شہید ذیشان علی حیدر کی عظیم شہادت ملت جعفریہ کیلئے اعزاز ہے، علامہ سید علی اکبر کاظمی
اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT
صوبائی صدر ایم ڈبلیو ایم پنجاب کا سیمینار سے خطاب میں کہنا تھا کہ شہید ذیشان علی حیدر نے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے خودکیش حملہ آور کا مقابلہ کیا اور اس کو گامے شاہ کربلا تک رسائی نہ دی اور حملہ آور اور اسکے آقاوں کے ارادوں کا خاک میں ملا دیا، اور بھاٹی چوک میں خودکش حملہ کو ناکام بناتے ہوئے شہادت کا رُتبہ حاصل کیا۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلیمن پاکستان صوبہ پنجاب کے صدر علامہ سید علی اکبر کاظمی نے فلسفہ شہادت سیمینار کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 21رمضان المبارک 2010 ستمبر کو شہید ذیشان علی حیدر نے کربلا والوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے سینکڑوں عزداروں کی زندگی کی حفاظت کرتے ہوئے خودکش حملے کی سازش کا ناکام بناتے ہوئے دشمن کی ہر کوشش کو خاک میں ملا کر پیروکار علی ابن علی ابن ابی طالب علیہ اسلام ثابت کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا، اور قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ قیامت تک جب بھی 21 رمضان المبارک یوم شہادت مولا علی علیہ اسلام کا دن آئے گا، تب تب شہید ذیشان علی حیدر کا عظیم الشان کارنامہ بھی یاد آئے گا۔
انہوں نے کہا کہ شہید ذیشان علی حیدر نے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے خودکیش حملہ آور کا مقابلہ کیا اور اس کو گامے شاہ کربلا تک رسائی نہ دی اور حملہ آور اور اسکے آقاوں کے ارادوں کا خاک میں ملا دیا، اور بھاٹی چوک میں خودکش حملہ کو ناکام بناتے ہوئے شہادت کا رُتبہ حاصل کیا۔ علامہ علی اکبر کاظمی کا کہنا تھا کہ میں شہید ذیشان کے والدین کو سلام پیش کرتا ہوں، جنہوں نے فلسفہ شہادت کیساتھ تربیت کی، آج ہم شہید ذیشان کی حیدر کی عظیم قربانی کو بھی سلامت پیش کرتے ہیں اور یہ شہادت نوجوان نسل کیلئے ایک روشن مثال ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: شہید ذیشان علی حیدر کرتے ہوئے حملہ آور
پڑھیں:
تنزانیہ میں اپوزیشن کا انتخابات کیخلاف ماننے سے انکار؛ مظاہروں میں 700 ہلاکتیں
تنزانیہ میں عام انتخابات میں اپوزیشن جماعتوں نے دھاندلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے ملک گیر مظاہروں کا اعلان کیا تھا جو بدستور جاری ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق چند روز قبل ہونے والے جنرل الیکشن میں صدر سمیعہ صولوہو حسن نے زبردست کامیابی حاصل کی تھی۔
تاہم ان انتخابات میں صدر سمیعہ کے مرکزی حریف یا تو قید میں تھے یا انہیں الیکشن میں حصہ نہیں لینے دیا گیا تھا۔ جس سے نتائج میں دھاندلی کے الزامات کو تقویت ملی تھی۔
اپوزیشن جماعت چادیما نے انتخابی نتائج کو مسترد کرتے ہوئے شفاف الیکشن کا مطالبہ کیا اور مظاہروں کا اعلان کیا تھا۔
جس پر صرف تنزانیہ کے دارالحکومت دارالسلام میں پُرتشدد مظاہروں کا سلسلہ تیسرے دن بھی جاری ہے۔ شہروں میں جھڑپوں کے دوران سیکڑوں افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوگئے۔
اپوزیشن نے دعویٰ کیا ہے کہ پولیس تشدد میں اب تک 700 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ حکومت نے تاحال کسی سرکاری اعداد و شمار کی تصدیق نہیں کی گئی۔
مظاہرین نے سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کیں گاڑیوں کو نذر آتش کیا اور سیکیورٹی فورسز پر پتھراؤ کیا پولیس اور فوج نے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور گولیاں چلائیں۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے مظاہرین کی ہلاکتوں پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیکیورٹی فورسز کو غیر ضروری طاقت کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کم از کم ایک سو ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے جبکہ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
دارالسلام اور دیگر حساس علاقوں میں کرفیو نافذ کر دیا ہے انٹرنیٹ سروسز معطل ہیں اور فوج کو سڑکوں پر تعینات کر دیا گیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ صورتحال کو قابو میں لانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور امن و امان کی بحالی اولین ترجیح ہے۔