جعفر ایکسپریس حملہ: 9 روز سے ٹرین سروس معطل، دیگر علاقوں سے آئے مزدور پریشان
اشاعت کی تاریخ: 20th, March 2025 GMT
11 مارچ کو کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس کو ضلع کچی کے علاقے مشکاف کے قریب عسکریت پسندوں کی جانب سے نشانہ بنایا گیا تھا، جس کے بعد سے کوئٹہ سے کراچی، پنجاب اور پشاور کے درمیان ٹرین سروس معطل ہے۔
یہ بھی پڑھیں:سانحہ جعفر ایکسپریس، اسلام آباد کے علاقے بنی گالا سے بڑی گرفتاری
ریلوے حکام کے مطابق ریلوے سروس کی بحالی سیکیورٹی کلیرنس سے مشروط ہے، تاہم اعلیٰ ریلوے حکام کی جانب سے ٹرین کی بحالی سے متعلق کوئی حتمی تاریخ سامنے نہیں آ سکی۔
متاثرہ بوگیوں کی مرمتدوسری جانب گزشتہ روز متاثرہ ٹرین کی 5 بوگیوں کو کوئٹہ لوکو شیڈ منتقل کیا گیا، جہاں ٹرین کی دھلائی اور مرمت کا باقاعدہ کام شروع کر دیا گیا۔ اس دوران گولیوں سے چھنی بوگیوں سے 3 دستی بم برآمد ہوئے، جنہیں ہم ڈسپوزل سکواڈ کی جانب سے ناکارہ بنا دیا گیا تھا۔
اس کے علاوہ متاثرہ ٹرین کی بوگیوں سے مسافروں کا سامان بھی نکال لیا گیا ہے۔ حملے کی زد میں آنے والی بوگیوں کو بیرونی اور اندرونی طور پر نقصان پہنچا ہے جس کی مکمل مرمت کے بعد انہیں ٹریک پر رواں کیا جائے گا۔
عید کوئٹہ ہی میں گزارنی پڑے گیٹرین سروس معطل ہونے سے کوئٹہ میں دیگر علاقوں سے آئے مزدور شدید پریشانی سے دوچار ہیں۔ وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے پنجاب سے آئے مزدور ابرار احمد نے بتایا کہ وہ گزشتہ کئی سالوں سے کوئٹہ میں درزی کا کام کر رہے ہیں اور بالخصوص عید سے قبل کوئٹہ آ کر کپڑوں کی سلائی کا کام کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہر سال رمضان کے آخری عشرے میں اپنا کام مکمل کر کے اپنے اپنے اپنے آبائی علاقوں کی جانب مزدور طبقہ رخ کر لیتا تھا لیکن اس بار لگتا ہے کہ عید کوئٹہ ہی میں گزارنی پڑے گی۔
بس کے سفر سے خوف محسوس ہوتا ہےابرار احمد نے بتایا کہ کوئٹہ سے پنجاب جانے والی ٹرین سروس 9 روز سے معطل ہے، جبکہ حکومت کی جانب سے ٹرین کی بحالی سے متعلق کوئی حتمی تاریخ نہیں دی گئی۔
یہ بھی پڑھیں:کوئٹہ پہنچائی گئی جعفر ایکسپریس کی بوگیوں سے 3 دستی بم برآمد
ان کا کہنا تھا کہ اگر بات کی جائے کوئٹہ سے پنجاب بس سروس کی، تو کوئٹہ سے پنجاب بس کے سفر کرنے میں خوف محسوس ہوتا ہے کیونکہ ماضی میں اسی راستے پر لوگوں کو شناخت کی بنیاد پر بسوں سے اتار کر قتل کیا گیا تھا۔
ابرار احمد نے کہا کہ ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ عوام کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کریں۔
ٹرین سروس کی بحالی سے متعلق بریفنگوزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کی زیر صدارت اجلاس میں بلوچستان میں ریلوے ٹریک اور سفری سہولیات کو محفوظ بنانے کے حوالے سے آئی جی ریلوے پولیس رائے طاہر نے بریفنگ دی اور ریلوے پولیس کی استعداد کار میں اضافے کے ساتھ جدید اسلحہ و دیگر سازو سامان و سہولیات فراہم کرنے کی تجویز دی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پبجاب جعفرایکسپریس دہشتگرد ریلوے کراچی کوئٹہ مزدور.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: جعفرایکسپریس دہشتگرد ریلوے کراچی کوئٹہ جعفر ایکسپریس کی جانب سے کوئٹہ سے کی بحالی ٹرین کی
پڑھیں:
مقبوضہ کشمیر، زعفران کی پیداوار میں 90 فیصد کمی، کاشتکار پریشان
کاشتکاروں نے فوری طور پر آبپاشی کی سہولیات کی فراہمی، زعفران کے میدانوں کی باقاعدہ نگرانی، غیر قانونی فروخت روکنے اور تازہ پودے لگانے کے لیے معیاری کورم کی دستیابی کا مطالبہ کیا۔ اسلام ٹائمز۔ بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر کا مشہور زعفران سیکٹر ایک بار پھر شدید بحران کی لپیٹ میں ہے، کاشتکاروں نے خبردار کیا ہے کہ اس سال کی پیداوار میں تقریباً 90 فیصد کمی آئی ہے۔ ذرائع کے مطابق وادی کشمیر کے جنوبی ضلع پلوامہ کے علاقے پامپور کے کسانوں کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ زعفران کی پیداوار بمشکل 10 تا 15 فیصد ہے اور ہزاروں خاندان معاشی بدحالی کے دہانے پر ہیں۔ پامپور جہاں زعفران کی سب سے زیادہ کاشت ہوتی ہے، کے کاشتکاروں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر فوری طور پر اصلاحی اقدامات نہ اٹھائے گئے تو صدیوں سے کشمیر کی شناخت کی حامل زعفران کی فصل ختم ہو سکتی ہے۔ ”زعفران گروورز ایسوسی ایشن جموں و کشمیر“ کے صدر عبدالمجید وانی نے کہا کہ پیداوار بمشکل 15 فیصد ہے۔ یہ گزشتہ سال کی فصل کا نصف بھی نہیں ہے، جو بذات خود عام فصل کا صرف 30 فیصد تھا۔ ہر سال اس میں کمی آ رہی ہے اور حکومت اس شعبے کی حفاظت کے لیے سنجیدہ نظر نہیں آتی۔ انہوں نے کہا کہ بنیادی مسئلہ بار بار کی خشک سالی، موثر آبپاشی کی کمی اور دستیاب کوارمز کا خراب معیار ہے۔ کاشتکاروں نے فوری طور پر آبپاشی کی سہولیات کی فراہمی، زعفران کے میدانوں کی باقاعدہ نگرانی، غیر قانونی فروخت روکنے اور تازہ پودے لگانے کے لیے معیاری کورم کی دستیابی کا مطالبہ کیا۔ پامپور کے پریشان کسانوں کے ایک گروپ نے کہا، "زعفران کی بحالی صرف فصل کو بچانے کے بارے میں نہیں ہے بلکہ یہ ایک روایت، ایک ثقافت اور ایک شناخت کو بچانے کے بارے میں ہے اور اگر فوری اور موثر اقدامات نہ اٹھائے گئے تو 2030ء تک پامپور میں زعفران نہیں بچے گا۔