نوجوانوں میں بلڈ پریشر کا مرض تیزی سے عام ہونے کی اہم وجہ دریافت
اشاعت کی تاریخ: 21st, March 2025 GMT
خون کے دباؤ یا بلڈ پریشر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شریانوں سے کتنی مقدار میں خون گزر رہا ہے۔
ہائی بلڈ پریشر یا فشار خون کا سامنا اس وقت ہوتا ہے جب شریانوں سے گزرنے والے خون کا دباؤ مسلسل بہت زیادہ ہو۔ہائی بلڈ پریشر کو خاموش قاتل مرض قرار دیا جاتا ہے کیونکہ اس کے شکار افراد کو اکثر اس کا علم ہی نہیں ہوتا۔خون کی شریانیں تنگ ہو جائیں تو خون کا بہاؤ محدود ہو جاتا ہے۔
شریانیں جتنی زیادہ تنگ ہوں گی، بہاؤ اتنا کم اور بلڈ پریشر اتنا زیادہ ہوگا۔وقت کے ساتھ یہ دباؤ بڑھ کر مختلف طبی مسائل جیسے امراض قلب، ہارٹ اٹیک یا فالج کا باعث بن سکتا ہے۔بلڈ پریشر کا مسئلہ بہت عام ہے اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں کروڑوں افراد اس کے شکار ہیں۔ہائی بلڈ پریشر سے خون کی شریانیں اور اعضا بالخصوص دماغ، دل، آنکھیں اور گردوں کو نقصان پہنچتا ہے۔
اب جوان افراد میں ہائی بلڈ پریشر عام ہونے کی ایک اہم وجہ سامنے آئی ہے اور وہ ہے نیند کی کمی۔امریکا کے Pennsylvania اسٹیٹ یونیورسٹی کالج آف میڈیسن کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ جو نوجوان کم وقت تک سونے کے عادی ہوتے ہیں ان میں ہائی بلڈ پریشر سے متاثر ہونے کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔
ناقص نیند کو پہلے ہی امراض قلب کا خطرہ بڑھانے والے عناصر میں سے ایک سمجھا جاتا ہے اور امراض قلب سے دنیا بھر میں سب سے زیادہ اموات ہوتی ہیں۔تحقیق میں 400 سے زائد نوجوانوں کو شامل کیا گیا جن سے ایک سوالنامے کے ذریعے نیند کے دورانیے کے بارے میں تفصیلات جمع کی گئیں۔اس کے بعد ان کے سروں پر سنسرز نصب کیے گئے تاکہ نیند کے حقیقی دورانیے کا جائزہ لیا جاسکے۔
تحقیق کے دوران سونے سے قبل ان کے بلڈ پریشر کو بھی جانچا گیا۔نتائج سے معلوم ہوا کہ جو نوجوان ہر رات 7.
تحقیق کے مطابق نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ بے خوابی اور کم وقت کا امتزاج ہائی بلڈ پریشر کی شدت میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔محققین نے بتایا کہ اس حوالے سے زیادہ بڑے پیمانے پر تحقیق کی ضرورت ہے مگر یہ کہنا درست ہوگا کہ نیند ہمارے دل کی صحت کے لیے بہت اہم ہوتی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ درحقیقت ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ نوجوانی میں نیند کی کمی سے کسی بیماری کا سامنا نہیں ہوگا بلکہ نیند کی کمی سے مستقبل میں ہارٹ اٹیک اور فالج سمیت دیگر امراض قلب کا خطرہ بڑھتا ہے کیونکہ بلڈ پریشر کو امراض قلب کا خطرہ بڑھانے والا اہم عنصر مانا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اچھی نیند سے دل کی صحت کو بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے، اس کے ساتھ ساتھ جسمانی طور پر متحرک رہنا، تمباکو نوشی سے گریز، صحت مند جسمانی وزن کو برقرار رکھنے، بلڈ کولیسٹرول، ہائی بلڈ پریشر اور بلڈ شوگر کو کنٹرول میں رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے۔
محققین کے مطابق تحقیق کے نتائج بہت اہم ہیں اور یہ ضروری ہے کہ نوجوان اپنی نیند کا خیال رکھیں تاکہ درمیانی عمر میں ہائی بلڈ پریشر سے ہونے والی پیچیدگیوں سے محفوظ رہ سکیں۔اس تحقیق کے نتائج گزشتہ دنوں امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کی ایک کانفرنس کے موقع پر پیش کیے گئے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: میں ہائی بلڈ پریشر ہائی بلڈ پریشر سے تحقیق کے ہوتا ہے کا خطرہ جاتا ہے
پڑھیں:
سیلاب کی تباہ کاریاں اور حکمران طبقہ کی نااہلی
سیلاب اور شدید بارشوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریوں کو کیا ہم محض قدرت کی آفات کے طور پر قبول کرلیں یا ہمیں ان تباہ کاریوں پر حکمران طبقات کی صلاحیتوں کا بھی جائزہ لینا چاہیے کہ ان معاملات میں ان کا کتنا قصور ہے۔
حکمران اور طاقت ور طبقات ہمیشہ سے ہی ان تباہ کاریوں کو قدرت کے نام پر ڈال کر لوگوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کرکے اپنی نااہلی اور بدعنوانی سمیت صلاحیتوں کی کمی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔شدید بارشیں اور سیلاب کا آنا فطری امر ہوتا ہے اور اس کو روکنا ممکن نہیں ہوتا مگر ان معاملات میں پیدا ہونے والے بگاڑ سے نمٹنا اور نمٹنے کی صلاحیت کو پیدا کرنا ہی حکومتی نظام کا اصل چیلنج ہوتا ہے۔
ہر دفعہ حکومت کی سطح پر یہ ہی جواب ہوتا ہے کہ ہم نے اس بار سیلاب کی تباہ کاریوں سے بہت سبق حاصل کیا ہے اور ان غلطیوں کو اگلی بار نہیں دہرایا جائے گا۔لیکن ہر بار پہلے والی غلطیوں کو نہ صرف دہرایا جاتا ہے بلکہ پہلے سے موجود غلطیوں کو اور زیادہ بدنما انداز سے دہرایا جاتا ہے ۔
یعنی سبق یہ ہے کہ ہم نے ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا اور ان معاملات سے نمٹنے میں ہماری پالیسی ایک ردعمل کی پالیسی ہے۔ اس عمل میں ہمیں ان حالات سے نمٹنے کا کوئی مستقل خاکہ نظر نہیں آتا اور ایسے لگتا ہے کہ ہمارے پاس کوئی لانگ ٹرم ،مڈٹرم اور شارٹ ٹرم خاکہ یا منصوبہ موجود نہیں ہے۔
ماضی میں 2022کے سیلاب کے نتیجے میں حکمران طبقات نے بہت سے منصوبوں کی کہانی پیش کی تھی اور اس بات کا اعادہ کیا گیا تھا کہ عالمی امداد یا مالیاتی اداروں کی معاونت سے بہت سے ایسے منصوبے شروع کریں گے جو مستقبل میں ان آفات سے نمٹنے میں بڑی مدد دے سکیں گے۔
لیکن حکمرانوں کے منصوبے ،دعوے اور خوش نما خواب محض سیاسی نعرے ہی ثابت ہوئے اور عملی طور پر ہم کسی قسم کے ایسے منصوبے تیار نہیں کرسکے جو ہمیں ان حالات سے نمٹنے میں مدد دے سکتے تھے ۔
وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب نے برملا اعتراف کیا کہ ہم مجموعی طور پر 2022 کے سیلاب کے بعد کوئی ایسے منصوبے نہیں تیار کرسکے جو ہماری ضرورت بنتے تھے۔2025میں جو شدید بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریاں ہمیں دیکھنے کو مل رہی ہیں اور یہ تباہ کاریاں آج بھی بدستور جاری ہیں وہ حکومت کی نااہلیوں کو نمایاں کرتی ہے۔
اب تک 60لاکھ سے زیادہ افراد حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے متاثر ہوئے ہیں اور یہ تعداد مزید بڑھ بھی سکتی ہے۔ ایک طرف سیلاب کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں متاثرین کے لیے فوری ریلیف ہوتا ہے جو ان کی بنیادی ضرورت اور جان ومال کو بچانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔
کیونکہ پاکستان میں شفافیت پر مبنی گورننس کا نظام ہمیشہ سے خرابیوں کی مختلف نشاندہی کرتا ہے جس کی وجہ سے سیاسی ،انتظامی اور مالی سطح پر ہمیں شفافیت اور اعلیٰ اور بروقت صلاحیتوں کا فقدان دیکھنے کو ملتا ہے ۔
یہ ہی وجہ ہے کہ مجموعی طور پر جو بھی سیلاب کے متاثرین ہیں وہ حکومت اور انتظامیہ کی کارکردگی سے نالاں ہوتے ہیں اور ان کے بقول ہمارا زیادہ نقصان قدرت کی وجہ سے نہیں بلکہ حکمرانوں کی غلط حکمت عملیوں اور عدم شفافیت کے نظام کی وجہ سے ہوتا ہے۔
لوگوں کے گھر ہی نہیں بلکہ ان کی زمینیں اور عملی طور پر زراعت سے جڑا ان کا کاروبار بھی شدید متاثر ہوتا ہے ۔ان کی جمع شدہ پونجی بھی برباد ہوجاتی ہے اور وہ اپنے آپ کو دوبارہ کھڑے ہونے کے لیے ریاست ،حکومت اور نجی شعبے کے محتاج ہوجاتے ہیں ۔
سیلاب کی تباہ کاریوں کی یہ کہانی نئی نہیں ہے بلکہ یہ وہی پرانی کہانی ہے جو کئی صدیوں سے ہمارے نظام کے ساتھ چل رہی ہیں اور جو لوگ بھی حکومتی یا انتظامی سطح پر ذمے داران ہوتے ہیں وہی گھوم پھر کر ہر حکومت یا انتظامی ڈھانچوں کا حصہ ہوتے ہیں اور ان سے کوئی پوچھنے کے لیے تیار نہیں کہ آپ کی نااہلی سے جو مسائل پیدا ہوئے اس کا حساب کون دے گا ۔
کیونکہ حکومتی نظام میں ایک ایسا مضبوط گٹھ جوڑ ہے جو ہماری بڑی ناکامیوں کی بنیاد ہے۔عالمی مالیاتی اداروں میں بھی یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ یہاں پر کرپشن اور نااہلی کا کھیل نمایاں ہے اور اسی وجہ سے عالمی مالیاتی ادارے بھی ہماری مدد سے پیچھے ہٹ رہے ہیں ۔