پولیس کی ضروریات پوری کرنے کے لیے خیبرپختونخوا میں اہم فیصلے، پولیس افسران کی تنخواہیں بھی بڑھیں گی
اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT
پشاور(نیوز ڈیسک)خیبر پختونخوا پولیس کی مختلف ضروریات پوری کرنے کے لیے صوبائی حکومت نے ساڑھے 5 ارب روپے فوری طور پر جاری کرنے اور پولیس افسران کی تنخواہیں بلوچستان پولیس افسران کی تنخواہوں کے برابر کرنے کا اصولی فیصلہ کیا ہے۔
وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی زیر صدارت پولیس سے متعلق اہم اجلاس میں چیف سیکریٹری، انسپکٹر جنرل پولیس، ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ کے علاوہ محکمہ خزانہ اور پولیس کے اعلی حکام نے بھی شرکت کی۔
وزیر اعلیٰ نے پولیس گاڑیوں کی بلٹ پروفنگ اور دیگر جدید آلات کی خریداری کے لیے 3 ارب روپے اور پولیس تھانوں اور چیک پوسٹوں کو محفوظ بنانے کے لیے 1.
اجلاس میں ضلعی سطح پر جدید آلات سے لیس اسپیشل ویپن اینڈ ٹیکنیک ٹیمیں بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
سالانہ ترقیاتی پروگرام میں شامل تھانوں اور چیک پوسٹوں کی تعمیر کے باقی ماندہ منصوبوں کے لیے 500 ملین روپے جبکہ پولیس کے لیے نائٹ ویژن گوگلز، اسنائپرز اور دیگر آلات کے لیے 720 ملین روپے جاری کیے جائیں گے۔
اجلاس کو بریفنگ میں بتایا گیا کہ بلوچستان میں پولیس افسران کی تنخواہیں دیگر تمام صوبوں جبکہ پنجاب میں پولیس اہلکاروں کی تنخواہوں دیگر تمام صوبوں سے زیادہ ہیں،
وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ امن و امان کا قیام موجودہ صوبائی حکومت کی سب سے اہم ترجیح ہے، صوبے میں امن و امان کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر پولیس کو ہر لحاظ سے مستحکم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ موجودہ صوبائی حکومت شروع دن ہی سے پولیس کو مستحکم بنانے کے لیے خطیر وسائل خرچ کررہی ہے، پولیس کی ضرورت کو پوری کرنے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر فنڈز فراہم کیے جائیں گے۔
علی امین گنڈاپور کے مطابق پولیس کو سیکیورٹی کے موجودہ چیلنجز سے نمٹنے کے قابل بنانا ہمارے لیے سب سے مقدم ہے، اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، خیبر پختونخوا پولیس انتہائی جوانمردی سے دہشتگردی کا مقابلہ کر رہی ہے۔
وزیر اعلی نے کہا کہ ہمیں پولیس کی کارکردگی اور پولیس جوانوں کی قربانیوں پر فخر ہے، صوبائی حکومت پولیس کی ضرورت پوری کرنے میں وسائل کی کمی کو رکاوٹ نہیں بننے دے گی۔
مزید پڑھیں: مشہور یوٹیوبر ڈکی بھائی نے اپنی آمدنی بتانا کیوں چھوڑ دی؟
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: علی امین گنڈاپور پولیس افسران کی صوبائی حکومت پوری کرنے اور پولیس وزیر اعلی پولیس کی
پڑھیں:
پاکستان کا اعلیٰ سطحی کثیر الجماعتی وفد لندن پہنچ گیا
سابق وزیر خارجہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں 9 رکنی اعلیٰ سطحی وفد واشنگٹن اور نیویارک کے کامیاب دورے مکمل کرنے کے بعد لندن پہنچ گیا ہے۔
وفد کو وزیر اعظم شہباز شریف نے بھارت کے ساتھ حالیہ گشیدگی پر پاکستان کا موقف پیش کرنے اور جموں و کشمیر کے تنازع کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرنے کی ضرورت کو اجاگر کرنے کے لیے مقرر کیا ہے۔
وفد کے دیگر ارکان میں وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی سینیٹر ڈاکٹر مصدق ملک، چیئر پرسن، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی اور سابق وزیر برائے اطلاعات و موسمیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمان، قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کی چیئر پرسن اور سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر، سابق وزیر تجارت، دفاع اور خارجہ امور، انجینئر خرم دستگیر خان، سینیٹ میں ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر و سابق وزیر برائے سمندری امور سید فیصل علی سبزواری اور سینیٹر بشریٰ انجم بٹ شامل ہیں۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ بھارت اقوام متحدہ کے چارٹر کے برخلاف پاکستان کے 24 کروڑ افراد کے پانی کے حق پر حملہ کر رہا ہے،
وفد میں 2 سابق سیکریٹری خارجہ، سفیر جلیل عباس جیلانی، جو نگراں وزیر خارجہ کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں، اور سفیر تہمینہ جنجوعہ بھی شامل ہیں۔
لندن میں وفد برطانیہ کی پارلیمنٹ کی سینئر قیادت سے ملاقاتیں کرے گا جس میں پاکستان اور جموں و کشمیر پر آل پارٹیز پارلیمانی گروپ کے ساتھ ملاقاتیں بھی شامل ہیں۔ وفد کے اراکین فارن کامن ویلتھ اینڈ ڈیولپمنٹ آفس (ایف سی ڈی او) کی لیڈر شپ و سینئر حکام سے بھی ملاقات کریں گے۔
وفد کے ارکان علاقائی امن کے لیے پاکستان کی کوششوں کو اجاگر کرنے کے لیے سرکردہ تھنک ٹینکس اور بین الاقوامی میڈیا کے ساتھ بھی وسیع پیمانے پر بات کریں گے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ بھارت کے ساتھ امن چاہتے ہیں مگر شرائط پر نہیں، امن کا حصول مذاکرات اور سفارت کاری سے ہی ممکن ہے
اپنے دورے کے دوران وفد بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت کے جارحانہ اقدامات کے پیش نظر پاکستان کے ذمہ دارانہ طرز عمل کو اجاگر کرے گا، وفد باور کروائے گا کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے، وہ اس بات پر بھی روشنی ڈالیں گے کہ مذاکرات اور سفارت کاری کو تنازعات اور تصادم پر ترجیح دی جانی چاہیے۔
وفد جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے فروغ کے لیے بین الاقوامی برادری پر اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کی ضرورت پر زور دے گا۔
سندھ طاس معاہدے کی معمول کے مطابق کارروائی کو بحال کرنے کی ضرورت بھی وفد کی مہم کا ایک اہم موضوع ہوگا۔