عالمی رپورٹ: فن لینڈ دنیا کا خوش ترین ملک، پاکستان کا 109 واں نمبر
اشاعت کی تاریخ: 20th, March 2025 GMT
نیویارک: اقوام متحدہ کے تحت جاری ہونے والی عالمی خوشی رپورٹ 2025 میں فن لینڈ نے مسلسل آٹھویں سال دنیا کا سب سے خوش ملک ہونے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔ رپورٹ میں پاکستان کو 109 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں بھی ایک درجہ کم ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان گزشتہ سال 108 ویں نمبر پر تھا لیکن اس سال ایک درجہ تنزلی کے ساتھ 109 ویں پوزیشن پر آ گیا۔ دوسری جانب، بھارت نے 8 درجے کی بہتری کے ساتھ 126 ویں سے 118 ویں نمبر پر پہنچ کر اپنی پوزیشن بہتر کی ہے۔
فہرست کے مطابق دنیا کے 10 خوش ترین ممالک میں سب سے پہلے فن لینڈ، دوسرے نمبر پر ڈنمارک اور اس کے بعد بالترتیب آئس لینڈ، سوئیڈن، نیدرلینڈز، کوسٹا ریکا، ناروے، اسرائیل، لکسمبرگ اورمیکسیکو شامل ہیں
رپورٹ میں افغانستان کو دنیا کا سب سے ناخوش ملک قرار دیا گیا ہے، جو 147 ویں نمبر پر ہے۔ اس کے بعد سیرالیون (146)، لبنان (145)، مالاوی (144) اور زمبابوے (143) کا نمبر آتا ہے۔
عالمی خوشی رپورٹ 2025 میں 140 سے زائد ممالک کے افراد سے 2022 سے 2024 کے دوران کیے گئے سروے کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا۔ ممالک کی درجہ بندی کے لیے کئی عوامل کو مدنظر رکھا گیا، جن میں فی کس آمدن، متوقع زندگی، سماجی مدد، آزادی، سخاوت اور کرپشن جیسے معیارات شامل ہیں۔
پاکستان کی ایک درجہ تنزلی کی وجوہات میں معاشی عدم استحکام، سماجی مسائل اور کرپشن جیسے عوامل شامل ہیں،تاہم رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان میں سماجی مدد اور سخاوت جیسے مثبت پہلو بھی موجود ہیں، جو ملک کی مجموعی خوشی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
بھارت نے 8 درجے کی بہتری کے ساتھ 118 ویں نمبر پر پہنچ کر اپنی صورتحال میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔ اس کی وجوہات میں معاشی ترقی، سماجی خدمات میں بہتری اور عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں کو قرار دیا گیا ہے۔
افغانستان جو اس وقت سیاسی اور معاشی بحران کا شکار ہے، رپورٹ میں سب سے ناخوش ملک قرار پایا ہے۔ ملک میں عدم استحکام، غربت اور صحت و تعلیم کے شعبوں میں مسائل نے عوامی خوشی کو شدید متاثر کیا ہے۔
.ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: ویں نمبر پر رپورٹ میں گیا ہے
پڑھیں:
پاکستان عالمی سطح پر ضابطوں اور اختراعات کے فریم ورک کی تشکیل کا بغور جائزہ لے رہا ہے، بلال بن یوسف
وزیر مملکت و وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے کرپٹو و بلاک چین اور پاکستان کرپٹو کونسل (پی سی سی) کے سی ای او بلال بن ثاقب نے کہا ہے کہ ہم ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز سے متعلق سیکھنے، سننے اور اپنا حصہ ڈالنے کے لیے آئے ہیں پاکستان اس بات کا بغور جائزہ لے رہا ہے کہ عالمی رہنما کس طرح ضابطوں اور اختراعات کے فریم ورک کی تشکیل میں مصروف ہیں۔
رپورٹ کے مطابق وزیر مملکت برائے کرپٹو و بلاک چین اور پاکستان کرپٹو کونسل (پی سی سی) کے سی ای او بلال بن ثاقب نے امریکی سینیٹر بل ہیگری، سینیٹر رک اسکاٹ، سینیٹر ٹم شیہی اور سینیٹر جم جسٹس سے بھی ملاقاتیں کیں۔
سینیٹر جم جسٹس BITCOIN Act کے شریک اسپانسر بھی ہیں اور حکومتی و بنیادی ڈھانچے میں بلاک چین کے استعمال کے حامی ہیں۔
اس کے علاوہ وزیرِ مملکت کی سینیٹر ٹیڈ کروز، کانگریس مین ٹرائے ڈاو?نگ، کانگریس مین ریان زنکی، کانگریس مین رک میک کورمک، اور کانگریس مین ڈیرک وین آرڈن سے بھی اہم ملاقاتیں ہوئیں۔
یہ تمام افراد ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کے لیے پالیسیاں تشکیل دینے کے عمل میں سرگرم کردار ادا کر رہے ہیں، خانگی شعبے کی نمائندہ، EdentifID کی بانی جِل کیلی بھی کانگریس مین میک کورمک کے ساتھ ملاقات میں شریک تھیں، جنہوں نے بلاک چین شناختی ٹیکنالوجی کے حوالے سے قیمتی تجاویز پیش کیں۔
وزیرِ مملکت نے وائٹ ہاؤسس کے ایسوسی ایٹ کونسل کیون کلائن اور آگونا ایزے سے بھی ملاقات کی۔
وزیرِ مملکت بلال بن ثاقب نے کہا کہ ہم یہاں سیکھنے، سننے اور شراکت کے لیے آئے ہیں، پاکستان دنیا کے رہنماؤں کے ریگولیشن، جدت اور مالی شمولیت سے متعلق تجربات کا بغور مطالعہ کر رہا ہے تاکہ بہترین ماڈلز کو اپنے تناظر میں ڈھالا جا سکے، نہ کہ صرف ان کی نقل کی جائے۔
دورے کے دوران پاکستان کی حالیہ پیش رفت سے بھی آگاہ کیا گیا، جن میں اسٹریٹجک بٹ کوائن ریزرو کا قیام، ورچوئل اثاثہ جات کا ریگولیٹری فریم ورک تیار کرنا، اور ترسیلات زر کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے اسٹیبل کوائنز کے استعمال جیسے اقدامات شامل ہیں۔
وزیرِ مملکت نے مزید کہا کہ ہم ان افراد کے ساتھ میز پر بیٹھے جو دنیا کی مالیاتی سمت کا تعین کر رہے ہیں یہ نہ صرف ایک اعزاز بلکہ ایک واضح پیغام ہے کہ پاکستان صرف پیچھے رہ کر نہیں دیکھ رہا ہم قیادت کے لیے موجود ہیں۔
پاکستان جہاں نوجوان آبادی کی اکثریت، تیزی سے بڑھتی ہوئی فری لانس معیشت اور سالانہ 36 ارب ڈالر سے زائد کی ترسیلات موجود ہیں، وہاں وہ شفافیت، رسائی اور طویل مدتی اثرات پر مبنی ذمے دارانہ جدت کے لیے ایک عملی نمونہ بن سکتا ہے۔