لاہور ( ڈیلی پاکستان آن لائن ) نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے قومی شاہراہوں اور موٹر ویز پر عائد ٹول ٹیکس میں رواں برس دوسری بار اضافہ کر دیا۔
نجی ٹی وی دنیا نیوز کے مطابق نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے ٹول ٹیکس میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا، ٹول ٹیکس میں اضافہ یکم اپریل سے نافذالعمل ہوگا، شاہراہوں پر موٹرکار سے 70 روپے، ویگن سے 150 روپے اور بس سے 250 روپے ٹول ٹیکس وصول کیا جائے گا۔
شاہراہوں پر 2 اور 3 ایکسل ٹرک سے 300 روپے اور بڑے ٹرکوں سے 550 روپے ٹول ٹیکس وصول کیا جائے گا۔
نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے ایم 1، ایم 3، ایم 4 ، ایم 5، ایم 14 اور ایم 3 پر بھی ٹول ٹیکس میں بھاری اضافہ کر دیا ہے، اسلام آباد سے پشاور جانے والی ایم ون موٹروے پر کار کا ٹول ٹیکس 500 سے بڑھا کر 550 روپے کر دیا گیا ہے۔
لاہور سے عبدالحکیم جانے والی ایم تھری پر کار کیلئے ٹول ٹیکس 700 روپے سے بڑھا کر 800 روپے کر دیا گیا، پنڈی بھٹیاں سے فیصل آباد اور ملتان جانے والی ایم فور پر کار کیلئے ٹول ٹیکس 950 روپے سے بڑھا کر 1050 روپے کر دیا گیا ہے۔
ملتان سے سکھر جانے والی ایم فائیو پر کار کا ٹول ٹیکس 1100 روپے سے بڑھا کر 1200 روپے مقرر کر دیا گیا، ڈی آئی خان تا ہکلہ موٹروے ایم 14 پر موٹر کار کا ٹول ٹیکس 600 روپے سے بڑھا کر 650 کر دیا گیا ہے۔
حسن ابدال، حویلیاں، مانسہرہ ای 35 پر ٹول ٹیکس 250 روپے سے بڑھا کر 300 روپے موٹر کار کا ٹول ٹیکس مقرر کیا گیا، ایم 1، ایم 3، ایم 4 ، ایم 5، ایم 14 اور ای 35 موٹر وے پر بڑی گاڑیوں کا ٹول ٹیکس 850 سے لے کر 5750 روپے تک کر دیا گیا۔

اعجاز چودھری کے پروڈکشن آرڈر پر عملدرآمد نہ کر کے وزیراعلیٰ پنجاب سینیٹ کی توہین کر رہی ہیں، بیرسٹر سیف

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

کلیدی لفظ: روپے سے بڑھا کر کار کا ٹول ٹیکس جانے والی ایم ٹول ٹیکس میں کر دیا گیا پر کار

پڑھیں:

شہر کی سڑکیں یا کھنڈر ،شہریوں نے 60ارب ٹیکس دیا، سفر آج بھی عذاب سے کم نہیں

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی ( تحقیقاتی رپورٹ: محمد علی فاروق )روشنیوں کا شہر آج گڑھوں، ٹوٹ پھوٹ اور ابلتے گٹروں میں ڈوبا ہوا ہے۔ وہی شہر جس کے شہریوں نے صرف گاڑیاں سڑک پر چلانے کے لیے گزشتہ پانچ سالوں میں تقریباً 60 ارب روپے موٹر وہیکل ٹیکس کی صورت میں ادا کیے، آج بنیادی سفری سہولیات سے محروم ہے۔اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2019-20 سے 2024-25 تک سندھ حکومت نے کراچی سمیت صوبے بھر سے موٹر وہیکل ٹیکس کی مد میں بھاری رقم اکٹھی کی۔ 2019- اور 2020 میں 5.94 ارب روپے جبکہ 2020- اور2021: میں 9.52 ارب روپے اسی طرح 2021 اور 2022 میں 12.17 ارب روپے ، علاوہ ازیں 2022- اور 2023 میں 10.36 ارب روپے دریں اثناء 2023 اور-2024: میں 10.83 ارب روپے دیگر میں 2024 اور 2025: میں 13.60 ارب روپے ادا کئے جا چکے ہیں ۔یعنی محض ایک سال میں شہریوں نے 13 ارب 60 کروڑ روپے “سڑک پر گاڑی چلانے کے حق” کے نام پر ادا کیے ہیں مگر سوال وہی ہے کہ وہ سڑکیں کہاں ہیں۔کراچی کے بیشتر علاقوں میں سڑکیں کسی جنگ زدہ خطے کا منظر پیش کرتی ہیں۔کورنگی، نارتھ کراچی، ماڑی پور، اورنگی، اور شاہ فیصل کالونی کی مرکزی شاہراہوں پر گڑھوں، ملبے، اور بارش کے پانی کے باعث گاڑیاں نہیں، قسمتیں آزمائی جاتی ہیں۔جہاں کبھی ٹریفک بہتا تھا، آج وہاں پانی کے جوہڑ اور کچرے کے ڈھیر ہیں۔چالیس فیصد سے زائد سڑکیںانتہائی خستہ حال قرار دی جا چکی ہیں، جبکہ محکمہ بلدیات اور سندھ ایکسائز ڈیپارٹمنٹ کے درمیان ٹیکس سے حاصل شدہ رقم کے مصرف پر خاموشی نے شکوک کو مزید گہرا کر دیا ہے۔کراچی کے شہری ہر سال اربوں روپے اس امید پر ادا کرتے ہیں کہ بدلے میں حکومت انہیں بہتر روڈز، ٹریفک سگنلز، زیبرا کراسنگ، اور اوورہیڈ برج جیسی بنیادی سہولیات دے گی۔مگر حقیقت یہ ہے کہ شہر کی بیشتر سڑکوں پر اسٹریٹ لائٹس بند، سگنل ناکارہ، اور فٹ پاتھ غائب ہیں۔یونیورسٹی روڈ، سپر ہائی وے، نارتھ ناظم آباد، اور ایم اے جناح روڈ کے اطراف جگہ جگہ ٹوٹی لائنیں، غائب کیٹ آئیز، اور تباہ شدہ یو ٹرن شہریوں کی گاڑیوں کو روزانہ نقصان پہنچا رہے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ موٹر وہیکل ٹیکس سے حاصل ہونے والی رقم کا بڑا حصہ صوبائی خزانے میں نان ڈیولپمنٹ اخراجات میں ضم ہو جاتا ہے۔یعنی وہ رقم جو سڑکوں کی مرمت اور ٹریفک سسٹم کی بہتری پر خرچ ہونی تھی، وہ تنخواہوں، ایڈمن اخراجات، اور نئی گاڑیوں کی خریداری میں استعمال ہو رہی ہے۔ٹریفک ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ اگر یہ فنڈز شفاف طریقے سے صرف کراچی کی سڑکوں پر لگائے جائیں توصرف دو سال میں پورا شہر ازسرِنو تعمیر کیا جا سکتا ہے۔شہریوں نے سوشل میڈیا پر شدید ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ ہم ٹیکس دیتے ہیں، مگر بدلے میں ملتا ہے گڑھا، گرد، اور گندہ سیورج ملا پانی کیا یہی ترقی ہے۔ایک شہری کا کہناتھا کہ حکومت نے ٹریفک سگنل تو لگائے نہیں، البتہ گاڑی کے شاکس ضرور بدلوا دیے ہیں۔کراچی کا بنیادی ڈھانچہ اربوں روپے کے ٹیکس کے باوجود زبوں حالی کا شکار ہے۔ اگر اس رقم کے شفاف استعمال کا نظام نہ بنایا گیا تو کراچی صرف ٹریفک حادثوںکا نہیں بلکہ حکومتی بدانتظامی کا استعارہ بن جائے گا۔شہریوں کا مطالبہ صاف ہے کہ ٹیکس ہم نے دیا ، حساب تم دو، اور سڑک ہمیں دو۔

محمد علی فاروق گلزار

متعلقہ مضامین

  • صدر مملکت آصف زرداری قطر میں ہونے والی دوسری عالمی سماجی ترقیاتی کانفرنس میں شرکت کرینگے
  • صدرِ مملکت آصف علی زرداری قطر میں ہونے والی دوسری عالمی سماجی ترقیاتی کانفرنس میں شریک ہوں گے
  • اے ٹی ایم اور بینک سے رقم نکلوانے پر چارجز میں نمایاں اضافہ
  •   ایف بی آر کو جولائی تا اکتوبر 270 ارب روپے کے ریونیو شارٹ فال کا سامنا
  • شہر کی سڑکیں یا کھنڈر ،شہریوں نے 60ارب ٹیکس دیا، سفر آج بھی عذاب سے کم نہیں
  • نان فائلرز سے اے ٹی ایم یا بینک سے رقم نکلوانے پر ڈبل ٹیکس کی تیاری
  • خیبر پختونخوا نے رواں سال صحت کارڈ کیلئے 41 ارب مختص کیے، مزمل اسلم
  • نان فائلرز کو اے ٹی ایم یا بینک سے رقم نکلوانے پر ڈبل ٹیکس دینا ہوگا
  • پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں رواں ہفتہ کیسا رہا؟
  • پنجاب میں جنگلی حیات کے غیرقانونی شکار پر جرمانے بھی بڑھا دیے گئے