جعفرایکسپریس واقعہ ‘ میر ے استعفے سے معاملہ حل ہوتا ہے تو تیا رہوں : خواجہ آصف
اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT
اسلام آباد (خبر نگار خصوصی +نوائے وقت رپورٹ) وزیر دفاع خواجہ آصف نے جعفر ایکسپریس پر ہونے والے حملے کے بعد اپوزیشن کی جانب سے عہدے سے مستعفی ہونے کے مطالبے پر ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ پارلیمنٹ ہاؤس میں میڈیا کے نمائندوں کی جانب سے خواجہ آصف سے پوچھا گیا کہ اپوزیشن سکیورٹی لیپس کا ذمہ دار آپ کو قرار دیکر استعفے کا مطالبہ کررہی ہے؟۔ اس سوال پر خواجہ آصف کا کہنا تھا مجھے ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے، اگر میرے استعفے سے معاملہ حل ہوتا ہے تو میں حاضر ہوں، مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ جعفر ایکسپریس پر ہونے والے حملے کے بعد ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے خواجہ آصف نے پی ٹی آئی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا پوری قوم، امریکا اور اقوام متحدہ کی جانب سے جعفر ایکسپریس پر ہونے والے حملے کی مذمت کی گئی لیکن بانی پی ٹی آئی کی جانب سے کوئی مذمتی بیان نہیں آیا۔ چند روز قبل اپوزیشن اتحاد نے مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے جعفر ایکسپریس میں ہونے والے دہشت گردی کے افسوسناک واقعہ کو بڑا سکیورٹی لیپس قرار دیتے ہوئے وزیر داخلہ، وزیر دفاع اور وزیر اطلاعات سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تھا۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: جعفر ایکسپریس خواجہ ا صف کی جانب سے ہونے والے
پڑھیں:
تنزانیہ میں صدارتی انتخابات کے خلاف پُرتشدد مظاہرے، ہلاکتیں 700 تک پہنچ گئیں
تنزانیہ میں متنازع صدارتی انتخابات کے بعد شروع ہونے والے مظاہرے شدت اختیار کر گئے، جن میں ہلاکتوں کی تعداد 700 سے تجاوز کر گئی ہے۔ ملک کے مختلف شہروں میں صورتحال انتہائی کشیدہ ہے اور امن و امان مکمل طور پر بگڑ چکا ہے۔
اپوزیشن جماعت کے ترجمان کے مطابق صرف دارالسلام میں 350 اور موانزا میں 200 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ ترجمان نے بتایا کہ یہ اعداد و شمار پارٹی کارکنوں نے اسپتالوں اور طبی مراکز سے جمع کی گئی معلومات کی بنیاد پر مرتب کیے ہیں۔
دوسری جانب ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ مصدقہ معلومات کے مطابق کم از کم 100 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوچکی ہے، تاہم اصل تعداد کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔
بڑھتی ہوئی بدامنی کے باعث ملک بھر میں فوج تعینات کردی گئی ہے، جب کہ انٹرنیٹ سروس بند اور کرفیو نافذ ہے۔ کئی شہروں میں احتجاج تشدد میں بدل گیا، مشتعل مظاہرین نے دارالسلام ایئرپورٹ پر دھاوا بول دیا، بسوں، پیٹرول پمپس اور پولیس اسٹیشنز کو آگ لگا دی اور متعدد پولنگ مراکز تباہ کر دیے۔
بحران کی جڑ حالیہ صدارتی انتخابات ہیں جن میں صدر سامیہ سُلوحو حسن نے 96.99 فیصد ووٹ حاصل کیے، جب کہ دو بڑی اپوزیشن جماعتوں کے امیدواروں کو انتخابی دوڑ سے قبل ہی نااہل قرار دے دیا گیا تھا۔
اپوزیشن جماعتوں نے نتائج کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے عبوری حکومت کے قیام کا مطالبہ کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ انتخابات “جمہوریت پر کھلا حملہ” اور “عوامی مینڈیٹ کی توہین” ہیں۔
تنزانیہ میں اس وقت نہ صرف سیاسی بلکہ انسانی حقوق کا بحران بھی گہرا ہوتا جا رہا ہے، اور عالمی برادری سے فوری مداخلت کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔