کراچی سمیت سندھ بھر میں ملیریا اور ڈینگی کیسز بڑھنے لگے
اشاعت کی تاریخ: 21st, March 2025 GMT
سندھ کے دیگر اضلاع میں حیدر آباد میں ملیریا کے 3 ہزار 240 کیسز رپورٹ ہوئے، سکھر میں 669 کیسز سامنے آئے، لاڑکانہ میں ان کی تعداد 1 ہزار 939 ہے، میر پور خاص میں 816 مریضوں میں ملیریا کی تشخیص ہوئی، شہید بے نظر آباد میں 839 کیسز رپورٹ ہوئے۔ اسلام ٹائمز۔ کراچی سمیت سندھ بھر میں ملیریا اور ڈینگی کے کیسز میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔ ترجمان محکمۂ صحت سندھ کے مطابق رواں سال جنوری سے 20 مارچ تک سندھ بھر میں ملیریا کے 7 ہزار 642 کیس سامنے آئے ہیں جبکہ اسی دوران صرف کراچی میں 139 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ کراچی میں سب سے زیادہ ملیریا کے مریض ضلع جنوبی میں سامنے آئے جن کی تعداد 52 ہے۔ ترجمان کے مطابق جنوری سے مارچ تک ضلع کیماڑی سے ملیریا کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا۔
سندھ کے دیگر اضلاع میں حیدر آباد میں ملیریا کے 3 ہزار 240 کیسز رپورٹ ہوئے، سکھر میں 669 کیسز سامنے آئے، لاڑکانہ میں ان کی تعداد 1 ہزار 939 ہے، میر پور خاص میں 816 مریضوں میں ملیریا کی تشخیص ہوئی، شہید بے نظر آباد میں 839 کیسز رپورٹ ہوئے۔ دوسری جانب کراچی میں رواں سال شہر میں ڈینگی کے 149 کیس رپورٹ ہو چکے ہیں جبکہ مارچ میں اب تک ڈینگی کے 27 کیس سامنے آئے ہیں۔ ترجمان کے مطابق رواں سال سندھ بھر میں ڈینگی کے 167 کیسز سامنے آ چکے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کیسز رپورٹ ہوئے میں ملیریا ملیریا کے ڈینگی کے
پڑھیں:
پنجاب میں خواتین کے قتل، زیادتی، اغوا ور تشدد کے واقعات میں نمایاں اضافہ
لاہور:پنجاب میں خواتین کے قتل، زیادتی، اغوا اور تشدد کے واقعات میں نمایاں اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔
سسٹین ایبل سوشل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (ایس ایس ڈی او) نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ جنوری تا دسمبر 2024 کے دوران پنجاب میں خواتین پر ہونے والے 4 سنگین جرائم ، جنسی زیادتی، غیرت کے نام پر قتل، اغوا اور گھریلو تشدد میں نمایاں اضافہ ہوا، لیکن نظامِ انصاف کی ناکامی نے متاثرہ خواتین کو انصاف سے دور رکھا۔
رپورٹ کی تیاری کے لیے ایس ایس ڈی او نے رائٹ ٹو انفارمیشن (آر ٹی آئی) کے تحت دستیاب ڈیٹا اکٹھا کیا اور اسے اضلاع کی آبادی کے تناسب سے کرائم ریٹ کے فارمولے کے ذریعے تجزیہ کیا۔
رپورٹ کے مطابق لاہور میں جنسی زیادتی کے سب سے زیادہ 532 واقعات رپورٹ ہوئے، جس کے بعد فیصل آباد میں 340 اور قصور میں 271 واقعات ریکارڈ کیے گئے۔ اس کے باوجود سزا کے تناسب انتہائی کم رہا۔
لاہور میں صرف 2 اور قصور میں 6 ملزمان کو ہی مجرم قرار دیا گیا۔ آبادی کے لحاظ سے قصور میں فی لاکھ 25.5 اور پاکپتن میں 25 واقعات رپورٹ ہوئے، جو ظاہر کرتا ہے کہ چھوٹے اور دیہی اضلاع میں خواتین کو خطرات لاحق ہیں۔
غیرت کے نام پر قتل کے جرائم میں فیصل آباد سرِ فہرست رہا جہاں 31 واقعات پیش آئے، جب کہ راجن پور اور سرگودھا میں 15-15 کیسز رپورٹ ہوئے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ان تمام مقدمات میں کسی کو سزا نہیں دی گئی، تاہم فی صد آبادی کے حساب سے راجن پور میں 2.9 اور خوشاب میں 2.5 فی صد کے تناسب نے اس رجحان کی شدت کو اجاگر کیا۔
اغوا کے حوالے سے لاہور میں 4,510 کیسز رپورٹ ہوئے، مگر صرف 5 ملزمان کو سزا ہوئی۔ فیصل آباد میں 1,610، قصور میں 1,230، شیخوپورہ میں 1,111 اور ملتان میں 970 شکایات درج ہوئیں، لیکن کسی کو بھی عدالتوں سے سزا نہیں ہوئی۔آبادی کے تناسب سے لاہور کا کرائم ریٹ فی لاکھ 128.2، قصور 115.8 اور شیخوپورہ 103.6 رہا۔
گھریلو تشدد کے کیسز میں گجرانوالہ نے سبقت لے لی جہاں 561 شکایات موصول ہوئیں، جب کہ ساہیوال میں 68 اور لاہور میں 56 مقدمات درج ہوئے۔ ان تمام واقعات میں بھی سزاؤں کا تناسب صفر رہا اور فی لاکھ آبادی کے لحاظ سے گجرانوالہ میں 34.8 اور چنیوٹ میں 11 کے اعداد و شمار نے اس نوعیت کے جرائم کی سنگینی کو واضح کر دیا۔
ایس ایس ڈی او کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیّد کوثر عباس نے کہا ہے کہ پنجاب پولیس نے رپورٹنگ کے نظام کو بہتر بنایا ہے مگر عدالتوں میں کیسز کا مؤثر تعاقب نہ ہونے کے باعث سزائیں نا ہونے کے برابر ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پولیس کے پاس وہ واقعات بھی پہنچتے ہی نہیں جو متاثرین رپورٹ نہیں کرا پاتے یا روک دیے جاتے ہیں اور اس لیے عدالتی اصلاحات کے ساتھ ساتھ عوامی آگاہی مہمات ناگزیر ہیں تاکہ خواتین بروقت ویمن سیفٹی ایپ اور ورچوئل پولیس اسٹیشن کے ذریعے اپنے کیس درج کرا سکیں۔
ایس ایس ڈی او کے سینئر ڈائریکٹر پروگرامز شاہد خان جتوئی نے بتایا کہ اغوا کے پیچھے انسانی اسمگلنگ، جبری تبدیلی مذہب، تاوان اور زیادتی جیسے سنگین جرائم چھپے ہیں جن کے لیے فوری ریاستی مداخلت درکار ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ رپورٹ میں شامل نقشہ جات اور ضلعی اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ کئی چھوٹے اضلاع بڑے شہروں سے کہیں زیادہ متاثر ہیں۔
رپورٹ کو ایک ہنگامی وارننگ قرار دیتے ہوئے ایس ایس ڈی او نے مطالبہ کیا ہے کہ پولیس، عدلیہ اور متعلقہ ادارے مشترکہ طور پر فوری اصلاحات کریں، قانونی عملدرآمد کو مؤثر بنائیں اور خواتین کے تحفظ کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائیں۔