وزیراعظم کے مشیرڈاکٹرسید توقیر حسین شاہ نے اپنے عہدے کا چارج سنبھال لیا
اشاعت کی تاریخ: 17th, March 2025 GMT
اسلام آباد:
وزیراعظم کے مشیرڈاکٹرسیدتوقیرحسین شاہ نے وزیراعظم آفس میں عہدے کا چارج سنبھال لیاہے، جس کے بعدوزیراعظم کے سیکرٹری اسد رحمان گیلانی کو تبدیل کر دیا گیا ہے اور اب وزیراعظم آفس میں نیا اسپیشل سیکرٹری لگا یا جائے گا۔
ڈاکٹر توقیر شاہ وزیراعظم شہبازشریف کے قریب ترین اور دیرینہ ساتھی ہیں،وزیراعظم توقیرشاہ کی آمد کے بعد اپنے دفتر اور سیاسی، اتحادی جماعتوں کے معاملات سے مکمل مطمئن ہو گئے ہیں،ڈاکٹر توقیر شاہ کل دن گیارہ بجے بلائے گئے پارلیمانی نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے اجلاس میں بھی شرکت کریں گے۔
وزیراعظم آفس میں پارلیمانی نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے اجلاس کی تیاریاں زوروشور سے جاری ہیں،ڈاکٹر توقیرشاہ کو دسمبرمیں وزیراعظم نے واپس آنے کا کہا جس پر وہ ورلڈ بینک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے عہدے سے استعفا دے کرآئے ہیں۔
وزیراعظم سمجھتے ہیں کہ توقیرشاہ نے پی ڈی ایم دور حکومت میں 13 جماعتوں کو جوڑ کر رکھا،حکومت نے پہلے سے طے کر لیا تھا کہ سیکرٹری وزیراعظم اسد رحمان گیلانی کوتبدیل کیا جائے گا اورتوقیرشاہ کے آنے کے بعد وزیراعظم آفس میں نیا اسپیشل سیکرٹری لگایا جائے گا۔
توقیر شاہ نے ورلڈ بینک میں رہتے ہوئے بھی پاکستان کیلیے بہت کام کیا اور نوایگزیکٹو ڈائریکٹرکو 20 سال کے بعد پاکستان لائے، توقیر شاہ نے ورلڈ بینک سے سرکاری سطح پر اگلے10 سال میں10 ارب ڈالر پاکستان میں لگانے کی منظوری کروائی، اس کے علاوہ ورلڈ بینک نجی شعبہ کوبھی 20 ارب ڈالر پاکستان میں لگانے کے لئے دے گا۔
توقیر شاہ دسمبر میں پاکستان آئے تو ان سے کہا گیا کہ وہ ورلڈ بینک کی نوکری چھوڑ دیں، ڈاکٹر توقیر شاہ پہلی مرتبہ شہبازشریف کے ساتھ وزیراعلیٰ آفس میں بطور ڈپٹی سیکرٹری آئے تھے،وہ وزارت اعلیٰ کے دو ادوار میں شہبازشریف کے ساتھ پرنسپل سیکرٹری رہے۔
وہ پی ڈی ایم کی16 ماہ کی حکومت میں وزیراعظم شہبازشریف کے سیکرٹری رہے اور ان کی بدولت وزیراعظم کے تمام اتحادیوں کے سا تھ معاملات خوش اسلوبی سے چلتے رہے تاہم ان کی عدم موجودگی میں وزیراعظم کو موجودہ دورمیں اپنے دفتر ی معاملات کے حوالے سے مشکلات پیش آ رہی تھیں۔
وزیراعظم سمجھتے ہیں کہ ان کے دفتر کو تمام سیاسی و انتظامی معاملات سنبھالنے چاہیے اس لئے توقیر شاہ کوورلڈ بینک سے واپس بلایا گیا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: شہبازشریف کے وزیراعظم کے ڈاکٹر توقیر توقیر شاہ ورلڈ بینک شاہ نے
پڑھیں:
چیئرمین جنید اکبر خان کی زیر صدارت پبلک اکائونٹس کمیٹی کا اجلاس، پاکستان ریلوے کے آڈٹ اعتراضات کے جائزہ لیا گیا
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 22 اپریل2025ء) پبلک اکائونٹس کمیٹی کا اجلاس منگل کو پی اے سی کے چیئرمین جنید اکبر خان کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا ۔ اجلاس میں کمیٹی کے ارکان سمیت متعلقہ سرکاری اداروں کے اعلی افسران نے شرکت کی ۔ اجلاس میں پاکستان ریلوے کے آڈٹ اعتراضات کے جائزہ کے دوران سیکرٹری ریلوے نے کہا کہ ریلوے کی پنشن کا بجٹ ابھی بھی کافی نہیں ہے، لوگوں کو دو سال سے پنشن کے فوائد نہیں ملے۔ ابھی 64 ارب کی رقم مختص کی گئی ہے، 13 ارب سے زائد کی لائبلٹی پڑی ہے۔ریلوے کا آپریٹنگ منافع ایک ارب کے قریب ہے۔ایم ایل ون سٹرٹیجک پراجیکٹ ہے۔ایم ایل فور کے تحت گوادر کو مین لائن سے جوڑنا ہے۔تھر کو ریلوے سسٹم سے جوڑ رہے ہیں۔ ایم ایل ون کا کراچی سے ملتان تک فیز ون رکھا ہے۔(جاری ہے)
ایم ایل ون کا ملتان سے پشاور فیز ٹو ہے۔ایم ایل ون اب تک بن جانا چاہیے تھا۔
انہوں نے کہا کہ اب تک ایم ایل ون کے ثمرات بھی آنے چاہئیں تھے۔ایم ایل ون کے اب تک نہ بننے کی کئی وجوہات ہیں۔ ہماری طرف سے کوئی رکاوٹ یا مسئلہ نہیں ہے۔ کراچی سرکلر ریلوے اب سی پیک میں شامل ہے ۔ایم ایل ون پر ایک سو ساٹھ کلو میٹر فی گھنٹہ سے ریل گاڑی جاسکے گی۔لاہور سے اسلام آباد تک کا سفر اڑھائی گھنٹے کا ہو جائے گا ۔پبلک اکائونٹس کمیٹی کو بتایا گیا کہ تین ارب سے زائد کا مٹیریل خریدنے میں پیپرا رولز کی خلاف ورزی کی گئی ہے جس پر سیکرٹری ریلوے نے کہا کہ یہ 100 لوکو موٹو کی مرمت کا پراجیکٹ تھا ۔ پی اے سی نے اس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے ابھی تک یہ معاملہ حل کیوں نہیں کیا ۔ آڈٹ حکام نے کہا کہ ریلوے اور پیپرا کے درمیان تعاون نہ ہونے کی وجہ سے مسئلہ حل نہیں ہوا۔ چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ ہمارا ٹائم ضائع ہورہا ہے یہ کس کی ذمہ داری ہے ۔سیکرٹری ریلوے نے پی اے سی کو کارروائی کرنے کی یقین دہانی کرادی۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی کو آڈٹ حکام نے بتایا کہ 506 ملین کا ایچ ایس ڈی آئل استعمال کرنے سے متعلق غلط بیانی کی گئی ہے۔ سیکرٹری ریلوے نے کہا کہ میں نے اس ہفتے انکوائری کی رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی ہے ۔دس دنوں میں رپورٹ پی اے سی کو فراہم کردیں گے۔ رکن کمیٹی سید حسین طارق نے کہا کہ اس مسئلے کی نشاندہی 2007 میں ہوئی تھی ، ڈیڑھ سال پہلے کمیٹی کیوں بنائی گئی۔ کمیٹی نے اس معاملے پر دس دن میں رپورٹ طلب کرلی۔ ریلوے ملازمین کو 482 ارب روپے کا خلاف ضابطہ ڈیلی الائونس دینے کے معاملہ پر سیکرٹری ریلوے نے کہا کہ فکس ڈیلی الائونس کو میں نے ہی بند کیا ہے۔ اس معاملے میں ضابطے پر عمل نہیں کیا گیا تھا۔ہمیں اس رقم کو ریگولرائز کرنے کی ضرورت ہے۔ فنانس ڈویژن حکام نے کہا کہ فنانس ڈویژن اس کو خلاف ضابطہ سمجھتا ہے۔ اس معاملے کو ای سی سی میں لے جایا جائے۔ پی اے سی نےفنانس ڈویژن کو یہ معاملہ دیکھنے کی ہدایت کی ۔پی اے سی کو سیکرٹری ریلوے نے بریفنگ میں بتایا کہ ریلوے پبلک گڈز سروس اور بزنس کو سپورٹ فراہم کرتی ہے۔ آئل امپورٹ بل میں 500 ملین کی کمی لائے ہیں۔ریلوے کالونیوں میں ملازمین افسران کو سبسڈائزڈ بجلی کی فراہمی بند کردی ہے۔ بجلی کے فری یونٹس کو 155 ملین یونٹس سے 85 ملین یونٹس تک لے آئے ہیں۔تمام ریلوے کالونیوں میں میٹرنگ انفراسٹرکچر کو فروغ دے رہے ہیں۔ایم ایل این پر گاڑیوں کی سپیڈ زیادہ سے زیادہ 160 کلومیٹر فی گھنٹہ ہوگی۔ ماضی میں ریلوے سے 100روپے کمانے کیلئے 180روپے کا خرچہ کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ریلوے کی پنشن کا بجٹ ابھی بھی کافی نہیں ہے۔لوگوں کو دو سال سے پنشن کے فوائد نہیں ملے، ابھی 64 ارب کی رقم مختص کی گئی ہے تیرہ چودہ ارب کی لائبلٹی پڑی ہے۔پنشن کی مد میں 77 ارب روپے سے زائد کے بقایاجات ہیں۔وفاق کو سمری بھیجی ہے پنشن کو قومی بجٹ میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔ گزشتہ ستر سال سے ریلوے کے انفراسٹرکچر پر سرمایہ کاری نہیں کی گئی ۔ریلوے کا زیادہ تر انفراسٹریکچر بوسیدہ اور پرانا ہوچکا ہے۔ گزشتہ سیلاب کی وجہ سے بھی ریلوے انفراسٹریکچر کو نقصان پہنچا ۔