کا قانون ہر طریقہ سے لاگو ہے۔ یورپ کی نشاۃ ثانیہ اور سائنسی انقلاب کے بعد‘ دنیا میں پہلی مرتبہ Nation Statesکی شروعات ہوئیں۔ اس سے قبل مملکتیں ‘ کسی بھی مخصوص سرحد کے بغیر چل رہی تھیں اور آنے جانے کے معاملات یکسر مختلف تھے۔

ویزہ یا پاسپورٹ کا کوئی وجود نہیں تھا۔ فرانس ‘ جرمنی اور یوکے کے چند فلسفیوں کی سوچ نے دنیا کی تشکیل نو کر دی۔ بدقسمتی سے‘ اس جوہری تبدیلی میں مسلمانوں کا کسی قسم کا حصہ نہیں تھا۔ ویسے یہ المیہ‘ صدیاں گزرنے کے باوجود‘ آج بھی اپنی ہیئت میں بالکل قائم ہے۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد کی دنیا میں‘ مسلمان‘ بالکل اجنبی سے تھے۔ فکری طور پر متحد اور ترقی کرنے کے لیے‘ کسی قسم کا کوئی سہارا موجود نہیں تھا۔ جدید تعلیم اور سائنس سے ویسے ہی ہمیں کوئی غرض نہیں تھی۔

اس جھول کا فائدہ‘ سب سے زیادہ ہمارے مذہبی طبقے نے اٹھایا۔ برصغیر کی حد تک معاملات کو دیکھیے تو ایسا لگتا ہے کہ وہ عام لوگوں سے کوئی سنجیدہ انتقامی بدلہ لے رہے ہیں۔ جدید علوم کوحرام قرار دے دیا گیا۔انگریزی تعلیم کو کافر کی زبان بتایا گیا۔ ضعیف العتقادی اور جہالت کو اوڑھنا بچھونا بنا دیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مجموعی طور پر مسلمان اور بالخصوص برصغیرکے مسلمان ‘ سائنسی انقلاب اور جدت پسندی سے دور ہوتے گئے۔ اور ایک مخصوص دائرہ میں زندگی گزارنے لگے۔ باورکروایا گیا کہ ہمارا دین خطرے میں ہے۔

دنیا ہمارے خلاف ہے۔ لہٰذا ہر قسم کی تبدیلی لانے والی سوچ کفر کے نزدیک لے جاتی ہے۔ یہ بیانیہ‘ ہمارے ڈی این اے کا حصہ بنا دیا گیا۔ مغرب کی اعلیٰ ترین درس گاہوں سے تعلیم یافتہ‘ چند بلند پایہ لوگ‘ اس معاملہ کو بھانپ گئے اور ان کی حد درجہ محنت بلکہ ریاضت کی بدولت‘ پاکستان وجود میں آیا۔ یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ برصغیر میں مسلمانوں کے لیے علیحدہ ملک کے حصول اور ہمارے سیاسی اکابرین کے خلاف ‘ سب سے مہلک محاذ‘ مذہبی طبقے نے ہی قائم کیا۔ آپ ہمارے کسی لیڈر کی سیاسی زندگی کا جائزہ لیجیے۔ مذہبی طبقے نے ان کی ذاتی زندگی سے لے کر سیاسی سوچ‘ سب میں کیڑے نکالے۔ انھیں ملحد‘کافر اور مسلمانوں کا دشمن قرار دیا گیا۔ سرسید احمد خان‘ علامہ اقبال اور قائداعظم سب تختہ مشق بنے۔

پاکستان تو بن گیا مگر وہ لبرل سوچ‘ جس کا ذکر بار بار اس ملک کو بنانے والوں نے کیا تھا اسے پنپنے نہیں دیا گیا۔ کمال یہ ہے کہ ان مذہبی جماعتوں کے قائدین‘ جو پاکستان بنانے کے خلاف تھے، نیا ملک بنتے ہی‘ بڑے اطمینان سے ہندوستان چھوڑ کر نئے ملک میں بس گئے۔ یہاں آ کر انھوں نے ماضی کا چلن نہیں بدلا۔ فرقہ پرستی‘ جذباتیت ‘ حقیقت پسندی سے اجتناب اور بے یقینی کی فضا کو اتنی ہوا دی کہ بحیثیت قوم‘ ہمیں پختہ یقین ہو گیا کہ ہمارے خلاف ایک بین الاقوامی سازش ہو رہی ہے۔

پوری قوم کی فطرت میں یہ نکتہ منجمد کر دیا گیا کہ ہمارے بچنے کا بھی ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ ہم قدامت پسندی کو اپنا وطیرہ بنا لیں۔ ملکی سیاست دان اتنی سنجیدہ سوچ کے مالک تھے ہی نہیں کہ اس باریک عمل کو سمجھ پاتے جس کو عقیدت کا لبادہ بھی پہنا دیا گیا ۔ پاکستان میں ایک ایسا عمل پیہم ہوا جو پوری دنیا میں تصور نہیں کیا جا سکتا۔ ریاستی اداروں نے چند مذہبی حلقوں کو ساتھ ملا کر‘ عام لوگوں کی مزید منفی ذہن سازی کر ڈالی اور اس چلن سے اقتدار پر دائم قبضہ کر لیا۔ جو قیام پاکستان سے لے کر آج تک مسلسل جاری ہے۔ اس کا ادراک ہمارے ملک میں بہت کم لوگوں کو ہے۔

یہ معاملہ عام آدمی کو اس طرح معلوم پڑا جس مذہبی طبقہ کو ہم نے ریاست کی سوچ کے مطابق‘ کشت و خون کرنے کے لیے استعمال کیا تھا،وہ اپنا بنیادی کام کرنے کے بعد ہمارے ملک پر ہی پل پڑے۔ دہشت گردی کا جن‘ پاکستان کے ہر کونے میں برہنہ ہو کر رقص کرنے لگا۔ جب یہ سمجھ آئی کہ ریاست کا اپنا وجود خطرے میں پڑ چکا ہے۔تو دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے کی کوشش کی گئی جو آج بھی جاری وساری ہے۔ مگر اسی اثناء میں ‘ بین الاقوامی صورت حال یکسر تبدیل ہو گئی۔ اسرائیل اور حماس کی جنگ نے مسلمان دنیا کو سوچنے پر مجبور کر دیا۔ حماس‘ جو کہ الفتح کے مقابلہ میں اسرائیل ہی کے چند اداروں نے کھڑی کی تھی۔

جس کے متعلق مسلسل لکھتا چلا آ رہا ہوں کہ ان کا غزہ کو برباد کرنے میں کلیدی کردار ہے۔ اس نے اسرائیل کے شہریوں پر حملہ کر کے اس ملک کو وہ جواز مہیا کیا‘ جو یکسر‘ ان کے حق میں تھا۔ ذرا سوچئے کہ حماس کے بے ربط حملوں سے غزہ کو کتنی بربادی کا سامنا کرنا پڑا۔ پورا شہر‘ مٹی اور لاشوں کا ڈھیر بنا دیا گیا۔ حماس کے اس ناپختہ قدم سے غزہ کو حد درجہ نقصان پہنچا۔ مگر ہمارے جیسے ملک میں‘ اس باریک نقطہ پر بات کرنے کو مشکل تر بنا دیا گیا۔ بلکہ یہاں اس معاملہ پر کھل کر غیر متعصب سوال کرنے کو ہی پیچیدہ تر بنا ڈالا گیا۔ اب ہوا کیا۔

ہمارا ملک‘ ایک تو دہشت گردوں کے نرغہ میںسانس لینے پر مجبور ہو گیا اور دوسرا ہم حماس اور اسرائیل کی جنگ میں ایک ایسے فریق کے ساتھ کھڑے ہونے کی کوشش کرنے لگے جن کا قصور بھی زیادہ تھا اور وہ اپنے ہی مسلمان شہریوں کے لیے زہر قاتل ثابت ہوئے تھے۔ ہمیں ذہنی دھچکا اس وقت لگا جب ہمارے سب سے قریبی دوست مسلم ممالک نے ‘ اسرائیل کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کیا۔ اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ فلسطین کے مسئلہ سے مونہہ پھیر چکے تھے۔

وہ سمجھ چکے تھے کہ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے زمینی حقائق کے مطابق قدم اٹھانے پڑیں گے۔متحدہ عرب امارات اور متعدد‘ مشرق وسطیٰ کے ممالک‘ اسرائیل کو تسلیم کرنے لگے۔ دنیا کی واحد سوپر پاور نے Abrahamic Accords کاڈول ڈالا ۔ اور پھر معاملات جوہری طور پر تبدیل ہو گئے۔ امریکا کے موجودہ صدر‘ اسرائیل کے حد درجہ ثابت قدم دوست ثابت ہوئے۔

پاکستان میں مذہبی شدت پسندی کا سب سے زیادہ فائدہ ہندوستان نے اٹھایا اور وہ اسرائیل کے ساتھ مثالی تعلقات قائم کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ پاکستان اور ہندوستان کی باہمی حالیہ جنگ میں اسرائیلی ماہرین‘ ہندوستان میں موجود تھے اور انھوں نے اپنے ڈرون ‘ ہمارے ہر علاقے میں کامیابی سے بھجوائے ۔ ریاستی ادارے‘ موجودہ حالات کو بھانپ چکے ہیں۔ انھوںنے اپنا طرز عمل‘ ایک سو اسی ڈگری کے زاویہ سے تبدیل کر لیا ہے۔ ابراہیمک معاہدے کا کیا کرنا ہے؟ دشت گردی کے ناسور کو کیسے جسم سے کاٹنا ہے؟ ملک کے اندر جاری و ساری شدت پسندی کو کس طرح اعتدال پر لے کر آنا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جنھیں حل کیے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔

دلیل کی بنیاد پر عرض کرتا چلوں کہ ملک کے وجود کو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں۔ مگر جو سوچ ہم نے خود پروان چڑھائی تھی‘ اس کو تبدیل کیسے کرنا ہے؟ اس کا جواب کسی کے پاس موجود نہیں ہے۔ حالیہ دنوں میں‘ ایک مذہبی جماعت کے جلوس کے ساتھ ‘ جو سلوک روا رکھا گیا اس سے یہ عنصر عیاں ہوتا ہے کہ ریاستی ادارے‘ اب مذہبی شدت پسندی سے اپنے آپ کو دور کر رہے ہیں۔ سیاست دان‘ اتنے کمزور ہیں کہ وہ معاملات کو صرف ریاستی اداروں پر ڈال کر خود بری الذمہ ہونا چاہتے ہیں۔ بلکہ ان کے اندر خوف بھی ہے کہ کہیں تشدد پسند حلقے ‘ ان کا وجود ہی ختم نہ کر دیں۔ یہ خدشہ بہرحال موجود ضرور ہے۔

موجودہ صوت حال نازک ضرور ہے‘ مگر ان تمام معاملات کا حل موجود ہے۔ دفاعی ادارے بالکل درست سمت میں کام کر رہے ہیں۔ مگر ان کے مثبت اقدامات کو موجودہ سیاسی ڈھانچہ کی معاونت حاصل ہونا ضروری ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت کے پاؤں نمک کے ہیں اور وہ مسائل کے پانی میں کھڑے نہیں ہو سکتے۔ حل کیا ہے؟ کیا ہونا چاہیے ؟ یہ مسئلہ بھی ہے کہ صرف طاقت کے بل بوتے پر حتمی تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔ موجودہ سیاسی نظام ‘ مسائل کو بڑھا تو سکتا ہے کم نہیں کر سکتا۔ اور پھر یہ موجودہ لوگ اتنے کائیاں ہیں کہ اپنی ناکامیاں چھپانے کے لیے‘ دفاعی اداروں کو عوام کے ساتھ متصادم راہ پر دھکیلنا چاہتے ہیں۔

دانشمندی یہی ہے کہ اندرونی سیاسی خلفشار کو ختم کیا جائے۔ جس سیاست دان کو عوامی پذیرائی حاصل ہو‘ اسے ‘ نظام کا حصہ بنایا جائے۔ پھر بغیر کسی تردد کے اپنے ملک کے قومی مفاد میں انقلابی اور دور رس فیصلے کیے جائیں‘ جن سے ہمارے ملک کے دشمنوں کی تعداد میں کمی ہو سکے۔حکمت یہی ہے کہ سب فریقین کو اپنے ساتھ لے کر چلیں۔ اس خطرناک شدت پسند سوچ کا خاتمہ کرنے کی کوشش کریں‘ جو ہمارے ملک کو یرغمال بنا چکی ہے۔ یہ وقت‘ کسی انتقام کا نہیں‘ بلکہ دانش مندی اور حکیمانہ فیصلوں کا ہے! مگر اس وقت تو مجھے سنجیدہ سوچ کا فقدان نظر آ رہا ہے۔ دیکھیے ۔ آگے معاملات کیا رخ اختیار کرتے ہیں؟

متعلقہ مضامین

  • چیٹ جی پی ٹی: جدید فیچرز کے ساتھ دنیا کا طاقتور ترین اے آئی چیٹ بوٹ
  • زرمبادلہ کے ذخائر اور قرض
  • شفیق غوری…مزدورحقوق کے علمبردار
  • تمام ایم ڈی کیٹ ٹاپ پوزیشن ہولڈرز کا ڈاؤ یونیورسٹی سے ایم بی بی ایس کرنے کا عزم
  • بیرون ممالک کا ایجنڈا ہمارے خلاف کام کررہا ہے، مولانا فضل الرحمان
  • ہر چیزآن لائن، رحمت یا زحمت؟
  • مصری رہنما کی اسرائیل سے متعلق عرب ممالک کی پالیسی پر شدید تنقید
  • میٹا کے سربراہ زکربرگ کا ہالووین لُک وائرل، رومن بادشاہ بن کر انٹری
  • ولادت حضرت سیدہ زینب سلام اللہ علیھا کی مناسبت سے مدرسہ امام علی قم میں نشست کا انعقاد
  • معاملات بہتر کیسے ہونگے؟