صحافی فرحان ملک 4 روزہ جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کے سپرد
اشاعت کی تاریخ: 21st, March 2025 GMT
سینئر صحافی فرحان ملک کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ فرحان ملک کے خلاف پہلے سے انکوائریز جاری تھیں، سندھ ہائیکورٹ نے پہلے کارروائی نہ کرنے کے احکامات جاری کر رکھے ہیں، ایف آئی اے نے سندھ ہائیکورٹ کے حکم کے برخلاف کارروائی کی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ کراچی کی جوڈیشل مجسٹریٹ شرقی کی عدالت نے صحافی فرحان ملک کو چار روزہ جسمانی ریمانڈ پر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے حوالے کردیا۔ تفصیلات کے مطابق ایف آئی اے کی جانب سے صحافی فرحان ملک کو کراچی میں جوڈیشل مجسٹریٹ شرقی کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ فرحان ملک کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ فرحان ملک کے خلاف پہلے سے انکوائریز جاری تھیں، سندھ ہائیکورٹ نے پہلے کارروائی نہ کرنے کے احکامات جاری کر رکھے ہیں، ایف آئی اے نے سندھ ہائیکورٹ کے حکم کے برخلاف کارروائی کی ہے۔ واضح رہے کہ فرحان ملک نامور صحافی، ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارم رفتار کے بانی اور سما ٹی وی کے سابق ڈائریکٹر نیوز ہیں، ایف آئی اے سائبر کرائم کراچی نے فرحان ملک کو گزشتہ روز گرفتار کیا تھا، فرحان ملک کے خلاف گزشتہ 3 ماہ سے یہ انکوائری جاری تھی۔ فرحان ملک کی اہلیہ نے میڈیا ذرائع کو بتایا تھا کہ ان کے خلاف کوئی تحریری چارج شیٹ نہیں تھی اور نہ ہی ان کی گرفتاری کی کوئی وجہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انہیں ایف آئی آر موصول نہیں ہوئی اور نہ ہی ہمیں الزامات کے بارے میں کچھ بتایا گیا ہے تاہم وہ یہ جانتی ہیں کہ ان کے شوہر گلستان جوہر میں ایف آئی اے سائبر کرائم کے آفس میں موجود ہیں۔ اہلیہ نے مزید بتایا تھا کہ فرحان ملک خود ہی ایف آئی اے کے پاس کوئی بات کرنے گئے تھے لیکن گھنٹوں انتظار کے باوجود کسی نے انہیں جواب نہیں دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم سوچ رہے تھے کہ صرف ایک ملاقات ہوگی کیوں کہ ایسی کوئی بات نہیں تھی کہ ان سے کسی معاملے پر تفتیش کی جائے تاہم تقریباً 5 گھنٹوں بعد انہیں حراست میں لے لیا گیا۔ فرحان ملک کے بیٹے نے بتایا کہ میرے والد دوپہر ایک بجے ایف آئی اے کے دفتر گئے تھے اور شام 6 بجے کے قریب انہیں بغیر کسی وضاحت کے گرفتار کر لیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے نہیں معلوم کہ میرے والد کو کس جرم میں گرفتار کیا گیا ہے، انہوں نے تو کوئی جرم نہیں کیا، وہ ایک صحافی ہیں جو لوگوں کی آواز بنتے ہیں، طاقتور لوگوں کا احتساب کرتے ہیں اور سچائی پر یقین رکھتے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: صحافی فرحان ملک سندھ ہائیکورٹ فرحان ملک کے کہ فرحان ملک ایف آئی اے کے خلاف تھا کہ
پڑھیں:
’مدرسے کے ظالموں نے میرے بچے کو پانی تک نہیں دیا‘: سوات کا فرحان… جو علم کی تلاش میں مدرسے گیا، لیکن لاش بن کر لوٹا
مدین(نیوز ڈیسک) مدین کے پہاڑوں سے اُٹھنے والی ایک معصوم آواز، چودہ سالہ فرحان… جسے والدین نے دین کی روشنی کے لیے سوات کے چالیار مدرسے بھیجا، واپس آیا تو ایک بےجان جسم تھا، چہرے پر نیلے نشانات، کمر پر تشدد کے زخم، اور آنکھوں میں زندگی کے بجائے سناٹا تھا۔
تین دن پہلے پیش آنے والا یہ لرزہ خیز واقعہ آج بھی والد ایاز کے لفظوں میں سسک رہا ہے۔ فرحان کے والد نے بتایا، ’میں نے مہتمم صاحب سے ویڈیو کال پر بات کی، کہا کہ بچہ شکایت کر رہا ہے، تکلیف میں ہے… مگر مہتمم نے یقین دہانی کروائی کہ آئندہ کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔‘
والد کے مطابق، شام ساڑھے چھ بجے دوبارہ رابطہ ہوا۔ مہتمم نے اطمینان سے کہا، ’بچہ ٹھیک ہے، خوش ہے۔‘ باپ نے دل کو تسلی دی کہ شاید بیٹے کا دل لگ گیا ہے، مگر اسی وقت وہ بچہ کسی کونے میں ظلم کے پنجوں میں تڑپ رہا تھا۔
ایاز کہتے ہیں، ’میں نے کہا بچہ تھوڑی بہت چھیڑ چھاڑ کرتا ہے، مگر پھر سنبھل جاتا ہے… شاید اسی وقت اُن درندوں نے اُسے مار ڈالا تھا۔‘ آنکھوں میں نمی اور آواز میں درد لیے وہ بولے، ’میرے فرحان کو پانی تک نہیں دیا گیا… وہ پیاسا مار دیا گیا!‘
فرحان کے چچا نے جب مہتمم کو فون پر بتایا کہ بچے نے ناپسندیدہ رویے کی شکایت کی ہے، تو مہتمم نے قسمیں کھا کر سب الزامات جھٹلا دیے۔ چچا کے مطابق، ’مہتمم کا بیٹا بھی قسمیں کھا رہا تھا… وہی جس پر میرے بھتیجے کو نازیبا مطالبات کرنے کا الزام ہے۔‘
یہ محض ایک بچے کی موت نہیں، ایک خواب کی، ایک نسل کی، اور والدین کے یقین کی موت ہے۔ تین سال سے فرحان اس مدرسے میں تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ ہر ماہ پانچ ہزار روپے دے کر والدین یہ سمجھتے رہے کہ ان کا بیٹا دین سیکھ رہا ہے۔ مگر مدرسے کی چھت تلے وہ ظلم سیکھ رہا تھا، مار سہہ رہا تھا، اور آخرکار خاموشی سے دم توڑ گیا۔
پولیس نے دو اساتذہ سمیت 11 افراد کو گرفتار کر لیا ہے جبکہ مرکزی ملزم مہتمم تاحال مفرور ہے۔ مدرسے کے طلبہ نے انکشاف کیا ہے کہ وہاں مار پیٹ معمول کی بات ہے، اور کئی بچے خوف کے عالم میں جیتے ہیں۔ مقتول بچے کے نانا نے الزام عائد کیا ہے کہ فرحان سے جنسی خواہش کا تقاضا کیا جا رہا تھا، جس پر اُس نے مزاحمت کی۔
واقعے کے بعد خوازہ خیلہ بازار میں عوام کا جم غفیر نکل آیا۔ ہاتھوں میں فرحان کی تصویر، زبان پر ایک ہی نعرہ — ”قاتلوں کو سرعام پھانسی دو!“
ضلعی انتظامیہ نے مدرسے کو سیل کر دیا ہے، مگر سوال اب بھی باقی ہے — کتنے فرحان، کتنی ماؤں کی گودیں، کتنے والدوں کی امیدیں، اس نظام کے درندوں کی بھینٹ چڑھیں گی؟
یہ صرف فرحان کی کہانی نہیں… یہ ہر اُس معصوم کی کہانی ہے جو تعلیم کے نام پر کسی وحشی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔
Post Views: 3