صدر مملکت آصف علی زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف نے پانی کی قلت کو ایک سنگین مسئلہ قرار دیتے ہوئے اس کے حل کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت پر زور دیا ہے صدر مملکت نے ارتھ آور اور عالمی یوم آب کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا کہ پاکستان توانائی کے تحفظ ماحولیاتی استحکام اور موسمیاتی اقدامات کے لیے عالمی برادری کے ساتھ کھڑا ہے ارتھ آور کے دوران غیر ضروری لائٹس بند کرنا توانائی کے محتاط استعمال اور کاربن فٹ پرنٹ کم کرنے کے عزم کی علامت ہے صدر مملکت کا کہنا تھا کہ ایندھن کی قیمتوں میں اضافے اور توانائی کے بحران کی وجہ سے معیشت اور ماحول کو شدید خطرات لاحق ہیں اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے بجلی اور ایندھن کی بچت کے ساتھ ساتھ قابل تجدید توانائی کے ذرائع کو فروغ دینا ناگزیر ہے بجلی اور ایندھن کی بچت کے لیے توانائی مؤثر آلات کے استعمال اور پبلک ٹرانسپورٹ کے فروغ پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اس سال ارتھ آور عالمی یوم آب کے ساتھ منایا جا رہا ہے اور پاکستان میں پانی کی قلت ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے اس بحران سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات ضروری ہیں تاکہ عوام کو پینے کا صاف اور محفوظ پانی فراہم کیا جا سکے ملک میں موسمیاتی تبدیلی اور 2022 کے تباہ کن سیلاب کے اثرات واضح ہیں اس لیے پانی کے ذخائر کے تحفظ اور زراعت میں جدید اور پائیدار طریقوں کو اپنانا وقت کی اہم ضرورت ہے وزیراعظم شہباز شریف نے عالمی یوم آب پر اپنے پیغام میں کہا کہ پاکستان آبی وسائل کے تحفظ کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گا سندھ طاس معاہدے کا مؤثر نفاذ پاکستان کی آبی سلامتی کے لیے انتہائی اہم ہے گلیشیئرز کے تحفظ اور پانی کی دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے پانی زندگی کے لیے بنیادی عنصر ہے جو ہماری معیشت ماحول اور خوراک کے نظام کا اہم حصہ ہے مگر یہ وسیلہ شدید دباؤ میں ہے دنیا کی تقریباً نصف آبادی سال کے کچھ مہینوں میں پانی کی قلت کا سامنا کرتی ہے جبکہ اربوں افراد کو پینے کے صاف پانی تک رسائی حاصل نہیں پانی کی آلودگی مسلسل بڑھ رہی ہے اور ہماری آبی زمینیں تیزی سے ختم ہو رہی ہیں یہ ایک عالمی بحران ہے جس سے نمٹنے کے لیے فوری اور مشترکہ اقدامات ناگزیر ہیں وزیراعظم نے کہا کہ ان مسائل پر قابو پانے کے لیے مربوط حکمت عملی اپنانا ہوگی پانی کے وسائل کو محفوظ بنانے اور آبی آلودگی پر قابو پانے کے لیے حکومت ہر ممکن اقدامات کرے گی تاکہ ملک کو آبی بحران سے بچایا جا سکے

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: پانی کی قلت توانائی کے کے تحفظ کے لیے

پڑھیں:

پاکستان کے سمندر سے توانائی کی نئی اْمید

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251103-03-5

 

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی

پاکستان کی اقتصادی تاریخ میں توانائی کا بحران ہمیشہ ایک بنیادی چیلنج رہا ہے۔ صنعتی ترقی، زرعی پیداوار، نقل و حمل، حتیٰ کہ روزمرہ زندگی کے معمولات تک، توانائی کی دستیابی پر منحصر ہیں۔ اس پس منظر میں یہ خبر کہ پاکستان کو دو دہائیوں بعد سمندر میں تیل و گیس کی دریافت کے لیے کامیاب بولیاں موصول ہوئی ہیں، ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ پیش رفت نہ صرف ملکی معیشت کے لیے امید کی کرن ہے بلکہ یہ پاکستان کے توانائی خود کفالت کے خواب کی نئی تعبیر بھی ہے۔ پاکستان میں تیل و گیس کی تلاش کا آغاز 1950ء کی دہائی میں ہوا، جب سندھ اور بلوچستان کے بعض علاقوں میں ابتدائی ذخائر دریافت ہوئے۔ بعد ازاں سوئی گیس فیلڈ نے ملک کی صنعتی اور گھریلو ضروریات کو طویل عرصے تک سہارا دیا۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ توانائی کی طلب میں اضافہ اور نئے ذخائر کی تلاش میں کمی نے بحران کی شدت کو بڑھایا۔ درآمدی تیل پر انحصار نے نہ صرف زرمبادلہ کے ذخائر کو متاثر کیا بلکہ مالیاتی خسارے کو بھی بڑھایا۔ گزشتہ بیس برسوں میں توانائی کے متبادل ذرائع جیسے ہائیڈرو، سولر اور وِنڈ انرجی پر توجہ ضرور دی گئی، لیکن تیل و گیس کی مقامی دریافت میں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ یہی وجہ ہے کہ 2025ء میں موصول ہونے والی حالیہ بولیوں کو ایک تاریخی پیش رفت کہا جا رہا ہے۔

وزارتِ توانائی (پٹرولیم ڈویژن) کے مطابق، پاکستان نے اٹھارہ سال کے طویل وقفے کے بعد رواں برس جنوری میں آف شور تیل و گیس کی تلاش کے لیے لائسنسز جاری کرنے کا عمل شروع کیا۔ مقصد یہ تھا کہ ملکی اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو پاکستانی سمندری حدود میں سرمایہ کاری کی ترغیب دی جائے۔ اب اس عمل کا پہلا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے، جس میں 23 آف شور بلاکس کے لیے کامیاب بولیاں موصول ہوئی ہیں۔ یہ بلاکس تقریباً 53,510 مربع کلومیٹر کے وسیع رقبے پر مشتمل ہیں جو توانائی کے نئے دور کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔ پٹرولیم ڈویژن کے اعلامیے کے مطابق، لائسنس کے پہلے فیز میں تقریباً 8 کروڑ امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری متوقع ہے، جو بعد ازاں ڈرلنگ کے مراحل میں بڑھ کر ایک ارب امریکی ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔ اس سرمایہ کاری سے نہ صرف بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوگا بلکہ مقامی صنعتوں کے لیے بھی روزگار اور تکنیکی تربیت کے مواقع پیدا ہوں گے۔ یہ پیش رفت پاکستان کے لیے ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب ملک توانائی کے بڑھتے ہوئے درامدی بل، ڈالر کے دباؤ، اور اقتصادی غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔ اس تناظر میں اگر سمندری حدود میں موجود ذخائر کی دریافت کامیاب رہتی ہے تو پاکستان کے لیے توانائی کی خود کفالت کا نیا دور شروع ہو سکتا ہے۔ اس بڈنگ رائونڈ میں حصہ لینے والی کمپنیوں میں پاکستان کی معروف توانائی کمپنیاں او جی ڈی سی ایل، پی پی ایل، ماری انرجیز، اور پرائم انرجی نمایاں ہیں۔ ان کے ساتھ بین الاقوامی اور نجی شعبے کی کئی بڑی کمپنیاں بطور شراکت دار شامل ہیں، جن میں تکنیکی مہارت، جدید آلات، اور عالمی تجربہ موجود ہے۔ یہ شراکت داری دراصل ایک ایسے معاشی ماڈل کی علامت ہے جس میں مقامی و غیر ملکی سرمایہ کار باہمی تعاون سے وسائل کی تلاش، پیداوار اور تقسیم کے عمل کو مستحکم کر سکتے ہیں۔

حکومت وقت کے وژن کے مطابق، پاکستان کی انرجی سیکورٹی پالیسی کا بنیادی مقصد بیرونی انحصار میں کمی اور مقامی وسائل کے بھرپور استعمال کو یقینی بنانا ہے۔ اس وژن کے تحت حکومت نے انڈس اور مکران بیسن میں بیک وقت ایکسپلوریشن کی حکمت ِ عملی اپنائی، جو عملی طور پر کامیاب ثابت ہوئی۔ یہ اقدام نہ صرف معاشی لحاظ سے اہم ہے بلکہ جغرافیائی اعتبار سے بھی اس کی بڑی اہمیت ہے، کیونکہ مکران کوسٹ اور انڈس بیسن دونوں خطے عالمی توانائی نقشے پر نمایاں جغرافیائی امکانات رکھتے ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک جیسے برازیل، میکسیکو، ناروے، اور سعودی عرب نے اپنی توانائی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے سمندری ذخائر سے استفادہ کیا۔ اب پاکستان بھی ان ممالک کی صف میں شامل ہونے کی سمت بڑھ رہا ہے۔ اگر ان دریافتوں سے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوتے ہیں تو پاکستان نہ صرف توانائی کے بحران سے نکل سکتا ہے بلکہ خطے میں توانائی برآمد کرنے والا ملک بننے کی جانب بھی پیش رفت کر سکتا ہے۔ اگرچہ یہ پیش رفت غیر معمولی ہے، تاہم اس کے ساتھ کچھ چیلنجز بھی وابستہ ہیں۔ سمندری ڈرلنگ کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور مہارت درکار ہوتی ہے۔ ماحولیاتی خطرات، جیسے آئل اسپِل یا سمندری آلودگی، ایک سنجیدہ معاملہ ہیں۔ سرمایہ کاروں کا اعتماد برقرار رکھنے کے لیے شفاف پالیسی فریم ورک ضروری ہے۔ ان چیلنجز کے باوجود، اگر حکومت نے پالیسیوں میں تسلسل برقرار رکھا، صوبائی حکومتوں کو شراکت دار کے طور پر شامل رکھا، اور شفافیت کو یقینی بنایا تو پاکستان کی توانائی تاریخ میں یہ باب ایک انقلاب کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔

دو دہائیوں بعد پاکستان کے لیے یہ ایک بڑی خوشخبری ہے کہ بحرِ عرب کی لہروں میں چھپے توانائی کے خزانوں کی تلاش کا عمل عملی طور پر شروع ہو چکا ہے۔ کامیاب بولیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ عالمی سرمایہ کار پاکستان کے اپ اسٹریم سیکٹر پر اعتماد کر رہے ہیں۔ اگر یہ منصوبے اپنے متوقع نتائج دیتے ہیں تو آنے والے برسوں میں پاکستان کی معیشت میں استحکام، زرمبادلہ کی بچت، صنعتی ترقی، اور روزگار کے بے شمار مواقع پیدا ہوں گے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ ’’یہ صرف سمندر میں تیل و گیس کی تلاش نہیں، بلکہ پاکستان کی اقتصادی خودمختاری کی نئی صبح کی نوید ہے‘‘۔

 

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی

متعلقہ مضامین

  • فلسطین کے مسئلہ پر پاکستان اور ترکیہ مل کر کام جاری رکھیں گے
  • اسحاق ڈار کی ترک ہم منصب سے ملاقات، مسئلہ فلسطین سمیت مختلف امورپر تبادلہ خیال
  • سرحد پار دہشتگردی: فیصلہ کن اقدامات جاری رکھیں گے: خواجہ آصف
  • پاکستان کے سمندر سے توانائی کی نئی اْمید
  • پاکستانی ویزا 24 گھنٹوں میں مل جاتا ہے، براہ راست فلائٹ کا مسئلہ ہے: بنگلا دیشی ہائی کمشنر
  • وزیراعظم ا آزادیِ صحافت کے عالمی دن پر حق و سچ کے علمبردار صحافیوں کو خراجِ تحسین
  • صحافیوں کے خلاف جرائم کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر وزیراعظم کا پیغام
  • صحافیوں کے خلاف جرائم کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر  وزیراعظم کا پیغام
  • کشمیر کا مسئلہ پیپلز پارٹی کے دل کے قریب ہے، شازیہ مری
  • ایران کا امریکا کے دوبارہ ایٹمی تجربات کے فیصلے پر ردعمل، عالمی امن کیلیے سنگین خطرہ قرار