ریاست اپنی رٹ کیسے قائم کرے
اشاعت کی تاریخ: 21st, March 2025 GMT
یوں لگتا ہے کہ جیسے خدا نخواستہ پاکستان ہمارے ہاتھوں سے نکلتا جا رہا ہے۔پچھلے چند ہفتوں سے دہشت گردی کی لہر آئی ہوئی ہے۔دہشتگردی کے واقعات اتنی کثرت اور تسلسل سے ہو رہے ہیں کہ جیسے ملک میں شرپسندوں کا راج ہو۔بنوں کینٹ، جعفر ایکسپریس اور نوشکی حملہ اتنے بڑے واقعات ہیں کہ مقتدر حلقوں کو جھنجھوڑنے کے لیے بہت کافی ہیں لیکن ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔مذمتی اور للکارنے والے بیانات کی بھرمار ہے لیکن یہ حملے رک نہیں رہے۔
ہمارا ملک تو1980کی دہائی سے اس مشکل سے گزر رہا ہے، اتنے لمبے تجربے کے ہوتے ہوئے ہمارے اداروں کو تو کسی کو ہلنے نہیں دینا چاہیے۔ ٹیکنالوجی کی تیز ترین ترقی اور اے آئی کی کرشماتی ایکٹوٹی نے دنیا بدل دی ہے۔ ان کی موجودگی میںمنصوبہ بندی اور کاروائی کا دائرہ بہت بدل گیا ہے۔شرپسند سوشل میڈیا کے نت نئے پلیٹ فارموں سے بخوبی آگاہ ہو کر اور انھیں استعمال کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں جب کہ ہمارے سرکاری اداروں اور اہلکاروں کی وہ Efficiency نہیں ہوتی۔وہ پہل کرنے اور سرپرائز دینے سے عاری صرف ری ایکٹ کرتے ہیں۔
کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس پر یہ پہلا حملہ نہیں تھا۔ابھی چند مہینے پہلے کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر کھڑی اسی گاڑی پر حملہ ہوا تھا جس میں بہت سی جانیں گئیں۔اس مرتبہ جعفر ایکسپریس کوئٹہ ریلوے اسٹیشن سے روانہ ہو کر کوئی ایک بجے جائے وقوعہ پر پہنچی۔ ڈرائیور جو معجزانہ طور پر بچ نکلا،اس کا کہنا ہے کہ سبی سے پہلے اوسی پور پہنچنے پر گاڑی کے انجن کے نیچے زوردار دھماکہ ہوا جس سے انجن پٹڑی سے اتر گیا اور اسے خاصا نقصان پہنچا۔ٹرین رک گئی تو ہر طرف سے فائرنگ کی زد میں آ گئی۔
مسافروں نے جان بچانے کے لیے بوگیوں کو اندر سے بند کر لیا لیکن حملہ آور دروازے توڑ کر اندر گھس آئے اور مسافروں کو دھمکا کر باہر نکالا۔بچ جانے والے کچھ مسافروں کے مطابق حملہ آوروں نے مسافروں کو مختلف گروپوں میں تقسیم کیا۔یوں ان مسافروں کو تین چار ٹولیوں میں کھلے آسمان کے نیچے بٹھا کر ان پر پہرہ لگا دیا۔وقفے وقفے سے کچھ مسافروں کو لے جا کر مار دیا گیا۔کوئٹہ سے ٹرین جب چلی تو اس میں عملے کے علاوہ425کے قریب مسافر تھے۔
سب سے پہلے حملے کی اطلاع چار کلومیٹر دور سبی سکاؤٹس کو پہنچی اور پھر یہ اطلاع انتظامیہ اور سیکیورٹی اداروں کو ملی۔سیکیورٹی ادارے فوراً حرکت میں آ گئے۔ایس ایس جی کی ضرار کمپنی جوAnti Terroristآپریشن میں انتہائی مہارت رکھتی ہے،وہ بھی وہاں پہنچ گئی اور سب نے مل کر صورتحال کا جائزہ لے کر مسافروں کو بازیاب کرانے کے لیے آپریشن شروع کر دیا۔آپریشن کم و بیش 36گھنٹے جاری رہا۔آپریشن اگلے دن 12مارچ کی شام اختتام پذیر ہوا۔354یرغمالیوں کو بازیاب کروا لیا گیا۔علیحدگی پسندوں کی ظالمانہ فائرنگ سے 26افراد شہید ہوئے۔18شہیدوں کا تعلق سیکیورٹی اداروں سے تھا۔آئی ایس پی آر کے مطابق33حملہ آور جہنم واصل ہوئے باقی وہاں سے نکل گئے۔وقوعہ کی تمام تفصیلات سامنے نہیں لائی گئیں ۔
بنوں کینٹ ، جعفر ایکسپریس اور نوشکی حملہ سیکیورٹی اور انٹیلی جنس ناکامی ہے۔بنوں کینٹ پر اس سے پہلے بھی حملہ ہو چکا تھا اور کیونکر اتنا بڑا دوسرا حملہ ہوا۔حملہ آور دہشت گرد بارود سے بھری دو گاڑیاں لے کر خاصا فاصلہ طے کر کے بنوں کینٹ تک پہنچے۔راستے میں کئی چیک پوسٹیں تھیں لیکن نہ اس حملے کی بروقت اطلاع ملی، نہ ہی ان کو راستے میں کہیں پر روکا گیا۔کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر کھڑی جب اسی گاڑی کو پہلے نشانہ بنایا جا چکا تھا،پھر جعفر ایکسپریس پر حالیہ حملہ کیسے ہو گیا۔کیوں نہ اس کا تدارک کیا گیا۔نوشکی میں حملہ بھی بالکل ایسا ہی ایک جانکاہ اور انتہائی افسوس ناک واقعہ ہے۔اس قافلے کو بھی سیکیورٹی مہیا نہیں کی گئی۔
شرپسندوں،دہشت گردوں اور علیحدگی پسندوں کو ظالمانہ،مجرمانہ لیکن کامیاب کارروائیاں کرنے کے لیے ریکروٹمنٹ،فنڈنگ اورموثر پروپیگنڈے کی ضرورت ہوتی ہے۔حالیہ حملوں کے بارے میں ملنے والی تفصیلات سے عیاں ہوتا ہے کہ ان عناصر کو اب خاصی تعداد میں ریکروٹ منٹ کے لیے نفری دستیاب ہے۔اس کی وجہ ان کا موثر پروپیگنڈہ ہے جس سے لوگوں کے ریاست مخالف جذبات بھڑکتے ہیں۔خیبر پختون خواہ میں ٹی ٹی پی کی کارروائیاں اس حد تک بڑھ گئی ہیں کہ اب دہشت گرد قبائلی اضلاع سے آگے بڑھ کر حملہ آور ہو رہے ہیں۔رات ہوتے ہی حکومت کی عملداری ختم ہو جاتی ہے۔حکومت کی رٹ ختم ہو چکی ہے۔ٹی ٹی پی نے کئی اضلاع کے لیے اپنے نام نہاد نمائندے اور گورنرز مقرر کر رکھے ہیں۔
پچھلے پچیس ،تیس سال سے دہشت گردی و علیحدگی پسندی پنپ رہی ہے اور ریاست الجھن کا شکار ہے کہ اس کی جڑ کاٹنے کے لیے آپریشن کیا جائے کہ نہیں۔ ریاست کے پاس واضح ٹارگٹ اور لائحہ عمل ہونا چاہیے کہ کیا کرنا ہے اور کتنے عرصے میں مکمل کرنا ہے۔صاف نظر آتا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ صرف بیانات جاری ہو جاتے ہیں اور اگلے ہی دن شرپسند ایک اور مہلک کارروائی کر دیتے ہیں۔
شرپسندوں کو پتہ ہے کہ ان کارروائیوں سے ان کا کام نہیں ہوگا۔ان حملوں سے آزادی نہیں ملنے والی لیکن وہ بیان دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔وہ اپنے چند بندے مرواکر،پروپیگنڈے کے زور پر ایک بڑا Impact پیدا کر لیتے ہیں۔ریاست کی استطاعت بے حد و حساب ہے۔اگر ریاست کچلنے کا تہیہ کر لے تو کوئی وجہ نہیں کہ کوئی سر اٹھا سکے،لیکن اس کے لیے اٹل عزم کی ضرورت ہے۔حکومت کی رٹ قوت،طاقت اور violenceسے قائم ہوتی ہے۔خیبر پختون خواہ اور بلوچستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اور ہونے دیا جا رہا ہے،وہ غماز ہے کہ ریاست کا عزم نہیں ہے۔گو مگو کی حالت میں رٹ قائم نہیں ہوتی۔
لگتا ہے کہ ہمارے ڈی این اے میں کوئی خرابی ہے۔جب کوئی برائی جنم لے رہی ہوتی ہے تو ہم آنکھیں موندے بے فکر لیٹے رہتے ہیں لیکن جب وہی برائی عفریت بن کر ہم پر حملہ آور ہونے لگتی ہے تو تب ہم اس سے نبٹنے کا سوچتے ہیں۔ہم پرو ایکٹو ہونے کے بجائے صرف ری ایکٹ کرنے والے ہیں۔شرپسندوں کے ساتھ مذاکرات Position of strengthسے کرنے چاہیئیں۔شرپسندوں کی کمر توڑنی ہوگی تاکہ سول انتظامیہ پوزیشن آف سٹرنتھ سے بات کر سکے۔بلوچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ بھی فی الفور کرنا چاہیے۔
بلوچستان میں opinion makersجن کی تعداد کسی صورت ایک سو سے زیادہ نہیں ان پر کام کر کے انھیں پاکستان دوست بنانا ہو گا۔انٹیلی جنس کو جن مقاصد کے لیے کام میں لایا جائے وہی حاصل ہوتے ہیں۔
اگر counter intelligence,counter terrorism ,counter insurgency کے لیے استعمال میں لایا جائے تو اس فیلڈ میں کامیابی ملے گی اور اگر پولیٹیکل معاملات میں لگایا جائے گا تو پھر وہی ہوگا جو ہو رہا ہے۔ہم نے فی الحال پولیٹیکل شعبے کو ترجیح دی ہوئی ہے،اس لیے دوسرے انتہائی اہم شعبے توجہ نہیں پا رہے۔ ہمارے ملک کی ناؤ پیچیدہ بھنور میں پھنس چکی ہے۔خدا کے واسطے صرف اورصرف پاکستانی بن کر اور سیاسی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر اسے بھنور سے نکالیں ورنہ ہماری داستان تک نہ ہو گی داستانوں میں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جعفر ایکسپریس مسافروں کو بنوں کینٹ حملہ ا ور کے لیے ا رہا ہے ہیں کہ
پڑھیں:
غربت اور پابندیوں کے باوجود افغانستان میں کاسمیٹک سرجری کلینکس کی مقبولیت میں اضافہ
کابل(انٹرنیشنل ڈیسک)طالبان دور کی سختیوں اور شدید معاشی بحران کے باوجود افغانستان میں کاسمیٹک سرجری کلینکس تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں، جہاں خواتین اور مرد اپنی ظاہری خوبصورتی نکھارنے کے لیے بوٹوکس، فلرز اور ہیئر ٹرانسپلانٹ جیسی سہولیات حاصل کر رہے ہیں۔
نجی اخبار میں شائع خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق کابل کے کاسمیٹک سرجری کلینکس مخملی صوفوں کے ساتھ اس طرح سجے ہیں کہ یہ طالبان دور کی سختیوں سے بالکل مختلف دکھائی دیتے ہیں، جہاں بوٹوکس، لپ فلر اور بالوں کے ٹرانسپلانٹ عام ہو چکے ہیں۔
طالبان کی سخت حکمرانی، قدامت پسندی اور غربت کے باوجود کابل میں جنگ کے خاتمے کے بعد تقریباً 20 کلینکس تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔
غیر ملکی ڈاکٹر خاص طور پر ترکی سے کابل آ کر افغان ڈاکٹروں کو تربیت دیتے ہیں، جب کہ افغان ڈاکٹر استنبول میں انٹرن شپ کرتے ہیں اور کلینکس کے آلات ایشیا اور یورپ سے منگوائے جاتے ہیں۔
ویٹنگ رومز میں زیادہ تر خوشحال لوگ آتے ہیں، جن میں بال جھڑنے والے مرد بھی شامل ہوتے ہیں، لیکن زیادہ تعداد خواتین کی ہوتی ہے جو اکثر میک اپ کیے ہوئے اور سر سے پاؤں تک ڈھکی ہوتی ہیں، بعض اوقات مکمل برقع میں بھی۔
25 سالہ سلسلہ حمیدی نے دوسرا فیس لفٹ کرانے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ افغانستان میں عورت ہونے کے دباؤ نے ان کی جلد خراب کر دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ چاہے دوسرے ہمیں نہ دیکھ سکیں، لیکن ہم خود کو دیکھتے ہیں، آئینے میں خوبصورت لگنا ہمیں حوصلہ دیتا ہے، یہ کہہ کر وہ سرجری کے لیے گئیں تاکہ چہرے کا اوپری حصہ، جو ڈھلکنے لگا تھا، دوبارہ درست کیا جا سکے۔
میڈیکل اسکول سے فارغ التحصیل سلسلہ کا کہنا تھا کہ افغان خواتین پر زیادہ دباؤ کی وجہ سے ان کی جلد متاثر ہو جاتی ہے۔
طالبان حکومت کی پابندیوں کے باعث خواتین کی ملازمت پر سخت روک ہے، وہ مرد سرپرست کے بغیر لمبا سفر نہیں کر سکتیں، گھر سے باہر بلند آواز میں بات نہیں کر سکتیں اور ان پر یونیورسٹی، پارک اور جم جانے کی بھی پابندی ہے۔
سیلونز پر پابندی، مگر بوٹوکس پر نہیں
جہاں کاسمیٹک سرجری عروج پر ہے، وہیں خواتین کے بیوٹی سیلونز اور پارلرز پر مکمل پابندی ہے۔
23 سال کی عمر میں چہرے کے نچلے حصے کی سرجری کرانے والی سلسلہ کا کہنا ہے کہ اگر بیوٹی سیلونز کھلے ہوتے تو ہماری جلد اس حالت میں نہ پہنچتی اور سرجری کی ضرورت نہ پڑتی۔
طالبان حکام جو عموماً جسمانی ساخت میں تبدیلی کی اجازت نہیں دیتے، کاسمیٹک سرجری سے متعلق بار بار کیے گئے سوالات پر خاموش رہے۔
اس شعبے سے وابستہ افراد کے مطابق یہ اس لیے جائز ہے کیونکہ اسے طب کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔
کلینک کے عملے کے مطابق حکومت ان کے کام میں مداخلت نہیں کرتی، لیکن اخلاقی پولیس یہ دیکھتی ہے کہ صنفی علیحدگی برقرار رہے، یعنی مرد مریض کے ساتھ مرد نرس اور خاتون مریضہ کے ساتھ خاتون نرس ہو۔
کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ طالبان کے اپنے ارکان بھی ان کلینکس کے گاہک ہیں۔
نگین ایشیا کلینک کے ڈپٹی ڈائریکٹر ساجد زدران کا کہنا ہے کہ یہاں بال یا داڑھی نہ ہونا کمزوری کی نشانی سمجھا جاتا ہے، یہ کلینک جدید چینی آلات سے مکمل طور پر لیس ہے۔
یوروایشیا کلینک کے ڈائریکٹر بلال خان کے مطابق طالبان کے مردوں کو کم از کم ایک مُٹھی لمبی داڑھی رکھنے کے حکم کے بعد ہیئر ٹرانسپلانٹ کا رجحان بڑھ گیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ کچھ لوگ شادی سے پہلے بال لگوانے کے لیے قرض بھی لے لیتے ہیں۔
چار منزلہ ولا کو کلینک میں تبدیل کرنے والے ماہر امراض جلد عبدالنصیم صدیقی کا کہنا ہے کہ یہاں وہی طریقے استعمال ہوتے ہیں جو بیرون ملک رائج ہیں اور ان میں کوئی خطرہ نہیں، ان کے کلینک میں بوٹوکس کی قیمت 43 سے 87 ڈالر اور بال لگوانے کی لاگت 260 سے 509 ڈالر ہے۔
انسٹاگرام کا اثر
یہ رقم اکثر افغانوں کے لیے بہت زیادہ ہے، جن میں سے تقریباً نصف غربت میں زندگی گزار رہے ہیں، لیکن یہ ان لوگوں کے لیے فائدہ مند ہے جو بیرون ملک رہتے ہیں۔
لندن میں مقیم افغان ریسٹورنٹ کے مالک محمد شعیب یارزادہ نے برطانیہ میں ہزاروں پاؤنڈ کے اخراجات سے بچنے کے لیے 14 سال بعد افغانستان کے اپنے پہلے دورے میں سر پر بال لگوانے کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ جب وہ کلینک میں داخل ہوتے ہیں تو لگتا ہے جیسے یورپ میں ہوں۔
نئے گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لیے کلینکس سوشل میڈیا پر اپنی تصاویر اور دعوے شیئر کرتے ہیں، جیسے چمکتی جلد، بھرے ہونٹ اور گھنے بال۔
نگین ایشیا کلینک کے شریک ڈائریکٹر 29 سالہ لکی خان کے مطابق افغانستان بھی مغربی ممالک کی طرح سوشل میڈیا انفلوئنسرز کے اثر سے محفوظ نہیں رہا، ان کے کلینک میں روزانہ درجنوں نئے مریض آتے ہیں۔
روسی نژاد افغان ڈاکٹر لکی خان کا کہنا ہے کہ کئی مریضوں کو اصل میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، لیکن وہ انسٹاگرام پر دیکھے گئے ٹرینڈز کی وجہ سے سرجری کروانا چاہتے ہیں، ان کا اپنا چہرہ جھریوں سے پاک ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق اگرچہ ایک کروڑ افغان بھوک سے دوچار ہیں اور ہر تین میں سے ایک کو بنیادی طبی سہولتیں میسر نہیں، لیکن کچھ لوگ کھانے کے بجائے اپنی خوبصورتی پر پیسہ خرچ کرنا زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔
Post Views: 3