دنیا کا پہلا اے آئی اخبار شائع
اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT
اطالوی اخبار نے دنیا کا پہلا مکمل طور پر مصنوعی ذہانت AI سے تیار کردہ ایڈیشن شائع کر دیا۔
ایک اطالوی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے دنیا کا پہلا ایسا اخبار شائع کیا ہے جو مکمل طور پر مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے ذریعے تیار کیا گیا ہے۔
یہ تجربہ معروف قدامت پسند لبرل روزنامے ایل فوگلیو کی جانب سے کیا گیا، جس کا مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ اے آئی ٹیکنالوجی کس طرح ہماری زندگیوں اور کام کرنے کے انداز پر اثر ڈال رہی ہے۔
اخبار کے مدیر کلاڈیو سیراسا نے بتایا کہ یہ ایک ماہ پر محیط صحافتی تجربے کا حصہ ہے، جس کے دوران یہ دیکھا جائے گا کہ مصنوعی ذہانت کی مدد سے ایک مکمل اخبار کس حد تک مؤثر انداز میں تیار کیا جا سکتا ہے۔
اخبار کے مطابق ایل فوگلیو اے آئی نامی یہ ایڈیشن 4 صفحات پر مشتمل ہے، جو اخبار کے عام ایڈیشن کے ساتھ منسلک ہے اور یہ اسٹالز پر بی دستیاب ہوگا۔
سیراسا کا کہنا ہے کہ یہ دنیا کا پہلا اخبار ہو گا جس میں ہر چیز اے آئی سے تیار کردہ ہو گی، تحریر، سرخیاں، اقتباسات، خلاصے، اور بعض اوقات مزاح بھی۔
انہوں نے وضاحت کی کہ صحافیوں کا کردار صرف اے آئی سافٹ ویئر میں سوالات ڈالنے اور جوابات پڑھنے تک محدود ہو گا۔
اخبار کے پہلے صفحے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے متعلق ایک رپورٹ شائع کی گئی ہے، جس میں اطالوی ٹرمپ کے حامیوں کے متضاد رویے پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ مضمون میں کہا گیا ہے کہ یہ افراد کینسل کلچر کی مخالفت کرتے ہیں لیکن جب ان کا پسندیدہ رہنما کسی جابر حکمران کی طرح رویہ اپناتا ہے تو یا تو اسے نظر انداز کر دیتے ہیں یا اس کی حمایت کرتے ہیں۔
ایک اور مضمون روسی صدر ولادیمیر پیوٹن پر مرکوز ہے، جس کا عنوان پیوٹن کی 10 غداریاں ہے، اس میں گزشتہ 20 سال کے دوران پیوٹن کے وعدوں کی خلاف ورزیوں اور معاہدوں کو توڑنے کا ذکر کیا گیا ہے۔
اخبار کے دوسرے صفحے پر یورپ میں نوجوانوں کے روایتی رشتوں سے دور ہونے اور سچویشن شپ یعنی غیر رسمی تعلقات کے بڑھتے ہوئے رجحان پر ایک رپورٹ شامل ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ تمام مضامین میں زبان سادہ اور واضح ہے اور کوئی بڑی گرامر کی غلطی موجود نہیں، تاہم خبروں میں کسی بھی انسان کا براہِ راست حوالہ یا بیان شامل نہیں کیا گیا۔
اخبار کے آخری صفحے پر اے آئی کی جانب سے تیار کردہ قارئین کے خطوط بھی شائع کیے گئے ہیں، جن میں سے ایک میں پوچھا گیا ہے کہ کیا اے آئی مستقبل میں انسانوں کو بے کار بنا دے گی؟ اس پر اے آئی نے جواب دیا کہ مصنوعی ذہانت ایک بڑی جدت ضرور ہے، لیکن یہ ابھی تک چینی کے بغیر کافی آرڈر کرنا نہیں سیکھ سکی۔
مدیر کلاڈیو سیراسا نے کہا ہے کہ ایل فوگلیو اے آئی ایک حقیقی اخبار کی طرح ہے اور یہ تجربہ ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دے گا کہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے روزانہ کے اخبار کی تیاری کس حد تک ممکن ہے اور اس کے اثرات کیا ہو سکتے ہیں۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: مصنوعی ذہانت دنیا کا پہلا اخبار کے کیا گیا اے آئی گیا ہے ہے اور
پڑھیں:
ہر چیزآن لائن، رحمت یا زحمت؟
تیزی سے ترقی کرتی دنیا میں انٹرنیٹ کی ایجاد یقیناً وہ سنگ میل تھا جس کو عبورکرتے ہی بنی نوع انسان نے اپنے لیے نہ صرف کئی سہولتوں کے در وا کر لیے بلکہ لاکھوں کروڑوں میل کے فاصلے کو بھی، گویا پلک جھپکتے طے کر لیا۔
ابتدا میں یہ سہولت صرف ویب کیم کے ذریعے سات سمندر رابطے تک محدود تھی مگر جب فیس بک اور پھر واٹس ایپ کی ایجاد ہوئی تو پھر تو ہفت اقلیم کا خزانہ ہی ہاتھ لگ گیا۔
عزیز و اقارب سے بات چیت، تصاویر کے تبادلے، دور پرے رشتے داروں کو دعوت نامے بھیجنا تو آسان ہوا ہی اب گھر بیٹھے کسی بھی ملک کے علاقے، ثقافت، کھانے، تہذیب و سیاسی حالات الغرض ہر چیز کو جاننا محض ایک اشارے کا محتاج ہوگیا۔
تیزی سے سمٹتی اس دنیا کو مزید قریب آنے کا موقع اس وقت ملا جب کورونا وائرس نے اپنے پنجے گاڑے۔
اندھا دھند چلتی دنیا کو بریک لگ گئے مگر واحد دنیا جو ابھی بھی رواں دواں تھی وہ انٹرنیٹ کی دنیا تھی۔ اس وبا نے باقی دنیا کو تو روک دیا مگر انٹرنیٹ کی دنیا کی رفتار مزید بڑھا دی، آن لائن کاروبار تو مزید بڑھا ہی، اب پڑھائی کے لیے بھی انٹرنیٹ کے استعمال کا رجحان زور پکڑ گیا۔
آن لائن کلاسز جو پہلے صرف کچھ یونیورسٹیز میں ہوتی تھیں، اب گھر، گھر ہونے لگیں کاروباری سرگرمیاں، رقوم کا لین دین، درس و تدریس غرض کئی شعبوں میں آن لائن کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا مگر کیا واقعی یہ جادو اپنے ساتھ صرف مثبت تبدیلیاں لایا ہے یا اس نے ہماری زندگی بظاہر آسان اور درحقیقت مشکل بنا دی ہے؟
پاکستان ایک ترقی پذیر اور کئی شعبہ جات میں زوال پذیر ملک ہے ’’ کوا چلا ہنس کی چال‘‘ کے مصداق ترقی یافتہ دنیا کے طور طریقے ہم نے اپنا تو لیے ہیں مگر ان کے لیے کیا منصوبہ بندی ہوگی؟ کیا نظام ہوگا؟ کسی مسئلے کے نتیجے میں اس کا حل کیا ہوگا؟
اس پر سوچنے کی زحمت کوئی نہیں کرتا۔ نتیجہ صرف یہ ہے کہ کچھ جگہوں پر ہمارا کام دگنا ہوگیا ہے اور کچھ جگہ ہم شدید نقصانات اٹھا رہے ہیں۔
اس ضمن میں سب سے پہلی اور سادہ ترین مثال ہے، آن لائن شاپنگ کی جو بے انتہا مقبول اور با سہولت ہے اس نے نہ صرف بڑے بڑے برانڈز کو چار چاند لگا دیے ہیں بلکہ چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرنے والوں کو بھی پنپنے کا موقع دیا، ہر چیز میں تنوع مزید بڑھا دیا انتخاب کرنا مشکل ہوگیا اور مقابلہ بہت سخت ہوگیا۔
آپ ایک چیزکی تلاش کرتے ہیں اور پھر فیس بک اور انسٹا خود آپ کو مزید بزنس پیجز بتانے لگتے ہیں جہاں پر جہاں وہ چیز دستیاب ہے، اس کے علاوہ شاپنگ گروپس بھی ایک سے بڑھ کر ایک موجود ہیں، نتیجتا آن لائن شاپنگ کا رجحان بہت بڑھ گیا مگر اس کے ساتھ ساتھ دھوکا دہی اور فراڈ بھی عام ہوگیا۔
خریدار تو چیزکے خراب نکلنے رقم ضایع ہونے کا شکوہ کرتا نظر آتا ہی ہے، مگرکچھ دکاندار بھی پارسل کینسل کرنے اور ڈلیوری چارجز اپنے گلے پڑنے کا رونا روتے نظر آتے ہیں، بڑے برینڈز کے نام پر اپنے پیجز بنا کر لوٹ مار کرنا بھی آن لائن شاپنگ میں عام ہے۔
ان سارے مسائل کا کوئی حل نہیں ہے، فراڈ کرنے والے اپنے پیج پر فالوورز اور اچھے ریویوز بھی خرید لیتے ہیں کسی کی رپورٹ کرنے پر فیس بک ان کا پیج ڈیلیٹ بھی کر دے تو یہ کسی اور نام سے ظاہر ہوجاتے ہیں مگر ان سب کے باوجود آن لائن شاپنگ کچھ لوگوں کے لیے مجبوری بھی ہے اورکچھ کے لیے تفریح بھی تو اس کا خاتمہ تو ممکن نہیں ہے، البتہ بہتری ضرور لائی جا سکتی ہے۔
دوسرا شعبہ تعلیم کا ہے جو اس آن لائن نظام کی بھینٹ چڑھا، آن لائن کلاسز یونیورسٹیز میں تو نئی بات نہیں تھی مگر جب لاک ڈاؤن ہوا تو ہر گھر میں ہر بچے کے پاس موبائل نظر آنے لگا کہ بھئی پڑھائی، اب آن لائن ہوگی۔
اب وہ الگ بات ہے کہ پڑھائی ہوئی ہو یا نہیں ہوئی ہو، مگر ان بچوں کو بھی موبائل فون استعمال کرنے کی لت لگ گئی جن کو موبائل دینا ہی نہیں چاہیے تھا، پڑھائی کو تو محض بہانہ ہوتا تھا، اصل دلچسپی تو انٹرنیٹ کی رنگینیوں میں پیدا ہوئی جو چند سنجیدہ طالب علم تھے وہ بھی بروقت بجلی اور انٹرنیٹ کی عدم دستیابی کا شکار ہوئے اور پھر یہی وجہ پڑھائی سے دوری کی بنی،کووڈ کے بعد طلبہ کے لازمی مضامین کے تو پرچے لیے ہی نہیں گئے اور جو اختیاری مضامین کے پرچے لیے گئے، اس میں بھی ان کو رعایتی نمبروں سے پاس کرکے گویا تعلیم کا جنازہ ہی نکال دیا گیا۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ جس ملک میں بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ معمول ہے، وہاں آن لائن پڑھائی کا نظریہ دینا کہاں کی عقلمندی ہے؟ پھر ایک اور نیا شور اٹھا کے اب انٹر کے داخلے بھی آن لائن ہوں گے، یہ سہولت یقینا پوش علاقوں اور بہت اچھے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلبہ کے لیے تو بہت اچھی ہے مگر پسماندہ علاقے جن میں اکثریت ناخواندہ اورکمپیوٹر کے استعمال سے ہی نابلد ہے داخلے کا یہ طریقہ بہت بڑی درد سری ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ سارا عمل آن لائن کروانے کے بعد ساری دستاویزات کی فوٹو کاپی کروا کے بھی جمع کروائی جاتی ہیں یعنی آن لائن داخلے کا محض نام ہے اور اس نام نے صرف کام بڑھایا یا تو آپ آن لائن داخلے کی پخ نہ لگائیں یا پھر مزید دستاویزات جمع کروانے کا عمل نہ کروائیں، یہ شعبہ بھی آن لائن کے نام پر مزید مشکل بنا دیا گیا۔
آن لائن بینکنگ کی بات کریں تو یہ تو اتنا بڑا رسک بن گیا ہے کہ اس کو تو سہولت کہنا ہی غلط ہے بلوں کی ادائیگی، فیسوں کی ادائیگی کسی کو رقم دینے کی حد تک تو یقینا سہولت ہوگئی ہے، مگر اس کے بعد جو اسکیم اور جعل سازی کر کے لوٹ مار کر ڈیجیٹل طریقہ ایجاد ہوا ہے، اس نے آن لائن بینکنگ کو بہت زیادہ غیر محفوظ بنا دیا ہے۔
آئے دن کوئی نہ کوئی فراڈ منظر عام پر آجاتا ہے مگر اس کا کوئی ازالہ نہیں ہو سکتا۔ کسی جعلسازی سے اگر آپ کے اکاؤنٹ سے رقم چلی گئی تو بہت مشکل ہے کہ بینک اس کو واپس دلوا سکے، ان تمام مسائل اور خامیوں کے باوجود ہم آن لائن نظام استعمال کرنے کے لیے مجبور ہیں کیونکہ بہت ساری جگہوں پر ہمارے پاس کوئی دوسرا حل موجود ہی نہیں، مگر پاکستان جیسے ملک میں کوئی بھی نظام آن لائن کرنے سے پہلے اس کے سقم دور اور ممکنہ مسائل کا حل پیش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس نظام کو ہر شعبے میں محفوظ اور آسان بنایا جا سکے۔