Daily Ausaf:
2025-06-09@11:33:50 GMT

سستی چینی اب خواب ہوئی ، فی کلوقیمت کیا ؟ جانیں 

اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT

چینی کی ایکس مل قیمت 154 سے 159 روپے فی کلو اور ریٹیل 164 روپے فی کلو تک ہوگی۔

نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے چینی کی قیمتوں کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ رپورٹس ملیں کہ دوبارہ چینی کی قیمت 178 سے179 ہوئی، چینی کی فی کلو ایکس مل قیمت 154 سے 159روپے ہوگی،چاہتےہیں180 سے 200 روپے چینی کی باتیں سننے کو نہ ملیں۔

نائب وزیراعظم نے عوام کیلئے مزید 15 روپے کی گنجائش نکالنے کا اشارہ دیدیا۔ اسحاق ڈار کہتے ہیں چینی کی قلت ہے نہ ہو گی۔ گراں فروشوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا ۔ قیمت بڑھی تو برداشت نہیں کریں گے۔ چاہتے ہیں ایسا راستہ نکالیں کہ عام آدمی کوریلیف ملے۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ وفاقی وزیر رانا تنویر کی سربراہی میں ذیلی کمیٹی قائم کر دی، پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے لوگ ساتھ بیٹھیں گے، 19 پریل تک کمیٹی کام کرے گی، اس سے ایک ہفتہ پہلے دوبارہ جائزہ لیں گے، یقینی بنائیں گے کہ ریٹیل قیمت164روپے سے اوپر نہ جائے۔دوسری جانب کراچی کی ہول سیل مارکیٹ میں چینی فی کلو پانچ روپے مہنگی ہوگئی۔ گزشتہ روز چینی 158 روپے فی کلو فروخت کی جارہی تھی، آج 163 روپے تک پہنچ گئی۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: چینی کی فی کلو

پڑھیں:

اسلام آباد: سرسبز خواب کی بکھرتی تعبیر

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 جون 2025ء) قدرتی حسن سے مالا مال اس پارک میں 48 غیر قانونی ہوٹل اور دکانیں قائم ہو چکی ہیں۔ جو روزانہ 576 کلوگرام سے زائد ٹھوس کچرا پیدا کر رہی ہیں اور ان میں سے 27 جگہوں پر نکاسی اب کا بھی کوئی نظام موجود نہیں یعنی یہ گندہ پانی اور فضلہ نا صرف قدرتی ماحول کو متاثر کر رہا ہے بلکہ راول جھیل کو بھی آلودہ کر رہا ہے۔

کبھی سر سبز کہلانے والا شہر اقتدار آج تیزی سے بلند عمارتوں، کمرشل پلازوں اور غیر قانونی ہاوسنگ سوسائٹیز میں بدل رہا ہے۔ 1960 کی دہائی میں پاکستان کا واحد شہر جسے منصوبہ بندی کے تحت تعمیر کیا گیا تھا اور یہ شہر تقریبا 5 لاکھ کی آبادی کے لیے بنایا گیا تھا لیکن 2023 کی مردم شماری کے مطابق اسلام آباد کی شہری آبادی 23 لاکھ ہو چکی ہے اور اگر سلسلہ یونہی جاری رہا تو سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 2050 تک یہ آبادی 44 لاکھ تک پہنچنے کا خدشہ ہے۔

(جاری ہے)

سوال یہ ہے کہ کیا اس بڑھتی آبادی کو سہارا دینے کے لیے انفراسٹرکچر، منصوبہ بندی اور ماحولیاتی تحفظ کہیں دکھائی دے رہا ہے؟

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کی رپورٹ کے مطابق ترقی پذیر ممالک کے اکثر شہروں کی طرح "اسلام آباد دی بیوٹی فل" بھی بوسیدہ عوامی انفراسٹرکچر، غیر قانونی اور بے ترتیب تعمیرات اور بڑھتی ہوئی کچی آبادیوں جیسے مسائل کا شکار ہو کر اپنے قدرتی مناظر سے دور ہوتا جا رہا ہے۔

یہ پاکستان کا وہ شہر تھا جس کی پہچان اس کا سبزہ ، ہریالی اور قدرتی مناظر رہے ہیں۔

اسلام آباد میں اربن پلاننگ کا فقدان اس وقت واضح نظر آیا جب 2008 کے بعد شہر میں ہاؤسنگ سوسائٹیز کی تعداد میں 200 فیصد تک اضافہ ہوا۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ فار ڈویلپمنٹ اکنامکس کے مطابق اس وقت شہر میں 140 سے زائد غیر قانونی ہاوسنگ اسکیمز موجود ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر زرعی یا جنگلاتی زمین پر بنائی گئ ہیں اور گمان ہے کہ کسی کے پاس بھی اینوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی کی جانب سے اپرول بھی موجود نہیں ہو گا۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف کی ایک تحقیق کے مطابق 2010 سے 2023 کے دروان شہر کا قدرتی سبزہ کافی تیزی سے ختم ہو چکا ہے۔ وہ شہر اقتدار جس کا درجہ حرارت گرمیوں میں بھی کبھی 30 سے بلند نہیں ہوتا تھا اب شدید گرمی کی لپیٹ میں ہے۔ شدید موسمیاتی تبدیلیوں نے اسلام آباد شہر کو بھی مٹی کے جھکڑوں، بڑے بڑے اولوں اور طوفانی بارشوں کی نظر کر دیا ہے۔ یہ شہر کبھی مٹی اور گرد سے پاک تصور کیا جاتا تھا۔

سہولیات کے حوالے سے دیکھا جائے تو تناسب قدرے بہتر نظر آتا ہے۔شہر اقتدار میں 97 فیصد گھروں میں بجلی موجود ہے جبکہ شرح خواندگی 87 فیصد ہے لیکن شہر شدید گرمی، بدترین فضائی آلودگی اور پانی کے بڑھتے مسائل کا سامنا کر رہا ہے۔ دسمبر 2024 اسلام آباد کی تاریخ میں الودہ ترین مہینہ رہا۔ جب پی ایم 5۔2 کی سطح 250 تک پہنچ گئی جو انتہائی آلودہ یا غیر صحت بخش تصور کی جاتی ہے۔

محکمہ موسمیات کے مطابق 2015 سے 2024 کے دوران اسلام آباد کے درجہ حرارت میں بتدریج اضافہ ہوا ہے۔ مونال ریسٹورنٹ جو مارگلہ نیشنل پارک میں قائم کیا گیا تھا سپریم کورٹ کے حکم پر اسے بند تو کر دیا گیا لیکن ایسے بہے سے اور ریسٹورنٹ آج بھی ان پہاڑوں کے قدرتی حسن کو دھوئیں اور پلاسٹک آلودگی سے شدید متاثر کر رہے ہیں۔ 1989 سے 2019 کے دوران اسلام آباد کے جنگلاتی علاقوں میں 50 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔

اسلام آباد کی بدلتی ہوئی شکاری پتھروں، عمارتوں اور سڑکوں کی کہانی نہیں ہے بلکہ یہ اس اجتماعی بےحسی کی عکاس ہے جو ہم نے فطرت اور سماجی انصاف کے ساتھ روا رکھی ہوئی ہے۔ یہ شہر جسے کبھی پرسکون پہاڑوں سبز میدانوں اور شفاف فضاوں کی علامت سمجھا جاتا تھا آج شور، دھوئیں اور بے ربط تعمیرات کے درمیان اپنی شناخت کھو رہا ہے۔ مارگلہ کی خاموشی اب احتجاج کی صورت اختیار کر چکی ہے مگر یہ نوحہ کون سنے۔

یہ محض زمین کے رنگ بدلنے اور سبزے سے سیمنٹ میں بدلنے کا معاملہ نہیں بلکہ اس تہذیب کا زوال ہے جس نے قدرت کے ساتھ ہم آہنگی کو ترقی پر فوقیت دی۔ اسلام آباد کی سڑکوں پر وہ سکون اب ناپید ہے جہاں صرف پرندوں کی کی چہکار اور پیٹروں کی چھاوں تھی اب صرف گاڑیوں کا شور اور دھواں ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین

  • آئی ایم ایف نے معیشت کو آئی سی یو سے نکال آپریشن تھیٹر میں ڈال دیا : ماہر معاشی امور
  • زراعت میں پیچھے رہنے سے شرح نمو کا ہدف حاصل نہ ہو سکا: عارف حبیب
  • نیا مالی سال؛ دفاعی بجٹ میں 18 فیصد اضافہ، قرض ادائیگی پر 6200 ارب خرچ ہوں گے
  • وفاقی بجٹ 10 جون کو کابینہ کی منظوری کے بعد شام کو پیش کیا جائے گا
  • ریاست منی پور کے لوگ مودی کی بے رخی اور غیر حساسیت کی قیمت چکا رہے ہیں، جے رام رمیش
  • ایک لاکھ جرمانہ ؟؟ گاڑی مالکان کیلئے پریشان کن خبر آ گئی
  • وفاقی حکومت نے اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کی تنخواہوں میں 500فیصد اضافہ کردیا
  • مریم نواز آٹا، پیاز اور سبزی کی قیمت کم کرنے ہی آئی ہیں، عظمیٰ بخاری
  • کم شرح سود نجی شعبے کو بینکوں کے ساتھ دوبارہ مشغول ہونے پر آمادہ کررہی ہے. ویلتھ پاک
  • اسلام آباد: سرسبز خواب کی بکھرتی تعبیر