چینی کی برآمد اور قیمتوں میں اضافہ: حکومتی پالیسی پر سوالات اٹھنے لگے
اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT
اسلام آباد (رضوان عباسی سے) ملک میں چینی کی قیمتیں مسلسل بڑھتی رہیں جبکہ حکومت کی جانب سے بڑے پیمانے پر چینی کی برآمد جاری رہی۔ دستیاب سرکاری دستاویزات کے مطابق دسمبر 2024 سے فروری 2025 کے دوران مجموعی طور پر 4 لاکھ 4 ہزار 246 ٹن چینی برآمد کی گئی، جس کی مالیت 58 ارب 52 کروڑ روپے تھی۔
اسی دوران مقامی مارکیٹ میں چینی کی اوسط قیمت میں 23 روپے 46 پیسے فی کلو اضافہ ہوا۔ نومبر 2024 میں چینی کی اوسط قیمت 131 روپے 61 پیسے فی کلو تھی، جو فروری 2025 میں بڑھ کر 155 روپے 07 پیسے تک پہنچ گئی۔
دستاویزات کے مطابق، دسمبر 2024 میں 2 لاکھ 79 ہزار 273 ٹن چینی برآمد کی گئی، جس کی مالیت 40 ارب 56 کروڑ 50 لاکھ روپے تھی، جبکہ اس دوران چینی کی قیمت میں 3 روپے 23 پیسے فی کلو اضافہ ہوا۔
جنوری 2025 میں مزید 1 لاکھ 24 ہزار 793 ٹن چینی 17 ارب 93 کروڑ روپے میں برآمد کی گئی، جبکہ اسی ماہ مقامی سطح پر چینی کی قیمت میں 8 روپے 35 پیسے فی کلو اضافہ ہوا۔فروری 2025 میں 180 میٹرک ٹن چینی ڈھائی کروڑ روپے میں برآمد کی گئی، جبکہ اس دوران چینی کی قیمت میں 11 روپے 88 پیسے فی کلو اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
ذرائع کے مطابق، وفاقی حکومت نے جون سے اکتوبر 2024 کے دوران 7 لاکھ 50 ہزار ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دی تھی۔ آخری بار اکتوبر 2024 میں 5 لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی منظوری دی گئی۔
اس سے قبل 25 ستمبر کو وفاقی کابینہ نے 1 لاکھ میٹرک ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دی تھی، جبکہ جون 2024 میں حکومت نے ڈیڑھ لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی منظوری دی تھی۔
ذرائع کے مطابق، چینی کی برآمد کے لیے ریٹیل قیمت کا بینچ مارک 145.
ماہرین کے مطابق، مقامی مارکیٹ میں چینی کی قلت اور قیمتوں میں اضافے کے باوجود اس کی برآمد حکومتی پالیسی پر سوالات کھڑے کرتی ہے۔ عوامی حلقوں میں یہ بحث جاری ہے کہ حکومت نے برآمد کے فیصلے کو قیمتوں میں اضافے سے منسلک کیوں نہیں کیا، اور قیمتیں بڑھنے کے باوجود برآمدی عمل کیوں نہیں روکا گیا؟
دوسری جانب، حکومتی ترجمان کا مؤقف ہے کہ برآمد کی اجازت ملکی معیشت اور زرِمبادلہ کے استحکام کے پیش نظر دی گئی، تاہم چینی کی قیمتوں پر قابو پانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
ملک میں چینی کی قیمتوں میں حالیہ اضافے نے عوام میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے کیا اقدامات کرتی ہے اور عوام کو مہنگائی سے کس حد تک ریلیف دیا جاتا ہے#
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ٹن چینی برآمد کرنے کی برآمد کی گئی چینی کی قیمت میں چینی کی قیمتوں میں کے مطابق کی برآمد
پڑھیں:
مالی سال 25-2024 میں ٹیکس چھوٹ 5 ہزار 840 ارب روپے کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے دی گئی ٹیکس چھوٹ مالی سال 25-2024 میں ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی، جو 5 ہزار 840 ارب روپے رہی، جو گزشتہ مالی سال کے 3 ہزار 879 ارب روپے کے مقابلے میں 51 فیصد اضافہ ہے۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ اعداد و شمار پیر کے روز وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی جانب سے پیش کیے گئے پاکستان اکنامک سروے 25-2024 میں جاری کیے گئے۔
ٹیکس چھوٹ میں یہ بے مثال اضافہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب ایف بی آر کو شدید ریونیو خسارے کا سامنا ہے، اور یہ مسلسل دوسرا سال ہے، جس میں ٹیکس چھوٹ کی لاگت ریکارڈ سطح پر پہنچی ہے، مالی سال 2024 میں یہ رعایت 73.3 فیصد بڑھی تھی۔
ٹیکس رعایت سے مراد وہ آمدن ہے جسے ریاست مختلف شعبوں اور گروپوں کو مختلف مدات میں معاف کرتی ہے، یہ بنیادی طور پر خام مال اور نیم تیار شدہ مصنوعات پر دی گئی رعایت، اور برآمدی صنعتوں کے لیے ان پٹ لاگت کم کرنے کی غرض سے دی گئی رعایات پر مشتمل ہے، علاوہ ازیں، مخصوص افراد کو کچھ مراعات اور سہولتوں پر بھی ٹیکس چھوٹ حاصل ہے۔
ٹیکس چھوٹ میں اضافے کی بڑی وجہ ملکی سطح پر اور درآمد شدہ پیٹرولیم، تیل اور لبریکنٹس (پی او ایل) پر دی گئی ایک ہزار 796 ارب روپے کی رعایت ہے، گزشتہ سال بھی تقریباً اتنی ہی رعایت دی گئی تھی۔
تاہم، یہ رعایت زیادہ تر مالی نوعیت کی ہے (اس رقم میں سے صوبوں کو کوئی حصہ نہیں ملتا) جب کہ وفاقی حکومت پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی (پی ڈی ایل) کے ذریعے یہ رقم مکمل طور پر واپس حاصل کر لیتی ہے، جو قابل تقسیم پول کا حصہ نہیں ہے۔
اس کے نتیجے میں وفاقی حکومت پر اس چھوٹ کا حقیقی مالی بوجھ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے، جب کہ صوبے پی ڈی ایل کی آمدن میں حصہ نہیں وصول کر پاتے۔
آئی ایم ایف نے ان ٹیکس رعایتوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے، اور حکومت سے انہیں ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے، گزشتہ سال کے بجٹ میں کچھ ٹیکس رعایات واپس لی گئی تھیں، آئندہ وفاقی بجٹ 26-2025 میں یہ واضح کیا جائے گا کہ کتنی ٹیکس رعایات ختم کی جا رہی ہیں تاکہ ایف بی آر کے بلند ریونیو ہدف کو حاصل کیا جا سکے۔
ٹیکس چھوٹ کی مالیت سال بہ سال بڑھتی رہی ہے، مالی سال 2018 میں یہ 540 ارب 98 کروڑ روپے تھی، جو 2019 میں 972 ارب 40 کروڑ روپے، 2020 میں ایک ہزار 490 ارب، 2021 میں معمولی کمی کے ساتھ ایک ہزار 314 ارب، اور 2022 میں دوبارہ بڑھ کر ایک ہزار 757 ارب روپے ہو گئی، ان رعایات کا مقصد صنعتی ترقی کو فروغ دینا تھا۔
سیلز ٹیکس میں دی گئی چھوٹ مالی سال 2024 میں 2 ہزار 860 ارب روپے سے بڑھ کر 4 ہزار 253 ارب روپے ہو گئی، جو 48.8 فیصد اضافہ ہے، یہ زیادہ تر پی او ایل مصنوعات کی درآمدات اور مقامی فراہمی پر دی گئی چھوٹ، اور سیلز ٹیکس ایکٹ کے پانچویں اور چھٹے شیڈول کے تحت دی گئی چھوٹ کی وجہ سے ہے۔
پانچویں شیڈول کے تحت زیرو ریٹڈ چھوٹ کی لاگت مالی سال 2025 میں 683 ارب 43 کروڑ روپے ہوگئی، جو گزشتہ سال 206 ارب 5 کروڑ روپے تھی، یہ 232 فیصد اضافہ ہے، یہ چھوٹ 5 برآمدی شعبوں اور چند دیگر صنعتوں کے لیے دی گئی نرمی کا نتیجہ ہے۔
چھٹے شیڈول کے تحت مقامی سپلائیز پر دی گئی چھوٹ مالی سال 2025 میں کم ہو کر 461 ارب 9 کروڑ روپے رہی، جو گزشتہ سال 613 ارب 7 کروڑ روپے تھی، یعنی 25 فیصد کمی، یہ ان اشیا پر دی گئی چھوٹ کے بڑے پیمانے پر خاتمے کی وجہ سے ہے۔
آٹھویں شیڈول کے تحت کم شرح ٹیکس پر دی گئی چھوٹ کی لاگت مالی سال 2025 میں 617 ارب 35 کروڑ روپے ہو گئی، جو گزشتہ سال 357 ارب 99 کروڑ روپے تھی، یعنی 72.4 فیصد اضافہ ہوا۔
پیٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس چھوٹ مالی سال 2025 میں بڑھ کر ایک ہزار 796 ارب روپے ہو گئی، جو کہ گزشتہ سال ایک ہزار 257 ارب روپے تھی ، یہ 43 فیصد اضافہ ہے۔
انکم ٹیکس کی چھوٹ مالی سال 2025 میں 800 ارب 82 کروڑ روپے تک پہنچ گئی، جو کہ گزشتہ سال 476 ارب 96 کروڑ روپے تھی، یعنی 68 فیصد اضافہ، جو انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکنڈ شیڈول کے حصہ اول کے تحت مکمل ٹیکس چھوٹ کی وجہ سے ہے، جس کی لاگت 2025 میں 443 ارب 45 کروڑ روپے رہی، جو پچھلے سال 293 ارب 46 کروڑ روپے تھی ، جو 51 فیصد اضافے کو ظاہر کرتی ہے۔
اسی دوران کاروباری افراد کو دیے گئے انکم ٹیکس کریڈٹ کی لاگت 4 گنا سے زائد ہو کر 101 ارب 4 کروڑ روپے ہو گئی، جو گزشتہ سال 24 ارب 37 کروڑ روپے تھی۔
کسٹمز ڈیوٹی میں دی گئی مجموعی ٹیکس چھوٹ مالی سال 2025 میں 785 ارب 87 کروڑ روپے رہی، جو پچھلے سال 543 ارب 52 کروڑ روپے تھی، یعنی کسٹمز ڈیوٹی پر ٹیکس رعایت میں 44.6 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔
Post Views: 4