افغانستان سے جنگ لڑ کر پاکستان کو کچھ نہیں ملے گا، احمد اویس
اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT
ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں میں گفتگو کرتے ہوئے راہنما تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ ہم نے افغانستان کو کیوں دشمن بنایا۔؟ افغانیوں کو نکالنے سے پہلے کوئی طریقہ کار طے کرنا چاہیے تھا۔ اسلام ٹائمز۔ راہنما تحریک انصاف احمد اویس نے کہا ہے کہ افغانستان سے جنگ لڑ کر پاکستان کو کچھ نہیں ملے گا۔ ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے احمد اویس کا کہنا تھا کہ ہم نے افغانستان کو کیوں دشمن بنایا۔؟ افغانیوں کو نکالنے سے پہلے کوئی طریقہ کار طے کرنا چاہیے تھا۔ افغانستان سے جنگ لڑ کر پاکستان کو کچھ نہیں ملے گا، نگران حکومت کا کام الیکشن کرانا تھا افغانیوں کو نکالنا نہیں تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ حکومت کو افغانستان سے بات کرنی چاہیے تھی، حکومت ہمسایہ ملک سے متعلق اچھے فیصلے نہیں کر رہی ہے۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: افغانستان سے
پڑھیں:
اکنامک سروے آف پاکستان
آپ جب یہ تحریر پڑھ رہے ہوںگے بجٹ آچکا ہوگا۔اس وقت میرے سامنے اکنامک سروے آف پاکستان ہے۔اس میںبتایا گیا ہے کہ زراعت کی کارکردگی سب سے بری رہی ہے۔ تمام بڑی فصلوں کی کارکردگی بری رہی ہے۔ اس میں گندم چاول کپاس سب شامل ہیں۔ ایک عمومی رائے یہی ہے کہ حکومت نے کسان سے گندم نہیں خریدی اسی لیے زراعت میں بہت نقصان ہوا ہے۔ لیکن میرا سوال ہے کہ چلیں گندم کانقصان مان لیتے ہیں کہ حکومت نے نہیں خریدی ۔ لیکن کپاس کیوں نیچے گئی ہے؟ چاول کو کیا ہوا ہے؟ اس پر حکومت کو غور کرنا چاہیے۔ زراعت کی بری کارکردگی کے ساتھ ملک ترقی نہیں کر سکتا۔
اعداد و شمار کے مطابق زرعی شعبے کی گروتھ 0.56 فیصد رہی جب کہ گروتھ کا ہدف 2 فیصد تھا، اہم فصلوں کی گروتھ منفی 13.49 فیصد رہی جب کہ گروتھ کا ہدف منفی 4.5 فیصد تھا، دیگر فصلوں کی گروتھ 4.78 فیصد ریکارڈ ہوئی جب کہ ہدف 4.3 فیصد تھا۔ کاٹن جیننگ کی گروتھ منفی 19 فیصد رہی جب کہ گروتھ کا ہدف منفی 2.3 فیصد مقرر تھا، لائیو اسٹاک شعبے کی شرح افزائش 4.72 فیصد جب کہ ہدف 3.8 فیصد تھا۔منفی گروتھ ہی ساری کہانی بتا رہی ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ زراعت کی بری کارکردگی کا ذمے دار کون ہے۔ کیا وفاقی حکومت اس کی ذمے دار ہے۔ کیونکہ یہ بری کارکردگی وفاقی حکومت کے اکنامک سروے میں سامنے آئی ہے اس لیے ملبہ بھی سارا وفاقی حکومت پر گر رہا ہے۔ لیکن ہمیں یہ بات سمجھنا ہوگی کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد زراعت کا شعبہ اب وفاقی حکومت کے پاس نہیں ہے۔
زارعت ایک صوبائی محکمہ ہے۔ اس لیے اگر زراعت کی کارکردگی بری رہی ہے تو یہ صوبائی حکومتوں کی نااہلی سمجھی جائے۔ صوبوں کو اس کا جواب دینا چاہیے۔وفاقی حکومت کو صوبائی حکومتوں سے جواب طلب کرنا چاہیے۔ ہم وفاق کو تو ہر سطح پر قابل احتساب ٹھہراتے ہیں۔ لیکن صوبے احتساب کے عمل سے مبرا ہیں۔ وفاقی بجٹ کو غیر ضروری اہمیت حاصل ہے۔ جب کہ صوبائی بجٹ بالکل نظر انداذکر دیے جاتے ہیں۔
اسی طرح بڑی صنعتوں کی کارکردگی بھی بری رہی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ صنعت کے شعبہ کی کارکردگی مایوس کن رہی ہے۔ اب جس ملک میں زراعت اور صنعت کا شعبہ ہی ترقی نہ کرے وہ ملک کیسے ترقی کر سکتا ہے۔ اس لیے صنعتی شعبہ میں اعدادو شمار کے مطابق رواں مالی سال معیشت کی عبوری شرح نمو 2.68 فیصد رہی جب کہ ہدف 3.6 فیصد تھا، رواں مالی سال پاکستان کی معیشت کا حجم 39 ارب 30 کروڑ ڈالر بڑھا، معیشت کا حجم 410 ارب 96 کروڑ ڈالر رہا، گزشتہ مالی سال پاکستان کی معیشت کا حجم 371 ارب 66 کروڑ ڈالر تھا۔شرح نمو جب تک چھہ فیصد تک نہیں پہنچے گی ترقی ممکن نہیں۔ یہ کوئی نا ممکن بات نہیں ہے۔ 2017میں ہم چھہ فیصد سے ترقی کر رہے تھے۔ لیکن پھر سب کچھ تباہ ہو گیا۔ اس کے بعد ہم نیچے اور نیچے ہی جاتے گئے۔ اور یہ سفر ابھی رکا نہیں۔
اکنامک سروے کے مطابق رواں مالی سال فی کس سالانہ آمدن 144 ڈالر بڑھی جب کہ سالانہ آمدن 1680 ڈالر رہی تھی، ملکی معیشت کا حجم 9600 ارب روپے بڑھا، رواں مالی سال پاکستان کی معیشت کا حجم 114.7 ہزار ارب روپے رہا، گزشتہ سال پاکستان کی معیشت کا حجم 105.1 ہزار ارب روپے تھا۔
ملک میں جنگلات کی گروتھ بھی بہت کم رہی ہے۔ پاکستان ویسے موسمیا تی ماحولیاتی تبدیلیوں کا شکار ہے۔ ہمیں اپنے جنگلات پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ تا ہم اس سال جنگلات کی گروتھ 3.03 فیصد رہی جب کہ گروتھ کا ہدف 3.2 فیصد تھا، ماہی گیری کے شعبے کی شرح نمو 1.42 فیصد رہی جب کہ گروتھ کا ہدف3.1 فیصد تھا۔اب آپ دیکھیں ہمارے پاس سمندر ہیں۔ دریا ہیںلیکن ہماری ماہی گیری کی صنعتپسماندہ ہے۔ اس شعبہ میں بھی بہت جدت لانے کی ضرورت ہے۔ ہماراماہی گیر ابھی بھی پرانے طریقے ہی استعمال کر رہا ہے۔
اکنامک سروے میں بتایا گیا ہے کہ پیداواری شعبے کی گروتھ 1.34 فیصد رہی جب کہ گروتھ کا ہدف 4.4 فیصد تھا، بڑی صنعتوں کی گروتھ منفی 1.53 فیصد رہی جب کہ گروتھ کا ہدف 3.5 فیصد تھا، چھوٹی صنعتوں کی گروتھ 8.81 فیصد ریکارڈ کی گئی جب کہ گروتھ کا ہدف 8.2 فیصد تھا، سلاٹرنگ (مذبح خانوں)کی گروتھ 6.34 فیصد رہی جب کہ گروتھ کا ہدف 3.8 فیصد تھا، تعمیرات کے شعبے کی شرح نمو 6.61 فیصد رہی جب کہ ہدف 5.5 فیصد مقرر تھا، خدمات کے شعبے کی گروتھ 2.91 فیصد رہی جب کہ گروتھ کا ہدف 4.1 فیصد ہدف مقرر تھا۔
ہول سیل اور ریٹیل ٹریڈ کی گروتھ 0.14 فیصد رہی جب کہ گروتھ کا ہدف 4.1 فیصد مقرر تھا، ہوٹلز اینڈ ریسٹورینٹس کی گروتھ 4.06 فیصد رہی جب کہ گروتھ کا ہدف 4.1 فیصد تھا، انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن کی گروتھ 6.48 فیصد رہی جب کہ گروتھ کا ہدف 5.7 فیصد مقرر تھا، فنانشل اور انشورنش سرگرمیوں کی گروتھ 5.7 فیصد رہی جو ہدف کے مقابلے میں 3.22 فیصد رہی۔
رئیل اسٹیٹ سرگرمیوں کی گروتھ3.75 فیصد رہی جب کہ گروتھ کا ہدف 3.7 فیصد تھا، تعلیم کے شعبے کی گروتھ 3.5 فیصد ہدف کے مقابلے میں 4.43 فیصد رہی، انسانی صحت اور سوشل ورک سرگرمیوں کی گروتھ 3.2 فیصد ہدف کے مقابلے میں 3.71 فیصد رہی، ٹرانسپورٹ اسٹوریج اینڈ کمیونیکیشنز کی گروتھ 3.3 فیصد ہدف کے بر عکس 2.2 فیصد رہی، پبلک ایڈمنسٹریشن اور سوشل سیکیورٹی کے شعبے کی گروتھ 3.4 فیصد ہدف کے مقابلے میں 9.92 فیصد رہی۔