آئی ایس او خانیوال کا پہلا اجلاس عمومی، امام حسن کی ولادت کا کیک بھی کاٹا گیا
اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT
دوران اجلاس ضلعی کابینہ برائے سال 2024-25ء کی منظوری لی گئی، اجلاس میں ضلع سے یونٹ مسئولین اور ممبران نے شرکت کی، ضلعی صدر میثم رضا نے اختتامی کلمات ادا کیے، اجلاس کا اختتام دعائے وحدت سے کیا گیا۔ اسلام ٹائمز۔ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان ضلع خانیوال کا پہلا اجلاس عمومی سال 25-2024ء بعنوان آمادگی ظہور و ارتقاء تنظیم کا انعقاد مسجد آل عمران کبیروالا میں کیا گیا۔ اجلاس کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن پاک سے کیا گیا۔ ضلعی صدر میثم رضا نے ابتدائی کلمات ادا کئے۔ ریجنل اسسٹنٹ چیف اسکاٹ جنوبی پنجاب حسن رضا، سابق امامیہ ڈپٹی چیف اسکاوٹ منظر عباس، سابق اسسٹنٹ چیف اسکاوٹ سبطین رضا، سینیئر برادران مختار حسین و سید عدیل زیدی نے خصوصی شرکت کی اور برادران سے گفتگو کی۔
تمام یونٹس نے کارگردگی رپورٹ پیش کی۔ ولادت باسعادت مولا امام حسن مجتبی علیہ السلام کی مناسبت سے کیک کاٹا گیا۔ ضلعی کابینہ برائے سال 2024-25 کی منظوری کی گئی۔ اجلاس میں ضلع سے یونٹ مسئولین اور ممبران نے شرکت کی۔ ضلعی صدر میثم رضا نے اختتامی کلمات ادا کیے۔ اجلاس کا اختتام دعائے وحدت سے کیا گیا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کیا گیا
پڑھیں:
کشمیری رہنماﺅں کوبٹ کے جنازے میں شرکت سے روک دیاگیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سرینگر: مودی سرکاری نے کشمیری رہنماﺅں کو حریت رہنما عبدالغنی بٹ کے جنازے میں شرکت سے روکنے کے لیے گھر وں پر نظر بند کردیا۔مقبوضہ کشمیر کی کئی سیاسی لیڈروں نے انہیں خانہ نظر بند کر کے حریت کانفرنس کے سابق چیئرمین پروفیسر عبدالغنی بٹ کے جنازے میں شرکت سے روکنے کا الزام عائد کرتے ہوئے انتظامیہ کے اس اقدام کی سخت مذمت کی ہے۔جموں کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے سخت ردعمل ظاہر کرتے کہا کہ سیاسی قیادت کو نظر بند کرنے کا فیصلہ ”جموں و کشمیر کی سخت اور غیر جمہوری حقیقت“ کو عیاں کرتا ہے۔
انہوں نے سماجی رابطہ گاہ ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا ”صرف اس لیے گھروں میں نظر بند کیا گیا کہ ہم سوپور جا کر پروفیسر عبدالغنی بٹ کے انتقال پر تعزیت نہ کر سکیں۔“محبوبہ مفتی نے بی جے پی پر یہ بھی الزام عائد کیا کہ وہ ”دکھ اور بے چینی کو سیاسی مفاد کے لیے ہتھیار بنا رہی ہے۔“پروفیسر بٹ کے قدیم ساتھی اور پیپلز کانفرنس کے سربراہ سجاد لون نے بھی الزام عائد کیا کہ انہیں سوپور جانے سے روکنے کے لیے گھر میں نظر بند کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا ”میں نہیں سمجھتا اس کی کوئی ضرورت تھی۔ پروفیسر صاحب ایک پرامن شخصیت کے مالک تھے اور برسوں سے عملی سیاست سے الگ ہو چکے تھے۔ ان کو آخری الوداع کہنا سب کا حق تھا۔“
ادھر میرواعظ مولوی محمد عمر فاروق، جو ان کے دیرینہ ساتھی رہے ہیں، نے الزام عائد کیا کہ حکام نے جنازہ جلد بازی میں کرایا اور انہیں بٹ کی تجہیز و تکفین میں شرکت کی اجازت نہیں دی گئی۔ انہوں نے ایک پوسٹ میں کہا ”یہ ناقابلِ بیان دکھ ہے کہ حکام نے پروفیسر صاحب کے جنازے کو عجلت میں نمٹا دیا۔ مجھے گھر میں بند رکھا گیا اور آخری سفر میں شریک ہونے کے حق سے محروم کر دیا گیا۔ ان کے ساتھ میری رفاقت اور رہنمائی کا رشتہ 35 سال پر محیط تھا۔ اتنے لوگوں نے ان کا آخری دیدار کرنے کی خواہش کی تھی، مگر ہمیں اس حق سے بھی محروم رکھنا ظلم ہے۔“